کتھارسس:
آج نہ میں آیا ہوں نہ میرا بھوت نہ میرا ہمزاد۔۔۔۔
میں ایک خالی آدمی ہوں خالی گھر کی طرح جو ۔۔سائیں سائیں کرتا ہے۔۔
جو، رو نہیں سکتا۔۔ جس کا سینہ چھلنی بھی ہوجائے تو سانس کی دھونکنی چلتی رہتی ہے۔۔۔
میں ان لوگوں میں سے ہوں جو شیزوفرینیا میں مبتلا ہیں ۔۔
جو ہزاروں الفاظ کے مرقع سے اپنے لیے صرف دکھ کشید کرتے ہیں۔۔
میں وہ ہوں جو سینے کے جہنم کو بجھنے اس لیے نہیں دیتا کہ اس آگ کی لذّت ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔۔
میں کسی کو بھی ناخن برابر دکھ نہیں دے سکتا مگر دکھ کا اظہار بھی نہیں کرسکتا ۔۔۔
کہ میرے اظہار سے میرا داخلی وجود کھوکھلا نہ ہوجائے ۔۔۔
میں معاشرت کے قابل کبھی نہ رہا تھا نہ اس منصب کا اہل ہوسکتا ہوں۔۔
مجھ ایسے کے لیے باہر کا شور اندر کے شور سے ملنا بھی کفر ہے۔۔
میں اسے شرکِ کیفیّت سمجھتا ہوں جانتا ہوں اور دیکھتا ہوں۔۔
میرے نزدیک کشیدہ خاطر ہونا اور کبیدہ خاطر ہونا ایک ہی بات ہے ۔۔
میں اپنے ہمزاد سے گھبرا جاتا ہوں اس کا سینہ بھی میری طرح چھلنی ہے۔۔۔
میں اپنے ہونے کے جواز سے یکلخت محروم بھی ہوں۔۔۔
اور اسی جواز کے سائے میں جینا بھی چاہتا ہوں۔۔۔
میں دکھوں کو پھول سے عبارت کرتا ہوں اور خوشی کو کانٹوں سے۔۔۔
میں ایک شاعر ہوں تیسرے درجے کا سہی مگر میں سمجھتا تھا کہ لفظ کیفیات کے آئنہ دار ہوتے ہیں۔۔
میں آج اپنے جہل کا اعتراف کرتا ہوں کہ لفظ محض فضلہ ہوتے ہیں ۔ ۔۔
ان کی کوئی حقیقت کوئی حیثیت نہیں ہوتی۔۔۔
میں خود کو بہت مضبوط خیال کرتا تھا۔۔۔
مگر یہ میری خام خیالی ہی تھی ۔۔۔
میں بھی ٹوٹ جاتا ہوں ۔۔
میں بھی چٹخ جاتا ہوں۔
میں بھی درک جاتا ہوں۔۔۔
میں اس شعر کی طرح ہوں:
باہر سے جا ملا مرے اندر کا انتشار !!
اپنے خلاف میں نے بھی پتھر اٹھا لیا (لیاقت علی عاصم)
مورخہ: 13 دسمبر 2011 سہ پہر
حاشیہ / نوٹ: احباب سے گزارش کہ لڑی میں نوک جھونک سے گریز کیا جائے۔۔ ۔ یہ لڑی ’’ لعنت مجھ پر‘‘ کی طرح داخلی واردات پر مبنی ہے۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں کسی دوست کو منع کرسکوں، مگر ہاتھ جوڑ کر گزارش کرسکتا ہوں کہ لڑی کو اس کی اصل حیثیت میں رہنے دیا جائے ۔۔ مجھے ان تمام دوستوں، محبت کرنے والوں کی ’’سنجیدہ ‘‘ رائے پڑھ کر نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ سراپا سپاس رہوں گا۔۔ محفل میں خلوت ممکن تو نہیں مگر کتھارسس تو کر سکتا ہوں ناں۔۔۔۔’’ نوک جھونک‘‘ کے رسیا احباب اگر صرف پسند نا پسند کے بٹن کا ہی استعمال کر یں (کہ شوخیوں کے لیے لڑیوں کی کمی نہیں ۔۔) تو میں اس خلوت میں سکون سے رہ سکوں گا۔۔۔ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ متشکّرم : م۔م۔مغل
در وصلِ دوست مستم و درہجربے قرار
داد از چیشن غمی کہ مرا سربسر رسد !! (شہنشاہ جہانگیر در مجلّہ خیابان)
(مقدور بھرترجمہ: میں یار (محبوب) کے وصال میں مست اور ہجر میں بے قرار رہتا ہوں ، (حق) یا داد یہی ہے کہ میں سر بہ سر خاک آلود ہوجاؤں فنا (فی لمحبوب) ہوجاؤں ۔۔)
انسان اگر اپنے بنیادی خلیہ سے حجاب کی سرحدیں کم کرلینے پر قادر ہوجائے تو کم از کم ۔۔
وہ اپنے خلجان کی مملکت کا ’’قیصر‘‘ تو بن کر رہ سکتا ہے ۔۔۔
قیس ، کسرہ (زیر) اور قیصر مجھے ایک نسب معلوم ہوتے ہیں۔۔۔۔
مگر مجھے اس کی توفیق حالتِ عمومی میں نصیب ہوئی کہ خیالِ یار جیسے سانس کی لڑی میں ۔۔۔
جہاں اس ’’طبیعات ‘‘ میں ’’ریاضیات‘‘ کے ضربت و تقسیم کے کلیہ جات اور معانی دیتےہیں ۔۔
تو وہاں ۔۔روزافروز ۔۔۔جلوہ (یار کے دیدار) کی مضراب ۔۔۔
حشرسامانیوں اور تابانیوں کے تاروں پر ۔۔۔
می رقصم و می رقصم (میں رقصاں ہوں میں رقصاں ہوں ) کے سرُ چھیڑنے میں مشغول نظر آتی ۔۔۔
بہرطرزِ کہ می رقصانیم (ہر وہ صورت جس میں رقص کرسکتا ہوں ) کے دائرے مکمل کرتی انجذابی کیفیّت تکرارِ کیف کے باوصف۔۔
قلندارنہ مستی و الستی (الست : کیا میں تمھارا ہوں؟ ) کی روشنی میں منکشف سینوں کو سفر کرتی ہے۔۔۔
اجالوں کی لکیریں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے بہت دُور کر ہنستی گاتی چلتی جاتی ہیں۔۔۔۔
یہ وصل کیا عجیب کیف ہے کہ مست رکھتا ہے۔۔ ۔
اورسرمستی چھین بھی لیتا ہے ۔۔
توکبھی سر نیزے پر سوار کردیتا ہے ۔۔۔
سرمدی رکھتا ہے تو منصور سے چھیڑ کرنے کے در پے ہوجاتا ہے۔۔
دلبری رکھتا ہے تو ہنگامِ صبحِ روشن سے کشید ہ شراب کی آرزو کرتا ہے۔۔۔
کیا کیا فتنے جگاتا ہے۔۔
ہنگام سحر دلبر من جلوہ گرآمد
صد فتنہ خوابیدہ محشر برسرآمد (فناالنساء در مجلّہ خیابان) (مقدور بھر ترجمہ: صبح کے وفور میں اگر دلدار کی آمد ہوجائے ، (تو) سو سو ، سوئے (خواہشوں ارمانوں ) کے فتنے محشر کی طرح جاگ جائیں ۔۔)
یہ سب کسی پسِ پردہ محّرک کی ایما پرہوتا ہے ۔۔۔۔
یہ مشیّت کا فیصلہ بھی عجیب ہے کہ۔۔ نور ہوتے ہوئے ۔۔۔ظہور کے لیے ۔۔
پہلے قلوب کی ساری خلیج کو ایک ثانیئے میں پاٹ دیتا ہے۔۔۔۔
مگر بعد میں زمانی مکانی فاصلوں سے راستے کو اتنا غلطیدہ کردیتا ہے کہ۔۔
سانس سینے میں گھُٹنے لگتی ہے ۔۔ نامسائد رستے پر وسوسے اور نا امیدی اور مغمومیت سراندیپ کے سانپوں کی طرح پھن اٹھائے ۔۔۔
اپنا زہر تریاق کہہ کر رگوں میں اتارنے پر کمر بستہ ملتے ہیں۔۔۔
مورخہ: 14 دسمبر 2011، سہ پہر
حاشیہ / نوٹ: احباب سے گزارش کہ لڑی میں نوک جھونک سے گریز کیا جائے۔۔ ۔ یہ لڑی ’’ لعنت مجھ پر‘‘ کی طرح داخلی واردات پر مبنی ہے۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں کسی دوست کو منع کرسکوں، مگر ہاتھ جوڑ کر گزارش کرسکتا ہوں کہ لڑی کو اس کی اصل حیثیت میں رہنے دیا جائے ۔۔ مجھے ان تمام دوستوں، محبت کرنے والوں کی ’’سنجیدہ ‘‘ رائے پڑھ کر نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ سراپا سپاس رہوں گا۔۔ محفل میں خلوت ممکن تو نہیں مگر کتھارسس تو کر سکتا ہوں ناں۔۔۔ ۔’’ نوک جھونک‘‘ کے رسیا احباب اگر صرف پسند نا پسند کے بٹن کا ہی استعمال کر یں (کہ شوخیوں کے لیے لڑیوں کی کمی نہیں ۔۔) تو میں اس خلوت میں سکون سے رہ سکوں گا۔۔۔ ’’بابر بہ عیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست ‘‘ متشکّرم : م۔م۔مغل
کل رات بہت گریہء پیہم نے ستایا یوں روئے کہ رونے کا سبب یاد نہ آیا (اطہر نفیس)
انالعشق۔۔۔
میں نے جس کے قدموں کی خاک ہونا اپنا مقدر سمجھ لیا ہے ۔۔ میں توفیقِ الوہی سے جس کے دکھوں کی تھور زدہ زمین پر۔۔۔ اپنے خمیری وجود کو کھاد کے طوراختیار کرچکا ہوں۔۔۔۔ (یہ سب توفیق ہے یہ سب توفیق ہے ، اس حیّ القیّوم کی طرف سے۔۔۔
یہ میں کہاں بھٹک گیا۔۔۔ہاں یاد آیا۔۔۔وہ تنِ نازک اتنا حسّاس ہے کہ ۔۔۔ اس کے قدموں پر گمان و بدگمانی کی گرد بھی پڑ جاتی ہے تو وہ اپنے پاؤں سمیٹ لیتا ہے۔۔
اپنی جڑیں بے دردی سے کھینچ لیتا ہے۔۔۔ اتنی بے دردی سے کہخاکی وجود کھوکھلے ہوجاتے ہیں۔۔ اور خمیر محض فضلہ بن کر رہ جاتا ہے۔۔۔ جیسے تتلی خوشبوسے خفا ہوجائے تو پھول مرجھاتے مرجھاتے مر جاتا ہے ۔۔۔ چار اطراف صرف سسکیاں گونجتی ہیں ۔۔ حسرتیں سینہ کوبی کرتی ہیں، سانسیں زنجیر زنی کرتی ہے۔۔۔۔ دھڑکنیں ماتم کناں رہتی ہیں ۔۔۔۔ محض ایک غلط فہمی سے ۔۔ سنو یہ منظر۔۔ یہ عالم۔۔۔ میری کُل اِملاک ہے ۔۔۔ یہ میرے شب خوابی کا محل ہے ۔۔۔ یہ وہ خواب گاہ ہے ۔۔
جو سخن مشترک سے مہکی رہتی تھی۔۔۔ ۔ جہاں کل صبح ۔۔خوشی سے معمور شب خوابی کے لباس میں انگڑائی لیتی اٹھ کھڑی ہوئی تھی۔۔۔ یہ خواب سرا دن بھر اسی رعنائی میں غلطاں رہا۔۔۔۔ پھر ایک بے موت لمحہ نفوس کی روح میں ترازو ہوگیا۔۔۔۔ یہ محل وہ خواب گاہ ہے ۔۔۔۔ جہاں آٹھوں پہر خوشی کا خورشید چمکتا مہکتا رہا کرتا ہے۔۔۔ کرنیں میرا طواف کرتی تھیں ۔۔ وہ جس کے لیے لفظ حرف صوت سدا۔۔۔ جس کی حرمت کے لیے لبلبی کی ایک جنبش پر فانی وجود کو قربان کرنااختیار کیا۔۔۔ وہ جس کی رتّی بھر خوش کے لیے ۔۔۔۔ سنتِّ براہیمی واسماعیلی کا شرف بھی نصیب ہوا۔۔ آنکھوں پر ویسی ہی پٹی باندھی تھی۔۔۔ کہ رحم نہ آجائے ۔۔ میں جانتا ہو ترحّم جذبے کی موت ہے۔۔ میں جانتا ہوں۔۔۔ میں جانتا ہوں خلیج پاٹ دی جائے بھی تو خلا کا امکان رہتا ہے۔۔۔ وہ خلا جو کائنات کی کوئی طاقت نہیں پُر کرتی۔۔ جب تک کہ خلا کا خالق اسے خارجی حوالے سے باطنی اظہار تک کا سفرِ مراجعت نہ طے کروائے ۔۔۔
اتنے آنسو تو نہ تھے دیدہء تر کے آگے !!! اب تو پانی ہی بھرا رہتا ہے گھر کے آگے کس کو کہتا ہے میاں یاں سے سرک یاں سے سرک کوئی بیٹھا نہیں آ کر ترے در کے آگے (میر حسن )
کون کہتا ہے میاں ۔۔۔ کون کہتا ہے ۔۔۔۔ یاں سے سرک ۔۔ یاں سے سرک ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔میں ۔۔ عشق ہوں ۔۔ انالعشق۔۔۔ عشق خلاقیّت سے ہمکنار ہوتا ہے۔۔ عشق وجود و شہود دونوں میں اپنا ظہور رکھتا ہے۔۔۔۔ سنو !! یہ رکوع و قیام و سجود ، نمازِ ہجر میں نہیں ہوتے ۔۔ سنو !! یہ رکوع و قیام و سجود ۔۔ نمازِ ہجر میں نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔ مگر اسے ’’عشق ‘‘ کب سمجھ پڑتا ہے۔۔
عشق میں شرک نہیں ہوتا۔ ۔۔
عشق احد ہے عشق احد ہے۔۔۔
میں سراپا نماز ہوں اے عشق تو اذاں دے رہا ہے حیرت ہے (م۔م۔مغل)
مورخہ: 15،16 دسمبر 2011، سہ پہر حاشیہ / نوٹ: احباب سے گزارش کہ لڑی میں نوک جھونک سے گریز کیا جائے۔۔ ۔ یہ لڑی ’’ لعنت مجھ پر‘‘ کی طرح داخلی واردات پر مبنی ہے۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں کسی دوست کو منع کرسکوں، مگر ہاتھ جوڑ کر گزارش کرسکتا ہوں کہ لڑی کو اس کی اصل حیثیت میں رہنے دیا جائے ۔۔ مجھے ان تمام دوستوں، محبت کرنے والوں کی ’’سنجیدہ ‘‘ رائے پڑھ کر نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ سراپا سپاس رہوں گا۔۔ محفل میں خلوت ممکن تو نہیں مگر کتھارسس تو کر سکتا ہوں ناں۔۔متشکّرم : م۔م۔مغل
مجھے اپنی بائیں ہاتھ کی کلائی سے جُڑی ہوئی ۔۔۔۔۔۔
ہتھیلی پر جَڑے ہوئے انمٹ زخموں کی قسم !!
ناخن ایسا عجیب مرہم ہے ۔۔۔
زخم خوش ہیں کہ تازگی سی ہے (م۔م۔مغل)
زندگی صرف سوال نامہ ہے ۔۔۔
جواب کی تلاش میں آٹھ سال کی عمر سے گھر سے نکلا تھا۔۔
(یہ آٹھ کا ہندسہ بہت عجیب ہے ۔۔
زندگی کے ہر موڑ پر اسی ہندسے نے سوال پیدا کیے۔۔
شاید آٹھ کی فطرت میں خلّاقیّت کی رمز قدرت نے کوٹ کوٹ کر بھری ہے
ہمیشہ کا مشاہدہ رہا ہے کہ وہ لمحے جو اذیّت ناک ہوتے ہیں۔۔
ان کا ہندسہ آٹھ ہوتا ہے ۔۔
12 بج کر 14 منٹ *
بہت طویل فہرست ہے اگر ۔۔۔
میں آٹھ آٹھ آنسو بہانے بیٹھ جاؤں تو۔۔۔)
ایک سوال۔۔۔
مسائد و نامسائد رویوں میں۔۔۔
ذہن میں کوند پڑتا ہے کہ۔۔
مجھے زندگی نے صرف دوسروں کو دکھ دینے کے لیے زندہ رکھا ہے کیا ؟
یہ سوچتا ہوں تو استخوانی پنجرے کا اسیر دل۔۔
پسلیوں کی سلاخوں سے سر پھوڑنے لگتا ہے ۔۔۔
لہولہان ہوجاتا ہے ۔۔۔
پسلیوں کا اسیر یہ گوشت کا لوتھڑا ۔۔۔
اگر پتھر ہوتا تو ۔۔۔ ؟؟؟
پھر سوا ل پھر سوال پھر سوال ۔۔۔
اے خدا یہ دنیا سائلین سے ہی بھردی گئی ہے کیا ؟؟
میں گھبرا سا جاتا ہوں ۔۔۔
سوچتا ہوں کہ گھبرانا بھی کیسی عظیم نعمت ہے ۔۔۔
بسا اوقات زندگی ہتھیلیوں پر سمٹ آتی ہے اور
مجھ ایسا نامراد۔۔
اس کا پورا جائزہ لے کر اپنا محاسبہ کرنے پر تل جاتا ہے۔۔
جوں جوں ارتکاز بڑھتا جاتا ہے ۔۔
پتلیاں سکڑتی چلی جاتی ہے ۔۔
بے دَماغی کا حاصل دماغ جیسے چشم زدن میں ۔۔
اعزاداری پر اتر آتا ہے ۔۔۔
زندگی سیم آب کی طرح ہتھیلیوں سے سرکتی جاتی ہے۔۔۔
اور اور انگلیوں کے پوروں پر رقص کرنے لگتی ہے ۔۔
چٹکیوں میں بھرنے کی کوشش ۔۔۔
بے سود ہے ۔۔
نبضیں اپنی چلنے کو دشنام قرار دینے لگتی ہیں ۔۔
دھڑکنیں ملامت سی سانس تازیانہ سی !!
ایسے میں غنیمت ہے آنسوؤں کی آسانی (م۔م۔مغل)
ایک سوال ہمیشہ سرگوشیاں کرتا ہے ۔۔۔ کہ تمھارے پاس کہنے کو لکھنے کو یہی کچھ ہے ؟؟ شاید میں اس سوال کا کبھی جواب نہ پاسکوں۔۔ مگر ایک جھمّاکا سا ہوتا ہے ۔۔ کوئی فقیر اپنی دھن میں صدا لگاتا ہوا گزرتا چلا جارہا ہے ۔۔ خوشی عارضی ہے دکھ دائمی ہے ۔۔ خوشی عارضی ہے دکھ دائمی ہے ۔۔
مگر سوال اٹھتا ہے ۔۔
صرف خوشی ہی عارضی کیوں ؟؟
دکھ عارضی کیوں نہیں ؟؟
یہ سب خلجان یہ سب خرافات یہ سب بکواس ہے ۔۔
جو میں لوحِ تقدیر سے مٹانے پر تلا ہوں ۔۔۔
مگر ۔۔۔
لولی لنگڑی دنیا میں ۔۔۔
بیساکھیوں سے سہارے ایک سوال اٹھ کھڑا ہوتا ہے ۔۔
آخر کیوں ؟؟
مورخہ: 12 جنوری دو ہزار بارہ ، دوپہر۔
عین نصف النہار کے وقت
حاشیہ / نوٹ: احباب سے گزارش کہ لڑی میں نوک جھونک سے گریز کیا جائے۔۔ ۔ یہ لڑی ’’ لعنت مجھ پر‘‘ کی طرح داخلی واردات پر مبنی ہے۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں کسی دوست کو منع کرسکوں، مگر ہاتھ جوڑ کر گزارش کرسکتا ہوں کہ لڑی کو اس کی اصل حیثیت میں رہنے دیا جائے ۔۔ مجھے ان تمام دوستوں، محبت کرنے والوں کی ’’سنجیدہ ‘‘ رائے پڑھ کر نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ سراپا سپاس رہوں گا۔۔ محفل میں خلوت ممکن تو نہیں مگر کتھارسس تو کر سکتا ہوں ناں۔۔متشکّرم : م۔م۔مغل
میں خواہشوں کو کسک کی طرح ہلکی آنچ پر سلگنے کی کیفیت سمجھتا تھا۔۔
قدرت کے مسلط کردہ رشتے ۔۔۔
چھوت کا مریض سمجھ کر دُور رہنے لگے
نفسیات دان میری بات سمجھنے سے قاصر تھے۔۔
طبیب نسخوں میں اپنے خالی ذہنوں کی طرح خالی کاغذ ہی پیش کرپاتے تھے۔۔
دسمبر کی خنک راتیں جذبات میں سردلُو لگنے سے گھبرا کر
کھڑکی سے آتش بازی کا نظارہ کرتے ہوئے
سینے میں برانڈی کی کمی کا احساس جاگنے ہی نہیں دیتی تھیں
امیدوں کا سورج آج چھ دنوں میں ہی سال خوردہ بوڑھے کی طرح
دوہری ہوتی ہوئی کمر پر دلاسے کی گٹھری لادے
بوجھ سے اکتا کر ہانپتا کانپتا دورکسی گاؤں کی طرف
پیروں میں روز و شب کچلتا ہواچلا رہا ہے۔۔
تعلق کے بے انت سمندر میں اپنا وجود
لمس کی شعلگی کو دان کرنے کی خواہش نے نئے سورج کو خوش آمدید کہامگر۔۔۔
نئے سال کی کروٹیں حجلۂ محرومی میں۔۔۔
تعلق کے بستر پر شکنیں گننے میں مصروفیت کا رونا رونے لگی تھیں۔۔۔
اعصاب چٹخا دینے والی بلغم آلود کھانسی
رگوں سے خون کا دورانیہ کم کرتے ہوئے
رتجگے میں فرنگی زبان میں نظم لکھنے کا شرف حاصل ہواتو
روح کے طبیب نے نظم سن کر کمال ہنرمندی سے کہا۔۔پاگل ۔۔
’’خواہشیں دانت کے درد کی طرح ہوتی ہیں ‘‘
جب دانت میں درد ہوتا ہے ناں تو زندگی عذاب ہوجاتی ہے
حل صرف یہی ہے کہ خراب دانت کو نکال دیا جائے۔۔
اب میں اپنے ماہردندان ساز سے کیسے کہوں کہ
خواہشوں کا دانت اور آنت سے دور کا علاقہ نہیں۔۔
یہ رگوں میں سرطان کی طرح ڈیرے ڈال لیتی ہیں۔۔
اور سرطان تو سرطان ہی ہوتا ہے۔۔
م۔م۔مغل ؔ
حاشیہ / نوٹ: احباب سے گزارش کہ لڑی میں نوک جھونک سے گریز کیا جائے۔۔ ۔ یہ لڑی ’’ لعنت مجھ پر‘‘ کی طرح داخلی واردات پر مبنی ہے۔ مجھے کوئی حق نہیں پہنچتا کہ میں کسی دوست کو منع کرسکوں، مگر ہاتھ جوڑ کر گزارش کرسکتا ہوں کہ لڑی کو اس کی اصل حیثیت میں رہنے دیا جائے ۔۔ مجھے ان تمام دوستوں، محبت کرنے والوں کی ’’سنجیدہ ‘‘ رائے پڑھ کر نہ صرف خوشی ہوگی بلکہ سراپا سپاس رہوں گا۔۔ محفل میں خلوت ممکن تو نہیں مگر کتھارسس تو کر سکتا ہوں ناں۔۔متشکّرم : م۔م۔مغل ؔ