حب وطن

علی سائل

محفلین
حب وطن کے معنی وطن سے محبت کے ہیں۔ یہ فطرت ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ وطن ماں کی مانند ہے، جو ہمیشہ ساتھ دے۔ وطن، وہ قطعہ جہاں انسان کے عزیز و اقرباء نے زندگی گزاری ہو، جہاں وہ کھیلا کودا اور جوان ہوا ہو، تو پھر کیوں نہ اسے اس سرزمین سے لگاؤ ہو جائے؟ انسان جہاں بھی قدم رکھتا ہے، بس اپنے وطن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ انسان جب اپنے وطن سے دور ہو جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن کی ایک ایک چیز کی یاد ستاتی ہے۔ اس کے وطن کے لوگ، زبان، آب و ہوا، (اگر آپ کو پسند ہوں تو) مصالحے اور کھانے بھی۔
ہر وطن کے ہر کونے گوشے میں آپکو نہ جانے کتنی رنگ و نسل کے لوگ ملیں گے، لیکن ان سے بغض و کینہ انسان کے حب وطن کو نامکمل کر دیتی ہے، کیونکہ حب وطن کے معنی ہیں اپنے وطن کی ایک ایک چیز سے محبت کرنا، جس میں اپنے وطنیوں سے محبت بھی شامل ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ، کیا پاکستانیوں کے دلوں میں حب وطنی پائی جاتی ہے؟ اس بات کا جواب میں تو نہیں دے سکتا، لیکن اندازہ ضرور لگا سکتا ہوں کہ 'پاکستانیوں میں حب وطنی نہیں پائی جاتی' یا پھر 'پاکستانی عوام بے بس ہے'۔ سارا ماجرہ آپ کی نظروں کے سامنے ہی ہے۔ تقریبا سارے پاکستانی اپنے وطن کی برائیاں کرتے رہتے ہیں، اور دورِ حال میں تو سارے نوجوان پاکستان کا مقائسہ امریکہ سے کرتے ہیں۔ ہر بات پر کہتے ہیں کہ کاش پاکستان کے پاس فلاں چیز ہوتی، فلاں سہولت ہوتی! ارے بھئی، پاکستان میں اگر اتنی خامیاں ہیں تو امریکہ کیوں نہیں چلے جاتے؟ میں تو کہوں گا کچھ ہی دنوں میں پاکستان کے قصیدے پڑھنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان، جس کو دنیاوی نقشے پر ابھرے ہوئے ابھی صرف ۶۶ ہوئے ہیں اسکا مقائسہ امریکہ جیسے ملک جو ۲۳۷ سال پہلے دریافت ہو گیا تھا، کیسے کیا جا سکتا ہے؟
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے حالات بھی بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ دہشتگردی اور قانون کی خلاف ورزی تو عام ہے، اور نہ جانے کتنی معصوم جانوں کا صرف ایک دن میں خون بہایا جاتا ہے۔ عوام ان حالات سے پریشان تو ہے، لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے کا طریقہ تو ذرا دیکھیے، اپنے ہی ملک کے پیٹرول پمپس پر آگ لگاتے ہیں، اپنے ہی ملک کے گھر جلاتے ہیں، اپنے ہی ملک کی سواریاں جلاتے ہیں اور انتہا تو یہ ہے کہ اپنے ہی بے قصور ہم وطنیوں کی جانے لیتے ہیں! ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بالکل صحیح ہے، لیکن ذرا سوچ سمجھ کے قدم اٹھائیں۔ علم کے زریعے اس دہشتگردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
میرے مضمون کے اختتام میں، میں اپنے تمام پاکستانیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی بنیاد "لا الاہ اللہ" پر ہے، اور یہ دین اسلام کا پیروکار ہے، تو یہ جاننا اچھا ہے کہ دینِ اسلام محبت کا دین ہے۔ تو اپنے وطن اور وطنیوں سے محبت کریں، اور ایک پاکستانی ہونے کی بنا پر اپنا فرض انجام دیں۔ یہ نہ بھولیے کہ آپکا وطن آپکی محبت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔

ہمارا ملک ضرور ترقی کرے گا !!!
 
تنقید و اصلاح کی التجا ہے۔ کوئی اگر مصلحین کو ٹیگ کر دے تو مہربانی ہو گی۔


ظاہری یا باطنی طور پر مضمون کے کچھ حصے ہوتے ہیں، لفظاً وہ مذکور ہوں یا نہ ہوں۔
ایک ابتدائیہ ہوتا ہے جو قاری کو قاری کو ایک سمتیہ دیتا ہے۔ پھر موضوع (نفسِ مضمون) کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، ہر پہلو پر اس کی اہمیت کے مطابق بات ہوتی ہے۔ اور مضمون نگار اپنے قاری کی فکری راہنمائی کرتا ہے۔ بعد ازان بیان کردہ پہلوؤں کا تقابل ہوتا ہے جس میں مضمون نگار اپنے نکتہء نظر کی وکالت کرتا ہے۔ مضمون کے آخری حصہ میں وہ اپنی ساری گفتگو کا ماحصل بیان کرتا ہے (خلاصہ اور چیز ہے)۔
یہ سارے حصے کسی نہ کسی انداز میں مربوط کئے جاتے ہیں۔ ربط کی اساس مضمون کی نوعیت اور مضمون نگار کے مطمعِ نظر کے مطابق معاشرتی نفسیات، تاریخ و سیاست، فلسفہء مذہب، وغیرہ؛ ہو سکتی ہے اور اسی کے تحت مضمون نگار فیصلہ کرتا ہے کہ پیرایہء اظہار کیا ہو، اور مواد کو کس انداز میں تقسیم کیا جائے کہ اس کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا سکے۔

بہت آداب
 
آپ کے مضمون کا عنوان ’’حبِ وطن‘‘ اس امر کا نقیب ہے کہ آپ حبِ وطن کے تصور اور اس کے مختلف (دینی، سیاسی، سماجی، فلاحی، نفسیاتی؛ وغیرہ) پہلوؤں پر بات کرنے والے ہیں، جب کہ مضمون میں ایسا نہیں ہے۔ بلکہ یہاں ایک سوال اٹھایا گیا ہے کہ کیا ہم واقعی محبِ وطن ہیں؟ ایسے میں مضمون کا عنوان بدل دیا جائے تو بہتر ہے۔ اس مضمون میں تسلسل کی کمی ہے، ایک بات شروع کی جاتی ہے اور اس کو ایک دم چھوڑ کر کوئی دوسری بات کر دی جاتی ہے۔ یوں قاری مضمون نگار کا ساتھ نہیں دے پاتا۔

مضمون میں ہم واقعات بھی لاتے ہیں، ان پر تبصرہ بھی کرتے ہیں، واقعات کا پس منظر بھی قاری کو دکھاتے ہیں اور قدم بہ قدم کچھ منطقی نتائج اخذ کرتے چلے جاتے ہیں۔ وہی نتائج مضمون کے آخر ہونے تک ایک لڑی کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ قاری کو اس لڑی میں آپ کے ساتھ ساتھ چلنا چاہئے۔ یعنی اول یہ کہ جو نکتہ یا بیان شروع کیا جائے اس کو پورا بیان کیا جائے۔ اختصار یا طوالت کا انحصار آپ کی اپج پر بھی ہے اور مذکورہ نکتے یا بیان کی اہمیت پر بھی ہے، لہٰذا آپ کو ایک جمیل سا توازن قائم رکھنا پڑے گا۔

زبان یا اسلوب آپ جو بھی اختیار کریں ( وہ بحث کا انداز ہے، بیانیہ ہے یا انشائیہ ہے، یا کوئی اور ہے) اس کو اول تا آخر قائم رکھنا ہو گا۔ اگر آپ کا مضمون ایک سے زیادہ اسلوبوں کا متقاضی ہے تو کم از کم ہر پیراگراف اپنی جگہ موضوعاتی کے علاوہ اسلوبیاتی طور پر بھی ایک اکائی بنائے اور دوسری اکائی میں اگر اسلوب تبدیل ہونا ہے تو قاری کی ذہنی راہنمائی پہلے سے ہو جائے۔

مضمون میں جامعیت ہونی چاہئے، انفرادیت یہاں بہت زیادہ کارآمد نہیں ہوا کرتی۔ مضمون نگاری کا فن خاص طور پر بہت وسیع اور عمیق مطالعے، تیز اور درست مشاہدے، اور تجزیاتی صلاحیت کا متقاضی ہے۔

زیادہ آداب۔
 
آخری تدوین:

علی سائل

محفلین
ظاہری یا باطنی طور پر مضمون کے کچھ حصے ہوتے ہیں، لفظاً وہ مذکور ہوں یا نہ ہوں۔
ایک ابتدائیہ ہوتا ہے جو قاری کو قاری کو ایک سمتیہ دیتا ہے۔ پھر موضوع (نفسِ مضمون) کے مختلف پہلو ہوتے ہیں، ہر پہلو پر اس کی اہمیت کے مطابق بات ہوتی ہے۔ اور مضمون نگار اپنے قاری کی فکری راہنمائی کرتا ہے۔ بعد ازان بیان کردہ پہلوؤں کا تقابل ہوتا ہے جس میں مضمون نگار اپنے نکتہء نظر کی وکالت کرتا ہے۔ مضمون کے آخری حصہ میں وہ اپنی ساری گفتگو کا ماحصل بیان کرتا ہے (خلاصہ اور چیز ہے)۔
یہ سارے حصے کسی نہ کسی انداز میں مربوط کئے جاتے ہیں۔ ربط کی اساس مضمون کی نوعیت اور مضمون نگار کے مطمعِ نظر کے مطابق معاشرتی نفسیات، تاریخ و سیاست، فلسفہء مذہب، وغیرہ؛ ہو سکتی ہے اور اسی کے تحت مضمون نگار فیصلہ کرتا ہے کہ پیرایہء اظہار کیا ہو، اور مواد کو کس انداز میں تقسیم کیا جائے کہ اس کا تسلسل برقرار رکھتے ہوئے قاری کو اپنے ساتھ لے کر چلا جا سکے۔

بہت آداب
شکریہ استاد محترم محمد یعقوب آسی ۔ آپکے اس احسان کو کبھی نہ بھلا پاؤنگا۔ اور آپ سے بھی یہی امید رکھتا ہوں کہ آپ میری اصلاح آئندہ بھی کریں گے۔ :)
 
حب وطن کے معنی وطن سے محبت کے ہیں۔ یہ فطرت ہر انسان میں پائی جاتی ہے۔ وطن ماں کی مانند ہے، جو ہمیشہ ساتھ دے۔
یہاں تک آپ کا بیان انشائیہ ہے۔ اس کے بعد فجائیہ انداز پر ایک نا خوشگوار جست لگائی گئی ہے۔
وطن، وہ قطعہ جہاں انسان کے عزیز و اقرباء نے زندگی گزاری ہو، جہاں وہ کھیلا کودا اور جوان ہوا ہو، تو پھر کیوں نہ اسے اس سرزمین سے لگاؤ ہو جائے؟ انسان جہاں بھی قدم رکھتا ہے، بس اپنے وطن کے نام سے پہچانا جاتا ہے۔ انسان جب اپنے وطن سے دور ہو جاتا ہے، تو اسے اپنے وطن کی ایک ایک چیز کی یاد ستاتی ہے۔ اس کے وطن کے لوگ، زبان، آب و ہوا، (اگر آپ کو پسند ہوں تو) مصالحے اور کھانے بھی۔
یہ جملۂ معترضہ آپ کے مدعا کو ضعیف کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ سنجیدہ بحث میں مزاح کا پہلو پیدا ہوتا ہے اس کی وجہ سے۔
ہر وطن کے ہر کونے گوشے میں آپکو نہ جانے کتنی رنگ و نسل کے لوگ ملیں گے، لیکن ان سے بغض و کینہ انسان کے حب وطن کو نامکمل کر دیتی ہے، کیونکہ حب وطن کے معنی ہیں اپنے وطن کی ایک ایک چیز سے محبت کرنا، جس میں اپنے وطنیوں سے محبت بھی شامل ہے۔
"ہر کونے گوشے" کی ترکیب مجھے پسند نہیں آئی۔ اس کی جگہ اگر کونے کونے یا گوشے گوشے ہوتا تو زیادہ رواں معلوم ہوتا۔ بغض و کینہ مذکر ہیں، لہٰذا کر "دیتے" ہیں درست ہونا چاہیے۔ "وطنیوں" لفظ میں پہلی بار پڑھ رہا ہوں۔ اسے غلط سمجھتا ہوں۔ اس کی جگہ وہی "ہم وطنوں" بہتر اور رواں ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ، کیا پاکستانیوں کے دلوں میں حب وطنی پائی جاتی ہے؟ اس بات کا جواب میں تو نہیں دے سکتا، لیکن اندازہ ضرور لگا سکتا ہوں کہ 'پاکستانیوں میں حب وطنی نہیں پائی جاتی' یا پھر 'پاکستانی عوام بے بس ہے'۔ سارا ماجرہ آپ کی نظروں کے سامنے ہی ہے۔ تقریبا سارے پاکستانی اپنے وطن کی برائیاں کرتے رہتے ہیں، اور دورِ حال میں تو سارے نوجوان پاکستان کا مقائسہ امریکہ سے کرتے ہیں۔ ہر بات پر کہتے ہیں کہ کاش پاکستان کے پاس فلاں چیز ہوتی، فلاں سہولت ہوتی! ارے بھئی، پاکستان میں اگر اتنی خامیاں ہیں تو امریکہ کیوں نہیں چلے جاتے؟ میں تو کہوں گا کچھ ہی دنوں میں پاکستان کے قصیدے پڑھنا شروع ہو جائیں گے۔ پاکستان، جس کو دنیاوی نقشے پر ابھرے ہوئے ابھی صرف ۶۶ ہوئے ہیں اسکا مقائسہ امریکہ جیسے ملک جو ۲۳۷ سال پہلے دریافت ہو گیا تھا، کیسے کیا جا سکتا ہے؟
اس پورے پیراگراف میں اندازِ بیاں چست نہیں ہے۔ کبھی انشائیہ کبھی سوالیہ ہے اور کبھی فجائیہ۔ اور مدعا بھی چست نہیں۔ خود لکھنے والا پراکندگیِ خیال کا شکار معلوم ہوتا ہے۔
جیسا کہ آپ کے علم میں ہے کہ پاکستان کے حالات بھی بہت بگڑے ہوئے ہیں۔ دہشتگردی اور قانون کی خلاف ورزی تو عام ہے، اور نہ جانے کتنی معصوم جانوں کا صرف ایک دن میں خون بہایا جاتا ہے۔ عوام ان حالات سے پریشان تو ہے، لیکن اس کے خلاف آواز اٹھانے کا طریقہ تو ذرا دیکھیے، اپنے ہی ملک کے پیٹرول پمپس پر آگ لگاتے ہیں، اپنے ہی ملک کے گھر جلاتے ہیں، اپنے ہی ملک کی سواریاں جلاتے ہیں اور انتہا تو یہ ہے کہ اپنے ہی بے قصور ہم وطنیوں کی جانے لیتے ہیں! ظلم کے خلاف آواز اٹھانا بالکل صحیح ہے، لیکن ذرا سوچ سمجھ کے قدم اٹھائیں۔ علم کے زریعے اس دہشتگردی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
اس پیراگراف میں لکھنے والا اپنے موضوع سے بالکل دور ہوتا معلوم ہو رہا ہے۔ ہم وطنوں! جانیں!
میرے مضمون کے اختتام میں، میں اپنے تمام پاکستانیوں کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ پاکستان کی بنیاد "لا الاہ اللہ" پر ہے، اور یہ دین اسلام کا پیروکار ہے، تو یہ جاننا اچھا ہے کہ دینِ اسلام محبت کا دین ہے۔ تو اپنے وطن اور وطنیوں سے محبت کریں، اور ایک پاکستانی ہونے کی بنا پر اپنا فرض انجام دیں۔ یہ نہ بھولیے کہ آپکا وطن آپکی محبت کے بغیر کچھ نہیں ہے۔
"اپنے"، "ہم وطنوں" (گو کہ تمام پاکستانی آپ کے نہیں!!)، "لا الہٰ الا اللہ"۔
ہمارا ملک ضرور ترقی کرے گا !!!
استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب قبلہ کی گزارشات کے پیشِ نظر، کچھ نکات!
 
Top