مہدی نقوی حجاز
محفلین
(یہ میرے ناول "نابالغ معاشقے" سے دوسرا اقتباس ہے۔ پہلا یہاں موجود ہے: پہلا معاشقہ)
جب ہم نے گھر تبدیل کیا تو مجھے نئے ماحول میں بہت اجنبیت محسوس ہوئی، لیکن جلد ہی پڑوسی بچوں سے ہماری گاڑھی چھننے لگی۔ جس کی مجھے اب تین وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ ایک تو ہماری جنگ جویانہ طبیعت، ہمارا برصغیر، یا ان کے نزدیک ہند سے تعلق اور ہماری سانولی رنگت۔ ان دنوں یہ معمول تھا کہ میں اور محلے کے دیگر چار پانچ بچے سہ پہر کو سائکل چلانے نکلتے۔ ہم میں ایک ہم عمر لڑکی بھی شامل تھی جو عین میرے پڑوس میں رہتی تھی۔ اس لڑکی سے میرا ایک خاص روحانی معاملہ ہو گیا تھا۔ گو آپ محبت کہہ لیجیے۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں، گو کہ اس بالی عمر میں یہی کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے، لیکن شرم بھی بہت آتی تھی اور اس سے گھبراتا بھی بہت تھا۔ اس سے آگے حواس باختہ ہو کر اکثر مجھ سے نامعقول حرکتیں سرزد ہو جاتی تھیں۔ اور ساتھ ہی اس شریف زادی کو بھی ہم سے بہت حیا آتی تھی! بات تو خیر روز ہی ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھی لیکن ایک باقائدہ گفتگو اور گپ شپ کا سلسلہ تب شروع ہوا جب ہم نے ایک دوسرے کو لطیفے سنانے شروع کیے۔ اللہ جانے یہ اس زمانے اور ماحول کی کیا عجیب فینٹسی تھی! میں سارا دن اسکول میں لڑکوں سے نت نئے لطیفے سیکھتا، کچھ خود گھڑتا اور کچھ کتابوں رسالوں اور ماہناموں میں سے ڈھونڈتا تا کہ شام کو بات چیت کا سلسلہ طویل تر رہے۔
اس عمر میں بھی مجھ پر حسن کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ لطیفہ سناتی تو میں یہاں وہاں دیکھنے لگ جاتا۔ ہمارے گھروں کے درمیان ایک پیڑ تھا، کس چیز کا تھا یہ اب یاد نہیں رہا، لیکن پیڑ تھا۔ یہ اس لیے اتنے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے اس پیڑ کے دونوں جانب کھڑے ہو کر گفتگو کی اور لطیفے سنائے۔ میں اپنے گھر کی طرف پیڑ کے ایک حصے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ عین میرے پیچھے پیڑ کے اس طرف اپنے گھر کے پاس اسی درخت سے لگ کر کھڑی ہو جاتی۔ ایک بار اسی طرح جب میں اس کے معصوم حسن کی تاب نہ لا کر اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹائے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا تو اس نے لطیفہ سناتے سناتے اچانک ٹھٹک کر پوچھا۔
”تم سنتے کیوں نہیں؟“
اس پر میں نے انتہائی معصومانہ جواب دیا،
”سنتے تو کان سے ہیں، تم سناؤ“
ہم نے دو سال کی مدت میں کبھی محبت کا اعتراف نہیں کیا لیکن ہم دونوں کو یہ بات بہت اچھے سے معلوم ہو چکی تھی کہ ہم (بزعم خود) ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے ہیں۔ اور صرف ہمیں ہی نہیں محلے کے تمام بچوں کو اس کی خبر ہو گئی تھی۔ یہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سائکل چلاتے ہوئے سارے لڑکے اکثر یہ نعرہ لگایا کرتے کہ: سرخ پوست عاشقِ سفید پوست شدہ۔ جسکا مطلب ہے یہ سانولا جس سے ان کی مراد ہندی یا پاکستانی ہوتی تھی، ایک گوری یعنی ایرانی کا عاشق ہو گیا ہے۔
اواخر میں ہم بہت دور دور تک سائکلوں پر باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے اور نئی نئی جگہیں دریافت کرتے تھے۔ ہم دور دور کی پوشیدہ چڑھائیاں ڈھونڈتے تھے اور آ کر دوسروں کو ان کے بارے میں بتاتے تھے کہ فلاں جگہ اتنی اونچی چڑھائی ہے تو کل وہاں جائیں گے سائکل چلانے۔
جب اس کے ابا کبھی ہم دونوں کو ساتھ کہیں گھمانے لے جاتے یا اپنی گاڑی میں چھوڑنے جایا کرتے تو وہ ابا کے آگے بیٹھنے پر اصرار کے باوجود، میرے برابر میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا کرتی اور ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے گھڑے ہوئے لطیفے سنایا کرتے تھے، جو اکثر بے نمک ہوتے۔ لیکن ہمارے بیچ یہ ایک ناگفتہ معاہدہ تھا کہ کچھ بھی ہو، لطیفے پر ہنسنا ضروری ہے، ورنہ سنانے والا سخت ناراض ہونے کا مستحق ہوگا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس کے گلے پر چمک کے کچھ ذرات موجود تھے، جو بہت غور سے دیکھنے پر نظر آ رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے اچانک وہ ذرات صاف کرنے کے لیے اس کے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے گھبرا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر کچھ لمحوں بعد اپنے آپ کو بڑے اعتبار سے میرے حوالے کر دیا۔ جب میں نے اس کے گلے پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اپنا سر جھکا کر اپنا رخسار میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور ٹکٹکی باندھ کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ اس کی اس ادا پر مجھے بےطرح پیار آیا اور میں نے فرطِ جذبات میں بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی۔ اور اس نے اپنے بال کھول لیے۔
اس مکان میں ہم دو سال رہے اور اس کے بعد دوبارہ پرانے گھر میں منتقل ہو گئے۔ آخری دو تین دنوں میں وہ اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں رکنے گئی تھی لہٰذا ہماری الوداعی ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد میں کئی برس ایران کے اسی شہر میں رہا، اور مختلف بہانوں سے اس گلی میں جاتا بھی رہا لیکن وہ پھر نظر نہ آئی۔ سوچتا ہوں کہ اس بار جب ایران گیا تو اسے ڈھونڈ کر اس سے ضرور ملوں گا۔ دیکھوں گا کہ اتنے برسوں بعد بڑی ہو کر کیسی ہو گئی ہے اور کس حال میں ہے۔ وہ شاید اب مجھے پہچانے بھی نہیں، لیکن اس کو یہ جاننا چاہیے کہ شاید اس کے ساتھ لطیفے گھڑنے کی مشق کرتے کرتے میں ایک لکھاری بن گیا، اور زندگی میں جو کچھ پایا اب تک اور پا رہا ہوں، وہ تمام اسی کی دین ہے! اس محلے کے لڑکوں نے کیا ہی سچا فقرہ کسا تھا۔
سرخ پوست عاشقِ سفید پوست شدہ!
-
مہدی نقوی حجازؔ
دوسرا معاشقہ
ہر انسان کی سائکل چلانے کی ایک عمر ہوتی ہے۔ ہماری یہ عمر اور شوق بھی ایران میں ہی پورے ہوئے۔ میرا ایک معاشقہ اسی شوق سے منسوب ہے۔ گرچہ اس معاشقے کی بہت کم تفصیلات یاد رہی ہیں، لیکن میں اسے اب بھی ایک خوش گوار تجربہ شمار کرتا ہوں۔ دراصل کسی بھی تجربے کی دلنشینی اس کے کرداروں پر موقوف ہوتی ہے۔
جب ہم نے گھر تبدیل کیا تو مجھے نئے ماحول میں بہت اجنبیت محسوس ہوئی، لیکن جلد ہی پڑوسی بچوں سے ہماری گاڑھی چھننے لگی۔ جس کی مجھے اب تین وجوہات سمجھ آتی ہیں۔ ایک تو ہماری جنگ جویانہ طبیعت، ہمارا برصغیر، یا ان کے نزدیک ہند سے تعلق اور ہماری سانولی رنگت۔ ان دنوں یہ معمول تھا کہ میں اور محلے کے دیگر چار پانچ بچے سہ پہر کو سائکل چلانے نکلتے۔ ہم میں ایک ہم عمر لڑکی بھی شامل تھی جو عین میرے پڑوس میں رہتی تھی۔ اس لڑکی سے میرا ایک خاص روحانی معاملہ ہو گیا تھا۔ گو آپ محبت کہہ لیجیے۔ میرا بہت جی چاہتا تھا کہ اس سے بات کروں، گو کہ اس بالی عمر میں یہی کچھ کرنے کو جی چاہتا ہے، لیکن شرم بھی بہت آتی تھی اور اس سے گھبراتا بھی بہت تھا۔ اس سے آگے حواس باختہ ہو کر اکثر مجھ سے نامعقول حرکتیں سرزد ہو جاتی تھیں۔ اور ساتھ ہی اس شریف زادی کو بھی ہم سے بہت حیا آتی تھی! بات تو خیر روز ہی ہلکی پھلکی ہوا کرتی تھی لیکن ایک باقائدہ گفتگو اور گپ شپ کا سلسلہ تب شروع ہوا جب ہم نے ایک دوسرے کو لطیفے سنانے شروع کیے۔ اللہ جانے یہ اس زمانے اور ماحول کی کیا عجیب فینٹسی تھی! میں سارا دن اسکول میں لڑکوں سے نت نئے لطیفے سیکھتا، کچھ خود گھڑتا اور کچھ کتابوں رسالوں اور ماہناموں میں سے ڈھونڈتا تا کہ شام کو بات چیت کا سلسلہ طویل تر رہے۔
اس عمر میں بھی مجھ پر حسن کی اتنی ہیبت تھی کہ جب وہ لطیفہ سناتی تو میں یہاں وہاں دیکھنے لگ جاتا۔ ہمارے گھروں کے درمیان ایک پیڑ تھا، کس چیز کا تھا یہ اب یاد نہیں رہا، لیکن پیڑ تھا۔ یہ اس لیے اتنے وثوق سے کہہ رہا ہوں کہ کئی مرتبہ ایسا بھی ہوا کہ ہم نے اس پیڑ کے دونوں جانب کھڑے ہو کر گفتگو کی اور لطیفے سنائے۔ میں اپنے گھر کی طرف پیڑ کے ایک حصے سے ٹیک لگا کر کھڑا ہو جاتا اور وہ عین میرے پیچھے پیڑ کے اس طرف اپنے گھر کے پاس اسی درخت سے لگ کر کھڑی ہو جاتی۔ ایک بار اسی طرح جب میں اس کے معصوم حسن کی تاب نہ لا کر اس کے چہرے پر سے نظریں ہٹائے اطراف کا جائزہ لے رہا تھا تو اس نے لطیفہ سناتے سناتے اچانک ٹھٹک کر پوچھا۔
”تم سنتے کیوں نہیں؟“
اس پر میں نے انتہائی معصومانہ جواب دیا،
”سنتے تو کان سے ہیں، تم سناؤ“
ہم نے دو سال کی مدت میں کبھی محبت کا اعتراف نہیں کیا لیکن ہم دونوں کو یہ بات بہت اچھے سے معلوم ہو چکی تھی کہ ہم (بزعم خود) ایک دوسرے سے پیار کرنے لگے ہیں۔ اور صرف ہمیں ہی نہیں محلے کے تمام بچوں کو اس کی خبر ہو گئی تھی۔ یہ یوں معلوم ہوتا تھا کہ سائکل چلاتے ہوئے سارے لڑکے اکثر یہ نعرہ لگایا کرتے کہ: سرخ پوست عاشقِ سفید پوست شدہ۔ جسکا مطلب ہے یہ سانولا جس سے ان کی مراد ہندی یا پاکستانی ہوتی تھی، ایک گوری یعنی ایرانی کا عاشق ہو گیا ہے۔
اواخر میں ہم بہت دور دور تک سائکلوں پر باتیں کرتے ہوئے جاتے تھے اور نئی نئی جگہیں دریافت کرتے تھے۔ ہم دور دور کی پوشیدہ چڑھائیاں ڈھونڈتے تھے اور آ کر دوسروں کو ان کے بارے میں بتاتے تھے کہ فلاں جگہ اتنی اونچی چڑھائی ہے تو کل وہاں جائیں گے سائکل چلانے۔
جب اس کے ابا کبھی ہم دونوں کو ساتھ کہیں گھمانے لے جاتے یا اپنی گاڑی میں چھوڑنے جایا کرتے تو وہ ابا کے آگے بیٹھنے پر اصرار کے باوجود، میرے برابر میں پیچھے کی سیٹ پر بیٹھا کرتی اور ہم ایک دوسرے کو اپنے اپنے گھڑے ہوئے لطیفے سنایا کرتے تھے، جو اکثر بے نمک ہوتے۔ لیکن ہمارے بیچ یہ ایک ناگفتہ معاہدہ تھا کہ کچھ بھی ہو، لطیفے پر ہنسنا ضروری ہے، ورنہ سنانے والا سخت ناراض ہونے کا مستحق ہوگا۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک مرتبہ اس کے گلے پر چمک کے کچھ ذرات موجود تھے، جو بہت غور سے دیکھنے پر نظر آ رہے تھے۔ باتیں کرتے ہوئے میں نے اچانک وہ ذرات صاف کرنے کے لیے اس کے گلے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو اس نے گھبرا کر اپنے دونوں ہاتھوں سے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ پھر کچھ لمحوں بعد اپنے آپ کو بڑے اعتبار سے میرے حوالے کر دیا۔ جب میں نے اس کے گلے پر ہاتھ پھیرا تو اس نے اپنا سر جھکا کر اپنا رخسار میرے ہاتھ پر رکھ دیا اور ٹکٹکی باندھ کر میری آنکھوں میں دیکھنے لگی۔ اس کی اس ادا پر مجھے بےطرح پیار آیا اور میں نے فرطِ جذبات میں بڑھ کر اس کی پیشانی چوم لی۔ اور اس نے اپنے بال کھول لیے۔
اس مکان میں ہم دو سال رہے اور اس کے بعد دوبارہ پرانے گھر میں منتقل ہو گئے۔ آخری دو تین دنوں میں وہ اپنے کسی رشتہ دار کے ہاں رکنے گئی تھی لہٰذا ہماری الوداعی ملاقات نہ ہو سکی۔ اس کے بعد میں کئی برس ایران کے اسی شہر میں رہا، اور مختلف بہانوں سے اس گلی میں جاتا بھی رہا لیکن وہ پھر نظر نہ آئی۔ سوچتا ہوں کہ اس بار جب ایران گیا تو اسے ڈھونڈ کر اس سے ضرور ملوں گا۔ دیکھوں گا کہ اتنے برسوں بعد بڑی ہو کر کیسی ہو گئی ہے اور کس حال میں ہے۔ وہ شاید اب مجھے پہچانے بھی نہیں، لیکن اس کو یہ جاننا چاہیے کہ شاید اس کے ساتھ لطیفے گھڑنے کی مشق کرتے کرتے میں ایک لکھاری بن گیا، اور زندگی میں جو کچھ پایا اب تک اور پا رہا ہوں، وہ تمام اسی کی دین ہے! اس محلے کے لڑکوں نے کیا ہی سچا فقرہ کسا تھا۔
سرخ پوست عاشقِ سفید پوست شدہ!
-
مہدی نقوی حجازؔ
آخری تدوین: