ابن رضا بھائی ۔ پھر کوشش کرتا ہوں کہ یہ بات تفصیل سے بیان کرسکوں ۔
حرفِ روی کا تعین مطلع ہی میں کیا جاتا ہے ۔ اردو غزل میں عام بات ہے کہ مطلع میں حیلے کے ذریعے حرفِ روی کو بدل کر اس کا قائم مقام متعین کردیتے ہیں اور پھر اس بہانے بقیہ ابیات کے لئے قافیہ کشادہ کرلیا جاتا ہے ۔ اکثر افعال اور اسما کو مطلع میں اسی طرح سےباہم لایا جاتا ہے۔
ایطائے جلی معلوم کرنے کا ایک قاعدہ یہ ہے کہ دونوں قوافی کے آخر ی مشترک ٹکڑے کو نکال دیا جائے اور باقی بچنے والے دونوں ٹکڑوں کو دیکھا جائے ۔ اگر وہ دونوں ٹکڑے بامعنی الفاظ ہیں تو ان کا ہم قافیہ ہونا ضروری ہے۔ اور اگر وہ ہم قافیہ نہیں ہیں تو پھر ایطا کا عیب موجود ہے ۔ چانچہ ستم گر اور قلم گر تو درست قوافی ہیں لیکن ستم گر اور گدا گر درست نہیں ۔ لیکن اگر باقی بچنے والے ٹکڑے بامعنی الفاظ نہیں ہیں تو ایطا کا عیب موجود نہیں ۔ میری اس غزل کا مطلع اسی بات کی ایک مثال ہے ۔
کسی نے اور
سفینے کا آخری مشترک ٹکڑا
نے اگر نکال دیا جائے تو
کسی اور سفی باقی بچتے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ سفی بامعنی نہیں ہے اس لئے یہ قوافی درست ہیں ۔ یہاں میں نے ایک حیلے سے کسی کے حرفِ روی
ی کا سہارا لیکر سفینے کی
ی کو قائم مقام روی بنادیا ہے حالانکہ سفینے کا روی نون ہے ۔ اور یہ ساری باتیں آپ بخوبی جانتے ہیں ۔
قافیے کو اس طرح لانا کہ ردیف کا کچھ حصہ بھی لفظِ قافیہ میں آجائے اکثر کے نزدیک محاسنِ کلام میں سے ہے ۔ بہت سارے اساتذہ نے اسے استعمال کیا ہے ۔ چونکہ ایسا قافیہ قاری کے لئے غیر متوقع ہوتا ہے چنانچہ اس کے استعمال سے ایک طرح کا خوشگوار حیرت آمیز تاثر پیدا ہوتا ہے جو شعر کو چمکا دیتا ہے۔ غالب کی ایک مثال اوپر آہی چکی ہے ۔ جہاں تک یہ سوال ہے کہ آیا ایسا مطلع میں بھی کیا جاسکتا ہےیا نہیں ۔ تو بھائی میرا سوال یہ ہے کہ کیوں نہیں ؟ جب ایسا کرنا بقیہ اشعار مین جائز ہے تو مطلع میں کیوں نہیں ؟ اگر قافیہ میں کشادگی پیدا کرنامقصود ہے تو اس کے استعمال میں کیا قباحت ہے ۔ جہاں تک اساتذہ سے کسی نظیر لانے کا تعلق ہے تو میر کی ایک غزل دیکھئے جس کی ردیف " سے " ہے۔
کوئی ہوا نہ روکش ٹک میری چشمِ تر سے
کیا کیا نہ ابر آکر یاں زور زور برسے
دل کی طرح نہ کھینچیں اشعار ریختہ کے
بہتر کیا ہے میں اس عیب کو ہنر سے
اس غزل کے بقیہ اشعارکے آخر میں رہگزر سے اور پَر سے وغیرہ آتے ہیں ۔
میر کے مطلع میں اگرچہ
برسے کا حرفِ روی
س ہے لیکن پہلے مصرع میں
تر لا کر
ر کو حرفِ روی ٹھہرا دیا گیا ہے ۔ اور اسی روی کی پابندی بقیہ غزل مین لازم ہے ۔ امید ہے وضاحت ہوگئی ہوگی۔ لیکن بھائی میں اپنی بات آپ تک اگر اب بھی نہ پہنچا سکا ہوں تومعذرت ۔ حکم دیجئے میں پھر حاضر ہوجاؤں گا ۔
ابنِ رضا بھائی ۔ علم قافیہ کچھ تو پیچیدہ ہے ہی لیکن کچھ اس کو پیچیدہ تر بنا بھی دیا ہےہمارے علما نے۔ اکثر کتب میں مبہم بلکہ بعض اوقات متضاد قسم کی باتیں ملتی ہیں ۔ قافیہ کشادہ کئے بغیر اردو غزل کی گاڑی کامیابی سے آگے نہیں چلے گی ۔ اب کہاں تک وہی گنے چنے قافیے ردیف بدل بدل کر استعمال ہوتے رہیں گے؟ افعال کو تو قافیے سے دیس نکالا ملا ہوا ہے۔ جب تک مطلع میں کوئی حیلہ نہ استعمال کیا جائے افعال کو قوافی بنانا محال ہے ۔ نئے لکھاری تو قافیے کی اس گمبھیرصورتحال سے گھبرا کر دور بھاگتے ہیں ۔ میری رائے میں علم قافیہ کی تسہیل اور تجدید بہت ضروری ہے ۔