رانا سعید ددوشی کی کتاب 'زمیں تخلیق کرنی ہے' کی تمام نظمیں

بارش

بادل گرجے،
بجلی کڑکی،
بوندیں ٹپکیں،
اولے برسے،
گھر کی کچی چھت میں
سو سو چھید ہوئے

پچھلی بار بھی بارش یوں ہی برسی تھی،
چھپ پر جو مٹی ڈالی تھی،
وہ مٹی ہرجائی نکلی
اُس مٹی کی یاد میں اب بھی چپکے چپکے
کتنی کتنی دیر
رسوئی روتی ہے
بادل شاید
سارا بالن گیلا کرکے جائیں گے
سادھو بابا کا تو ’’مچ‘‘ بھی سرد پڑا ہے
بارش کا بے رحم لبادہ تن پر لے کر
ٹھِر ٹھِر کرتا اک آوارہ کتّا کب تک کان لپیٹے
حلوائی کے چولہوں میں چنگاری ڈھونڈے؟

اب کے تو سورج بھی گھر سے
چھتری لے کر نکلا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شیشے کا برگد

مرے آنگن کے برگد میں
کسی نے کانچ کا پیوند ڈالا ہے
جبھی تو
کرچیاں اگتی ہیں شاخوں پر
شجر کے ان بلوری مرتبانوں میں
مقیّد آکسیجن کا بھی
دم گھٹنے لگا ہے،
ہر اک پتا بنا ہے آتشی شیشہ
تو سائے کیا اگیں گے؟

پرندوں کے گھروں کے بھید بھی
ممکن نہیں پنہاں رہیں
برگد کے سینے میں

وہ دیکھو!
شہپروں سے
خون تک رستا
دکھائی دے رہا ہے

میں باہر پھینک کر آیا ہوں
اک مردہ گلہری کو
لو!
اب ایک اور زخمی ہے
جسے چاروں طرف سے
چیونٹیوں نے گھیر رکھا ہے
یہی جی چاہتا ہے
مار کر پتھر کبھی شیشے کے برگد کو
میں چکنا چور کر ڈالوں
مگر ڈرتا ہوں آنگن میں
مرے بچے بھی ننگے پاؤں پھرتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مِرے مٹی کے برتن

’’یہ چھت پہ کون ہے اور کیوں۔۔۔
مسلسل چارپائی کو گھسیٹے جا رہا ہے؟؟
مرے سر پر ہتھوڑے پڑ رہے ہیں‘‘

’’ہماری چھت پہ کوئی بھی نہیں ہے
یہ سب کچھ آسماں پہ ہو رہا ہے‘‘

مرا بچہ بتاتا ہے
کہ بادل پانی لینے جا رہے ہیں
مری آنکھوں کے بادل
آسماں کے بادلوں کے بعد پانی لینے نکلے تھے
مگر ان سے بھی پہلے پانی لے کے لوٹ آئے ہیں

(مرے مٹی کے برتن۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جو ابھی میں نے بنا کر چھت پہ رکھے تھے۔۔۔۔۔۔؟)

مجھے لگتا ہے کوئی بادلوں کی اوٹ میں ہو کر
مرے ان برتنوں پر تیر برساتا چلا جاتا ہے
پھر آتا ہے، آکر شور کرتا ہے
یہ گدلا اور گاڑھا خون
میرے برتنوں کا ہے
جو پرنالے کی شہ رگ سے نکل کر
صحن سے ہوتا ہوا
گلیوں میں بہتا جا رہا ہے

اسی کو دیکھ کر شاید
رسوئی میں پڑا آٹے کا یہ کمزور دل
خالی کنستر
ہچکیوں سے رو رہا ہے
اور میں
گلیوں میں آوازہ لگاتا پھر رہا ہوں
’’کوئی ترپال کا ٹکڑا
یا کوئی موم جامہ ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زمیں تخلیق کرنی ہے

میں کہتا تھا مجھے لاوا اگلنے دو
مگر مجھ کو
نشیبی بستیوں کے لوگ بھی
آنکھیں دِکھاتے تھے
زمیں بھی ڈول جاتی تھی
سو میں
آتش فشاں کے اس دہانے پر
یہ ’’دایاں‘‘ ہاتھ رکھ کر بھاگ نکلا ہوں
نشیبوں سے فرازوں کی طرف
یوں بھاگ کر آنا
کوئی آسان تھوڑی تھا
چڑھائی چڑھتے چڑھتے
میں تو کیا چوپائے تک بھی ہانپ جاتے ہیں
مرا ہی حوصلہ ہے جو یہاں تک آن پہنچا ہوں

مگر میرے مقابل
اب تو سب کی سب چٹانیں ہی
عمودی ہیں
یہ کاہو کی لٹکتی شاخ میرے ہاتھ آجائے
تو شاید
بات بن جائے
مگر یہ بھی تو ممکن ہے
میں اچھلوں
اور فقط پتّے مرے ہاتھوں میں آئیں
میں پھسل جاؤں
یہ سارا کھیل
بائیں ہاتھ کا کب ہے
مجھے تو پربتوں کے پار جانا ہے
جہاں نیلا سمندر ہے
اسی نیلے سمندر میں
مجھے لاوا اگل کر
اپنے حصّے کی زمیں تخلیق کرنی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بالک ہٹھ

سہما سہما
یہ جو میں مٹیالی جھیل میں
چھپ کر سانسیں روکے بیٹھا
دھندلے آبی شیشوں میں سے
ایک بھیانک منظر دیکھے جاتا ہوں،
تم کیا جانو
مجھ پر کیا کیا بیت رہی ہے؟؟
یہ تو کوئی گاؤں کا وہ بچّہ جانے
جس نے دَہَن غلیل کیا ہو
پھر سوچوں کی پگ ڈنڈی سے
لفظوں کے کچھ غُلّے چُن کر
پھٹے ہوئے کُرتے کی جیب میں ڈالے ہوں
پھر ’’جیبھ چموٹھے‘‘ میں بھر بھر کر
خوب نشانے مارے ہوں،
ایسی بچوں کی سی حرکت
مجھ سے اکثر ہو جاتی ہے
آج بھی میں نے
بھڑوں کا چھتّہ چھیڑ دیا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُپلے تھاپتی ہتھیلی

مری بنجر ہتھیلی پر بھی
دیسی کھاد کا اک ڈھیر تھا جس کو
کسی مرغی کے پنجوں نے
تلاشِ رزق میں ایسے کریدا ہے
کہ اب اس پر
لکیریں اُگ رہی ہیں،

لکیریں بھی کسی ’’دیہات‘‘ کی
گلیوں کے جیسی
تنگ، ترچھی اور بدبودار کیچڑ سے بھری،
کچی
کہ جن کے بیچ
کھُرلی سے بندھی گائے جگالی کر رہی ہے
ساتھ ہی معذور سی دیوار
گیلے اوپلوں نے تھام رکھی ہے

ذرا آگے
کسی چوپال میں ٹوٹی ہوئی اک کھاٹ کے نیچے
پڑی پگڑی پہ حقّہ گر گیا ہے،

چلم کی راکھ میں دُبکی ہوئی چنگاریاں
بادل بناتی ہیں
ہرے پیپل کے طوطے اُڑ گئے ہیں

مرے دن پھرنے والے ہیں
مجھے فٹ پاتھ کے طوطے بتاتے ہیں

کئی راتوں سے متواتر
میں بس۔۔۔
یہ خواب دیکھے جا رہا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بے سمت مسافت

بھری نیندوں سے جاگا ہوں
اندھیرے میں مجھے
ہر سمت ہی بے سمت دِکھتی ہے
بھلا ’’کمپاس‘‘ کیسے ڈھونڈ پاؤں گا
کہ دروازہ نہیں دِکھتا
چلو!
دیوار مل جائے
میں اپنے ہاتھ کی آنکھوں سے ہی
رستہ ٹٹولوں
اور بدن کی چھت کے نیچے سے
نکل کر صحن میں سے بھاگتا باہر چلا جاؤں
کہ مجھ کو بائیں جانب
دوسری اور ساتویں پسلی کے نیچے
زلزلے محسوس ہوتے ہیں
مگر
اس زلزلی ماحول میں تو بھاگنا بھی
اک نئی افتاد ڈھا دے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
چائلڈ لیبر

کس کرۂ ارض پہ جنم لیا مجھے یاد نہیں
پر آب و ہوا کچھ ایسی تھی
کہ میں اتنی جلدی بڑا ہوا
دن گھٹنوں کے بَل چلنے کے
میں اپنے پاؤں پہ کھڑا ہوا

مری گود ہے تختی سے خالی
اور ہاتھ پہ مہندی گاچی کی بھی رچی نہیں
نا انگشتوں میں نرسل کے سر قلم ہوئے
مری پیشانی پر پھر یہ دھبّے کیسے ہیں؟
مرے ہاتھ میں چابی، پانا ہے
مجھے کون سے مکتب جانا ہے؟
مرا بچپن، ترسے بچپن کو

مرا کھانا کسی نے عجلت میں
کوڑے کے ڈھیر پہ پھینک دیا
یہ مچھلی کا ٹکڑا تو ڈھونڈ لیا میں نے
اب روٹی ڈھونڈتا پھرتا ہوں
میں اُس کوڑے کے ڈھیر پہ تھا
اب اِس کوڑے کے ڈھیر پہ ہوں

یہ ردّی کا جو بورا ہے
مرا بستہ ہے
تم جس سے بچ کر چلتے ہو
مرا رستہ ہے
مرا گندہ مندا چہرا ہے
مرا کُرتا پھٹا پرانا ہے
کل عید بھی آنے والی ہے
مجھے کس نے گلے لگانا ہے
مری گردن، ترسے گردن کو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کاش میں بھی زمین میں اُگتا

ذرا سے بیج میں مخفی
میں سایہ دار پیپل تھا
مجھے جنگلی کبوتر نے
پرانی سی حویلی کے چھجّے کے نیچے
عین پرنالے پہ لا کے بو دیا ہے
اور میں۔۔۔
اُگ بھی گیا لیکن
مرا دھرتی سے کوئی رابطہ بن ہی نہیں پاتا
میں پرنالے کے گدلے پانیوں پہ پل رہا ہوں


مری شاخیں،
مرے پتّے
زمیں کی گود سے مانوس کیا ہوتے؟
جڑوں نے ہی زمیں سے اُٹھنے والی
خوشبوؤں کا ذائقہ اب تک نہیں چکھّا
مگر پھر بھی جڑوں کو یہ زمیں کی ’’کھینچ‘‘
اپنی سمت کھینچے جا رہی ہے
جڑیں۔۔۔
دیوار کی درزوں میں بستے
کنکھجوروں کے گھروں میں گھُس کے
پنجے گاڑ لیتی ہیں
مگر اپنی زمیں کی سمت کھنچتا جا رہا ہوں میں
یونہی کھنچتا رہا تو ایک دن میں نے
زمیں کو چوم لینا ہے
بھلے مجھ پر حویلی کے در و دیوار ٹوٹیں
سارا ملبہ اور چھجا سر پہ آجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کوکھ جلا سیّارہ

یہ سیّارہ
جو بالکل بیضوی کشکول جیسا ہے
گلوبی گردشیں ساری ہمیشہ سے
اسی کے گِرد گھومتی ہیں
جو مقناطیس
مقناطیسیت سے ہاتھ دھو بیٹھیں
تو پھر کمپاس کیا سمتیں بتائیں؟

یہاں دل ہی نہیں گھٹتا
بدن کا وزن بھی تفریق در تفریق ہوتا
مثبتوں سے منفیوں کے دائروں میں
گھومتا محسوس ہوتا ہے

مسلسل گردشوں پر گر کوئی نظریں جمائے گا
تو پھر
چکر تو آئیں گے

یہاں املی نہیں ملتی
فقط ناپید جیون ہی کے کچھ
آثار ملتے ہیں
گہر ہونے کی خواہش میں
برسنے والی بوندیں
شیش ناگوں کے دہن میں جا ٹپکی ہیں

جہاں سیپوں کی ناکوں میں نکیلیں ڈال رکھی ہوں
وہاں پر زندگی کیسے نمو پائے؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سرد زادے

میں غالباً
دوسری میں تھا جب
یہ سرد زادے،
یہ برف موسم،
مجھے ڈرانے گلی میں آتے
تو میں نہ ڈرتا،
میں ننگے پاؤں
بِنا سویٹر
نکل کے اپنے لحاف سے جب
گلی میں جاتا تو بھاگ جاتے

گلی کی نکڑ سے تھوڑا آگے
جو لاہوں کے چوک تک تو
میں ان کا پیچھا کرتا
کہ میرا گلیوں میں دبدبا تھا،
مجھے ڈرانے کو آئے موسم
خود اپنی ہستی ہی بھول جاتے
کوئی قصائی کے پھٹّے نیچے
تو کوئی حلوائیوں کے چولہوں کی
راکھ میں جا پناہ لیتا
میں سرد راتوں میں دندناتا

میں اپنے گھر پہ تو شیر تھا ہی
کہ میرا مکتب میں بھی روّیہ ذرا جدا تھا
مری نصابی کتاب میں جو گلیشیئر تھے
انہیں میں گُل شیر پڑھ رہا تھا
عجیب گرمی تھی میرے اندر

مگر
اچانک یہ کیا ہوا ہے
کہ سرد زادوں نے
میرے گھر پر بھی اپنا قبضہ جما لیا ہے
خنک رُتیں اب
مرے لحافوں میں سو رہی ہیں

کوئی بھی گوشہ،
کوئی بھی کونا،
نہیں بچا ہے کہ جس میں
میں بھی دُبک کے بیٹھوں
مری بصارت،
مری سماعت تو خیر
گروی پڑی ہوئی تھی،
یہ جب سے بالوں میں برف اُتری ہے
میرا لہجہ ٹھٹھر گیا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیوتا

بادل کی برساتی اوڑھے
سورج
آم کے باغ میں شاید
اب بھی اُن کو ڈھونڈ رہا ہے
جن کے نام لکھے دیکھے تھے
پچھلی رُت میں پیڑوں پر
لیکن اب تو
اُن پیڑوں کی چھال کے ٹکڑے
گاؤں کی گلیوں میں بہتے
بارش کے مٹیالے پانی کے سینے پر
تیر رہے ہیں
یاد تو ہو گی
کاغذ کی وہ کشتی،
پچھلے ساون میں جو
گیلی ہو کر ڈوب گئی تھی۔۔۔
آنگن کی دیوار سے چِپکی
اُس کشتی کی لاش ملی ہے
وقت ملے تو آجانا
اُس کشتی کو دفنانا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نیل ٹاس رے نیل ٹاس

نیل ٹاس رے نیل ٹاس
ترے نیلے نیلے پنکھ
تُو سُندر سُندر پنکھ لگا کرنیل گگن کو
چھُو کر آیا لگتا ہے
تُو پربت پار کے نیلے نیلے ساگر کی
لہروں میں نہایا لگتا ہے

میں دکھیاری
برہاماری
ماٹی رنگی بھوری چڑیا،
کون لِلاری مجھ کو تیرے رنگ رنگے
او نیلے نیلے پنکھ پسارے
نیل گگن میں اُڑنے والے نیل ٹاس!
مرا اندر نیلو نیل رے
مرا اندر نیلو نیل
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جولائی کی دوپہر

جولائی کی دوپہروں کا میں شہزادہ
سورج کا ہے تاج سنہری میرے سر پر
دھوپ کی جھلمل جھلمل کرتی
چمکیلی پوشاک پہن کر
تانبے کی سڑکوں پہ چلتا
لنچ بریک میں گھر جاتا ہوں

پیٹ کی آگ پہ لسی کا نمکین کٹورا
تیرے سرد رویّوں جیسا لگتا ہے
میٹھی میٹھی نیند آتی ہے

نیند آتی ہے
سو نہیں سکتا
کام پہ جانا ہوتا ہے
یاد آتی ہے
میں شہزادہ
رو نہیں سکتا
قول نبھانا ہوتا ہے

تم پر کیا پابندی ہے جی!
تم کوئی ملکہ یا شہزادی تھوڑی ہو
نیند آئے تو سر کو باندھ کے
سو سکتی ہو
یاد آئے تو پیاز کترتے
رو سکتی ہو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زرقا

تو کیا وہ جھوٹ تھا
جو تُو نے اُس لڑکی سے بولا تھا؟
’’میں تیری نیل جیسی جھیل آنکھوں پر
غزل کے شعر لکھوں گا،
میں تیری ریشمی زلفوں میں
اپنی نظم کے موتی پروؤں گا،
میں تیری دودھیا رنگت کلائی میں
طلائی چوڑیوں ایسے کھنکتے
گیت پہنانے کا خواہاں ہوں‘‘

مجھے معلوم ہے فرصت نہیں ملتی،
بہت سے اور موضوعات بھی مانا
ضروری ہیں
مگر اس سے کِیا وعدہ
بھلا کیا کم ضروری ہے؟

تُو ایسا کر!
کوئی اپنی پرانی نظم اس کے نام کر دے
یا
غزل کے شعر میں ردّ و بدل کرکے
کسی صورت بھی اس کا تذکرہ کر دے
جو تیری شاعری کے آئنے کے سامنے
سنگھار کرنے بیٹھ جاتی ہے

نہیں
مجھ سے تو ایسا بھی نہیں ممکن
اُسے میری سبھی نظمیں،
سبھی غزلیں،
زبانی یاد ہوتی ہیں
اسے تو میری وہ غزلیں بھی ازبر ہیں
جو میں نے جا کے صدیوں بعد کہنی ہیں
میں ان یاقوت ہونٹوں پر
فقط خاموشیاں ہی ثبت کرتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابھی موسم نہیں بدلا

ابھی موسم نہیں بدلا
ابھی سے گرم کپڑے کس لیے
صندوق میں رکھنے لگی ہو؟

پریشانی تو ہوتی ہے
مگر ایسی بھی کیا
تم نے تو میرا فیکٹری کا پاس بھی
کپڑوں میں دھو ڈالا

دمہ ہے
اور دمہ،
دم لے کے جاتا ہے
سو اب جانے ہی والا ہے
دعا آخر دعا ہے
رنگ لاتی ہے

ذرا سننا!
یہ تھوڑی سی دوائیں ہیں
نہیں
لانی نہیں ہیں
بچ گئی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مُجھے دستار سے باہر نکالو!

میں بونا بھی نہیں تھا
اور مرا سر بھی
یہاں کے عام لوگوں کے سروں جتنا
بڑا تھا
پر
بزرگوں نے مرے سر پر
مرے قد سے بڑی
مایا لگی دستار رکھ کر
خود مجھے بونا بنا ڈالا

بزرگوں کو میں کیا کہتا
وہ ’’شہ دولے‘‘ کے پیروکار جو ٹھہرے

مرے سر کو اسی اکڑی ہوئی دستار نے
جکڑا ہوا ہے

میں اس دستار کے نیچے
کسی فانوس میں رکھی ہوئی
اک موم بتّی کی طرح
جلتا
پگھلتا
موم کا اک ڈھیر بنتا جا رہا ہوں
مجھے دستار سے باہر نکالو
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
توتلے جُگنو

’’ابابیلوں سے خائف
ہاتھیوں والے
سنا ہے آج کل
چمگادڑوں کی فوج کو تیار کرنے میں لگے ہیں‘‘

’’اندھیری رات میں
چمگادڑوں کی عسکری
مشقوں سے تنگ آکر
دیئے کی ٹمٹاتی لو کے آگے
اب تلمذ کے لیے زانو کو تہہ کرنے کے
خواہش مند جگنو بھی
بڑی مشکل سے لفظِ رو۔۔۔شنی
ہونٹوں پہ لاتے ہیں
کہ سانسیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ٹوٹ جاتی ہیں‘‘

چمکتے جگنوؤں کی توتلی سی
رو۔۔۔شنی
رب سے دُعا کرتی ہے،
’’اے مولا!
گرِہ
میری زباں کی کھول دے
میں نے
زباں کی نوک سے
چمگادڑوں کی آنکھ میں
سرمہ لگانا ہے‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دروازے سے باہر کھڑی چارپائی

منقّش گول پائے تھے ترے
رندا لگے سیرو، غضب کے تھے
ملائم بانہیاں، صندل کے جیسی تھیں
سبھی چولیں تھیں گُنیے میں
مہارت سے بُنا تھا بان گھر کی سوتری کا
لہریئے لیتا
تِری پائینت کی رسی،
کَسی تھی یوں سلیقے سے
اگر اس پر کوئی بچہ اچھلتا تھا
تو جا کے چھت سے لگتا تھا


بڑے تو پاؤں دھو کر بیٹھے تھے
سرد راتوں میں
تیمم کر لیا کرتے تھے
تیرے پائے کو چھو کر

نجانے کس لیے
تجھ میں بھی آزادی کے نعرے
چِرچرانے لگ پڑے تھے
اور اب
جب سے تُو شادی والے گھر سے
ہو کے آئی ہے
تجھے گھر میں بچھانے کو
جگہ بن ہی نہیں پاتی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مزارع

تھوڑی بہت زمین جو میری اپنی ہوتی
میں بھی اس پر
گندم، چاول اور چنے کی پستی پستی فصلیں بوتا
بونی بونی خوشیوں کو پروان چڑھانا
شہر میں سرکس دیکھنے جاتا
سرخی، کجلا، چوڑی، لال پراندے لاتا
اپنے کھیت کے چار چفیرے اُگے ہوئے
یہ بونے بونے بوٹے، اونے پونے بیچ کے
گھر میں بیٹھی ’’مرجانی‘‘ کے چٹّے چٹّے ہاتھوں پر بھی
پیلی پیلی سرسوں بوتا
شہنائی کی گونج میں روتا
خوش بھی ہوتا
لیکن سائیں!
میرے ایسے بھاگ کہاں ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جاگتے رہنا

گلی میں لالٹینیں لے کے پھرتے رتجگے
لاٹھی بجاتے ہیں
تو اس لاٹھی کی ٹھک ٹھک سے
مرے سپنے بھی چکنا چور ہوتے ہیں
میں ان کی کرچیاں پلکوں سے چنتا ہوں
تو اک بوڑھی صدا
چپکے سے میرے کان میں
لفظوں کا سیسہ ڈال دیتی ہے
تو سناٹوں کے گنبد سے بھی
یہ آواز آتی ہے
’’جاگتے رہنا‘‘

میں سونے کے عمل سے پیش تر ہی
جاگ جاتا ہوں

مری آنکھوں کے ’’کو یوں‘‘ سے ٹپکتی سرخیاں
سرگوشیوں میں
نیند سے بوجھل پپوٹوں کو یہ کہتی ہیں
’’ہمیں ہی جاگنا ہے تو
یہ پہرے در اپنی نیند کیوں برباد کرتا ہے؟‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تمہیں گرمی نہیں آتی؟

بدن پر پیرہن!
وہ بھی پرانے بادشاہوں سا!
سوئمنگ پُول ہے مسٹر!
کوئی میلہ نہیں ہے لوک ورثہ کا
ہمیں تو کاسٹیوم اپنے بدن پر بار لگتا ہے
تمہیں گرمی نہیں آتی؟
یہاں تو ننگ کے بھی نت نئے فیشن بدلتے ہیں
بہت پیچھے ہو دُنیا سے

چلو اس ننگ پیراہن کو تم بھی زیبِ تن کرلو
وگرنہ فیشنی لوگوں کی دُنیا میں
فقط اک تم
جُدا دِکھو گے دنیا سے

یہ دیدے پھاڑ کر حیرت سے تکنا چھوڑ دو ورنہ
مہذب لوگ بھی آنکھیں نکالیں گے
نہیں
ویسے نہیں
جیسے پرانے دور میں جلّاد
آنکھوں میں سلائی پھیر دیتے تھے
بصارت چھین لیتے تھے
یہاں یہ کچھ نہیں ہوتا

عمل ہوتا تو ہے
لیکن
فقط حیرت کشیدی کا
اگر خواہش ہو غسلِ آفتابی کی
تو تم بھی لیٹ سکتے ہو
تمہارے کان میں سیسہ اُنڈیلا چاہیے
روشن خیالی کا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایلینز

’’یہ کیسے لوگ ہیں
اور کون سی نگری سے آئے ہیں؟؟
نجانے کون سے خطے کی بھاشا بولتے ہیں یہ
سمجھ میں کچھ نہیں آتا‘‘

’’بدن بھورے
زبانوں سے ٹپکتی رال
ان کے سر ہیں ایسے
جیسے، ننگی کھال
آنکھیں، خون سے بھی لال
ان کے ہاتھ۔۔۔۔۔۔
بالکل پاؤں جیسے ہیں،
کسی سیّال میں لتھڑے ہوئے ناخن
لٹکتی توند، لمبے دانت ہیں ان کے
اگر چھینکیں تو ان کا
ناک سے ادراک جھڑتا ہے
بس اتنا جانتا ہوں میں
یہ زندہ ماس کھاتے ہیں
مگر اک دوسرے کو کچھ نہیں کہتے‘‘

’’مجھے کس جرم کی پاداش میں ان کے جزیرے پر اُتارا ہے؟
مرے تو خوف سے ٹخنے بھی گیلے ہو رہے ہیں

تعجب ہے!
مجھے بھی کچھ نہیں کہتے
یہ جب سے دھوپ کا چشمہ لگایا ہے
مجھے ’’سب ٹھیک‘‘ دِکھتا ہے
کہیں سے آئینہ لاؤ
مبادا میری ان سے شکل ملتی ہو‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیر بہوٹی

ننھی نرم، ہتھیلی اوپر
بیر بہوٹی
مخمل مخمل چال میں چلنے لگتی تھی
رگِ گلاب سی نازک نازک ریکھاؤں کو
کب خاطر میں لاتی تھی
اپنا رستہ آپ بناتی جاتی تھی
ریکھ تو کیا
یہ بعض اوقات تو
انگشتوں کی ریخوں میں بھی گھس جاتی تھی
سارے بدن میں گُد گُد ہونے لگتی تھی

’’لُوں لُوں دے مُڈھ لکھ لکھ چشماں‘‘
کھِل کھِل، کھِل، کِلکاری مار کے ہنستے تھے
جھرنوں کی آواز بھی کانوں میں رس گھولا کرتی تھی

لیکن جب سے
ہاتھ ہتھیلی بڑی ہوئی ہے
کھنگر اینٹ سے بنی ہوئی ان اونچی اونچی
ریکھاؤں کی دیواروں کے بیچ میں بیر بہوٹی اپنی
سُدھ بُدھ کھوئے پڑی ہوئی ہے

بیر بہوٹی کو ریکھائیں
اب خاطر میں کب لاتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں پیمبر نہ تھا

میرے اجداد ہفتے کے دن بھی
پکڑتے رہے مچھلیاں
مانتا ہوں خطا تھی
مگر وہ سزا پا چکے

میرا کیا دوش تھا
کیوں عذابِ مسلسل نئی طرز کا
مجھ پہ نازل ہوا

اس سے پہلے بھی طوفان آتے رہے
آندھیاں بھی چلیں
یہ زمیں بھی اُٹھا کر پلٹ دی گئی

اب کے سیلاب نے چال ایسی چلی
مچھلیاں چل کے
خود میرے گھر آگئیں
میرا گھر کھا گئیں
میں بھی گھر میں ہی تھا

میں پیمبر نہ تھا
پھر مجھے کس لیے
شکمِ * * ماہی میں رہنا پڑا
بوڑھی مچھلی کے کانٹے کو
آرا بنا کر
مرے جسم کی ٹہنیاں کاٹ دیں
مجھ کو چیرا گیا
کیا پیمبر کوئی میرے اندر چھپا تھا؟

*۔۔۔ ضرورت
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کفن میں جیب ہوتی تو

کفن میں جیب ہوتی تو
مرے پسماندگان مجھ کو کبھی مرنے نہ دیتے

میں
مرنے کے لیے سو سو جتن کرتا
اگر میں خودکشی کرتا
تو میری لاش کو پنکھے سے لٹکا چھوڑ دیتے
یا
مجھے مردود کہہ کر فاتحہ خوانی پہ پابندی لگا دیتے

مگرمچھ کی طرح روتے
زمیں کو بھی سمندر میں بدل دیتے
(سمندر میں کسی میّت کو کفنایا نہیں جاتا)

وہ میری لاش کو فرعون کی میّت سمجھ لیتے
کسی اہرام میں رکھتے
مری لکھی ہوئی تحریر میں ردّو بدل کرکے
وہ دستاویز بنواتے
خبر اخبار میں چھپتی
’’میں اپنا یہ تنِ مردہ،
یہاں کی تجربہ گاہوں کو عطیہ کر رہا ہوں‘‘

مرا پنجر،
کسی شیشے کے پنجرے میں سجا ہوتا
مجھے پھر کون دفناتا!!!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ندامت کی رِدا اُتری

ٹھٹھرتی مصلحت کی جھڑکیاں کانوں میں پڑتی ہیں
تو ہر خواہش دُبک کر بیٹھ جاتی ہے
اُمنگیں تھرتھراتی ہیں
ارادے کانپ جاتے ہیں
تو وعدے
برف کی صورت پگھل کر
بستیوں سے پستیوں میں جا کے گرتے ہیں
ندامت کی ردائیں اوڑھ لیتے ہیں
کسی ندیا کے سینے میں
کٹاری کی طرح جا کر اُترتے ہیں
تو ندیا چیخ اُٹھتی ہے

یہاں پگھلے ہوئے وعدے،
کسی دریا کی انگلی تھام لیتے ہیں
مگر کم ظرف دریا بھی مسلسل بُڑبڑاتا ہے
شکن ماتھے پہ لاتا ہے
ندامت اور بڑھتی ہے تو
انگلی چھوڑ دیتے ہیں

سمندر میں پہنچ کر ہی سکوں کا سانس لیتے ہیں
سمندر گود میں لے کر انہیں چمکارتا ہے
تب انہیں معلوم پڑتا ہے
کہ ایسے ان گنت پگھلے ہوئے وعدے
سمندر کی پنہ میں ہیں
سمندر تو سمندر ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاید تُجھ کو یاد نہیں ہے

سورج!
تجھ کو یاد نہیں ہے
تُو تو بالکل مُنّا سا تھا
گھٹنوں کے بل چلتا تھا

اک دن یونہی گھٹنوں کے بل چلتے چلتے
تُو ڈھلوان سے پھسلا تھا تو
میں نے تیری چیخ سنی تھی
میں دوڑا تھا

تُو تو یہ بھی بھول گیا ہے
اک دن اندھی کھائی میں تُو
شام سے پہلے ڈوب رہا تھا

قسم خُدا کی
میں ہی تھا وہ
جس نے تیرا ہاتھ پکڑ کر تجھ کو اوپر کھینچا تھا
اُس پَل
میری مٹھی سے اک لمحہ جا کر دور گِرا تھا
اُس لمحے کے پیچھے پیچھے
میں پاتال میں آپہنچا ہے
اور تُو اب بھی
میرے سر پر چمک رہا ہے!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اپنی آنکھیں واپس لے جا

میرے گھر کی پرچھتّی پر
بلّی اپنی آنکھیں رکھ کر بھول گئی تھی
دل تو ننھا بچہ تھا
سو، ضد کر بیٹھا
کہتا تھا، میں بھی دیکھوں گا
تاریکی میں
بوم، شپّرہ کیا کرتے ہیں
سورج کس کمرے میں جا کر سوتا ہے
بلّی کی آنکھوں سے اس نے
جانے کیا کچھ دیکھ لیا جو سہما سہما رہتا ہے
شام سویرے گلیوں میں
اعلان کراتا پھرتا ہے
’’بلی آجا!
اپنی آنکھیں واپس لے جا‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وائٹ کالر
’’ٹوٹا
باسمتی
یا سیلا؟؟؟
کون سے چاول
کتنے کتنے بابو جی؟؟‘‘

’’ایسا کرو بس
تھوڑے تھوڑے سیمپل دے دو
چِٹ پر
ان کے بھاؤ بھی لکھ دو‘‘

آج کی بھوکی رات تو شاید
مر ہی جائے
صبح سویرے بچے اُٹھ کر
ماں سے ناشتہ مانگیں گے تو
پھر کیا ہو گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جدائی کے لئے شرط

میں چولستان کا اک ریتلا ٹیلا
تُو ریگستان روہی کا
ہماری پیاس
بس
اک لہر قُلزم کی

میں تیری ذات کے صحرا میں کچھ ایسے
بکھر جاؤں کہ مجھ کو
کوئی یکجا کرنا چاہے بھی
تو وہ یکجا نہ کر پائے
مِرے ذرّے ترے ذرّوں میں کھو جائیں
تِرے ذرّے مِرے ذرّوں میں سو جائیں

پھر ایسا ہو کہ
جم کے بارشیں برسیں
بھگوئے اور نچوڑے جائیں ہم اک دوسرے میں

پھر ایسی لُو چلے
جیسی
چلی تھی ایک دن تھَل میں
مجھے تُو جذب کرکے سوکھ جائے
تجھے میں جذب کرکے سوکھ جاؤں

بگولے ہم کو کاندھوں پر اُٹھا کر
آسماں کی سمت لے دوڑیں
جہاں چاہیں وہاں چھوڑیں
ہوا چاہے جدھر کی ہو!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کیسا کھیل ہے؟

یہ کیسا کھیل ہے جس میں
کبھی صدیاں بھی بونی جھاڑیوں جیسی
کبھی لمحے بھی
چیلوں کے درختوں کی طرح
لمبے
بہت لمبے
کہ جن کی چوٹیوں کی سمت اُڑ کر جانے والے
موسموں کے پنچھیوں کے پَر،
خس و خاشاک کے قدموں میں گر کر
بین کرتے ہیں

تمناؤں کی ننھی سی گلہری
کوئلوں کی کوک سن کر چونک جاتی ہے

تو پچھلے پاؤں کے پنجوں کے بل
ایڑی اُٹھا کر
اُن رتوں کی راہ تکتی ہے
جو برسوں سے نہیں لوٹیں

اگر وعدے کے آموں کے درختوں کی کوئی ٹہنی
ذرا سے بور سے مخمور ہو جائے
تو اک لمحہ گزرتا ہے
یہ سب کچھ ایک لمحے میں ہزاروں بار ہوتا ہے

یہ کیسا کھیل ہے
جس میں
کبھی صدیاں بھی بونی جھاڑیوں جیسی
بہت بونی
بہت پستی
پھلانگے سے گزر جاؤ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شریکینِ حیات

میں جب بھی نظم بُنتا ہوں
غزل آ کر سرہانے بیٹھ جاتی ہے
غزل سے بات کرتا ہوں
تو نظمیں منہ بناتی ہیں
سعی کرتا ہوں دونوں کو منانے کی
مگر بے سُود
آخرکار دونوں سے خفا ہو کر
میں گھر سے بھاگ جاتا ہوں
کسی ’’نثرین‘‘ کے کوٹھے پہ جا کر
بیٹھ جاتا ہوں
یہاں پر صبح کا بھولا ہوا میں
شام تک
خوش فہمیوں کے پھول چنتا ہوں

’’جسے میری زیادہ آرزو ہو گی
مجھے وہ پاؤں پڑ کر بھی منا لے گی
گلے شکوے بھلا کر
میں بھی اُس کے ساتھ چل دوں گا
کہ اتنی دیر تک ناراضگی کا کرب
میں بھی سہہ نہیں سکتا‘‘

بہت ہی جلد سپنا ٹوٹ جاتا ہے
میں بعد از شام
خود ہی اُٹھ کے
اپنے گھر کو جاتا ہوں
سبھی شکوے گلے تہہ کرکے
بستر کے سرہانے چھوڑ آتا ہوں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اہتمام

جمالے!
او جمالے!
وہ بھوری بھینس
جس نے مولوی کو سینگ مارا تھا
گلی سے کھول کر ڈیرے پہ لے جا

شکورے!
بھینس کی کھُرلی کو رستے سے ہٹا دے
پھاوڑے سے سارا گوھیا میل کے
کھیتوں میں لے جا

نذیراں! جا ذرا
ویہڑے میں بھی جھاڑو لگا دے
سُن!
یہ ساری چھانگ بیری کی اُٹھا لے جا
جلا لینا،

غلامے یار!
یہ۔۔۔۔۔۔ کیکر کے کنڈے۔۔۔۔۔۔
چھوڑ۔۔۔۔۔۔ میں خود ہی اُٹھا لوں گا
تُو ایسا کر۔۔۔۔۔۔
حویلی میں جو ’’موتی‘‘ اور ’’ڈبُّو‘‘ پھر رہے ہیں
ان کو سنگلی ڈال
بلکہ ۔۔۔۔۔۔میں تو کہتا ہوں
انہیں ڈیرے پہ ہی لے جا
یہ گھر میں ہوں تو
رحمت کے فرشتے ہی نہیں آتے

چنے کا ساگ اُس نے
اپنے ہاتھوں سے پکایا ہے
نجانے کب
وہ سلور کی کٹوری لے کے آجائے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ستارے کیا ہمارے استعارے
بھی جُدا ہیں

بادل، بارش، ندیا، جھرنے
جگنو، تتلی، دھنک، صبا
اور کلیاں، پھول
میں کیا جانوں؟
میرے کانوں کی آنکھیں تو
ان لفظوں کی شکلوں سے مانوس نہیں

سورج، تپتی ریت، مسافت، بھول بھُلیّاں
صحرا، دھول
تم کیا جانو؟

میرے کانوں کے پیروں نے
ان لفظوں کے صحراؤں کو
کتنی بار عبور کیا ہے؟

میری آنکھوں، کانوں، منہ اور ناک کے
دونوں نتھنوں سے بھی
اب تک تپتی ریت کے چشمے جاری ہیں

میرے ہونٹوں کے پیروں میں
ان لفظوں کے صحراؤں میں چلتے چلتے
اتنے چھالے پڑے ہوئے ہیں
جتنے
تیری رات کی چھت پر تارے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تجھے مُکتی نہیں ملنی


شدھو دن!
یہ پڑا تیرا ’’کپل وستو‘‘
سنبھال اپنا یہ مایا جال کا جنجال
میری معذرت،
اے میری ’’پالن ہار ماتا‘‘ گوتمی!
میری بلائیں لے کہ میرے واسطے تُو ہی
’’جنم ماتا‘‘ مہا مایا کی صورت ہے
ترے سوئی پڑی کے پاؤں چھوتا ہوں،
مری ہمدم، مری گوپا!
ترا لختِ جگر راہُل تجھے سونپا
معافی!
صد معافی!
اب اجازت چاہتا ہوں میں،

سنو! اے خفتگانِ قصر
میری آخری خواہش
کہ اس سے پیشتر
کوئی شدھو دن،
گوتمی، گوپا،
کوئی راہول جاگے،
راستا کاٹے،
کسی صورت بھی کوئی بدشگونی ہو،
مجھے اک اسپ تازی کی ضرورت ہے
سحر سے پیشتر مجھ کو جو سرحد پار لے جائے
مجھے ’’انما‘‘ ندی آواز دیتی ہے
اسی ندیا میں،
میں نے اپنی ہر خواہش
ڈبونی ہے،
اسی سرحد سے میری سرحدیں آغاز ہوتی ہیں
مرے ان مخملیں پیروں کو گرد آلود ہونے دو
مری آنکھوں کو ہنسنے دو
مرے چھالوں کو رونے دو
مجھے اب مُکت ہونے دو۔۔۔۔۔۔

نہیں گوتم نہیں!
ایسے تجھے مُکتی نہیں ملنی
بس اک نروان کی خاطر
بہت سے چاہنے والوں کو
یوں بے آسرا کرنا بھی کوئی آدمیت ہے؟
جسے تُو ترکِ خواہش کہہ رہا ہے
یہ تو اپنے طرز کی منفی بغاوت ہے
جو سچ پوچھے تو تیرا جو گیا چولا بغاوت کا تردّد ہے
یہ تیرا چاہنے والوں پہ جذباتی تشدّد ہے
جو میں ہوتا
تو سو نروان اک انسان پر قربان کر دیتا
کہاں ہے
میترا، کرنا، اہنسا،
وہ ترے سیمیں اصولوں کی پھٹک گوتم!
یہ تُو جو ترکِ خواہش کی بڑی تلقین کرتا ہے
تو کیا نروان کی خواہش
کوئی خواہش نہیں ہوتی؟؟

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

شمائل
(شمائلہ بیٹی کی بارہویں سالگرہ پر)

شمائل!
میں تو پورا نام بھی لیتا نہیں تیرا
تجھے میں لاڈ بھی اس وقت کرتا ہوں
کہ جب تُو نیند کی آغوش میں ہوتی ہے
ہنستی ہے نہ روتی ہے
تجھے تو میں نے اتنی بار بھی دیکھا نہیں ہے
جتنی عیدیں اور شبراتیں
تری بارہ برس کی زندگی میں چاند لایا ہے

مگر تُو جب یہ کہتی ہے
’’مرے پاپا مجھے ماما سے بڑھ کرپیار کرتے ہیں‘‘
مجھے اس وقت یہ پایا ترے آگے
بہت بونا سا دِکھتا ہے
 

الف عین

لائبریرین
ماشاء اللہ ای بک کا مواد۔ کیا کمپوزنگ بھی خود ہی کی ہے یا ان پیج فائل حاصل کر لی گئی ہے کتاب کی؟ اگر کمپوزنگ کی ہے تو اس کا کریڈٹ ای بک میں بھی دینا پو گا۔
 
Top