مذہب کے بارے میں دورِ جدید میں جو تاثر اٹھا ہے اس کی نوعیت کچھ اس طرح وضع ہوتی ہےکہ مذہب موجودہ دور کے علمی اور عملی مسائل کا سامنا کرنے سے قاصر ہے۔ وہ اپنے طرز استدلال اور عملی ڈھانچے کے ساتھ، اگر کسی زمانے کی عقلوں کو مطمئن کر سکتا تھا تو اب وہ اس پوزیشن میں نہیں ہے، اس لیے کہ زمانہ علم اور عمل کے میدان میں بہت آگے نکل چکا ہے۔
چنانچہ موجودہ زمانے میں مذہب کے لیے یہ بات ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آئی۔ بطور خاص یہ بات مذہب کے خلاف بہت شد و مد سے کہی جا رہی تھی کہ مذہب دور جدید کے اجتماعی مسائل اور مشکلات کو حل نہیں کر سکتا۔ مذہب میں اجتماعی نظام کا کوئی قابل عمل تصور نہیں اور یہ فرد کی انفرادی زندگی میں کچھ عقیدے اور عبادات کو رائج کرنے کے سوا کسی اور خدمت کے قابل نہیں۔
ہمارے مذہبی علما کی بڑی تعداد اس صورت حال سے بے خبر رہی۔ اہل مذہب کا بڑا طبقہ دین تصوف کے غلبے کے باعث سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے ایک زمانے سے غیر متعلق ہو چکا تھا۔ چنانچہ عام آدمی مغربی فکر و فلسفہ اور نظام زندگی کی چکا چوند کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ گیا تھا اور خواہی نہ خواہی اہل مغرب ہی کی روش کو ہر معاملے میں قابل عمل سمجھا جانے لگا۔
اس چیلنج کی روز افزوں شدت نے مذہب کے بارے میں ایک نئے رحجان کو پروان چڑھایا، کہیں عقائد میں ترمیم کر کے اور کہیں احکامات کی صورت یا اہمیت میں تبدیلی کے ذریعے سے مذہب کو پیش کرنے کے قابل بنایا گیا۔
بعض لوگ اس کوشش میں یہاں تک پہنچے کہ اشتراکیت اور اسلام میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ انھوں نے قرآن و سنت کی ہر چیز کو قطع و برید کر کے حسب منشا صورت دے دی۔ قرآن کے معنی و مدعا کو بدل دینے کے لیے اگر لغت و تاویل کے نئے قواعد بھی تراشنا پڑے ہیں تو وہ رکے نہیں۔ اگر احادیث سے پیچھا چھڑانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملا ہے تو انھوں نے حدیث کے حجت ہونے ہی سے انکار کر دیا۔ اتباع سنت کا قلادہ اتارا اور ''نظام قرآنی '' کے فرماں روا کو حتمی اختیار دے کر نئے معیار کے مطابق دین بنانے کا پروانہ دے دیا۔
بعض لوگ اس انتہا تک تو نہیں پہنچے، لیکن ان کے ہاں بھی دین کے ایک نظام زندگی ہونے کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔ انھوں نے دنیا میں دین کے نصب العین کی حیثیت دین کے سیاسی غلبے کو دی، چنانچہ اس نقطہ نظر کو اپنانے کے بعد انفرادی زندگی سے متعلق دین کی ہدایات، یعنی قلبی اور داخلی پہلو بہت کچھ دب گیا۔ البتہ اس طرز فکر سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد بڑھا اور وہ اسے اپنا کر حوصلے کے ساتھ معاشرے میں کھڑے ہونے کے قابل ہوئے۔ ایک جد و جہد کے نتیجے میں، بالآخر، ان لوگوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی جو دین کو قصہ پارینہ بنا دینے کی جسارت کر رہے تھے۔ تاہم، جیسا کہ عرض کیا ہے، اس تصور کے ساتھ دین کے داخلی پہلو کی اہمیت قدرے کم ہو گئی اور دین کے مجموعی ڈھانچے میں بھی ایک نوع کا عدم توازن محسوس ہونے لگا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین صرف انفرادی زندگی میں نہیں، اجتماعی زندگی میں بھی خاص فکری او رعملی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا اصل مخاطب فرد ہے، اس کا نصب العین تزکیہ نفس ہے اور اس کی اصل دعوت فلاح اخروی کی دعوت ہے۔ فرد اکیلا ہو، کسی معاشرے کا جز ہو یا کسی ملک کا شہری ہو، اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خدا کی فرماں برداری کرنی ہے۔ یہی اقامت دین ہے۔ اسی میں اس کی فلاح ہے اور یہی تصور دین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ بلکہ صحیح دین ہی یہی ہے ۔
( بشکریہ محترم طالب حسین )
چنانچہ موجودہ زمانے میں مذہب کے لیے یہ بات ایک چیلنج کی صورت میں سامنے آئی۔ بطور خاص یہ بات مذہب کے خلاف بہت شد و مد سے کہی جا رہی تھی کہ مذہب دور جدید کے اجتماعی مسائل اور مشکلات کو حل نہیں کر سکتا۔ مذہب میں اجتماعی نظام کا کوئی قابل عمل تصور نہیں اور یہ فرد کی انفرادی زندگی میں کچھ عقیدے اور عبادات کو رائج کرنے کے سوا کسی اور خدمت کے قابل نہیں۔
ہمارے مذہبی علما کی بڑی تعداد اس صورت حال سے بے خبر رہی۔ اہل مذہب کا بڑا طبقہ دین تصوف کے غلبے کے باعث سماجی، سیاسی اور معاشرتی مسائل سے ایک زمانے سے غیر متعلق ہو چکا تھا۔ چنانچہ عام آدمی مغربی فکر و فلسفہ اور نظام زندگی کی چکا چوند کے سامنے بالکل بے بس ہو کر رہ گیا تھا اور خواہی نہ خواہی اہل مغرب ہی کی روش کو ہر معاملے میں قابل عمل سمجھا جانے لگا۔
اس چیلنج کی روز افزوں شدت نے مذہب کے بارے میں ایک نئے رحجان کو پروان چڑھایا، کہیں عقائد میں ترمیم کر کے اور کہیں احکامات کی صورت یا اہمیت میں تبدیلی کے ذریعے سے مذہب کو پیش کرنے کے قابل بنایا گیا۔
بعض لوگ اس کوشش میں یہاں تک پہنچے کہ اشتراکیت اور اسلام میں فرق کرنا مشکل ہو گیا۔ انھوں نے قرآن و سنت کی ہر چیز کو قطع و برید کر کے حسب منشا صورت دے دی۔ قرآن کے معنی و مدعا کو بدل دینے کے لیے اگر لغت و تاویل کے نئے قواعد بھی تراشنا پڑے ہیں تو وہ رکے نہیں۔ اگر احادیث سے پیچھا چھڑانے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملا ہے تو انھوں نے حدیث کے حجت ہونے ہی سے انکار کر دیا۔ اتباع سنت کا قلادہ اتارا اور ''نظام قرآنی '' کے فرماں روا کو حتمی اختیار دے کر نئے معیار کے مطابق دین بنانے کا پروانہ دے دیا۔
بعض لوگ اس انتہا تک تو نہیں پہنچے، لیکن ان کے ہاں بھی دین کے ایک نظام زندگی ہونے کا پہلو بہت نمایاں ہو گیا۔ انھوں نے دنیا میں دین کے نصب العین کی حیثیت دین کے سیاسی غلبے کو دی، چنانچہ اس نقطہ نظر کو اپنانے کے بعد انفرادی زندگی سے متعلق دین کی ہدایات، یعنی قلبی اور داخلی پہلو بہت کچھ دب گیا۔ البتہ اس طرز فکر سے یہ فائدہ ضرور ہوا کہ لوگوں کا اپنے دین پر اعتماد بڑھا اور وہ اسے اپنا کر حوصلے کے ساتھ معاشرے میں کھڑے ہونے کے قابل ہوئے۔ ایک جد و جہد کے نتیجے میں، بالآخر، ان لوگوں کو ہزیمت اٹھانا پڑی جو دین کو قصہ پارینہ بنا دینے کی جسارت کر رہے تھے۔ تاہم، جیسا کہ عرض کیا ہے، اس تصور کے ساتھ دین کے داخلی پہلو کی اہمیت قدرے کم ہو گئی اور دین کے مجموعی ڈھانچے میں بھی ایک نوع کا عدم توازن محسوس ہونے لگا۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ دین صرف انفرادی زندگی میں نہیں، اجتماعی زندگی میں بھی خاص فکری او رعملی تبدیلیاں پیدا کرتا ہے، لیکن اس کا اصل مخاطب فرد ہے، اس کا نصب العین تزکیہ نفس ہے اور اس کی اصل دعوت فلاح اخروی کی دعوت ہے۔ فرد اکیلا ہو، کسی معاشرے کا جز ہو یا کسی ملک کا شہری ہو، اسے انفرادی اور اجتماعی زندگی میں خدا کی فرماں برداری کرنی ہے۔ یہی اقامت دین ہے۔ اسی میں اس کی فلاح ہے اور یہی تصور دین کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے ۔ بلکہ صحیح دین ہی یہی ہے ۔
( بشکریہ محترم طالب حسین )