عزیزانِ وطن! شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے قوم کو موجودہ غریب کُش نظام میں حقیقی تبدیلی کا ایک اِنقلابی ویژن دیا ہے۔ آپ ایک ایسا پاکستان چاہتے ہیں جو علامہ اِقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خوابوں کے تعبیر اور قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے تصوّرات کی تکمیل ہو اور جو حقیقی معنوں میں اِسلامی و فلاحی جمہوری ریاست ہو۔
شیخ الاسلام ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس میں:
زرعی اَراضی کی حد مقرر ہو
1۔ ایک خاندان کے لیے زرعی اَراضی کی زیادہ سے زیادہ حد 50 ایکڑ مقرر ہو تاکہ جاگیردارانہ نظام کا خاتمہ ہو۔
کسان زمین کا مالک ہو
2۔ بے زمین کسان کو مفت زمین ملے تاکہ دھرتی کا سینہ چیر کر ساری عمر قوم کو اناج فراہم کرنے والا غریب کسان صرف مزارع ہی نہ رہے بلکہ زمین کا مالک بھی بنے۔
نوجوانوں کو روزگار/ روزگار الاؤنس مہیا ہو
3۔ ہر نوجوان کو روزگار میسر ہو یا (روزگار میسر آنے تک) دس ہزار روپے ماہانہ بے روزگار الائونس ملتا ہو تاکہ نوجوانوں کو ملکی ترقی کے دھارے میں شامل کرکے کارآمد اور مؤثر فرد بنایا جاسکے۔
بے گھروں کے لیے مفت پلاٹ ہوں
4۔ ہر بے گھر خاندان کو مفت پانچ مرلہ پلاٹ اور گھروں کی تعمیر کے لیے آسان شرائط پر قرضے میسر ہوں۔
کارخانوں کے منافع میں محنت کشوں کی شراکت ہو
5۔ اِستحصالی سرمایہ داریت کا نام و نشان تک نہ ہو اور تمام ملوں اور فیکٹریوں کے منافع میں مزدور پچاس فیصد تک حصہ دار ہوں تاکہ ملک و قوم کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کردینے والے غریب محنت کَش بھی ترقی کے حقیقی ثمرات سے مستفید ہوں۔
دہشت گردی کے خلاف قومی پالیسی بنائی جائے
6۔ دہشت گردی کے خاتمے کی قومی پالیسی بنا کر دہشت گردوں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ پاکستان اَمن کا گہوارہ ہو اور اَقوامِ عالم کی صف میں نمایاں مقام پر کھڑا ہوسکے۔
سستا اور فوری انصاف مہیا ہو
7۔ ہر شہری کو اس کی تحصیلی و ضلعی عدالتوں میں ہی سستا اور فوری انصاف فراہم ہو، جج غیر سیاسی ہوں اور ججوں کی تعداد میں مناسب اِضافہ ہوگا۔
8۔ SHO کا تعلق متعلقہ علاقے سے ہو اور اس کی منظوری یونین کونسل دے۔
میٹرک تک لازمی مفت تعلیم ہو
9۔ یکساں نصاب کے تحت میٹرک تک لازمی اور معیاری تعلیم مفت ہو اور اَعلیٰ تعلیم کے لیے ہر خواہش مند طالب علم کو مناسب مواقع ملیں۔
10۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (HEC) کی جاری کردہ ڈگریاں کینیڈا، امریکہ اور انگلینڈ کی یونی ورسٹیوں کی ڈگریوں کے برابر ہوں۔
یکساں اور مفت علاج میسر ہو
11۔ تمام شہریوں کو یکساں اور مفت علاج کی سہولتیں میسر ہوں۔
12۔ شاہانہ صدارتی محل، وزیر اعظم ہاؤس، گورنز ہاؤسز اور وزراء اعلیٰ ہاؤسز کی جگہ یونی ورسٹیاں، لائبریریاں اور ہسپتال قائم ہوں۔
خواتین کے لیے یکساں مواقع ہوں
13۔ خواتین کو مساوی مواقع اور مکمل سماجی و معاشی تحفظ فراہم ہو اور ان کے خلاف تمام امتیازی قوانین ختم ہوں۔
ٹیکس امیروں پر ۔۔۔ غریبوں پر نہیں!
14۔ امیروں پر ٹیکس کی شرح زیادہ اور متوسط طبقہ پر کم ہو؛ جب کہ غریبوں پر بالواسطہ یا بلاواسطہ کسی طرح کا بھی ٹیکس نہ ہو۔
یوٹیلیٹی بلز پر ٹیکسز کا ظالمانہ نظام ختم ہو
15۔ غریب و متوسط گھرانوں کے لیے بجلی، پانی، گیس اور فون کے بلوں میں ٹیکسز نہ ہوں۔
تنخواہوں میں غیر عادلانہ فرق ختم ہو
16۔ سرکاری و غیر سرکاری اور بڑے چھوٹے ملازمین کی تنخواہوں میں پایا جانے والا غیر عادلانہ فرق کم سے کم ہو۔
عوامی نمائندگان کے صوابدیدی اختیارات ختم ہوں
17۔ صدر، وزیرِ اَعظم، گورنر اور وُزراء اَعلیٰ کے پاس بے تحاشا صوابدیدی اِختیارات اور خصوصی مراعات بالکل نہ ہوں۔
18۔ MNAs اور MPAs کو صوابدیدی اور ترقیاتی فنڈز دینے کا مکروہ سلسلہ بند ہو۔
ایسے پاکستان کے لیے کیسا نظام حکومت درکار ہے؟
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے مطابق موجودہ نظام میں رہتے ہوئے کبھی بھی پاکستان کو ایک حقیقی جمہوری و فلاحی ریاست نہیں بنایا جاسکتا۔ اِس مقصد کے لیے پاکستان کے نظام میں اِنقلابی تبدیلیاں کرنا ہوں گی۔ شیخ الاسلام کی طرف سے دی گئی اِنقلابی تبدیلیوں کا خاکہ یہ ہے:
ریاستِ مدینہ کو role model بنایا جائے
1۔ پاکستان کا موجودہ نظام حکومت 1850ء میں انگریز کا قائم کردہ نظام ہے جس میں اِختیارات صرف چند اَفراد کے ہاتھوں میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں۔ ہم ایسا نظامِ حکومت چاہتے ہیں جس کا ماڈل حضور نبی اکرم a نے دیا تھا۔ پاکستان کے لیے ہمارا role model مدینہ ہے۔ جب آپ a نے ہجرت فرمائی اور مدینہ کو ریاست بنایا تو participatory democracy (شراکتی جمہوریت) دی اور devolution of power کے ذریعے اِختیارات کو نچلے درجے تک منتقل کیا۔ دس دس آدمیوں کے یونٹس پر اُن کا سربراہ نقیب بنایا، دس دس نقیبوں کے اوپر پھر اُن کا سربراہ عریف بنایا اور پھر سو سو عرفاء پر مشتمل پارلیمنٹ بنائی اور تمام اِختیارات آقا a نے نیچے منتقل کر دیے۔ عام آدمی کی براہِ راست حکمرانوں تک رسائی تھی اور حکمرانوں کا براہِ راست عوام سے رابطہ تھا اور لوگوں کے مسائل فوری حل ہونا شروع ہوگئے تھے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ پاکستان کو اُس مدینہ ماڈل کے مطابق بنایا جائے۔
وزیر اَعظم کا انتخاب براہِ راست ہو
2۔ وزیرِ اَعظم کا اِنتخاب اَراکینِ اَسمبلی نہ کریں بلکہ جنرل الیکشنز میں براہِ راست عوام کے ووٹ سے ہو تاکہ وزیرِ اَعظم قائدِ اِیوان نہ ہو بلکہ قائدِ عوام ہو۔
وُزراء کی تقرریاں میرٹ پر ہوں
3۔ وُزراء کا اِنتخاب میرٹ پر ہو، ذاتی پسند و ناپسند اور اِتحادی پارٹیوں میں وزارتوں کی بندر بانٹ کی بجائے وُزراء کا تقرر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے میرٹ پر کیا جائے۔ وہ کمیٹی تمام اُمیدواروں کا انٹرویو کرے اور اَہل، قابل اور باصلاحیت فرد ہی وزیر بنے۔ جو ممبر جس محکمہ کا وزیر بنے اُس کے بارے میں مکمل علم رکھتا ہو تاکہ اَفسر شاہی اور بیورو کریسی کو من مانی کرنے کا موقع نہ ملے۔
نظام انتخابات میں مثبت تبدیلیاں کی جائیں
4۔ اِنتخابات متناسب نمائندگی کے نظام پر party-list system کے مطابق ہوں تاکہ عوام برادری اور علاقائی مسائل کی بنیار پر winning horses کو ووٹ نہ دیں بلکہ سیاسی جماعتوں کو ان کی قیادت، منشور اور قومی پالیسیوں کے مطابق ووٹ دیں۔
انتظامی بنیادوں پر نئے صوبے قائم ہوں
5۔ لسانی اور نسلی بنیادوں پر نئے صوبے بنانے کی بجائے اِنتظامی بنیادوں پر ہر ڈویژن کو صوبے کا درجہ دے کر تمام صوبائی اَخراجات ختم کیے جائیں تاکہ عوام کا سرمایہ عوامی و فلاحی منصوبوںپر خرچ ہو۔
6۔ ہر صوبے کا گورنر عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو۔ صوبائی سطح پر کوئی وزراء نہ ہوں۔ موجودہ شعبہ جاتی سربراہان گورنر کے ماتحت ہوں جو اُس کے اَحکامات کے مطابق کام کریں۔
تمام اِختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں
7۔ اِختیارات نچلی سطح پر منتقل ہوں۔ مرکز کے پاس کرنسی، دفاع، خارجہ پالیسی، ہائر ایجوکیشن، inland security & counter terrorism جیسے بنیادی محکمے ہوں۔ باقی محکمے صوبوں اور ضلعی حکومتوں کو منتقل کردیے جائیں۔
8۔ مقامی حکومتوں کے اِنتخابات کرائے جائیں اور اُنہیں مالی و اِنتظامی اور سیاسی اِختیارات منتقل کیے جائیں۔
9۔ ہر ضلع کا سربراہ میئر ہو جو براہِ راست عوام کے ووٹوں سے منتخب ہو۔ ضلع پولیس، ایڈمنسٹریشن اور جملہ ضلعی محکمہ جات میئر کے تابع ہوں۔
10۔ ہر تحصیل کا سربراہ ڈپٹی مئیر ہو۔ وہ بھی عوام کے ووٹوں سے براہِ راست منتخب ہو اور تحصیل کے تمام محکمہ جات اُس کے تابع ہوں۔
11۔ گورنر، میئر اور ڈپٹی میئر کم از کم 51 فیصد اکثریت سے منتخب ہوں۔
12۔ تحصیل کے بعد یونین کونسل سطح پر مقامی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے جس میں ناظم، نائب ناظم اور کونسلرز عوام کے ووٹوں سے منتخب ہوں اور ہر طبقے کا نمائندہ اُسی یونین کونسل میں موجود ہو۔ علاقے کے تمام ترقیاتی کام اُن کے ذریعے ہوں تاکہ ہر یونین کونسل کے فنڈز اُن کے ذریعے عوام تک پہنچیں اور عوام کے مسائل اُن کے گھر کی دہلیز پر حل ہونا شروع ہوں۔
افواج پاکستان کا کردار
13۔ افواج پاکستان کا ملک کی داخلی سیاست میں کوئی کردار نہ ہو۔ اُن کا کام صرف ملک کی دفاعی و نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہے۔ حالتِ اَمن میں اَفواجِ پاکستان اَمنِ عامہ کی بحالی، ترقیاتی کاموں میں معاونت، سول ڈیفنس اور ایمرجنسی ریلیف جیسے کاموں میں مقامی حکومتوں کی معاوِن ہو۔
احتساب کا کڑا نظام ہو
14۔ کرپٹ لوگوں کا سخت اِحتساب ہو اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کا مستقل اور شفاف نظام ہو۔
15۔ یونین کونسل کی سطح پر سول سوسائٹی کے نمائندگان پر مشتمل civil vigilance squad قائم کیا جائے جو مقامی حکومت کی کارکردگی اور اِختیارات کے اِستعمال پر نظر رکھے اور ناجائز اِستعمال اور کرپشن کی شکایت کی صورت میں اس کی شکایت بالائی سطح پر قائم اِحتساب کے ادارے کو کرے۔
16۔ اِحتساب بیورو مکمل طور پر آزاد اور خود مختار ادارہ ہو جسے آئینی تحفظ حاصل ہو۔ اِحتساب بیورو غیر جانب دار، دیانت دار اور فرض شناس لوگوں پر مشتمل ہو اور قومی، صوبائی اور تحصیلی سطح پر اس کے دفاتر ہوں۔ یونین کونسل کا اِحتساب تحصیلی اِحتساب بیورو کرے جب کہ ضلعی و تحصیلی حکومتوں کا اِحتساب صوبائی احتساب بیورو اور صوبائی و وفاقی حکومتوں کا اِحتساب قومی اِحتساب بیورو کرے۔
17۔ ہر سطح پر اِحتساب بیورو کے فیصلے کے خلاف صرف بالائی سطح پر اپیل دائر کی جاسکے۔ اِس طرح ہر سطح پر اِحتساب کا عمل جاری رہے گا اور کرپشن کرنے والے نمائندوں اور حکمرانوں کے خلاف فوری کارروائی بھی عمل میں آئے گی۔
لیکن ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ یاد رکھیں!
یہ سب کچھ اُس وقت تک ممکن نہیں جب تک موجودہ کرپٹ نظامِ اِنتخاب تبدیل نہیں ہوتا اور اَسمبلیوں میں حقیقی عوامی نمائندگی نہیں ہوتی۔
اگر آپ واقعی اِس ملک میں حقیقی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں اور شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے ویژن کے مطابق پاکستان کو دیکھنا چاہتے ہیں تو اُس کا صرف ایک راستہ ہے: موجودہ نظامِ اِنتخاب کو یکسر مسترد کردیں۔ کیونکہ یہ نظام پاکستان کا رضا شاہ پہلوی ہے جس کے خلاف ایرانی قوم اُٹھی تھی، یہ نظامِ اِنتخاب اِس ملک کا قذافی ہے جس کے خلاف لیبیا کی عوام اُٹھی۔ لہٰذا اِس نظام کے خلاف اُس طرح اُٹھ کھڑے ہوں جس طرح تیونس اور مصر کے لوگ اُٹھے اور کئی عشروں سے قائم سیاسی آمریت کا تختہ اُلٹ دیا۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری نے اِسی فرسودہ اور اِستحصالی نظام کے خلاف جد و جہد کا آغاز کیا ہے۔ 32 سالہ جد و جہد کے تناظر میں ہی 23 دسمبر 2012ء کو مینارِ پاکستان میں جلسہ عام اور بعد ازاں اسلام آباد لانگ مارچ اور دیگر عوامی اِجتماعات کا انعقاد کیا گیا۔ پاکستان عوامی تحریک موجودہ کرپٹ نظام کو مسترد کرتے ہوئے اِس کے خلاف اپنی جد و جہد جاری رکھے ہوئے ہے جو اِس ظالمانہ نظام کے زمین بوس ہونے تک جاری رہے گی (اِن شاء اﷲ)۔
اگر آپ وطنِ عزیز میں حقیقی تبدیلی چاہتے ہیں توعوام کے دشمنوں، ٹیکس چوروں، لٹیروں، جعلی ڈگری کے حامل لوگوں کا راستہ روکنے کے لیے اِس نظامِ اِنتخاب کو مسترد کرنا ہوگا جو پاکستان کی تمام بیماریوں کی جڑ اور عوام کا حقیقی دشمن ہے۔
آئیے!
اِس ظالم نظام کے خلاف منظم جد و جہد کے لیے ہمارا ساتھ دیں۔