دو قومی نظریہ سے دو طبقاتی نظام تک

سید زبیر

محفلین
دو قومی نظریہ سے دو طبقاتی نظام تک
سید زبیر
مطبوعہ روزنامہ نواے وقت ، پاکستان ، اذکار ۲۳ مارچ ۲۰۰۷

۲۳مارچ ۱۹۴۰ ؁ پاکستانی تاریخ میں نہایت اہم سنگ میل ہے۔ یہ وہ دن ہے جس دن مسلمانان برصغیر نے اپنی منزل کا تعین کیا۔ جس کا خواب عظیم مسلم مفکر حضرت علامہ اقبالؒ نے دیکھا تھا۔ جسکا قیام کا تب تقدیر نے لوح محفوظ میں لکھ دیا تھا۔ ا س دن ہندوستان کے مسلمانوں نے دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک علیحدہ مسلم ریاست کا مطالبہ کیا۔ دو قومی نظریہ کوئی نیا نظریہ نہ تھا۔ در حقیقت یہ نظریہ اسی دن قائم ہو گیا تھا۔ جس دن محبوب خدا محمد رسول اللہﷺ نے اعلان نبوت کیا۔ انہوں ﷺنے اس ایمان اور توحید کا اعادہ کیا۔ جو تمام انبیاء کرام کی شریعت رہی ہے۔ رفتہ رفتہ لوگ اس امت میں شامل ہوتے رہے ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی قوم، اپنے قبیلہ، اپنے خاندان ، اپنی نسل سے تعلق توڑکر قوم مسلم سے تعلق جوڑلیا تھا۔ اس میں مکی بھی تھے ۔ مدنی بھی تھے حبشی بھی تھے ۔ فارسی بھی تھے یہ سب ایک قوم مسلم کے فرد ہو گئے ۔ ان کے دل ایک ساتھ دھڑکتے تھے۔ انکی خوشیاں اور غم ایک تھے۔ ان کا اللہ ایک ، رسول ﷺ ایک ، قرآن ایک، مقصود ایک ، نفع ایک ، نقصان ایک تھا۔ یہ قو م جب پھیلی تو عرب تا عجم غلبہ حا صل کرتی گئی ۔ علوم کے خزینے انکی ملکیت تھے تو زمین انکی وراثت ۔ اسی طر ح جب ہندوستان میں تاجروں کی معرفت اسلام پہنچا اور پہلا ہندو دین اسلام سے متاثر ہوکر مسلمان ہو اتو گویا اس نے اپنی قوم سے رابطہ توڑ کر قوم مسلم سے رابطہ جوڑ لیا۔ اب اسکے رہبر چندر گپتا اور اشوک نہ رہے ۔ اب وہ مختلف جانوروں کی مورتیوں کی پوجا نہ کرتا ۔ اب وہ گیتا سے رہنمائی حاصل نہ کرتا۔ اب اسکو تقویت کلام الٰہی سے حاصل ہوتی۔ اب اسکے رہبر و رہنما محمد ﷺرسول اللہ اور صحابہ کرام تھے ۔ ہندووءں نے اس سے رابطہ منقطع کر لیا۔ رفتہ رفتہ اسلام مبلغین اور پیران کرام کی کاوشوں سے بر صغیر کے کونے کونے میں پھیل گیا۔ اگرچہ نسلی اور وطنیت کے اعتبار سے یہ ہندی تھے۔ یہاں کے مقامی باشندے تھے۔ مگر ہندو ذہنیت نے کبھی انہیں اپنے برابر کا انسان نہ سمجھا ۔ اور یہ حقیقت کہ ہندو مذہب کی بنیاد ہی ذات کی تقسیم پر مبنی ہے۔وہ اپنے ہم مذہب شودر، کو بھی عام انسانوں سے کم سمجھتے ہیں۔ جبکہ اسلام میں انسانیت کا احترام ہی ہے۔ اسلام کی بنیاد ہے کسی انسان ، مذہب ، رنگ ، نسل اور قبیلہ کی بنیاد پر تذلیل و تحقیر نہیں کی جاسکتی ۔ کسی کی حرمت ، جان ومال کو نقصان نہیں پہنچایا جاسکتا۔ کسی غیر مسلم کی عبادت گاہیں تاراج کرنے کی قطعاً اجازت نہیں بلکہ غیر مسلموں کے حقوق کو جتنا اسلام نے تحفظ اور احترام عطا کیا ہے اتنا کسی بھی مذہبی اور سیکولر معاشرے نے فراہم نہیں کیا۔ ہندو اور مسلم صدیوں سے برصغیر میں اکٹھے رہتے تھے ۔مگر صدیوں ی اس یکجائی نے بھی انہیں متحد نہ کہا انکی بستیاں اور محلے جدا تھے۔ اگرچہ ان کا لباس ایک جیسا تھا۔ جسمانی ساخت علاقائی گھی مگر انکے افکار و انداز تہذیب و روایات مختلف تھیں۔
۲۳ مارچ ۱۹۴۰ ؁ کا دن اسلامیان ہند کیلئے امید اور روشنی کی نئی کرن لیکر طلوع ہوا۔ بر صغیر کے مسلمان بیدار ہو چکے تھے انکے سامنے ہندوانہ سازشوں کے جال عریاں تھے۔ انہوں نے بیک وقت غاصب فرنگ اورعیار ہندو سے غلامی کا جو ا اتارنے کاعہد کر لیا تھا ۔ مسلمانوں کا جذبہ حریت مہمیز ہوا۔ ہندو ثقافت پر متعدد کتابوں کے مصنف،مفکر سوامی دھرما تیرتھ جی مہاراج اپنی کتاب میں لکھتے ہیں ’’مسلمان وسیع برادرانہ نظام کے علمبردار ہیں وہ اپنی سماجی خوبیوں میں بلا تمیز نسل مذہب سبکو شامل کرنا چاہتے ہیں۔وہ ہر مذہب پر یقین رکھنے والوں کو اپنے مذہب سے مستفییذ کر نا چاہتے ہیں جبکہ ہندو سماجی طور پر اپنے حصار میں رہنا چاہتے ہیں وہ اپنے سماجی نظام میں کسی کو شامل نہیں کرتے سوائے انکے جو انکی برادری سے تعلق رکھتے ہوں اس لحاظ سے انکا رویہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ کم ذات کے ہندوؤں سے بھی توہین آمیز ہو تا ہے یہی وہ وجوہات تھیں کہ مسلم لیگ نے ۱۹۴۰میں قرارداد پاکستان منظور کی یہ قرارداد ہندوستان کے کسی ایک مخصوص علاقے نے نہیں منظور کی تھی بلکہ بر صغیر کے طول و عرض میں کروڑوں مسلمانوں کی آواز تھی جنکی نمائندگی یو پی سے چوہدری خلیق الزماں ،سید ذاکر علی،بیگم مولانا محمد علی ،مولانا عبدالحامد بدایونی ،بہار سے نواب محمد اسماعیل خان ،بمبئی سے آ ئی آئی چندریگر،سندھ سے عبداللہ ہارون ،بلوچستان سے قاضی عیسیٰ،صوبہ سرحد سے سردار اورنگزیب اور پنجاب سے مولانا ظفر علیخان او ر ڈاکٹر محمد عالم کر رہے تھے۔آزادی کے حصول کیلئے پر امن جدوجہد کا آغاز ہوا۔ اور ۱۴اگست ۱۹۴۷ ؁ کو رب ذوالجلال نے مسلمانان ہند کو ایک آزاد مملکت سے نوازا۔ پیارا پا کستان جسکی بنیاد ہی لاالہٰ الا اللہ پر قائم ہوئی تھی۔ اس آزادی کے سفر میں بر صغیر کے مسلمانوں کی قربانیاں ناقابل فراموش ہوئی۔ ا گر ہندوں نے سنہرے بنگال میں ہمارے بچوں کو زند ہ میخوں سے درختوں پر گاڑھا۔ تو سکھوں نے پنجاب کے دریاؤں نہروں اور کھلیانوں کوخون مسلم سے بھر دیا۔ ماسٹر تارا سنگھ کے پیروکار اپنے عظیم گرو نانک کا وہ کلام فراموش کر گئے تھے جو انہوں نے محمد رسول اللہ ﷺ اور بابا فرید ؒ کی شان میں کہا۔ ان مسلمان خواتین با حیا جنکے سر کبھی چشم فلک نے برہنہ نہ دیکھے تھے ان کی حرمتوں اور تقدس کو ہندووں اور سکھوں نے پامال کیا۔
پاکستان کے قیام کے فوراً بعد سے ہی ہندووں اور یہود کے حواری اور نظریاتی غلام پاکستان کے نظریے میں شگاف ڈالنے لگے۔ اسکے وسائل پر اپنے اختیارات کے بل بوتے پرقابض ہونے لگے۔ پاکستان کے قیام کے وقت مسائل بے پناہ تھے اور وسائل ناپید،نہ معیشیت تھی نہ بنیادی انتظامی ڈھانچہ حتیٰ کہ سرکاری دفاتر کے اخراجات کے لیے بھی وسا ئل نہ تھے مگر اعلیٰ سرکاری ملازمین نے بدیشی حکمرانوں کا روپ دھار کرناجائز مراعا ت کے ذریعے ملکی وسائل کا بے دریغ ذاتی استعمال شروع کردیا جو تا ہنوزاپنی بھرپور توانائیوں اور چالبازیوں سے جاری ہے یہ وہ منزل نہ تھی جسکا خواب اور تصور علامہ اقبال ؒ نے دیکھا تھا۔ بقول فیض
یہ داغ داغ اجالا ، یہ شب گزیدہ سحر
وہ انتظار تھاجسکا ، یہ وہ سحر تو نہیں
یہ وہ سحر تونہیں ، جسکی آرزو لیکر
چلے تھے یار کہ مل جائیگی کہیں نہ کہیں
؂
یہ وہ معاشرہ نہ تھا۔ جسکے لیے بر صغیر کے مسلمانوں نے اتنی عظیم قربانیاں دی تھیں ۔ معاشرہ واضح طور پر استحصالی قوتوں کے زیر اثر ہو گیا۔ قانون، روایات ، اصول مذاق بن کر رہ گئیں ۔ قوت و اختیارات مفاد پرست غا صب طبقہ کے ہاتھ میں آگیا۔ جنہوں نے قانون اور معاشرتی روایات کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔ مملکت خداداد پاکستان دو طبقاتی نظام میں بٹ گئی ۔ ایک وہ مراعات یافتہ غاصب اور استحصالی طبقہ تھا۔ جسکو ایلییٹ کلاس اور سول سوسایٹی سے پکارا گیا۔ دوسری طرف وہ مظلوم و محکوم عوام ہے جسکے ہر حق پر ہر طرح سے ڈاکہ ڈالا گیا۔ جو مظلوم و محکوم طبقہ کیلئے شجر ممنوعہ ہے وہی استحصالی قوتوں کیلئے شیر مادر ہے۔ قوم واحد میں شگاف وسیع تر ہوتا گیا۔ ہنود و یہود کے پر وردہ خانوادوں نے اسی طبقاتی نظام اورسرمایہ دارانہ نظام کی پر ورش کی۔ جو اغیار کی خواہش تھی معروف ھندو سیا سی رہنما اور آل انڈیا راشٹریہ سوایا سیوک سنگھ نے ۱۹۴۶میں مطبوعہ اپنی کتاب میں ہند کے مسلمانوں کو ہندی بنانے کے لیئے ایک نہایت جامع لیکن مضحکہ خیزمنصوبہ پیش کیا تھا وہ لکھتے ہیں اس سلسلے میں پہلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ مسلمانان برصغیرمیں تعلیم کے ذریعے یہ آگہی پیدا کی جا ئے کہ ان کے آباؤاجداد بھی ہندو تھے اسلام سے بہت پہلے اشوکا،چندرگپتا اور ہراش کی زیر قیادت انہوں نے مشترکہ طور پر ایک عظیم الشان دور گزارا تھااور وہ بھی رام،کرشنا اور کالیداس کو عظیم سمجھتے تھے۔منظم کوششوں سے ہی اسکو ممکن بنایا جا سکتا ہے اسکے ہمراہ ہمیں اپنے تہوار ان کے ساتھ ملکر منانے چاہیں بلاشبہ اس میں رکاوٹیں ہیں لیکن اب بھی وقت ہے جس دن برصغیر کے مسلمانوں کو ہندی بنانے کا عمل مکمل ہوگیا اور سرحد پار مسلمانوں سے انکی وفاداری کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا تو ہندوستان کو قائم رکھنے کے لیے یہ معاشرت مسئلہ بھی ختم ہو جائگا
آج استحصالی طبقہ کے یہ رہبر و رہنما اسی منشور کو سر چشمہ ہدایت سمجھتے ہوئے نئی نسل کو تعلیم دے رہے ہیں کہ ہمارے آباء و اجداد کے رہنما ہمارے بھی مشاہیر ہیں۔ یہی ہماری تہذیب و تمد ن کا اصل منبع ہیں۔ اور بنی آخرالزماں حضر ت محمد ﷺؑ کے امیتوں کا درس جو بعد میں آیا وہ ہمیں ا پنے آباء و اجداد کے رشتوں سے جدا نہیں کرسکتا۔ اگر کر شنا چندر اور اشوک کے پیروکاروں اور ماسٹر تارا سنگھ کے ساتھیوں نے ہماری عزتوں اور جانوں سے خون کی ہولی کھیلی ہے تو اسمیں ہمارا ہی قصور تھا۔ آخر بسنت اور ہولی خواہ وہ معصو موں کے خون سے ہی کیوں نہ کھیلی جائے ہمارا قیمتی سرمایہ ہے۔ دنیا کی کوئی عدالت کوئی قانون ہمارے نظریے سے ماورا نہیں ہے۔
؂ اس بازوئے قاتل کو چو مو کس شان سے کاری وار کیا
مقتول صریحاً مجرم تھا کیوں سچائی سے پیار کیا
یہ طبقہ اشرافیہ صرف نظریاتی وار نہیں کر رہا بلکہ یہ قوم مسلم پر ہمہ جہتی حملے کر رہا ہے۔ سرمایہ دارانہ غاصبانہ نظام معشیت کو اسلا م کے عادلانہ معاشی نظام پر فوقیت دیتے ہوئے فروغ دے رہا ہے سرمایہ دارانہ نظام بھی سرمایہ کے ساتھ آرہا ہے۔ جو مظلوم و محکوم طبقہ کی کمائی کو بھنور کی طرح مرکز میں مجتمع کر رہا ہے۔ مزدور کی قوت بازو اور ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں کے ہمراہ اسکی حمیت اور غیرت بھی جنسی تجارت بن گئی ہے۔ خود کشیوں میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ محکوم و مظلوم طبقے کو اشرافیہ نے گروہوں ، فرقوں میں تقسیم کر کے رکھ دیا ان ہی میں سے افراد اشرافیہ کے حواری بن کر اپنے طبقے کو مزید لوٹتے ہیں ۔ لومڑ کیلئے خرگوش شکار کھینچ کر لاتاہے۔
آخر کب تک ۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اسلام نے غربت ہی میں عروج حا صل کیا۔ دنیاوی منفعتوں کے حریص اپنے ہی جال میں رسوا ہو کر رخصت ہوئے۔ تاریخ عالم سامنے ہے۔ یزید نے بھی اقتدار پر قبضہ کر کے اہل بیت کے سامنے کلام الٰہی سے وتعزمن تشا و تذل من تشاء کا حوالہ دیکر خود کو افضل ثابت کرنے کی کوشش کی تھی آج امت مسلمہ کے لیے اس کا نام گالی سے کم نہیں ، اسی زر و جواہر کے لالچ میں صادق نے بھی شیر میسور ٹیپو سلطان سے غداری کی تھی اور میر جعفر نے نواب سراج ا لدو لہ کو دھوکہ دیا تھا۔ یہی وہ دیناوی مناصب تھے جسکے لیے شہنشاہ ایران نے عوام کو مجبور بنا کر رکھ دیا تھا۔ اسی غاصبانہ عزائم کی تکمیل کیلئے صدام حسین نے خون مسلم بہا یا تھا اور اغیار کا آلہ کا ر بنا رہا ۔ یہ سب کچھ جانتے ہوے امت مسلمہ کے سرکردہ رہنما ہنود و یہود کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئیے اپنے ہم مذہبوں کا بے دریغ خون بہا رہے ہیں یہ دور اپنے ابراہیم کی تلاش میں ہے ۔ کاتب تقدیر کی سنت تبدیل نہیں ہوتی وقتی اور عارضی مناظر مستقل نہیں رہا کرتے۔ تو یقیناًقوم مسلم میں ایسا رہبر و رہنما ضرور آئے گا جو اس بھٹکے ہوئے آہو کو سوئے حرم لے جائے گا۔ جب مملکت خداداد پاکستان دو طبقاتی نظام توڑکر امت واحد بن جائے گی ۔ یہی دین فطرت کی امین ہے۔ وہ دن ضرور آئیگا ۔ مغرب میں عموماً اور قلب فرنگ امریکا میں خصوصاً اسلامی تعلیمات کو جو فروغ حا صل ہو رہا ہے ۔ وہ ظاہر کر رہا ہے کہ اولاد آذر اب پھر ا صنام توڑیگی۔ دور جدید کے فرعون کی آغوش میں پھر کوئی موسیٰ پر ورش پا رہا ہے۔ خوش نصیب ہونگے اس دور کے لوگ جب عدل و انصاف کے پھر یرے لہرا ئے جا ینگے۔
وہ دن کہ جسکا وعدہ ہے
جو لوح ازل میں لکھا ہے
جب ظلم و ستم کے کوہ گراں
روئی کی طرح اڑ جائینگے
 

مہ جبین

محفلین
23 مارچ 1940 سے 23 مارچ 2013 تک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک طویل ، صبر آزما اور صعوبتوں سے بھرپور ایک ایسا دور جس میں اہلِ وفا نے خونِ دل سے ایک ناقابلِ فراموش داستان رقم کی ۔۔۔ اسکے ہر باب میں ایسی دلخراش داستانیں رقم ہیں جو دل پر انمٹ نقوش چھوڑتی ہیں ۔۔۔۔۔ یہ مصائب و آلام کا طویل دور ہمارے اسلاف نے اس لئے تو برداشت نہیں کیا تھا کہ یہاں دوطبقاتی نظام قائم ہوجائے؟؟؟؟ لیکن نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اُس طویل جدوجہد کے ثمرات ملنے کے بجائے ہمیں یہ دوطبقاتی نظام انعام میں دے دیا گیا
ہم یومِ پاکستان کی مبارکباد دیں تو کیسے کہ ہمارے اسلاف کی بے مثال قربانیوں کا یہ صلہ ہے؟؟؟

سید زبیر بھائی نے بہت عمدہ پیرائے میں شروع سے لیکر اب تک کے سانحات کو قلمبند کیا ہے ۔ ہر محبِ وطن پاکستانی کے دلی جذبات کی عکاسی کی ہے اپنی تحریر میں ۔۔۔۔ آپکی تحریر سے سوفیصد متفق ہوں
 
بہت فکر انگیز تحریر
بلاشبہ یہ سب کچھ ایک کڑوا سچ ہے
آخر کب تک ۔ ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے۔ اسلام نے غربت ہی میں عروج حا صل کیا۔ دنیاوی منفعتوں کے حریص اپنے ہی جال میں رسوا ہو کر رخصت ہوئے۔ تاریخ عالم سامنے ہے۔ یزید نے بھی اقتدار پر قبضہ کر کے اہل بیت کے سامنے کلام الٰہی سے وتعزمن تشا و تذل من تشاء کا حوالہ دیکر خود کو افضل ثابت کرنے کی کوشش کی تھی آج امت مسلمہ کے لیے اس کا نام گالی سے کم نہیں ، اسی زر و جواہر کے لالچ میں صادق نے بھی شیر میسور ٹیپو سلطان سے غداری کی تھی اور میر جعفر نے نواب سراج ا لدو لہ کو دھوکہ دیا تھا۔ یہی وہ دیناوی مناصب تھے جسکے لیے شہنشاہ ایران نے عوام کو مجبور بنا کر رکھ دیا تھا۔ اسی غاصبانہ عزائم کی تکمیل کیلئے صدام حسین نے خون مسلم بہا یا تھا اور اغیار کا آلہ کا ر بنا رہا ۔ یہ سب کچھ جانتے ہوے امت مسلمہ کے سرکردہ رہنما ہنود و یہود کی خوشنودی حاصل کرنے کے لئیے اپنے ہم مذہبوں کا بے دریغ خون بہا رہے ہیں

اسلام کو مسلمانوں ہی روسا کیا اور علامہ اقبال نے اسی بارے میں فرمایا

یہ ہیں مسلمان جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود

آپ نے ہمارے دل جذبات کی عکاسی کر دی ہر دردمند ہم وطن کو آپ کی باتوں سے اتفاق ہے
شاد و آباد رہیں
 

مہ جبین

محفلین
عمدہ تحریر سر۔۔:applause:
20013 میں تو دنیا کا وجود ہی نہیں ہوگا انٹی جی۔۔۔ :p
اوہو ۔۔۔۔:oops:
ایک صفر غلطی سے زیادہ لگ گیا :eek:
کوئی منتظم اس غلطی کو درست کردے تو اسکی مہربانی ۔۔۔۔۔۔ شمشاد بھائی براہِ مہربانی اسکو درست کردیں
انیس الرحمن غلطی کی نشاندہی کا شکریہ بیٹا ۔۔۔ میں نے لکھنے کے بعد دیکھا ہی نہیں
جزاک اللہ
 

نایاب

لائبریرین
اک چشم کشا تحریر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دو طبقاتی نظام نے تو اسلام کو مذاق بنا کر رکھ دیا ۔
اسی دو طبقاتی نظام کے آثار دیکھ کر قائد اعظم نے فرمایا تھا کہ
" افسوس میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں "۔۔۔۔۔
 
Top