دشمن کا فریب

دشمن کا فریب
مقصود احمد ظفر​
ایک بوڑھا سانپ جس میں چلنے پھرنے طاقت نہیں رہی تھی ایک جھیل کے قریب آہستہ آہستہ آ کر بیٹھ گیا۔ وہ بڑا پریشان اور غمگین دکھائی دے رہا تھا۔ مینڈکوں کے بادشاہ نے اسے دیکھا تو پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ اتنا دلگیر کیوں ہے؟
سانپ نے جواب دیا، "بھائی تجھے کیا؟ میں اپنی پریشانی تجھے بتا نہیں سکتا۔"
مینڈک نے کہا، "اگر تیری کوئی چیز جھیل میں گر پڑی ہے تو بتا۔ میں اپنے لشکر کو حکم دوں گا اور وہ تیری چیز کو ڈھونڈ لائیں گے۔"
سانپ نے کہا، "اے مینڈکوں کے بادشاہ! اس شہر کے سیٹھ کا ایک بہت خوبصورت لڑکا تھا۔ میں نے اسے ڈس لیا اور وہ مر گیا۔ سیٹھ نے اپنے بیٹے کے غم میں کھانا پینا چھوڑ دیا اور لوگوں سے کہنے لگا کہ میں اب گاؤں میں نہیں رہوں گا۔ میرا ایک ہی لڑکا تھا۔ میرا اب اس بستی میں کون ہے؟ میں بن باس لے لوں گا۔ یہ کہہ کر وہ خوب دھاڑیں مار مار کر رویا۔ اے مینڈک! میں نے اسی وقت دیکھا کہ ایک بزرگ مجھ سے یوں کہتے ہیں کہ تو نے ہی اس سیٹھ کے لڑکے کو کاٹا ہے۔ قیامت کے دن تیری پیٹھ پر مینڈک سوار ہوں گے اور اللہ تجھے ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔ اگر تو اس عذاب سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے تو جھیل کے کنارے چلا جا۔ وہاں بہت سارے مینڈک ہوں گے۔ ان کے بادشاہ سے کہنا کہ مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے اور اب اس کی سزا یہ ہے کہ تو اس کو گردن پر سوار کرا کے پھرائے۔"
مینڈکوں کا بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ اللہ نے مفت میں سواری عنایت کی۔ وہ اسی وقت سانپ کی گردن پر سوار ہوگیا اور کہنے لگا، "اے سانپ! فلاں جگہ میرا ایک دشمن رہتا ہے۔ مجھے وہاں تک لے چل تو میں اسے ہلاک کردوں۔"
سانپ نے کہا، "میں تیرا غلام ہوں۔ جہاں کہے گا لے چلوں گا۔"
یہ سن کر مینڈکوں کا بادشاہ بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ سب مینڈک جھیل سے باہر آجائیں اور میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ سب مینڈک جھیل کو چھوڑ کر آگے بڑھنے لگے۔ جب سانپ نے دیکھا کہ اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ اب مینڈکوں کا دوبارہ جھیل تک جانا ممکن نہیں تو اس نے کسی بہانے سے اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا۔
مینڈکوں کے بادشاہ نےپوچھا، "کیوں گر پڑے؟"
سانپ نے جواب دیا، "تیرے لشکر کو دیکھ کر مجھے بھوک لگنے لگی ہے۔ میں نے بہت ضبط کیا مگر اب بھوک برداشت نہیں ہوتی۔"
مینڈکوں کے بادشاہ نے کہا، "تجھے اجازت ہے، میرے لشکر سے دو چار مینڈک کھالے۔"
سانپ نے کہا، "اے بادشاہ! لشکر کم ہوجائے گا۔"
مینڈک بولا، "تیرے کھانے سے میری فوج کم نہیں ہوگی۔"
چناں چہ سانپ نے مینڈک کھا لیے اور پھر اس طرح روز تین مینڈک کھانے لگا۔ تھوڑے دنوں میں سب کو نگل گیا۔ ایک روز سانپ نے پوچھا، "اے بادشاہ! آج میں کیا کھاؤں؟ سخت بھوگ لگی ہوئی ہے۔"
مینڈک نے کہا، "کسی تالاب یا جھیل کے کنارے چل کر اپنا پیٹ بھر لے۔"
تب سانپ کہنے لگا، "اے بادشاہ! تیرے لشکر نے میرے پیٹ میں چھاؤنی بنا ڈالی ہے۔ بادشاہ کا اپنے لشکر سے جدا رہنا ٹھیک نہیں۔ اگر تو اپنی فوج کے پیچھے پیچھے خود بھی اس چھاؤنی میں داخل ہو تو بہت بہتر ہے۔"
مینڈک سمجھ گیا اس کی قضا آگئی۔ سانپ کے مقابلے میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ سانپ نے اپنی دم سے اپنے شہسوار کو زمین پر پٹخ کر دم کے کئی کوڑے مارے اور کھا گیا۔
(ہمدرد نونہال، اپریل ۱۹۸۸ سے لیا گیا)
 
مقدس
a3NSz.jpg
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
حق ہا۔ یہ تو ہیپی اینڈنگ نہیں ہوئی نا :(
میرا خیال ہے کہ اس سے بہتر منطقی انجام ممکن ہی نہ تھا۔ ڈڈوؤں نے بھی تو ات اٹھائی ہوتی ہے ٹر ٹر کر کے۔ ایسے سانپوں کو فروغ دینا چاہیئے اور عوامی سطح پر ان کی چالوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔
 

ناعمہ عزیز

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ اس سے بہتر منطقی انجام ممکن ہی نہ تھا۔ ڈڈوؤں نے بھی تو ات اٹھائی ہوتی ہے ٹر ٹر کر کے۔ ایسے سانپوں کو فروغ دینا چاہیئے اور عوامی سطح پر ان کی چالوں کی پذیرائی اور حوصلہ افزائی ہونی چاہیئے۔



ہمممم :rolleyes:
 
نینی بھیا ذرا اس کو اپنے لفظوں میں لکھیں ناں :rollingonthefloor:

خواجے کا فریب
ایک خواجہ جس میں چلنے پھرنے طاقت نہیں رہی تھی ایک جھیل کے قریب آہستہ آہستہ آ کر بیٹھ گیا۔ وہ بڑا پریشان اور غمگین دکھائی دے رہا تھا۔ ڈڈووں کے بادشاہ نے اسے دیکھا تو پوچھا کہ تجھے کیا ہوا؟ اتنا دلگیر کیوں ہے؟​
خواجہ نے جواب دیا، "بھائی تجھے کیا؟ میں اپنی پریشانی تجھے بتا نہیں سکتا۔"​
ڈڈو نے کہا، "اگر تیری کوئی چیز جھیل میں گر پڑی ہے تو بتا۔ میں اپنے لشکر کو حکم دوں گا اور وہ تیری چیز کو ڈھونڈ لائیں گے۔"​
خواجہ نے کہا، "اے ڈڈووں کے بادشاہ! اس شہر کے سیٹھ کا ایک بہت خوبصورت لڑکا تھا۔ میں نے اسے ڈس لیا اور وہ مر گیا۔ سیٹھ نے اپنے بیٹے کے غم میں کھانا پینا چھوڑ دیا اور لوگوں سے کہنے لگا کہ میں اب گاؤں میں نہیں رہوں گا۔ میرا ایک ہی لڑکا تھا۔ میرا اب اس بستی میں کون ہے؟ میں بن باس لے لوں گا۔"​
یہ کہہ کر وہ خوب دھاڑیں مار مار کر رویا۔ "اے ڈڈو! میں نے اسی وقت دیکھا کہ ایک بزرگ مجھ سے یوں کہتے ہیں کہ تو نے ہی اس سیٹھ کے لڑکے کو کاٹا ہے۔ قیامت کے دن تیری پیٹھ پر ڈڈو سوار ہوں گے اور اللہ تجھے ہمیشہ اسی عذاب میں مبتلا رکھے گا۔ اگر تو اس عذاب سے چھٹکارا پانا چاہتا ہے تو جھیل کے کنارے چلا جا۔ وہاں بہت سارے ڈڈو ہوں گے۔ ان کے بادشاہ سے کہنا کہ مجھ سے یہ گناہ سرزد ہوا ہے اور اب اس کی سزا یہ ہے کہ تو اس کو گردن پر سوار کرا کے پھرائے۔"​
ڈڈووں کا بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا کہ اللہ نے مفت میں سواری عنایت کی۔ وہ اسی وقت خواجہ کی گردن پر سوار ہوگیا اور کہنے لگا، "اے خواجہ! فلاں جگہ میرا ایک دشمن رہتا ہے۔ مجھے وہاں تک لے چل تو میں اسے ہلاک کردوں۔​
"خواجہ نے کہا، "میں تیرا غلام ہوں۔ جہاں کہے گا لے چلوں گا۔"​
یہ سن کر ڈڈووں کا بادشاہ بہت خوش ہوا اور حکم دیا کہ سب ڈڈو جھیل سے باہر آجائیں اور میرے پیچھے پیچھے چلیں۔ سب ڈڈو جھیل کو چھوڑ کر آگے بڑھنے لگے۔ جب خواجہ نے دیکھا کہ اتنے آگے نکل آئے ہیں کہ اب ڈڈووں کا دوبارہ جھیل تک جانا ممکن نہیں تو اس نے کسی بہانے سے اپنے آپ کو زمین پر گرا دیا۔ڈڈووں کے بادشاہ نےپوچھا، "کیوں گر پڑے؟"​
خواجہ نے جواب دیا، "تیرے لشکر کو دیکھ کر مجھے بھوک لگنے لگی ہے۔ میں نے بہت ضبط کیا مگر اب بھوک برداشت نہیں ہوتی۔"​
ڈڈووں کے بادشاہ نے کہا، "تجھے اجازت ہے، میرے لشکر سے دو چار ڈڈو کھالے۔"​
خواجہ نے کہا، "اے بادشاہ! لشکر کم ہوجائے گا۔"​
ڈڈو بولا، "تیرے کھانے سے میری فوج کم نہیں ہوگی۔"​
چناں چہ خواجہ نے ڈڈو کھا لیے اور پھر اس طرح روز تین ڈڈو کھانے لگا۔ تھوڑے دنوں میں سب کو نگل گیا۔ ایک روز خواجہ نے پوچھا، "اے بادشاہ! آج میں کیا کھاؤں؟ سخت بھوگ لگی ہوئی ہے۔"​
ڈڈو نے کہا، "کسی تالاب یا جھیل کے کنارے چل کر اپنا پیٹ بھر لے۔"​
تب خواجہ کہنے لگا، "اے بادشاہ! تیرے لشکر نے میرے پیٹ میں چھاؤنی بنا ڈالی ہے۔ بادشاہ کا اپنے لشکر سے جدا رہنا ٹھیک نہیں۔ اگر تو اپنی فوج کے پیچھے پیچھے خود بھی اس چھاؤنی میں داخل ہو تو بہت بہتر ہے۔"​
ڈڈو سمجھ گیا اس کی قضا آگئی۔ خواجہ کے مقابلے میں کر بھی کیا سکتا تھا۔ خواجہ نے اپنی دم سے اپنے شہسوار کو زمین پر پٹخ کر دم کے کئی کوڑے مارے اور کھا گیا۔​
 
Top