پچھلے دنوں قسمت نے یاوری کی دنیا کی بُلند ترین تجارتی گزرگاہ جانے کا اتفاق ہوا۔اگرچہ سفر کافی مختصر تھا اور کچھ خاص بھی نہیں مزید بہت ہی کم جگہیں دیکھ پائے بہرکیف جیسا تیسا بھی ہے یاز بھائی نے حکم دیا ہے تو حال لکھنا لازم ہے۔
تو سب سے پہلے درہ خنجراب کے متعلق کچھ معلومات یاز بھائی کے تعاون سے۔۔
34177241794_8783d769ef_z.jpg

درۂ خنجراب شاہراہِ قراقرم پہ پاکستان اور چین کی سرحد پہ واقع ہے۔ شاہراہِ قراقرم جو حسن ابدال سے شروع ہوتی ہے اور چین کے شہر کاشغر تک جاتی ہے، درۂ خنجراب اس کا بلند ترین مقام ہے۔ 4693 میٹر یعنی ساڑھے پندرہ ہزار فٹ کی بلندی پہ واقع اس درے سے گزرنے والی شاہراہِ قراقرم کو دنیا کے بلند ترین پکی سڑک والے بارڈر یعنی میٹلڈ روڈ بارڈر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

محلِ وقوع:
درۂ خنجراب گلگت سے تقریبا" 260 کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے۔ جبکہ ہنزہ سے اس کی دوری 160 کلومیٹر ہے۔ ہنزہ سے آگے شاہراہِ قراقرم پہ کچھ چھوٹے چھوٹے گاؤں آتے ہیں جبکہ پسو اور سوست نام کے دو نسبتا" بڑے گاؤں یا قصبے بھی آتے ہیں۔ ان میں سے سوست سب سے آخری آبادی ہے جو کہ ہنزہ سے 80 کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے۔ سوست ہی میں کسٹم چیک پوسٹ اور ڈرائی پورٹ بھی موجود ہے۔ درۂ خنجراب سوست سے مزید 80 کلومیٹر کے فاصلے پہ ہے۔


جانے کا طریقہ کار اور قیام و طعام:
ہنزہ سے سوست تک کا سفر تقریبا" ایک سے ڈیڑھ گھنٹے کا ہے جبکہ سوست سے خنجراب تک مزید دو سے ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ اس طرح ہنزہ سے صبح چلا جائے تو خنجراب کی سیر کر کے واپس ہنزہ تک آیا جا سکتا ہے۔ اور اگر خنجراب پہ زیادہ وقت گزارنا چاہیں تو سوست میں بھی قیام کیا جا سکتا ہے۔ وہاں کچھ اچھے ہوٹیلز موجود ہیں جن میں سب سے بہتر پی ٹی ڈی سی کا موٹیل ہے۔

خنجراب تک جانے کے لئے کسی جیپ کو ہائر کر لینا سب سے بہتر ہے۔ اس کے لئے بھی سب سے بہتر تو یہی ہے کہ اگر ہنزہ سے چلنا ہے تو ہنزہ میں ہی کسی جیپ والے سے مکمل راؤنڈ ٹرپ کا بھاؤ تاؤ کر لیا جائے۔ ورنہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہنزہ سے ہائی ایس وین پہ بیٹھ کے سوست جائیں اور وہاں سے کسی جیپ یا ڈبل کیبن گاڑی کو ہائر کر کے خنجراب کا چکر لگا کے واپس آئیں اور دوبارہ سوست سے ہائی ایس وین میں ہنزہ پہنچا جائے۔ لیکن اس طریقے میں وقت کے ضیاع کا بھی خدشہ ہے اور کرایے کی مد میں خرچہ تقریبا" اتنا ہی ہو گا جتنا کہ ہنزہ سے جیپ ہائر کرنے میں ہونا تھا۔

درۂ خنجراب اور راستے کے نظارے:
ہنزہ سے سوست جاتے ہوئے بہت سی مشہور پہاڑی چوٹیاں اور گلیشیئر بھی سڑک سے ہی دیکھے جا سکتے ہیں۔ ان میں دستگل سر، بتورا پیک، شیسپر پیک، پسو پیک، کوہِ قارون، گولڈن پیک وغیرہ قابلِ ذکر نام ہیں۔

سوست سے آگے شاہراہِ قراقرم دشوار پہاڑوں میں داخل ہو جاتی ہے اور سوست سے آگے درۂ خنجراب تک 80 کلومیٹر کی تقریبا" مسلسل چڑھائی ہے۔ اگرچہ چڑھائی کافی زیادہ ہے لیکن سڑک کافی چوڑی ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کو بہت زیادہ مشکل پیش نہیں آتی۔ بس گاڑی اچھی حالت میں ہو اور اس کا انجن مطلوبہ طاقت کا ہو تو خنجراب تک جانا زیادہ مشکل نہیں ہے۔
سوست سے کچھ آگے نکلیں تو دو تین ایسے مقامات آتے ہیں جہاں مستقل طور پہ لینڈ سلائیڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ ڈرائیور یہاں سے گاڑی کو محتاط طریقے سے نکال کر لے جاتے ہیں، اور اس میں سب سے بڑی احتیاط یہی ہوتی ہے کہ پہلے وہ سر باہر نکال کے اوپر پہاڑی کی جانب دیکھتے ہیں کہ لینڈ سلائیڈنگ میں کوئی بڑا پتھر تو نہیں آ رہا، اس کے بعد گاڑی کو آگے بڑھاتے ہیں۔ بہت سے موڑوں کے بعد ایک جگہ پہ ڈرائیور گاڑی روک کے کہتے ہیں کہ اب آپ گرم جیکٹ اور ٹوپیاں وغیرہ پہن لیں کیونکہ آگے بہت سخت سردی ہو گی۔ اور اس کے فورا" بعد چڑھائی مزید سٹیپ ہو جاتی ہے۔ بہت سے موڑ مڑنے کے بعد بالآخر خنجراب ٹاپ یعنی درہ خنجراب کا بلند ترین مقام آ جاتا ہے۔ یہاں کی خوبصورتی ایسی ہے کہ پہلے تو انسان مبہوت ہو جاتا ہے۔

درۂ خنجراب ایک بہت بڑے سے نیم ہموار میدان کی شکل میں نظروں کے سامنے پھیلا ہوتا ہے۔ اردگرد کے تمام پہاڑ بالکل تازہ برف سے ڈھکے ہوتے ہیں جبکہ میدان کا بڑا حصہ بھی برف کی چادر اوڑھے ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ ساتھ بل کھاتی سڑک اس نیم میدان کے دوسرے کونے کی طرف جا کے آنکھوں سے اوجھل ہو جاتی ہے۔
یہاں شدید گرمی کے موسم میں بھی درجہ حرارت صفر ڈگری کے قریب یا اس سے نیچے ہی ہوتا ہے، اس لئے یہاں زیادہ دیر رکنے کا رسک بھی نہیں لیا جاتا جس کی ایک اور وجہ یہاں کے موسم کی بہت زیادہ نان پریڈکٹیبیلٹی ہے۔ کسی بھی وقت یہاں بادل اکٹھے ہو کر برف باری شروع ہونے میں ایک منٹ سے بھی کم وقت لگتا ہے۔

میری رائے(مطلب یاز بھائی کی) میں شمالی علاقہ جات خصوصا" گلگت اور ہنزہ جانے والے سیاحوں کو خنجراب تک ضرور جانا چاہئے۔ اس کی ایک وجہ تو اس جگہ کی بے مثال خوبصورتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ آپ کو اس اچیومنٹ کا بھی احساس ہو گا کہ آپ نے پاکستان کے پہاڑی علاقوں کو آخری سرے تک دیکھ لیا ہے۔ اور اسی کے ساتھ ساتھ شاہراہ قراقرم کا پاکستان میں موجود تمام حصہ بھی دیکھ لیا ہے۔
 
آخری تدوین:

زیک

مسافر
آپ کا سفرنامہ اور تصاویر کب آ رہی ہیں؟

درۂ خنجراب کی اونچائی انٹرنیٹ کے مطابق 4693 میٹر ہے جو آپ کی پیمائش سے کم ہے۔
 
آپ کا سفرنامہ اور تصاویر کب آ رہی ہیں؟

درۂ خنجراب کی اونچائی انٹرنیٹ کے مطابق 4693 میٹر ہے جو آپ کی پیمائش سے کم ہے۔



اور یہ اونچائی کا دورغ بہ گردن یاز بھائی ہے۔
انہوں نے یہاں اونچا ترین سفر بھی بُلندی 4733 ہی لکھی ہے۔
جبکہ اسی دھاگے میں محمد ابوبکر صاحب نے بُلندی اونچا ترین سفر 4693 میٹر ہی بتلائی ہے۔
اب مزید خلاصہ یاز بھائی ہی کرینگے ۔۔
 
سفر کا آغاز جمعرات کی شب پیرودھائی اڈے(اس سے پہلے اسلام آباد تک کی مسافت الگ ہے) سے نیٹکو بس سروس ہوا۔
بیس گھنٹے کے اس طویل سفر کا آغاز کچھ خوش گپیوں سے ہوا اور پھر نیند نے آ لیا۔ بس نے پہلا سٹاپ مانسہرہ میں کیا۔ یہاں چائے وغیرہ پی اور پھر دوبارہ بس میں سوار ہوئے اور کچھ دیر بعد دوبارہ نیند نے آ لیا۔ پھر اسی وقت ہوش آئی جب بس بشام میں رکنے کے لئے چکر کاٹ رہی تھی۔۔۔

پی ٹی ڈی سی موٹیل، بشام
34889010601_e05ed4a96a_c.jpg
 
صبح صبح کھانے کا من تو نہیں ہو رہا تھا کہ معلوم پڑا یہاں ناشتہ نیٹکو کی جانب سے ہے تو فورآ ہی بھوک چمک گئی۔
ناشتے میں پراٹھے، انڈہ اور نمک والی چائے تھی۔۔۔

34210047903_4c474aec03_c.jpg


34633439220_153f42b2e3_c.jpg
 
بشام ہوٹیل کے پچھلی طرف درختوں کے پیچھے روشنیاں کافی بھلی محسوس ہو رہی تھیں۔ لہذا فوٹوگرافی سکل کو آزمانے کا ارادہ باندھا، تو نتیجہ یہ نکلا۔
نوٹ یہ آگ نہیں لائٹس ہیں۔
34210301533_81b7b7abd6_c.jpg
 
بشام تک شاہراہ قرارم بہترین تر حالت میں جبکہ یہاں سے چلاس تک حالت ناگفتہ بہ لہذا اسی سڑک سے ہٹ کر اُوپر پہاڑوں پر (غالباً پاک چائنہ اقتصادی راہدری) کے تحت نئی سڑک بنائی جا رہی ہے۔ اسلئے جب وہاں اوپر کام ہو رہا ہوتا تو 20-30منٹ کے لئے ٹریفک روک دی جاتی تاکہ کوئی پتھر نیچے آ کر نہ لگے۔

34633397290_d3422ee22f_c.jpg
 

یاز

محفلین
آپ کا سفرنامہ اور تصاویر کب آ رہی ہیں؟

درۂ خنجراب کی اونچائی انٹرنیٹ کے مطابق 4693 میٹر ہے جو آپ کی پیمائش سے کم ہے۔

درہء خنجراب کا یہ تعارف نامہ ہم نے دس سال قبل تحریر فرمایا تھا۔ اس وقت پی ٹی ڈی سی (یعنی پاکستان ٹورزم ڈویلپمنٹ کارپوریشن) کے دستیاب لٹریچر کو ہم معلومات اور رہنمائی کا ایک بڑا اور باوثوق ذریعہ سمجھتے تھے۔ آپ ان کی ویب سائٹ اور ان کے نقشوں پہ آج بھی خنجراب کی بلندی 4733 میٹر دیکھ سکتے ہیں۔ آپ اس پیج پہ موجود درج ذیل لنک ملاحظہ کیجئے۔
New Page 1

فل سکیل نقشہ ذیلی لنک پہ دیکھئے
http://www.tourism.gov.pk/MAPS/NORTHERN_PAKISTAN.jpg

اسی نقشے کا چھوٹا ورژن

map_northern-areas-Pakistan.jpg



خیال رہے کہ ہم 4733 کو ڈیفنڈ نہیں کر رہے، بلکہ یہ عرض کرنا چاہ رہے کہ اس غلطی کا سورس پی ٹی ڈی سی تھا/ہے۔ اب ہمارے خیال میں بھی خنجراب کی بلندی 4700 سے کم ہی ہے۔ پی ٹی ڈی سی نے یہی ستم شانگلہ پاس کے ساتھ بھی کیا ہے۔ اس کی اصل بلندی 2200 میٹر کے لگ بھگ ہے، جبکہ مذکورہ بالا نقشے میں اس کی بلندی 2800 میٹر لکھی ہوئی ہے۔
دراصل اس میں ایک اہم اور تکنیکی نکتہ یہ ہے کہ کسی بھی پاس کی بلندی بیان کرنے کے لئے اس کا سب سے کم بلند حصہ دیکھا جانا چاہئے۔ سڑک یا ٹریک کا وہ سب سے بلند ترین حصہ یا مقام ہو گا جس سے گاڑی یا انسان گزرے گا۔ اب اسی جگہ سے دائیں بائیں کسی پہاڑ کی سلوپ پہ چڑھنا شروع ہو جائیں تو اس کی اونچائی کچھ زیادہ ہی ہو گی۔
خیر بلندی کا فرق اتنا زیادہ نہیں ہے جتنی ہم نے اس پہ عرق ریزی وغیرہ کر لی ہے۔
 
Top