ناصر علی مرزا
معطل
حیرت انگیز قرآن
تحریر: پروفیسرگیری ملر
اساک یونی ورسٹی، ترکی
ترجمہ: ذکی الرحمن غازی ندوی
‘‘قرآن حیرت انگیز کتاب ہے ’’۔اس بات کا اعتراف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم حضرات حتیٰ کہ اسلام کے کھلے دشمن بھی کرتے ہیں۔ عموماً اس کتاب کو پہلی با ر باریکی سے مطالعہ کرنے والوں کو اس وقت گہرا تعجب ہوتا ہے جب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ کتاب فی الحقیقت ان کے تمام سابقہ مفروضات اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ لوگ فرض کیے ہوتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب چودہ صدی قبل کے عربی صحراء کی ہے اس لیے لازماً اس کا علمی اور ادبی معیار کسی صحراء میں لکھی گئی قدیم، مبہم اور ناقابلِ فہم تحریر کا سا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کو اپنی توقعات کے خلاف پاکر ان کو گہرا تعجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پہلے سے تیار مفروضہ کے مطابق ایسی کتاب کے تمام موضوعات اور مضامین کا بنیادی خیال یا عمود صحراء اور اس کی مختلف تفصیلات مثلاً صحرائی مناظر کی منظر کشی، صحرائی نباتات کا بیان،صحرائی جانوروں کی خصوصیات وغیرہ ہو نا چاہیے۔ لیکن قرآن اس باب میں بھی مستثنیٰ ہے۔ یقیناً قرآن میں بعض مواقع پر صحرا ء اور اس کے مختلف حالات سے تعرض کیا گیا ہے، لیکن اس سے زیادہ بار اس میں سمندر کی مختلف حالتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، خاص طور سے اس وقت جب سمندرآندھی، طوفان، بھنور وغیرہ اپنی ساری تباہ کاریوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہے۔
ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant)کا قصہ
اب سے کچھ سال پہلے ہم نے ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant) کا قصہ سنا۔ اس تاجر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر میں گزارا تھا، کسی مسلمان ساتھی نے اس کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔اس جہاز راں تاجر کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے کچھ واقفیت نہ تھی، لیکن اس کو یہ ترجمہ بہت پسند آیا۔ قرآن لوٹاتے ہوئے اس نے مسلمان دوست سے پوچھا :یہ محمد کوئی جہاز راں تھے؟گویااس کو قرآن کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سمندر اور اس کے طوفانی حالات سے متعلق قرآن کا سچا اور باریک بیں تبصرہ اور مسلمان کا یہ بتا دینا کہ’‘‘‘ در حقیقت محمدﷺ ایک صحرا نشیں انسان تھے‘‘اس تاجر کے اسلام لانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس جہاز راں کا بیان تھا کہ وہ بذاتِ خود اپنی زندگی میں بارہا سمندر کے نامساعد حالات کا سامنا کر چکا ہے اور اسے کا مل یقین ہے کہ قرآن میں مذکور سمندر کے طوفانی حالات کی منظر کشی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہو۔ ورنہ ان حالات کا ایساخاکہ کھینچنا انسانی تخیل کے بس کی بات نہیں :
أَوْکَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌج مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا (النور: ۴۰)
‘‘ا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اُس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔’’
مذکور بالا قرآنی نقشہ کسی ایسے ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتا جو عملی طور پر ان حالات کو برت نہ چکا ہو اور جس کو تجربہ نہ ہو کہ سمندری طوفان کے گرداب میں پھنسے انسانوں کے احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن کو کسی خاص زمانہ یا مقام سے مقید و مربوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس کے علمی مضامین اور آفاقی سچائیاں چودہ سو سال پہلے کے کسی صحرا نشیں ذہن کی تخلیق ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔
ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ
بعثتِ محمدی ﷺ سے بہت پہلے دنیا میں ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ (Theory of Atom) موجود تھا۔ اس نظریہ کی تشکیل میں یونانی فلاسفہ خصوصاً ڈیموکرائیٹس (Democritus) کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ تا آنکہ بعد میں آنے والی نسلوں میں اس نظریہ کو مسلم الثبوت واقع کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ وہ نظریہ کیا تھا ؟یونانی فلسفہ کی رو سے ہر مادی شے کچھ چھوٹے چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ اجزاء (ذرات) اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہماری قوتِ بینائی ان کا ادراک نہیں کر پاتی، اور یہ ناقابلِ تقسیم ہوتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی ایٹم کا یہی تصور رائج تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عربی زبان میں ذرہ کے لفظ کاکسی بھی مادی شے کے ادنیٰ ترین جز پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید سائنس کی رو سے کسی بھی شے کا چھوٹے سے چھوٹا جز (ذرہ)بھی عنصری خصوصیات کا حامل ہوا کرتا ہے۔ یہ جدید نظریہ جس کے واقعاتی شواہد موجود ہیں دورِ حاضر کی پیداوار ہے، اور عصرِ حاضر سے پہلے اس کا وجود علمی دنیا میں ناپید تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ دور کی اس دریافت(Discovery) کا تذکرہ چودہ صدی قبل نازل شدہ قرآن مجید میں پایا جاتا ہے:
وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (یونس:۶۱)
‘‘کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ اس سے چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔’’
اس میں شک نہیں کہ چودہ صدی قبل کے عرب باشندے جو کہ کسی شے کے ادنیٰ ترین جز کو ذرہ کے نام سے جانتے تھے، ان کو قرآن کی یہ تصریح بڑی غیر فطری اور غیر مانوس معلوم ہوئی ہوگی۔لیکن در حقیقت یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ زمانہ اپنی تیز رفتاری کے باوجود قرآن پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔
صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج
عام طور پر کسی قدیم تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس بات کی بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ اس کے مضامین و فرمودات کے ذریعہ وہ اس زمانے کی صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج کے متعلق کافی معلومات اکٹھا کر سکے گا۔دوسری تاریخی کتابوں مثلاً بائبل، وید، اوستھا وغیرہ میں واقعۃً ایسا ہے بھی، لیکن قرآن یہاں بھی یکتا ومنفرد ہے۔ یقیناً متعدد تاریخی مصادر میں ہمیں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے صحت و صفائی کی بعض ہدایتیں اور نصیحتیں عنایت فرمائی ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی تذکرہ قرآن میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بادی النظر میں غیر مسلموں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مفید طبی معلومات کو کتابِ محفوظ میں کیوں شامل نہیں فرما دیا؟
بعض مسلم دانشوروں نے اس مسئلے کی اس طرح تشریح کی ہے:اگرچہ طب سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات اور ہدایتیں مبنی بر صحت اور قابلِ عمل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم و حکمت میں یہ بات تھی کہ آئندہ زمانوں میں سائنس اور میڈیسن (Medicine)کے میدانوں میں بے مثال ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں روایتی طبی ہدایتیں پرانی اور فرسودہ (Outdated) سمجھی جانے لگیں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اسی قسم کی معلومات کو درج فرمایا جو تغیرِ زمانہ سے متاثر نہ ہو سکیں۔ میری ناقص رائے میں اگر ہم قرآنی حقائق کو وحی الٰہی مان کر چلیں تو زیرِ بحث موضوع درست طریقے سے سمجھا جا سکے گا اور مذکورہ بالا بحث اور مناقشے کی غلطی بھی واضح ہو جائے گی۔
قرآن اللہ کی وحی ہے،
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن اللہ کی وحی ہے، اس لیے اس میں وارد تمام معلومات کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے پاس سے وحی کیا اور یہ اس کلامِ الٰہی میں سے ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی موجود تھا۔اس لیے اس میں کوئی اضافہ، کمی اور تبدیلی ممکن نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم تو محمدﷺ کی ذات اور آپ کی ہدایات و نصائح کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے وجود میں آ کر مکمل ہو چکا تھا۔اور ایسی تمام معلومات جو کسی متعین عہد یا مقام کے خاص طرزِ فکر و طرزِ حیات سے متعلق ہوں کلامِ الٰہی میں داخلہ نہیں بنا سکتیں۔کیونکہ ایسا ہونا واضح طور پر قرآن کے مقصدِ وجود کے منافی ہے اور یہ چیز اس کی حقانیت، رہتی دنیا تک کے لیے اس کی رہنمائی کی صلاحیت،بلکہ اس کے خالص وحی الٰہی (Pure Divine Revelation)ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسا کوئی نسخۂ علاج (Home Remedies)تجویز نہیں کرتا جو مرورِ ایام کے ساتھ اپنی افادیت کھو دے، اور نہ اس میں اس ٹائپ کی کوئی رائے ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں غذا افضل ہے یا فلاں دوا اس اس مرض میں شفا بخش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے صرف ایک چیز کو طبی علاج کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور میری معلومات کی حد تک آج تک کسی نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ شہد(Honey) کو شفا قرار دیا ہے اور میری معلومات کی حد تک کسی نے آج تک اس کا انکار بھی نہیں کیا۔ اگر کوئی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ قرآن، کسی انسانی عقل کا کارنامہ ہے، تو بجا طور پر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس کتاب کے تالیف کرنے والے کے فکری و عقلی رجحانات کا کچھ نہ کچھ پر تو (Reflection) اس میں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ متعدد انسائیکلو پیڈیاز (Encyclopedias) اور نام نہاد علمی کتابوں میں بھی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہونے والے خیالات و توہمات (Hallucinations)کی پیداوار بتایا گیا ہے۔ (العیاذ باللہ) چنانچہ ضروری ہے کہ ہم خود قرآن میں اس دعوے کی صحت و عدمِ صحت کے ثبوت و دلائل تلاش کریں۔ لیکن کیا قرآن میں ایسے دلائل یا اشارے موجود ہیں ؟یہ جاننے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ معینہ اشیاء کیا ہیں جو صاحبِ کتاب کے ذہن و دماغ میں ہر آن گردش کرتی رہتی تھیں ؟اس کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کن کن افکار نے قرآن میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔
تحریر: پروفیسرگیری ملر
اساک یونی ورسٹی، ترکی
ترجمہ: ذکی الرحمن غازی ندوی
‘‘قرآن حیرت انگیز کتاب ہے ’’۔اس بات کا اعتراف صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ غیرمسلم حضرات حتیٰ کہ اسلام کے کھلے دشمن بھی کرتے ہیں۔ عموماً اس کتاب کو پہلی با ر باریکی سے مطالعہ کرنے والوں کو اس وقت گہرا تعجب ہوتا ہے جب ان پر منکشف ہوتا ہے کہ یہ کتاب فی الحقیقت ان کے تمام سابقہ مفروضات اور توقعات کے برعکس ہے۔ یہ لوگ فرض کیے ہوتے ہیں کہ چونکہ یہ کتاب چودہ صدی قبل کے عربی صحراء کی ہے اس لیے لازماً اس کا علمی اور ادبی معیار کسی صحراء میں لکھی گئی قدیم، مبہم اور ناقابلِ فہم تحریر کا سا ہوگا۔ لیکن اس کتاب کو اپنی توقعات کے خلاف پاکر ان کو گہرا تعجب ہوتا ہے۔ ایسے لوگوں کے پہلے سے تیار مفروضہ کے مطابق ایسی کتاب کے تمام موضوعات اور مضامین کا بنیادی خیال یا عمود صحراء اور اس کی مختلف تفصیلات مثلاً صحرائی مناظر کی منظر کشی، صحرائی نباتات کا بیان،صحرائی جانوروں کی خصوصیات وغیرہ ہو نا چاہیے۔ لیکن قرآن اس باب میں بھی مستثنیٰ ہے۔ یقیناً قرآن میں بعض مواقع پر صحرا ء اور اس کے مختلف حالات سے تعرض کیا گیا ہے، لیکن اس سے زیادہ بار اس میں سمندر کی مختلف حالتوں کا تذکرہ وارد ہوا ہے، خاص طور سے اس وقت جب سمندرآندھی، طوفان، بھنور وغیرہ اپنی ساری تباہ کاریوں کے ساتھ جلوہ نما ہوتا ہے۔
ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant)کا قصہ
اب سے کچھ سال پہلے ہم نے ٹورنٹو میں مقیم ایک جہاز راں تاجر(Marine Merchant) کا قصہ سنا۔ اس تاجر نے اپنی عمر کا بیشتر حصہ سمندر میں گزارا تھا، کسی مسلمان ساتھی نے اس کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھنے کے لیے دیا۔اس جہاز راں تاجر کو اسلام یا اسلامی تاریخ سے کچھ واقفیت نہ تھی، لیکن اس کو یہ ترجمہ بہت پسند آیا۔ قرآن لوٹاتے ہوئے اس نے مسلمان دوست سے پوچھا :یہ محمد کوئی جہاز راں تھے؟گویااس کو قرآن کی جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ سمندر اور اس کے طوفانی حالات سے متعلق قرآن کا سچا اور باریک بیں تبصرہ اور مسلمان کا یہ بتا دینا کہ’‘‘‘ در حقیقت محمدﷺ ایک صحرا نشیں انسان تھے‘‘اس تاجر کے اسلام لانے کے لیے کافی ثابت ہوا۔ اس جہاز راں کا بیان تھا کہ وہ بذاتِ خود اپنی زندگی میں بارہا سمندر کے نامساعد حالات کا سامنا کر چکا ہے اور اسے کا مل یقین ہے کہ قرآن میں مذکور سمندر کے طوفانی حالات کی منظر کشی صرف وہی شخص کر سکتا ہے جو براہ راست اس کا مشاہدہ کر چکا ہو۔ ورنہ ان حالات کا ایساخاکہ کھینچنا انسانی تخیل کے بس کی بات نہیں :
أَوْکَظُلُمَاتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَغْشَاہُ مَوْجٌج مِّن فَوْقِہِ مَوْجٌ مِّن فَوْقِہِ سَحَابٌ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ اِذَا أَخْرَجَ یَدَہُ لَمْ یَکَدْ یَرَاہَا (النور: ۴۰)
‘‘ا پھر اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک گہرے سمندر میں اندھیرا، کہ اوپر ایک موج چھائی ہوئی ہے، اُس پر ایک اور موج، اور اُس کے اوپر بادل، تاریکی پر تاریکی مسلط ہے، آدمی اپنا ہاتھ نکالے تو اسے بھی نہ دیکھنے پائے۔’’
مذکور بالا قرآنی نقشہ کسی ایسے ذہن کی پیداوار نہیں ہو سکتا جو عملی طور پر ان حالات کو برت نہ چکا ہو اور جس کو تجربہ نہ ہو کہ سمندری طوفان کے گرداب میں پھنسے انسانوں کے احساسات اور جذبات کیا ہوتے ہیں۔ یہ ایک واقعہ اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ قرآن کو کسی خاص زمانہ یا مقام سے مقید و مربوط نہیں کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر اس کے علمی مضامین اور آفاقی سچائیاں چودہ سو سال پہلے کے کسی صحرا نشیں ذہن کی تخلیق ہرگز نہیں ہو سکتی ہیں۔
ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ
بعثتِ محمدی ﷺ سے بہت پہلے دنیا میں ایٹم(ذرہ) کے متعلق ایک معروف نظریہ (Theory of Atom) موجود تھا۔ اس نظریہ کی تشکیل میں یونانی فلاسفہ خصوصاً ڈیموکرائیٹس (Democritus) کی کاوشوں کا بڑا ہاتھ رہا ہے۔ تا آنکہ بعد میں آنے والی نسلوں میں اس نظریہ کو مسلم الثبوت واقع کی حیثیت حاصل ہو گئی۔ وہ نظریہ کیا تھا ؟یونانی فلسفہ کی رو سے ہر مادی شے کچھ چھوٹے چھوٹے اجزاء پر مشتمل ہوتی ہے۔یہ اجزاء (ذرات) اتنے چھوٹے ہوتے ہیں کہ ہماری قوتِ بینائی ان کا ادراک نہیں کر پاتی، اور یہ ناقابلِ تقسیم ہوتے ہیں۔ عربوں کے یہاں بھی ایٹم کا یہی تصور رائج تھا، اور حقیقت یہ ہے کہ آج بھی عربی زبان میں ذرہ کے لفظ کاکسی بھی مادی شے کے ادنیٰ ترین جز پر اطلاق کیا جاتا ہے۔ لیکن جدید سائنس کی رو سے کسی بھی شے کا چھوٹے سے چھوٹا جز (ذرہ)بھی عنصری خصوصیات کا حامل ہوا کرتا ہے۔ یہ جدید نظریہ جس کے واقعاتی شواہد موجود ہیں دورِ حاضر کی پیداوار ہے، اور عصرِ حاضر سے پہلے اس کا وجود علمی دنیا میں ناپید تھا۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ موجودہ دور کی اس دریافت(Discovery) کا تذکرہ چودہ صدی قبل نازل شدہ قرآن مجید میں پایا جاتا ہے:
وَمَا یَعْزُبُ عَن رَّبِّکَ مِن مِّثْقَالِ ذَرَّۃٍ فِیْ الأَرْضِ وَلاَ فِیْ السَّمَاء وَلاَ أَصْغَرَ مِن ذَلِکَ وَلا أَکْبَرَ اِلاَّ فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (یونس:۶۱)
‘‘کوئی ذرہ برابر چیز آسمان اور زمین میں ایسی نہیں ہے، نہ اس سے چھوٹی نہ بڑی، جو تیرے رب کی نظر سے پوشیدہ ہو اور ایک صاف دفتر میں درج نہ ہو۔’’
اس میں شک نہیں کہ چودہ صدی قبل کے عرب باشندے جو کہ کسی شے کے ادنیٰ ترین جز کو ذرہ کے نام سے جانتے تھے، ان کو قرآن کی یہ تصریح بڑی غیر فطری اور غیر مانوس معلوم ہوئی ہوگی۔لیکن در حقیقت یہ اس بات کی کھلی دلیل ہے کہ زمانہ اپنی تیز رفتاری کے باوجود قرآن پر سبقت نہیں لے جا سکتا۔
صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج
عام طور پر کسی قدیم تاریخی کتاب کا مطالعہ کرنے والا اس بات کی بجا طور پر توقع رکھتا ہے کہ اس کے مضامین و فرمودات کے ذریعہ وہ اس زمانے کی صحتِ عامہ اور متداول طریقہ ہائے علاج کے متعلق کافی معلومات اکٹھا کر سکے گا۔دوسری تاریخی کتابوں مثلاً بائبل، وید، اوستھا وغیرہ میں واقعۃً ایسا ہے بھی، لیکن قرآن یہاں بھی یکتا ومنفرد ہے۔ یقیناً متعدد تاریخی مصادر میں ہمیں اس بات کا تذکرہ ملتا ہے کہ اللہ کے رسولﷺنے صحت و صفائی کی بعض ہدایتیں اور نصیحتیں عنایت فرمائی ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی تذکرہ قرآن میں کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ بادی النظر میں غیر مسلموں کو یہ بات عجیب معلوم ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان مفید طبی معلومات کو کتابِ محفوظ میں کیوں شامل نہیں فرما دیا؟
بعض مسلم دانشوروں نے اس مسئلے کی اس طرح تشریح کی ہے:اگرچہ طب سے متعلق اللہ کے رسولﷺ کے ارشادات اور ہدایتیں مبنی بر صحت اور قابلِ عمل ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کے لامحدود علم و حکمت میں یہ بات تھی کہ آئندہ زمانوں میں سائنس اور میڈیسن (Medicine)کے میدانوں میں بے مثال ترقی ہوگی جس کے نتیجے میں روایتی طبی ہدایتیں پرانی اور فرسودہ (Outdated) سمجھی جانے لگیں گی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن میں صرف اسی قسم کی معلومات کو درج فرمایا جو تغیرِ زمانہ سے متاثر نہ ہو سکیں۔ میری ناقص رائے میں اگر ہم قرآنی حقائق کو وحی الٰہی مان کر چلیں تو زیرِ بحث موضوع درست طریقے سے سمجھا جا سکے گا اور مذکورہ بالا بحث اور مناقشے کی غلطی بھی واضح ہو جائے گی۔
قرآن اللہ کی وحی ہے،
سب سے پہلے ہمیں یہ جان لینا چاہیے کہ قرآن اللہ کی وحی ہے، اس لیے اس میں وارد تمام معلومات کا سرچشمہ بھی وہی ذاتِ برحق ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس قرآن کو اپنے پاس سے وحی کیا اور یہ اس کلامِ الٰہی میں سے ہے جو تخلیقِ کائنات سے پہلے بھی موجود تھا۔اس لیے اس میں کوئی اضافہ، کمی اور تبدیلی ممکن نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ قرآن کریم تو محمدﷺ کی ذات اور آپ کی ہدایات و نصائح کے وقوع پذیر ہونے سے بہت پہلے وجود میں آ کر مکمل ہو چکا تھا۔اور ایسی تمام معلومات جو کسی متعین عہد یا مقام کے خاص طرزِ فکر و طرزِ حیات سے متعلق ہوں کلامِ الٰہی میں داخلہ نہیں بنا سکتیں۔کیونکہ ایسا ہونا واضح طور پر قرآن کے مقصدِ وجود کے منافی ہے اور یہ چیز اس کی حقانیت، رہتی دنیا تک کے لیے اس کی رہنمائی کی صلاحیت،بلکہ اس کے خالص وحی الٰہی (Pure Divine Revelation)ہونے پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کر سکتی ہے۔ اسی لیے ہم دیکھتے ہیں کہ قرآن ایسا کوئی نسخۂ علاج (Home Remedies)تجویز نہیں کرتا جو مرورِ ایام کے ساتھ اپنی افادیت کھو دے، اور نہ اس میں اس ٹائپ کی کوئی رائے ذکر کی جاتی ہے کہ فلاں غذا افضل ہے یا فلاں دوا اس اس مرض میں شفا بخش ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قرآن نے صرف ایک چیز کو طبی علاج کے ضمن میں ذکر کیا ہے اور میری معلومات کی حد تک آج تک کسی نے اس کی مخالفت بھی نہیں کی ہے۔ قرآن نے صراحت کے ساتھ شہد(Honey) کو شفا قرار دیا ہے اور میری معلومات کی حد تک کسی نے آج تک اس کا انکار بھی نہیں کیا۔ اگر کوئی یہ مفروضہ رکھتا ہے کہ قرآن، کسی انسانی عقل کا کارنامہ ہے، تو بجا طور پر ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ ہم اس کتاب کے تالیف کرنے والے کے فکری و عقلی رجحانات کا کچھ نہ کچھ پر تو (Reflection) اس میں ضرور ڈھونڈ نکالیں گے۔
واقعہ یہ ہے کہ متعدد انسائیکلو پیڈیاز (Encyclopedias) اور نام نہاد علمی کتابوں میں بھی قرآن کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہونے والے خیالات و توہمات (Hallucinations)کی پیداوار بتایا گیا ہے۔ (العیاذ باللہ) چنانچہ ضروری ہے کہ ہم خود قرآن میں اس دعوے کی صحت و عدمِ صحت کے ثبوت و دلائل تلاش کریں۔ لیکن کیا قرآن میں ایسے دلائل یا اشارے موجود ہیں ؟یہ جاننے سے پہلے یہ جاننا بھی ضروری ہوتا ہے کہ وہ معینہ اشیاء کیا ہیں جو صاحبِ کتاب کے ذہن و دماغ میں ہر آن گردش کرتی رہتی تھیں ؟اس کے بعد ہی ہم فیصلہ کر سکیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے کن کن افکار نے قرآن میں اپنے اثرات چھوڑے ہیں۔