دعا کا بلینک چیک ۔ جاوید چوہدری

یوسف-2

محفلین
139111-JavedChaudhryNew-1371319885-737-640x480.JPG


میں نے ایک دن خواجہ صاحب سے پوچھا ’’ ہمارا نصیب اگر تحریر ہے تو پھر دعا کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے‘‘ وہ مسکرائے اور دیر تک میرے چہرے کی طرف دیکھتے رہے‘ یہ سوال زیادہ تر لوگوں کے ذہن میں اٹھتا ہے اور یہ مدت تک پریشان رہتے ہیں‘ ہماری زندگی‘ ہماری موت‘ ہماری ترقی‘ ہماری خوش حالی‘ ہماری شادی‘ ہماری اولاد‘ ہمارا رزق‘ ہماری عزت اورہمارا برا وقت اور ہمارے مسائل اگر یہ تمام چیزیں ہماری پیدائش سے قبل لوح محفوظ پر درج ہو چکی ہیں‘ اگر ابن فلاں‘ ابن فلاں اور ابن فلاں کی حیات کا ایک ایک سیکنڈ درج ہے تو پھر کوشش اور دعا کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے۔
آپ قدرت کے فیصلے کو تسلیم کیجیے‘ سر نیچے کیجیے اور صابر اورشاکر رہ کر زندگی گزار دیجیے‘ آپ کو نماز کے دوران‘ درگاہوں میں‘ ذکر اذکار کے بعد اور خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں گڑ گڑا کر دعا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟ آپ کو آنکھوں میں آنسو بھر کر‘ بھرائی ہوئی آواز میں اپنے خالق‘ اپنے رب کو آواز دینے کی کیا ضرورت ہے؟ یہ سوال ہر ذہن میں اٹھتا ہے مگر زیادہ تر لوگ گستاخی اور خوف کی وجہ سے خاموش رہتے ہیں‘ میں بھی اس سوال کا جواب چاہتا تھا‘ خواجہ صاحب ایک دن تشریف لائے تو میں نے ڈرتے ڈرتے یہ سوال ان کے سامنے رکھ دیا۔
وہ مسکرائے اور میرے چہرے کو دیر تک دیکھتے رہے اور اس کے بعد فرمایا ’’ اللہ کا سسٹم دو حصوں میں تقسیم ہے‘ ایک حصہ فائنل ہے اور دوسرا حصہ آپشنل‘ فائنل سب کے لیے مشترکہ ہوتا ہے مثلاً دنیا کا ہر ذی روح پیدا ہوتا ہے اور مرتا جاتا ہے‘ دنیا کے ہر انسان کو ہوا‘ خوراک اور روشنی چاہیے‘ گرمی اور سردی نبی کو بھی لگتی ہے اور اگر پتھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو بھی لگیں گے تو خون بہے گا‘ پتھر لگے تو دندان مبارک شہید ہوں گے‘ غم آئے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہو گا‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ڈر اور خوف کا احساس ہو گا اور ولی بھی اس سے مکمل رہائی نہیں پا سکے گا‘ درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ سے اوپر جائے گا تو ہر جاندار کی سروائیول خطرے میں پڑ جائے گی‘ پانی آپ کو بھی چاہیے اور نبی کو بھی‘ کھانا آپ کو بھی درکار ہے اور نبی کو بھی‘ آکسیجن آپ کے لیے بھی ضروری ہے اور نبی کے لیے بھی اور روشنی ہم سب کو بھی چاہیے اور نبی کو بھی‘ اللہ کے سسٹم میں مشرق‘ مشرق رہتا ہے اور مغرب‘ مغرب اور اللہ تعالیٰ یہ سسٹم کسی کے لیے تبدیل نہیں کرتا‘ ہم سب اس سسٹم کو فائنل جان کر اس کے ساتھ سمجھوتے پر مجبور ہوتے ہیں جب کہ دوسرا حصہ آپشنل ہے‘ یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی نوازشات پر مبنی ہے‘ اللہ رزق ہر جاندار کو دیتا ہے۔
یہ فائنل ہے لیکن اس رزق کی کوالٹی اور کوانٹٹی کیا ہوگی‘ یہ اللہ کی خصوصی نوازش میں آتا ہے‘ ایک انسان گاؤں میں نہر کے کنارے پانی میں بہتا ہوا تربوز توڑتا ہے اورخول میں منہ ڈال کرتربوز کھا جاتا ہے‘ یہ رزق ہے‘ دوسرے انسان کو فائیو اسٹار ہوٹل میں باوردی بیرا‘ انتہائی شاندار ماحول میں‘ قیمتی ڈائننگ ٹیبل پر اور چمکتی سفید پلیٹ میں تربوز پیش کرتا ہے اور وہ فرانس کے کانٹے کے ساتھ تربوز کی قاشیں کھاتا ہے‘ یہ اللہ کی مہربانی‘ یہ اس کی نوازش ہوتی ہے‘ ایک شخص بدن پر چیتھڑے لپیٹ کر گاؤں کے جوہڑ میں نہاتا ہے اور پانی سے باہرآتا ہے تو اس کے جسم پر غلاظت لگی ہوتی ہے اور دوسرا فائیو اسٹار ہوٹل کے سوئمنگ پول میں صاف پانی میں غوطہ زنی کرتا ہے اور یہ جب پانی سے باہر آتا ہے تو اسے گرم تولیہ اور سفید گاؤن پیش کیا جاتا ہے‘ یہ اللہ کی نوازش‘ یہ اللہ کی مہربانی ہوتی ہے‘ ایک شخص رزق‘ دولت اور ضرورت کے لیے در در بھیک مانگتا ہے جب کہ دوسرا شخص کاغذ پر دستخط کر تا ہے اور درجنوں غریب امیر ہو جاتے ہیں‘ ان پر زندگی کی خوشیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں‘ ان کی اندھیری زندگی چمک اٹھتی ہے‘ یہ اللہ کی خصوصی نوازش‘ خصوصی کرم ہوتا ہے‘ ہم سب بیمار ہوتے ہیں‘ ہمیں چوٹ لگتی ہے اور ہم لوگ مسائل میں الجھ جاتے ہیں مگر ہم میں سے کچھ لوگ جلد صحت یاب ہو جاتے ہیں‘ کچھ لوگوں کے درد جلد ختم ہو جاتے ہیں اور کچھ لوگوں کے مسائل بہت جلد حل ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ ان پر اللہ کا خصوصی کرم‘ اللہ کی خصوصی نوازش ہوتی ہے‘ یہ آپشنل ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آپشن کے لیے دو طریقے وضع کیے ہوئے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے عرض کیا ’’ وہ طریقے کیا ہیں‘‘ خواجہ صاحب نے فرمایا ’’ اللہ کی مخلوق پر مہربانی اور اللہ کے حضور دعا‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھنے لگا‘ وہ بولے ’’ آپ اگر اللہ کے نادار بندوں کے لیے کام کر رہے ہیں‘ آپ ان کی مشکلیں آسان کر رہے ہیں اور ان کے دکھ درد میں کام آ رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ پر اپنی نوازشات کے دروازے کھول دیتا ہے اور آپ کا تعلق خواہ کسی بھی مذہب‘ کسی بھی طبقے‘ کسی بھی گھرانے سے ہو آپ اللہ کی مہربانی کے حق دار ہو جاتے ہیں‘آپ کے لیے زندگی کی تمام نعمتیں دستیاب ہو جاتی ہیں‘ آپ اس معاملے میں یورپ اور امریکا کے ارب پتیوں کی مثال لے سکتے ہیں‘ بل گیٹس پر اللہ کا کرم ہے‘ کیوں؟ کیونکہ اس نے انسان کی زندگی کو آسان بنا دیا‘ اس نے انسان کو پرسنل کمپیوٹر دے دیا‘ یہ پولیو کی ویکسین بنوا کر پوری دنیا کو مفت فراہم کر رہا ہے‘ پاکستان اور افغانستان کے بچوں کو بھی بل گیٹس کی عطیہ کردہ ویکسین پلائی جاتی ہے‘ اللہ تعالیٰ نے انسانیت پر اس مہربانی کے بدلے میں بل گیٹس کے لیے اپنی نوازشات کے گیٹس کھول دیے‘ دوسرا طریقہ دعا ہے‘ ہم لوگ جب اپنے خالق سے زندگی‘ رزق‘ غربت‘ صحت‘ سکون‘ شہرت اور اختیار کے لیے دعا کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور ہم پر اپنی نوازشات کے دروازے کھول دیتا ہے‘ ہم اگر اس کا رحم‘ اس کا کرم چاہتے ہیں تو پھر ہمیں اس سے مانگنا ہو گا‘ ہمیں اس سے طلب کرنا ہوگا‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔
میں نے عرض کیا ’’ کیا اللہ تعالیٰ کی نوازشات کے دروازے مکمل بند ہوتے ہیں اور ہم جب مانگتے نہیں یہ دروازے نہیں کھلتے‘‘ وہ مسکرائے اور جواب دیا ’’ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کی کم ترین ضروریات طے کر رکھی ہیں‘ یہ پتھر کے اندر کیڑے کو ہوا‘ پانی اور خوراک پہنچاتا ہے‘ یہ ریشم کے کیڑے کو ’’کو کون‘‘ کے اندر ضرورت کے مطابق رزق دیتا ہے‘ یہ آگ کے کیڑوں کو بھی خوراک دے رہا ہے اور یہ سمندر کی تہوں میں قید میل میل لمبی مچھلیوں کو بھی رزق دیتا ہے لیکن یہ مچھلی اللہ کی نوازش کے بغیر سطح آب پر نہیں آسکتی‘ ریشم کا کیڑا اس کی مہربانی ہی سے ’’کو کون‘‘ سے باہر جھانک سکے گا اور آگ اور پتھر کے کیڑوں کو بھی اس کی نوازش کے بعد ہی باہر نکلنے کی توفیق ملے گی اور زندگی کا یہ مرحلہ صدقے اور دعا سے طے ہوتا ہے‘ صدقہ اللہ کی رضا کے لیے اس کی مخلوق پر مہربانی ہوتا ہے جب کہ دعا اللہ سے مانگنا‘ اللہ سے طلب کرنا ہوتی ہے‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے عرض کیا ’’ حضور دماغ کی ابھی ساری گرہیں نہیں کھلیں‘‘ خواجہ صاحب نے قہقہہ لگایا اور بولے ’’ ہم لوگ جب پیدا ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ نوازشات کی چیک بک سے ایک چیک کاٹ کر ہماری جیب میں ڈال دیتا ہے‘ اس چیک پر اللہ کی منظوری کی مہر لگی ہوتی ہے بس اماؤنٹ اور موڈ آف پے منٹ کا خانہ خالی ہوتا ہے‘ اماؤنٹ اور موڈ آف پے منٹ کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا پڑتی ہے اور ہم جوں جوں اس سے مانگتے جاتے ہیں وہ اماؤنٹ کی جگہ پر ہندسے بڑھاتا جاتا ہے یہاں تک کہ چیک کیش ہونے کا وقت آ جاتا ہے اور ہم نہال ہو جاتے ہیں‘‘ میں نے عرض کیا ’’ مگر ہماری ہر دعا قبول نہیں ہوتی‘‘ انھوں نے فرمایا ’’د عائیں بھی دو قسم کی ہوتی ہیں‘ ایک وہ جن کے ہم اہل ہیں اور دوسری وہ جن کے لیے ہم کوالی فائی نہیں کرتے‘ مثلاً امتحان میں پاس وہی ہو گا جس نے امتحان دیا ہوگا اور اولاد اسے ہی ملے گی جس نے شادی کی ہوگی‘ ہم اگر امتحان دیے بغیر پاس ہونے کی دعا کریں گے تو ہماری یہ دعا قبول نہیں ہوگی کیونکہ ہم اس کے لیے کوالی فائی نہیں کرتے اور ہم اگر نتائج کے لیے کوالی فائی نہیں کرتے تو اللہ تعالیٰ دعا کی قبولیت تھوڑے عرصے کے لیے مؤخر کر دیتا ہے‘ یہ ہمیں پہلے امتحان میں بیٹھنے کی توفیق دیتا ہے اور اس کے بعد پاس کر دیتا ہے اور اگر یہ ممکن نہ ہو تو یہ ہمارے خاندان‘ ہماری نسل اور ہمارے دوستوں میں سے ایسے لوگوں کا انتخاب کرتا ہے جو ہماری دعاؤں کے لیے کوالی فائی کرتے ہیں‘ اللہ تعالیٰ ہماری دعاؤں کے نتائج ان کے کھاتے میں ڈال دیتا ہے اور یوں ہماری دعاؤں کا فائدہ ان لوگوں کے ذریعے ہم تک پہنچ جاتا ہے‘ ہماری دعاؤں کا چیک بعض اوقات ہماری اولاد بھی کیش کرا لیتی ہے‘ اللہ تعالیٰ ہماری سن لیتا ہے اور ہماری اولاد کو ہماری دعاؤں کے نتائج کے لیے کوالی فائی کر دیتا ہے اور یوں ہم اپنی اولاد کو خوش حال‘ باعزت اور باختیار ہوتے دیکھتے ہیں‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔ (بشکریہ روزنامہ ایکسپریس 15 جون 2013ء)
 
اچھی کھچڑی پکائی ہے۔۔۔
محمود احمد غزنوی صاحب دیکھ لیں جب انسان اپنے آپ سے کوئی بات بیان کرتا ہے اور نام خواجگان کا لیتا ہے تو ایسی ہی ٹیڑھی کھیر بنتی ہے۔ قدر کی مقادیر اُس قسام ازل نے شروع سے مقدر فرمادی تھیں اب اس کے سمجھنے اور بیان کا مسئلہ ہے ۔ آج تک کوئی عالم اور پیر اس کو بیان نہین کرسکا ہے ۔ سنا ہے غوث الاعظم دستگیر قدس سرہ العزیز نے اس کی شرح فرمائی تھی لیکن وہ شرح بندہ کی نظر سے نہیں گزر سکی ہے اور میں نے کسی عالم اور پیر طریقت کے تبحر علمی کی جانچ کا یہی ایک قاعدہ رکھا ہوا ہے۔ آج تک کوئی بھی اس مسئلہ کو نہ سمجھا سکا ہے۔
مجھ سے کئی پیر طریقت حضرات نے پوچھا کہ آپ وضاحت کریں لیکن میں مسکرا کر خاموش ہوجاتا ہوں۔
 

نایاب

لائبریرین
ھذا من فضل ربی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بے ایمانی رشوت ستانی کے بل پر بنی عمارت پر روشن لفظوں سے لکھا گیا یہ جملہ آج سمجھ آیا کہ یہ تو " اللہ کی مہربانی " ہے ۔۔
اللہ نے بھی دو نظام تقسیم رزق بنا کر نبیوں تک کو پیٹ پر پتھر بندھوا دیئے ۔۔۔۔ اور اپنی مہربانی ان کے جھٹلانے والوں کے نام کی۔۔
عجب ہی تشریح کی قضا و قدر کے فلسفے کی محترم خواجہ صاحب نے

اللہ کا سسٹم دو حصوں میں تقسیم ہے‘ ایک حصہ فائنل ہے اور دوسرا حصہ آپشنل‘ فائنل سب کے لیے مشترکہ ہوتا ہے مثلاً دنیا کا ہر ذی روح پیدا ہوتا ہے اور مرتا جاتا ہے‘ دنیا کے ہر انسان کو ہوا‘ خوراک اور روشنی چاہیے‘ گرمی اور سردی نبی کو بھی لگتی ہے اور اگر پتھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کو بھی لگیں گے تو خون بہے گا‘ پتھر لگے تو دندان مبارک شہید ہوں گے‘ غم آئے گا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو محسوس ہو گا‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی ڈر اور خوف کا احساس ہو گا اور ولی بھی اس سے مکمل رہائی نہیں پا سکے گا‘ درجہ حرارت پچاس سینٹی گریڈ سے اوپر جائے گا تو ہر جاندار کی سروائیول خطرے میں پڑ جائے گی‘ پانی آپ کو بھی چاہیے اور نبی کو بھی‘ کھانا آپ کو بھی درکار ہے اور نبی کو بھی‘ آکسیجن آپ کے لیے بھی ضروری ہے اور نبی کے لیے بھی اور روشنی ہم سب کو بھی چاہیے اور نبی کو بھی‘ اللہ کے سسٹم میں مشرق‘ مشرق رہتا ہے اور مغرب‘ مغرب اور اللہ تعالیٰ یہ سسٹم کسی کے لیے تبدیل نہیں کرتا‘ ہم سب اس سسٹم کو فائنل جان کر اس کے ساتھ سمجھوتے پر مجبور ہوتے ہیں جب کہ دوسرا حصہ آپشنل ہے‘ یہ حصہ اللہ تعالیٰ کی نوازشات پر مبنی ہے‘ اللہ رزق ہر جاندار کو دیتا ہے۔
یہ فائنل ہے لیکن اس رزق کی کوالٹی اور کوانٹٹی کیا ہوگی‘ یہ اللہ کی خصوصی نوازش میں آتا ہے‘ ایک انسان گاؤں میں نہر کے کنارے پانی میں بہتا ہوا تربوز توڑتا ہے اورخول میں منہ ڈال کرتربوز کھا جاتا ہے‘ یہ رزق ہے‘ دوسرے انسان کو فائیو اسٹار ہوٹل میں باوردی بیرا‘ انتہائی شاندار ماحول میں‘ قیمتی ڈائننگ ٹیبل پر اور چمکتی سفید پلیٹ میں تربوز پیش کرتا ہے اور وہ فرانس کے کانٹے کے ساتھ تربوز کی قاشیں کھاتا ہے‘ یہ اللہ کی مہربانی‘
 
Top