رانا سعید دوشی کی شاعری(مہربانی فرما کر کمنٹس نہ دیں تاکہ قاری صرف شاعری سے لطف اندوز ہو سکے)

تو ہی کہتا تھا کہ ہوتی ہے ہوا پانی میں
بس تری مان کے میں کود پڑا پانی میں
یوں ہوئے تھے مرے اوسان خطا پانی میں
سانس لینا بھی مجھے بھول گیا پانی
اس قدر شور کی عادی نہ تھی آبی دنیا
جس قدر زور سے میں جا کے گرا پانی میں
جھیل پہ رات گئے تم یہ کسے ڈھونڈتے ہو
کیا تمہارا بھی کوئی ڈوب گیا پانی میں
اس کے لہجے میں پکارا ہے مجھے موجوں نے
تم کنارے پہ رہو، میں تو چلاپانی میں
جاں نکلتے ہی مرا جسم سرَ آب آیا
جب تلک سانس رہی ، میں بھی رہا پانی میں
 
دو قدم چاند مرے ساتھ جو چل پڑتا ہے
شہر کا شہر تعاقب میں نکل پڑتا ہے
میں سرِ آب جلاتا ہوں فقط ایک چراغ
دوسرا آپ ہی تالاب میں جل پڑتا ہے
پیاس جب توڑتی ہے سر پہ مصیبت کے پہاڑ
کوئی چشمہ میری آنکھوں سے ابل پڑتا ہے
بے خیالی میں اسی راہ پہ چل پڑتا ہوں ہوں
جانتا بھی ہوں کہ اس راہ میں تھل پڑتا ہے
ایسا لگتا ہے کہ تو دیکھ رہا ہے مڑ کر
جب ہواؤں سے کسی شاخ میں بل پڑتا ہے
ٹوٹ جاتا ہے محبت کا تسلسل یکسر
'آج' کے بیچ میں جس وقت یہ 'کل' پڑتا ہے
درد بھی دیتا ہے دروازے پہ دستک دوشی
دل کی دھک دھک سے بھی خوابوں میں خلل پڑتا ہے
 
تم کو تو صرف سیہ رات سے ڈر لگتا ہے
ایک میں ہوں جسے ہر بات سے ڈر لگتا ہے
شہر میں جاتے ہوئے ڈرتا ہوں اب تک ایسے
جیسے ویرانے میں جنات سے ڈر لگتا ہے
سانس کی آنچ سے مجھ کو گلِ حکمت کر دے
کوزہ گر! اب مجھے برسات سے ڈر لگتا ہے
بات ادھوری ہو تو مفہوم بدل جاتے ہیں
تنگئی وقتِ ملاقات سےڈر لگتا ہے
میرا بیٹا بھی تو میری ہی طرح سوچتا ہے
اس کے پیچیدہ سوالات سے ڈر لگتا ہے
اپنے دشمن کی کسی چال سے کب ڈرتا ہوں
مجھ کو اندر کے فسادات سے ڈر لگتا ہے
گھر پہ منتر نہ کہیں پھونک دے جادو گرنی
زندگی! تیرے طلسمات سے ڈر لگتا ہے
قہر اب شہر پہ ہے ٹوٹنے والا دوشی
عرش پر جاتی شکایات سے ڈر لگتا ہے
 
کیوں کرتا ہے کم ظرفوں سے تو تکرار سمندر
جیسے گزرے خاموشی سے وقت گزار سمندر
ایسے دیکھا کرتا تھا میں اس کی جھیل سی آنکھیں
جیسے کوئی دیکھ رہاہو پہلی بار سمندر
آج نہ جانے دوں گا تجھ کو اپنی آنکھ سے باہر
دھاڑیں مار سمندر چاہے ٹھاٹھیں مار سمندر
صحرا پار کیا ہے میں نے کر کچھ سر کا صدقہ
مجھ پر وار سمندر کوئی ٹھنڈا ٹھار سمندر
جنم جنم کی پیاس بھری ہے میری اس مٹی میں
میرے ذرے ذرے کو ہے اب درکار سمندر
جتنی آسانی سے میں نے تجھ کو پار کیا ہے
کیا تو کر سکتا ہے ایسے مجھ کو پار سمندر
اک بحرِمردار کی صرت اور اک بحر الکاہل
میرے ساتھ کہاں تک چلتے یہ بیمار سمندر
میں سیراب کروں صحراؤ! میری آنکھ میں آؤ
پیاس تمہاری ہے ہی کتنی بس دو چار سمندر
 
چلو تم کو ملاتا ہوں میں اس مہمان سے پہلے
جو میرے جسم میں رہتا ہے میری جان سے پہلے
کوئی خاموش ہوجائے تو اس کی خامشی سے ڈر
سمندر چپ ہی رہتا ہے کسی طوفان سے پہلے
مجھے جی بھر کے اپنی موت کو تو دیکھ لینے دو
نکل جائے نہ میری جاں مرے ارمان سے پہلے
مری آنکھوں میں آبی موتیوں کا سلسلہ دیکھو
کہ سو تسبیح کرتا ہوں میں اک مسکان سے پہلے
پرانا یار ہوں دوشی مرا یہ فرض بنتا ہے
تجھے ہشیار کردوں میں ترے نقصان سے پہلے
 
سپولے جوگیوں نے اس لیے کِیلے نہیں ہوں گے
سمجھتے تھے کہ یہ حشرات زہریلے نہیں ہوں گے
جو چبھتے ہی نہ ہوں ان کو بھی کوئی خار کہتا ہے
اگر ہیں خار تو کیا خار نوکیلے نہیں ہوں گے
ہم ایسے لوگ جو پل پل غموں کا زہر پیتے ہیں
تو جانِ من ! ہمارے جسم کیا نیلے نہیں ہوں گے
مجھے سیراب کرنے کا ارادہ ملتوی کر دے
ترے دریا سے میرے ہونٹ بھی گیلے نہیں ہوں گے
یہ ریگستان کا طوفاں بڑا من زور ہوتا ہے
اگر تاخیر سے لوٹے تو یہ ٹیلے نہیں ہوں گے
 
ہمیں دائم کہاں رہنا ہے چلے جانا ہے
جس پہ چلتے ہیں اسی خاک تلے جانا ہے
اک ذرا نزع کی تکلیف کا چکھنا ہے مزا
اک یہ خواہش کہ تجھے مل کے گلے جانا ہے
موت لے جائے گی مجھ کو جھپٹ کرتجھ سے
زندگی! تونے فقط ہاتھ ملے جانا ہے
جانِ من! میں ہوں ترے صحن کا خود رُو پودا
وقت کے ساتھ ہی میں نے بھی پَلے جانا ہے
تمہیں جانا ہے تو یہ شمع بجھاتے جانا
رات بھر کس کے لیے اس نے جلے جانا ہے
 
آخری تدوین:
تو جو دیتا نہ آسرا مجھ کو
یہ جہاں مار ڈالتا مجھ کو
تیری آنکھوں میں چھپ گیا تھامیں
اور تو ڈھونڈتا رہا مجھ کو
آئنے مجھ سے خوف کھاتے ہیں
تونے پتھر بنا دیا مجھ کو
تو نے مشہور کر دیا ورنہ
کوئی بھی جانتا نہ تھا مجھ کو
سانپ کاٹے تو نیند آتی ہے
کانٹا ہوگا رت جگا مجھ کو
میری مجبوریاں سمجھتا تھا
کچھ بھی کہنا نہیں پڑا مجھ کو
ٹھان لی ہے جو چھوڑ جانے کی
میرے گھر تک تو چھوڑ جا مجھ کو
 
دست و پا میں کہاں زنجیر کی گنجا ئش ہے
کیا ابھی اور بھی تعزیر کی گنجائش ہے
جان بخشی کی ذرا سی بھی نہیں گنجائش
ہاں مگر تھوڑی سے تاخیر کی گنجائش ہے
عشق میرا بھی نہیں قیس ترے عشق سے کم
اس میں بس تھوڑی سی تشہیر کی گنجائش ہے
بات سیدھی ہے مجھے جینا نہیں تیرے بغیر
اور اب کون سی تفسیر کی گنجائش ہے
تو نہ طعنہ دے مجھے تنگ دلی کا اے دوست
میرے دل میں تیری تصویر کی گنجائش ہے
 
خاموشی کا جنگل تھا تنہائی تھی
میں نے اپنی بستی دور بسائی تھی
کانوں نے آواز کے بالے پہنے تھے
سنّاٹوں نے ایسی دھوم مچائی تھی
برف رتوں میں بے حس ہو کر مر جاتا
خود کو آگ لگا کر جان بچائی تھی
اپنی دنیا آپ بنائی ہے میں نے
تیرے آگے دنیا بنی بنائی تھی
تم کیا سمجھے خود کو بیچ رہا ہوں میں
یہ تو ویسے ہی قیمت لگوائی تھی
 
نشانے پر نشانے پڑ رہے ہیں
مجھے پنچھی بچانے پڑ رہے ہیں
تجھے بس ایک دریا پاٹنا تھا
مری رہ میں زمانے پڑ رہے ہیں
زمانے سے میں اُڑتا آرہا ہوں
مرے یہ پَر پُرانے پڑ رہے ہیں
مجھے قسمت پہ رونا آرہا ہے
مگر آنسو چھپانے پڑ رہے ہیں
زمانے! میں تو پھولوں میں پلا تھا
مگر پتھر اٹھانے پڑ رہے ہیں
میں شاعر سے مداری ہو گیا ہوں
مجھے کرتب دکھانے پڑ رہے ہیں
 
یوں بھی جینے کی نئی راہ نکالی میں نے
آپ دیوارِ انا خود پہ گرا لی میں نے
بعض احباب تو سچ مچ کا گدا گر سمجھے
اپنی حالت ہی فقیروں کی بنا لی میں نے
کچھ نہ بن پایا تو کشکول میں خود کو ڈالا
خالی جانے نہ دیا گھر سے سوالی میں نے
اب کوئی درد اذیت نہیں دیتا مجھ کو
جتنی تکلیف اٹھانی تھی اٹھالی میں نے
 
جو روح آج بھی ظلمت نبرد میری ہے
اس کے خوف سے رنگت بھی زرد میری ہے
جو خاک برد ہوئی خاک،وہ بھی میری تھی
جو سوئے عرش اڑی وہ بھی گرد میری ہے
فرار کے لیے کافی نہیں ہے کیا یہ جواز
طویل تر میرے جرموں سے فرد میری ہے
یہ فرد فرد فسانے نجانے کس کے ہیں
یہ داستان جو ہے درد درد میری ہے
یہ سرد مہری کسی کی ہے یا کہ برف کی سِل
اسی کے زیرِ اثر آہ سرد میری ہے
یہ خاک چاک پہ جس کی چڑھی ہے، وہ ہے تو
جو اڑ رہی ترے گِرد گَرد میری ہے
کسی کے چاک کے چکر سے بچتا پھرتا ہوں
کہ خاک آج بھی صحرانورد میری ہے
کسی بھی قول کی بابت کہاں نصیب تجھے
جو آبرو پسِ پیمانِ مرد میری ہے
 
بلا جواز کہاں جان پر بنی ہوئی تھی
مری تو پہلی محبت بھی آخری ہوئی تھی
مرا تو عشق وہاں داؤ پر لگایا ہوا تھا
یہاں ہر ایک کو ایمان کی پڑی ہوئی تھی
میں وار آیا ہوں مجنوں کے نقشِ پا پہ اسے
جو آبرو مجھے اسلاف سے ملی ہوئی تھی
گریز عشق سے آخر میں کب تلک کرتا
یہ عاشقی میری تقدیر میں لکھی ہوئی تھی
میں جان دینے چلا ایسے اعتماد کے ساتھ
کہ جیسے عشق میں پہلے بھی جان دی ہوئی تھی
ذرا سی دیر مسیحائی کو رُکا تھا کوئی
ذرا سے دیر ذرا درد میں کمی ہوئی تھی
ذرا سے ہم بھی تعلق میں وضع دار سے تھے
کچھ آشنائی بھی ان سے نئی نئی ہوئی تھی
فلک پہ یونہی تو سورج نکل نہیں آیا
ستارے جاں سے گئے تھے تو روشنی ہوئی تھی
 
مدیر کی آخری تدوین:
کوزہ گر!خاک مری خواب کے خاکے سے گزار
کربِ تخلیق!مجھے سوئی کے نالے سے گزار
ہستئ جاں سے گزر جائے مرا پختہ ظروف
فرش پر پھینک اسے اور چھناکے سے گزار
ساحلِ خشک، نمیدہ ہو کبھی بحرِ کرم!
خود گزر یا اسے لہروں کے چھپاکے سے گزار
حدتِ عشق میں پگھلا دے مرے سارے فراز
مجھ کو اس بار کسی خاص علاقے سے گزار
سنگ پاٹوں کی یہ چاکی مجھے کیا پِیسے گی
تو مجھے ارض و سماوات کے چاکے سے گزار
خالِ بنگال ترا جادو چلے گا لیکن
تو مجھے پہلے کسی آنکھ کے ڈھاکے سے گزار
کیوں تکلف میں گنواتا ہے جوانی کا یہ عہد
یہ دھنک دور کم ازکم تو جھپاکے سے گزار
 
یہ آسمان مرا مستقل ٹھکانا ہے
مگر زمیں پہ بھی صدیوں سے آنا جانا ہے
میں پچھلی بار یہاں قیس بن کے آیا تھا
نجانے اب کے محبت نے کیا بنانا ہے
اے وضع دار کسی روز بے تکلف ہو
کہ ایک خوابِ برہنہ تجھے سنانا ہے
میں جاتی بار تجھے یہ بتا کے جاؤں گا
مرا زمانہ کوئی اور ہی زمانہ ہے
یہ لوگ مجھ سے ترا باربار پوچھتے ہیں
مجھے بتا تو سہی انہیں کیا بتانا ہے
 
اوڑھ لی میں نے زمیں جسم کے اوپر میرے دوست
اور کرتا بھی میں کیا تجھ سے بچھڑ کر میرے دوست
ایک صحرا ہے مری آنکھ سے باہر میری جان
اک سمندر تھا مری ذات کے اندر میرے دوست
تو بس اک بار میرے پیار کی حامی بھرلے
جو بھی ہو آگےمرا اپنا مقدر میرے دوست
میرے سورج نہ مروت میں میرا سایہ بڑھا
اس کو رہنے دے مرے قد کے برابر میرے دوست
دل میں ہوتی نہ اگر تیری تمنا تو بتا
کس لیے ڈھونڈتا پھرتا تجھے در در تجھے دوست
 
تنِ بے جان میں اب جان کہاں سے آئے
اس کھنڈر میں کوئی مہمان کہاں سے آئے
شعرسا حسنِ توازن ہے ترے پیکر میں
تُو غزل ہے ترا عنوان کہاں سے آئے
رابطہ دل سے معطل تھا مری سوچوں کا
پھر مری آنکھ میں طوفان کہاں سے آئے
عشق شعلوں کا سفر، عشق ضرر کا سودا
مرحلے عشق کے آسان کہاں سے آئے
دشتِ پرہول میں اب کوئی جناور بھی نہیں
اس کڑے وقت میں انسان کہاں سے آئے
شہرِ عفریت زدہ! میں تجھے دھونی دیتا
مسئلہ یہ ہے کہ لوبان کہاں سے آئے
 
کاش اب کے بھی ملاقات میں مدت پڑجائے
یوں مجھے تجھ سے گدا رہنے کی عادت پڑجائے
دامن ایسا بھی کہاں ہے مرا براق سفید
اب اگر اس پہ کوئی داغِ محبت پڑجائے
اپنا اسباب ہی ہجرت میں اٹھانا ہے محال
اس پہ احباب کا بھی بارِ امانت پڑجائے
لشکرِ جرم تو کام اپنا کرے بے تعطیل
آئے دن دفترِ انصاف میں رخصت پڑجائے
بس یہی سوچ کے دشمن سے رعایت برتی
شاید ایسے ہی محبت کی روایت پڑجائے
 
ایک چنگاری کو جگنو کی چمک سمجھے تھے
وہ تو پاتال تھا ہم جس کو فلک سمجھے تھے
ہم نے صحرا میں سفر اتنا کیا ہی کب تھا
دشت کے تپتے سرابوں کو سڑک سمجھے تھے
زیست کے اور بھی پہلو ہیں یہ معلوم نہ تھا
ہم تو دینا کو فقط پیار تلک سمجھے تھے
کم نصیبی تھی کہ وہ غیر کا لشکر نکلا
ہم جسے آپ کی جانب سے کمک سمجھے تھے
اس کی دانائی کی ہر بات پہ خاموش رہا
ہم ہی پاگل تھے رویے میں لچک سمجھے تھے
 
Top