دیئے گئے شعر کی دھنائی کریں

رانا

محفلین
ہم نے سوچا کہ شمشاد بھائی کے شروع کردہ دھاگے “دیئے گئے لفظ پر شاعری“ میں گھسنے کے لئے تو اشعار اور شاعری سے واقفیت ضروری ہے جو ہم نکموں میں کہاں تو پھر ہم کہاں جائیں؟ اس لئے یہ دھاگہ شروع کیا ہے اس میں دعوت عام ہے شاعری آتی ہو یا نا بلکہ نا آتی ہو تو زیادہ خوش آمدید (most welcom)۔ اصول اس کھیل کے یہ ہیں کہ جو شعر آپکی خدمت اقدس میں پیش کیا جائے اس کی دھنائی لگانی ہے۔ اور ساتھ ہی دوسرا شعر بھی دھنائی کے لئے پیش کرنا ہے۔ جس کے پاس پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں تو وہ اپنا سر پیش کردے ہم سخی داتا اس سے بھی کام چلالیں گے۔ تو چلیں ابتدا کرتے ہیں ایک مظلوم شاعر کے شعر سے

ان بارشوں سے دوستی اچھی نہیں فراز
کچا تیرا مکان ہے کچھ تو خیال کر

دھنائی:
آدھی اردو آدھی فارسی میں شاعری نہ کر یار
ہم بھی پڑے ہیں راہوں میں کچھ تو خیال کر

(فاتح بھائی قسم سے آپ کی طرف اشارہ نہیں ہے۔ البتہ روئے سخن آپ ہی کی طرف ہے;))

اگلا شعر:
تم تو تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا۔
 

شمشاد

لائبریرین
شعر کے جواب میں شعر ہی کے انداز میں دھلائی کرنی اپنے بس کا روگ نہیں۔ البتہ تشریح کروانی ہے تو حاضر ہوں۔

شاعر کہتا ہے کہ تم تو تکلف کو بھی اخلاص (سورہ اخلاص نہ سمجھا جائے) سمجھتے ہو۔ فراز معلوم نہیں اس کا دوست ہے یا اس کا اپنا نام ہے یا اسی کو کہہ رہا ہے۔ اور یہ بتانا چاہ رہا ہے کہ جس سے بھی ہاتھ ملاتے ہو وہ دوست تو نہیں۔ اس میں کچھ باتیں وہ چھپا گیا ہے، مثلاً وہ کہنا چاہ رہا تھا کہ ہر ہاتھ ملانے والا دوست نہیں ہوتا ہو سکتا ہے وہ گرہ کٹ ہو، دہشت گرد ہو، موبائیل چھیننے والا بھی ہو سکتا ہے، لہٰذا دیکھ بھال کے ہاتھ ملانا چاہیے۔
 

رانا

محفلین
بہت دلچسپ شمشاد بھائی۔ بڑی پرلطف تشریح کی ہے آپ نے۔ بس تو میں ایک بل پاس کررہا ہوں جس کی رو سے اب شعر کی تشریح کے ذریعے بھی دھلائی اور دھنائی دونوں کی اجازت ہے۔ لیکن اگلا شعر پیش کرنا لازم ہے ورنہ پھر متبادل میں نے اوپر بیان کردیا ہے۔:) اب اگلا شعر فی الحال میں ہی پیش کردیتا ہوں:

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر
 

شمشاد

لائبریرین
شاعر میرے عقاب سے مخاطب ہو کر کہہ رہا ہے کہ تجھے مفت کی رہائش چاہیے تو تُو کہیں دور پہاڑوں میں چلا جا اور وہیں جا کر رہائش اختیار کر لے۔ وہاں پر کرائے کا کوئی چکر نہیں ہے۔ اصل میں بات یہ ہے سلطان کے محل کا کرایہ بہت زیادہ ہے جس کا کرایہ میرا عقاب دے نہیں سکتا، اس لیے شاعر اسے مفت مشورہ دے رہا ہے۔
 
یہاں شاعر یا کاتب یا پھر دونوں سے کچھ غلطی ہوئی لگتی ہے۔ غالباً شاعر نے "بے زر" کو غلطی یا ضرورت شعری کے تحت "بے زار" کہہ دیا اور ان کے کل وقتی کاتب اسے "بیزار" لکھ گئے۔

خیر یہ شعر مشہور صرّاف مشتاق زر اندوزی کا ہے۔ قصہ یوں ہے کہ وہ کسی مغالطے کے تحت کسی کے عشق میں گرفتار ہو گئے اور بعد میں پتہ چلا کہ معشوقہ محض آٹھ گرام سونے کی انگوٹھی، سوا دو تولہ چاندی کی پائل اور ایک سو بارہ روپے نقد سکہ رائج الوقت کی مالکہ ہیں۔ اس پر جناب نے کف افسوس ملتے ہوئے مندرجہ بالا اشعار کہے۔

ویسے تک بندی کی جائے تو:

جب یہ گیہوں ہے اور وہ ہے دھان
پھر یہ مکئی اور باجرہ کیا ہے

اگلا شعر:

تم تو سید بھی ہو مرزا بھی ہو افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتاؤ تو مسلمان بھی ہو؟
 

نبیل

تکنیکی معاون
شاعر نے دراصل نہایت خوبی سے اپنے مافی الضمیر کو الفاظ میں ڈھالا ہے۔ شاعر کہتا ہے، ابے احمق یہ مسلمان ہونا کیا ہوتا ہے؟ سیدھی طرح بتاؤ کہ تم بریلوی ہو کہ دیوبندی، وہابی یا شیعہ؟ اور ہاں، صرف اپنے مسلک کو جنت کا حقدار قرار دینے اور دوسرے مسالک کو جہنم رسید کرنے کی کم از کم دو درجن دلیلیں بیان کرو ۔۔۔
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
لیکن شعر بھی تو پیش کرنا تھا نہ بھیا
چلیں میں کر دیتی ہوں ۔

کعبے کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر نہیں آتی
 

رانا

محفلین
اس شعر میں شاعر اپنے دوست سے مخاطب ہے جس کا نام غالباً غالب ہے اور وہ حج کے لئے جارہا تھا کہ شاعر اسے الوداع کہنے ائیرپورٹ پر آیا اور ساتھ سویّاں بھی لایا غالب نے جو جہاز اڑنے کے ڈر سے جلدی جلدی ندیدوں طرح سویّاں کھائیں تو منہ سے باہر نکلتی پڑتی تھیں یہ دیکھ کر شاعر نے اسے کہا کہ یار تم اتنے ندیدے ہو اس طرح کی حرکتیں کعبے جاکر کرو گے اور تمھارا منہ دیکھو کتنا خراب ہوگیا ہے سویّاں لگی ہوئی ہیں اوریہ تو لوکل ایرپورٹ ہے یہاں تو پانی بھی نہیں کہ تم منہ ہی دھولو اب کعبے کس منہ سے جاؤ گے لیکن مجھے پتہ ہے تم پھر بھی جانے سے باز نہیں آؤ گے بڑے بےشرم ہو تھوڑی شرم کیا کرو۔
سبق: سویّاں کھانی ہوں تو پہلے تھوڑی شرم کرلینی چاہئے۔

دھنائی:
دس روپوں سے کس ہوٹل میں جاؤ گے غالب
اب تو دال بھی اتنے میں نہیں آتی۔

اگلا شعر:
رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے
 

جٹ صاحب

محفلین
اس شعر میں شاعر اپنے دوست سے مخاطب ہے جس کا نام غالباً غالب ہے اور وہ حج کے لئے جارہا تھا کہ شاعر اسے الوداع کہنے ائیرپورٹ پر آیا اور ساتھ سویّاں بھی لایا غالب نے جو جہاز اڑنے کے ڈر سے جلدی جلدی ندیدوں طرح سویّاں کھائیں تو منہ سے باہر نکلتی پڑتی تھیں یہ دیکھ کر شاعر نے اسے کہا کہ یار تم اتنے ندیدے ہو اس طرح کی حرکتیں کعبے جاکر کرو گے اور تمھارا منہ دیکھو کتنا خراب ہوگیا ہے سویّاں لگی ہوئی ہیں اوریہ تو لوکل ایرپورٹ ہے یہاں تو پانی بھی نہیں کہ تم منہ ہی دھولو اب کعبے کس منہ سے جاؤ گے لیکن مجھے پتہ ہے تم پھر بھی جانے سے باز نہیں آؤ گے بڑے بےشرم ہو تھوڑی شرم کیا کرو۔
سبق: سویّاں کھانی ہوں تو پہلے تھوڑی شرم کرلینی چاہئے۔

دھنائی:
دس روپوں سے کس ہوٹل میں جاؤ گے غالب
اب تو دال بھی اتنے میں نہیں آتی۔

اگلا شعر:
رکھتے ہیں جو اوروں کے لیے پیار کا جذبہ
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے

دھنائی:
نہاتے ہیں جو گرم پانی میں ایلفی ڈال کر
وہ لوگ کبھی ٹوٹ کر بکھرا نہیں کرتے

اگلا شعر:

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں
 

رانا

محفلین
اگلا شعر:

سو خلوص باتوں میں سب کرم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے تیرے شہر والوں میں

اس شعر میں شاعر اپنے ایک امریکی دوست سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ آپ کی باتوں میں موجود خلوص اتنا زیادہ ہے کہ جب میں نے ڈیجیٹل کاؤنٹر سے چیک کیا تو وہ پورا ایک سو one hundred تھا لیکن آپ کے خیالوں میں کیڑے (کرم) بہت پڑے ہوئے ہیں اور شاعر حیران ہے کہ باتوں میں خلوص اور خیالوں میں کیڑے یہ ماجرا کیا ہے بہرحال شاعر کی سمجھ سے باہر ہے لیکن اس بات کا اسے پورا یقین ہے کہ اے میرے امریکی دوست تیرے شہر والوں میں وفا کی بس تھوڑی سی کمی ہے۔ لگتا ہے شاعر کا امریکی دوست بش کے شہر سے تعلق رکھتا ہے۔

دھنائی:
سو خلوص باتوں میں بُش کے ہم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے ان گوری چمڑی والوں میں

اگلا شعر:
دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمان میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے
 

جٹ صاحب

محفلین
اس شعر میں شاعر اپنے ایک امریکی دوست سے مخاطب ہے اور کہتا ہے کہ آپ کی باتوں میں موجود خلوص اتنا زیادہ ہے کہ جب میں نے ڈیجیٹل کاؤنٹر سے چیک کیا تو وہ پورا ایک سو one hundred تھا لیکن آپ کے خیالوں میں کیڑے (کرم) بہت پڑے ہوئے ہیں اور شاعر حیران ہے کہ باتوں میں خلوص اور خیالوں میں کیڑے یہ ماجرا کیا ہے بہرحال شاعر کی سمجھ سے باہر ہے لیکن اس بات کا اسے پورا یقین ہے کہ اے میرے امریکی دوست تیرے شہر والوں میں وفا کی بس تھوڑی سی کمی ہے۔ لگتا ہے شاعر کا امریکی دوست بش کے شہر سے تعلق رکھتا ہے۔

دھنائی:
سو خلوص باتوں میں بُش کے ہم خیالوں میں
بس ذرا وفا کم ہے ان گوری چمڑی والوں میں

اگلا شعر:
دشت تو دشت ہیں صحرا بھی نہ چھوڑے ہم نے
بحر ظلمان میں دوڑا دیئے گھوڑے ہم نے

دھنائی:
دشمن تو دشمن دوست بھی نہ چھوڑے ہم نے
اُن کے فارم سے چُرا لیئے گھوڑے ہم نے

اگلا شعر:
وہ اپنی فطرت میں پتھر تھا سو پتھر ہی رہا
میں نے ھیرے کی طرح اُس کو تراشا کتنا
 

مغزل

محفلین
لو جی ایک شعر کی گت ہم بناتے ہیں ۔۔

صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

مصروفیت کا حال نہ پوچھو کہ ان دنوں
میسج ڈلیٹ کرنے کی فرصت نہیں مجھے

غزل ( غزل ناز غزل ) ۔۔ تم بھی آجاؤ۔۔۔جلدی سے۔۔۔۔۔۔
 

غ۔ن۔غ

محفلین
لو جی ایک شعر کی گت ہم بناتے ہیں ۔۔

صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

مصروفیت کا حال نہ پوچھو کہ ان دنوں
میسج ڈلیٹ کرنے کی فرصت نہیں مجھے

غزل ( غزل ناز غزل ) ۔۔ تم بھی آجاؤ۔۔۔ جلدی سے۔۔۔ ۔۔۔


بہت خوب گت بنائی ہے شعر کی ہاہاہاہا اور سچ بھی ویسے یہی ہے
ڈلیٹ نہیں کرتے تبھی تو ان باکس فل ہوجاتا ہے
 

عائشہ عزیز

لائبریرین
لو جی ایک شعر کی گت ہم بناتے ہیں ۔۔

صادق ہوں اپنے قول میں، غالبؔ! خدا گواہ
کہتا ہوں سچ کہ، جھوٹ کی عادت نہیں مجھے

مصروفیت کا حال نہ پوچھو کہ ان دنوں
میسج ڈلیٹ کرنے کی فرصت نہیں مجھے

غزل ( غزل ناز غزل ) ۔۔ تم بھی آجاؤ۔۔۔ جلدی سے۔۔۔ ۔۔۔
بہت خوب بھیا ۔
 

مغزل

محفلین
بہت خوب گت بنائی ہے شعر کی ہاہاہاہا اور سچ بھی ویسے یہی ہے
ڈلیٹ نہیں کرتے تبھی تو ان باکس فل ہوجاتا ہے
شکر ہے تمھاری ہنسی بحال ہوئی ۔۔ اللہ سدا ہنستا مسکرتا رکھے۔۔ لو میں اگلا شعر دیتا ہوں تم گت بناؤ۔۔:angel:

اچھا خاصا بیٹھے بیٹھے گم ہوجاتا ہوں
میں اب اکثر میں نہیں رہتا تم ہوجاتا ہوں
 
Top