ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔
قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ ہوگا البتہ جو نا مانوس ہیں ان کے لئے تو یقیناً نئی چیز ہے۔ بہر حال کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ رباعی کے سب اوزان بحرِ ہزج سے ہیں، لیکن اس میں اتنی لمبی چوڑی تراکیب اور پھر شجرے وغیرہ یہ محض الجھانے والی باتیں ہیں رباعی کے محض دو وزن ہیں۔ بلکہ میں تو ایک ہی وزن مانتا ہوں ان دو کو بھی۔ مگر سمجھنے کی نیت سے ابھی ہم انہی دو وزن کو دیکھتے ہیں، اور در حقیقت یہی دو وزن کا اجتماع جائز ہے باقی چوبیس الگ الگ اوزان کی تراکیب بھول جائیں۔
بحرِ ہزج مثمن سالم:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
رباعی کے زحافات:
1۔ خرب (= خرم اور کٖف )
2۔ کف
3۔ قبض
4۔ بتر
یہ چار زحافات ہیں جو رباعی پر کام کرتے ہیں۔
خرب میں کف اور خرم جمع ہوتے ہیں،
خرم: کا کام ہے کہ رکن کے شروع میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکا پہلا حرف گرا دے مفاعیلن میں میم گرے گا۔
اور کف کا کام ہے کہ رکن کے آخری میں جو سبب خفیف ہو اس کے دوسرے حرف یعنی ساکن کو گرا دیتا ہے مفاعیلن میں نون ساقط ہونا مراد ہے۔
خرم و کف دونوں جب ایک ہی رکن پر کام کرتے ہیں تو ”خرب“ کہلاتے ہیں
کف: کا کام اکیلے میں وہی ہے جو اوپر بیان کیا کہ مفاعیلن سے نون کا اسقاط۔
قبض: کا زحاف حرف پنجم گرا دیتا ہے جو سبب خفیف میں ہو اور ساکن ہو۔ مفاعیلن سے ”ی“ کا گرانا مقصود ہے یہاں۔
بتر: کا زحاف پورا وتد مجموع ختم کرتا ہے جو رکن کے شروع میں ہو، مفاعیلن سے ”مفا“ کا ختم کرنا مراد ہے یہاں۔

اب آتے ہیں ان دو اوزان پر جو رباعی میں استعمال ہوتے ہیں
پہلا وزن:
مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
دوسرا:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل

مفعولُ خرب سے حاصل ہوا ۔ اخرب کہلاتا ہے
مفاعلن قبض سے۔ مقبوض کہلاتا ہے
مفاعیلُ کف سے۔ مکفوف کہلاتا ہے
فعَل بتر اور قبض سے۔ ابتر مقبوض کہلاتا ہے

الغرض ہم ان دو اوزان کو اپنی رباعی میں جمع کر سکتے ہیں
1۔ مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
2۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
اور جیسا آاپ پہلے پڑھ چکے ہیں تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آخری میں ایک ساکن بڑھانا عروض میں جائز ہے تو فعل کو فعول بھی بنایا جاسکتا ہے، گویا یہ دو اوزان یاد ہونے کے بعد آپ کو دو مزید اوزان خود ہی حاصل ہوگئے یوں چار اوزان آپ کے پاس ہو گئے۔
اب آپ کو وہی کام کرنا ہے جو ہندی بحر کے ساتھ کیا تھا !!!!
جی ہاں! تسکین اوسط۔۔
بس تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور وزن اپنے آپ بنتے جائینگے اور کل ملا کر انکی تعداد چوبیس ہوگی۔
میں نے یہ کام بھی آپ کی سہولت کے لئے کردیا ہے تو ذرا خود ہی ملاحظہ فرمالیں ۔
مذکورہ بالا دو اوزان میں جو پہلا وزن ہے اس میں دو جگہ تسکین اوسط کا زحاف کام کرتا ہے،
اور دوسرے والے میں تین جگہ۔
بس جہاں تین حرکات مستقل ہوں وہاں اپنی مرضی سے درمیان والی حرکت کو ساکن کردیں یوں پہلے وزن سے آٹھ اور دوسرے سے سولہ اوزان کا استخراج ہوگا ملاحظہ فرمائیں:

رباعی کے دو اوزان:
پہلا:
1۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعل
2۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعل =مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
3۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عل =مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
4۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عل= مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

5۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعول =مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
6۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعول =مفعولن فاعلن مفاعیل فعول
7۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عول =مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع
8۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عول =مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع

دوسرا:
9۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
10۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعل =مفعولن مفعول مفاعیل فعَل
11۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعل =مفعول مفاعیلن مفعول فعَل
12۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عل =مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
13۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عل =مفعولن مفعولن مفعولن فع
14۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعل =مفعولن مفعولن مفعول فعَل
15۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عل =مفعولن مفعول مفاعیلن فع
16۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عل =مفعول مفاعیلن مفعولن فع

17۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعول =مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
18۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعول =مفعولن مفعول مفاعیل فعول
19۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعول =مفعول مفاعیلن مفعول فعول
20۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عول =مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
21۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عول = مفعولن مفعولن مفعولن فاع
22۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعول =مفعولن مفعولن مفعول فعول
23۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عول = مفعولن مفعولُ مفاعیلن فاع
24۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عول =مفعول مفاعیلن مفعولن فاع

بس یہی کل چوبیس اوزان ہیں جو ان دو اوزان سے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض عروضیوں مثلاً یاس عطیم آبادی مرحوم یا اور دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ تسکین اوسط کے زحاف لگانے پر سیکڑوں اوزان نکل سکتے ہیں مگر رباعی فقط چوبیس اوزان پر ہے تو بسمل عرض کرتا ہے کہ ہمیں بھی ان سیکڑوں اوزان میں سے چند ایک نکال کر بتادیں جو ان چوبیس اوزان کے علاوہ ہوں!!!!
خیر یہی تھوڑی سی کہانی تھی رباعی کی۔ امید کرتا ہوں کہ سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
دعائے خیر کا طلبگار:
مزمل شیخ بسملؔ​
 

قیصرانی

لائبریرین
ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔
قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ ہوگا البتہ جو نا مانوس ہیں ان کے لئے تو یقیناً نئی چیز ہے۔ بہر حال کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ رباعی کے سب اوزان بحرِ ہزج سے ہیں، لیکن اس میں اتنی لمبی چوڑی تراکیب اور پھر شجرے وغیرہ یہ محض الجھانے والی باتیں ہیں رباعی کے محض دو وزن ہیں۔ بلکہ میں تو ایک ہی وزن مانتا ہوں ان دو کو بھی۔ مگر سمجھنے کی نیت سے ابھی ہم انہی دو وزن کو دیکھتے ہیں، اور در حقیقت یہی دو وزن کا اجتماع جائز ہے باقی چوبیس الگ الگ اوزان کی تراکیب بھول جائیں۔
بحرِ ہزج مثمن سالم:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
رباعی کے زحافات:
1۔ خرب (= خرم اور کٖف )
2۔ کف
3۔ قبض
4۔ بتر
یہ چار زحافات ہیں جو رباعی پر کام کرتے ہیں۔
خرب میں کف اور خرم جمع ہوتے ہیں،
خرم: کا کام ہے کہ رکن کے شروع میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکا پہلا حرف گرا دے مفاعیلن میں میم گرے گا۔
اور کف کا کام ہے کہ رکن کے آخری میں جو سبب خفیف ہو اس کے دوسرے حرف یعنی ساکن کو گرا دیتا ہے مفاعیلن میں نون ساقط ہونا مراد ہے۔
خرم و کف دونوں جب ایک ہی رکن پر کام کرتے ہیں تو ”خرب“ کہلاتے ہیں
کف: کا کام اکیلے میں وہی ہے جو اوپر بیان کیا کہ مفاعیلن سے نون کا اسقاط۔
قبض: کا زحاف حرف پنجم گرا دیتا ہے جو سبب خفیف میں ہو اور ساکن ہو۔ مفاعیلن سے ”ی“ کا گرانا مقصود ہے یہاں۔
بتر: کا زحاف پورا وتد مجموع ختم کرتا ہے جو رکن کے شروع میں ہو، مفاعیلن سے ”مفا“ کا ختم کرنا مراد ہے یہاں۔

اب آتے ہیں ان دو اوزان پر جو رباعی میں استعمال ہوتے ہیں
پہلا وزن:
مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
دوسرا:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل

مفعولُ خرب سے حاصل ہوا ۔ اخرب کہلاتا ہے
مفاعلن قبض سے۔ مقبوض کہلاتا ہے
مفاعیلُ کف سے۔ مکفوف کہلاتا ہے
فعَل بتر اور قبض سے۔ ابتر مقبوض کہلاتا ہے

الغرض ہم ان دو اوزان کو اپنی رباعی میں جمع کر سکتے ہیں
1۔ مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
2۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
اور جیسا آاپ پہلے پڑھ چکے ہیں تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آخری میں ایک ساکن بڑھانا عروض میں جائز ہے تو فعل کو فعول بھی بنایا جاسکتا ہے، گویا یہ دو اوزان یاد ہونے کے بعد آپ کو دو مزید اوزان خود ہی حاصل ہوگئے یوں چار اوزان آپ کے پاس ہو گئے۔
اب آپ کو وہی کام کرنا ہے جو ہندی بحر کے ساتھ کیا تھا !!!!
جی ہاں! تسکین اوسط۔۔
بس تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور وزن اپنے آپ بنتے جائینگے اور کل ملا کر انکی تعداد چوبیس ہوگی۔
میں نے یہ کام بھی آپ کی سہولت کے لئے کردیا ہے تو ذرا خود ہی ملاحظہ فرمالیں ۔
مذکورہ بالا دو اوزان میں جو پہلا وزن ہے اس میں دو جگہ تسکین اوسط کا زحاف کام کرتا ہے،
اور دوسرے والے میں تین جگہ۔
بس جہاں تین حرکات مستقل ہوں وہاں اپنی مرضی سے درمیان والی حرکت کو ساکن کردیں یوں پہلے وزن سے آٹھ اور دوسرے سے سولہ اوزان کا استخراج ہوگا ملاحظہ فرمائیں:

رباعی کے دو اوزان:
پہلا:
1۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعل
2۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعل =مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
3۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عل =مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
4۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عل= مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

5۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعول =مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
6۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعول =مفعولن فاعلن مفاعیل فعول
7۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عول =مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع
8۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عول =مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع

دوسرا:
9۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
10۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعل =مفعولن مفعول مفاعیل فعَل
11۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعل =مفعول مفاعیلن مفعول فعَل
12۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عل =مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
13۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عل =مفعولن مفعولن مفعولن فع
14۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعل =مفعولن مفعولن مفعول فعَل
15۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عل =مفعولن مفعول مفاعیلن فع
16۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عل =مفعول مفاعیلن مفعولن فع

17۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعول =مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
18۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعول =مفعولن مفعول مفاعیل فعول
19۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعول =مفعول مفاعیلن مفعول فعول
20۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عول =مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
21۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عول = مفعولن مفعولن مفعولن فاع
22۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعول =مفعولن مفعولن مفعول فعول
23۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عول = مفعولن مفعولُ مفاعیلن فاع
24۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عول =مفعول مفاعیلن مفعولن فاع

بس یہی کل چوبیس اوزان ہیں جو ان دو اوزان سے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض عروضیوں مثلاً یاس عطیم آبادی مرحوم یا اور دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ تسکین اوسط کے زحاف لگانے پر سیکڑوں اوزان نکل سکتے ہیں مگر رباعی فقط چوبیس اوزان پر ہے تو بسمل عرض کرتا ہے کہ ہمیں بھی ان سیکڑوں اوزان میں سے چند ایک نکال کر بتادیں جو ان چوبیس اوزان کے علاوہ ہوں!!!!
خیر یہی تھوڑی سی کہانی تھی رباعی کی۔ امید کرتا ہوں کہ سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
دعائے خیر کا طلبگار:
مزمل شیخ بسملؔ​
تصویر اتنی کھلنڈری اور باتیں اتنی بھاری؟
 
تصویر اتنی کھلنڈری اور باتیں اتنی بھاری؟

تصویر کھلنڈری ہی سہی۔ اسی بہانے کوئی یہ تو گمان رکھ سکتا ہے کہ میں چھوٹا ہوں ابھی۔ :)
بیشک خود کبھی کرکٹ بیٹ تک ہاتھ میں نہیں لیا ہو۔ :)
اور بھاری بھرکم باتیں وغیرہ تو الف عین محمد وارث فاتح شاکرالقادری انہی سب استادوں کی کرم نوازی ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ ایک حقیر و ناچیز و نادان کے سوا کچھ نہیں ہوں۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
تصویر کھلنڈری ہی سہی۔ اسی بہانے کوئی یہ تو گمان رکھ سکتا ہے کہ میں چھوٹا ہوں ابھی۔ :)
بیشک خود کبھی کرکٹ بیٹ تک ہاتھ میں نہیں لیا ہو۔ :)
اور بھاری بھرکم باتیں وغیرہ تو الف عین محمد وارث فاتح شاکرالقادری انہی سب استادوں کی کرم نوازی ہے۔ ورنہ من آنم کہ من دانم۔ ایک حقیر و ناچیز و نادان کے سوا کچھ نہیں ہوں۔
ہم تو سمجھ رہے تھے آپ موٹر سائیکل کی سواری کو جارہے ہیں ہاتھ میں ہیلمٹ لے کے۔۔۔ کرکٹ کے لیے بھی ایسا ہلمٹ ہوتا ہے؟
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
ابھی کچھ دیر پہلے ایک عزیز سے رباعی کے اوزان کے متعلق بات چل رہی تھی کہ رباعی کے چوبیس اوزان کو یاد رکھنا بڑا مشکل کام ہے اور بڑے بڑے عروضی بھی ان چوبیس اوزان کو اسی طرح لکھتے ہیں اور شاگردوں کو یاد کرواتے ہیں۔
قارئین میں جو میرا مضمون ہندی بحر کے حوالے سے پڑھ چکے ہیں انہیں کچھ عجب محسوس نہ ہوگا البتہ جو نا مانوس ہیں ان کے لئے تو یقیناً نئی چیز ہے۔ بہر حال کوئی لمبی کہانی نہیں ہے۔
سبھی جانتے ہیں کہ رباعی کے سب اوزان بحرِ ہزج سے ہیں، لیکن اس میں اتنی لمبی چوڑی تراکیب اور پھر شجرے وغیرہ یہ محض الجھانے والی باتیں ہیں رباعی کے محض دو وزن ہیں۔ بلکہ میں تو ایک ہی وزن مانتا ہوں ان دو کو بھی۔ مگر سمجھنے کی نیت سے ابھی ہم انہی دو وزن کو دیکھتے ہیں، اور در حقیقت یہی دو وزن کا اجتماع جائز ہے باقی چوبیس الگ الگ اوزان کی تراکیب بھول جائیں۔
بحرِ ہزج مثمن سالم:
مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن مفاعیلن
رباعی کے زحافات:
1۔ خرب (= خرم اور کٖف )
2۔ کف
3۔ قبض
4۔ بتر
یہ چار زحافات ہیں جو رباعی پر کام کرتے ہیں۔
خرب میں کف اور خرم جمع ہوتے ہیں،
خرم: کا کام ہے کہ رکن کے شروع میں اگر وتدِ مجموع ہو تو اسکا پہلا حرف گرا دے مفاعیلن میں میم گرے گا۔
اور کف کا کام ہے کہ رکن کے آخری میں جو سبب خفیف ہو اس کے دوسرے حرف یعنی ساکن کو گرا دیتا ہے مفاعیلن میں نون ساقط ہونا مراد ہے۔
خرم و کف دونوں جب ایک ہی رکن پر کام کرتے ہیں تو ”خرب“ کہلاتے ہیں
کف: کا کام اکیلے میں وہی ہے جو اوپر بیان کیا کہ مفاعیلن سے نون کا اسقاط۔
قبض: کا زحاف حرف پنجم گرا دیتا ہے جو سبب خفیف میں ہو اور ساکن ہو۔ مفاعیلن سے ”ی“ کا گرانا مقصود ہے یہاں۔
بتر: کا زحاف پورا وتد مجموع ختم کرتا ہے جو رکن کے شروع میں ہو، مفاعیلن سے ”مفا“ کا ختم کرنا مراد ہے یہاں۔

اب آتے ہیں ان دو اوزان پر جو رباعی میں استعمال ہوتے ہیں
پہلا وزن:
مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
دوسرا:
مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل

مفعولُ خرب سے حاصل ہوا ۔ اخرب کہلاتا ہے
مفاعلن قبض سے۔ مقبوض کہلاتا ہے
مفاعیلُ کف سے۔ مکفوف کہلاتا ہے
فعَل بتر اور قبض سے۔ ابتر مقبوض کہلاتا ہے

الغرض ہم ان دو اوزان کو اپنی رباعی میں جمع کر سکتے ہیں
1۔ مفعولُ مفاعلن مفاعیلُ فعَل
2۔ مفعولُ مفاعیلُ مفاعیلُ فعَل
اور جیسا آاپ پہلے پڑھ چکے ہیں تو آپ کو پتا ہونا چاہئے کہ آخری میں ایک ساکن بڑھانا عروض میں جائز ہے تو فعل کو فعول بھی بنایا جاسکتا ہے، گویا یہ دو اوزان یاد ہونے کے بعد آپ کو دو مزید اوزان خود ہی حاصل ہوگئے یوں چار اوزان آپ کے پاس ہو گئے۔
اب آپ کو وہی کام کرنا ہے جو ہندی بحر کے ساتھ کیا تھا !!!!
جی ہاں! تسکین اوسط۔۔
بس تسکینِ اوسط کا زحاف لگاتے جائیں اور وزن اپنے آپ بنتے جائینگے اور کل ملا کر انکی تعداد چوبیس ہوگی۔
میں نے یہ کام بھی آپ کی سہولت کے لئے کردیا ہے تو ذرا خود ہی ملاحظہ فرمالیں ۔
مذکورہ بالا دو اوزان میں جو پہلا وزن ہے اس میں دو جگہ تسکین اوسط کا زحاف کام کرتا ہے،
اور دوسرے والے میں تین جگہ۔
بس جہاں تین حرکات مستقل ہوں وہاں اپنی مرضی سے درمیان والی حرکت کو ساکن کردیں یوں پہلے وزن سے آٹھ اور دوسرے سے سولہ اوزان کا استخراج ہوگا ملاحظہ فرمائیں:

رباعی کے دو اوزان:
پہلا:
1۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعل
2۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعل =مفعولن فاعلن مفاعیل فعَل
3۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عل =مفعول مفاعلن مفاعیلن فع
4۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عل= مفعولن فاعلن مفاعیلن فع

5۔ مفعول مفاعلن مفاعیل فعول =مفعول مفاعلن مفاعیل فعول
6۔ مفعولم فاعلن مفاعیل فعول =مفعولن فاعلن مفاعیل فعول
7۔ مفعول مفاعلن مفاعیلف عول =مفعول مفاعلن مفاعیلن فاع
8۔ مفعولم فاعلن مفاعیلف عول =مفعولن فاعلن مفاعیلن فاع

دوسرا:
9۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعل
10۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعل =مفعولن مفعول مفاعیل فعَل
11۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعل =مفعول مفاعیلن مفعول فعَل
12۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عل =مفعول مفاعیل مفاعیلن فع
13۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عل =مفعولن مفعولن مفعولن فع
14۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعل =مفعولن مفعولن مفعول فعَل
15۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عل =مفعولن مفعول مفاعیلن فع
16۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عل =مفعول مفاعیلن مفعولن فع

17۔ مفعول مفاعیل مفاعیل فعول =مفعول مفاعیل مفاعیل فعول
18۔ مفعولم فاعیل مفاعیل فعول =مفعولن مفعول مفاعیل فعول
19۔ مفعول مفاعیلم فاعیل فعول =مفعول مفاعیلن مفعول فعول
20۔ مفعول مفاعیل مفاعیلف عول =مفعول مفاعیل مفاعیلن فاع
21۔ مفعولم فاعیلم فاعیلف عول = مفعولن مفعولن مفعولن فاع
22۔ مفعولم فاعیلم فاعیل فعول =مفعولن مفعولن مفعول فعول
23۔ مفعولم فاعیل مفاعیلف عول = مفعولن مفعولُ مفاعیلن فاع
24۔ مفعول مفاعیلم فاعیلف عول =مفعول مفاعیلن مفعولن فاع

بس یہی کل چوبیس اوزان ہیں جو ان دو اوزان سے حاصل ہوتے ہیں۔ بعض عروضیوں مثلاً یاس عطیم آبادی مرحوم یا اور دیگر حضرات کا کہنا ہے کہ تسکین اوسط کے زحاف لگانے پر سیکڑوں اوزان نکل سکتے ہیں مگر رباعی فقط چوبیس اوزان پر ہے تو بسمل عرض کرتا ہے کہ ہمیں بھی ان سیکڑوں اوزان میں سے چند ایک نکال کر بتادیں جو ان چوبیس اوزان کے علاوہ ہوں!!!!
خیر یہی تھوڑی سی کہانی تھی رباعی کی۔ امید کرتا ہوں کہ سمجھنا کوئی زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
دعائے خیر کا طلبگار:
مزمل شیخ بسملؔ​

کافی معلوماتی مضمون تھا۔
ویسے اس پورے مضمون میں سوائے نیلے حصے کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔
 
کافی معلوماتی مضمون تھا۔
ویسے اس پورے مضمون میں سوائے نیلے حصے کے مجھے کچھ سمجھ نہیں آیا۔

یہ نیلا حصہ ہی سمجھنے کا تھا۔ باقی حصہ تو میں نے عروضی استادوں کی حجت کو مد نظر رکھتے ہوئے لکھا کہ کہیں تشنگی باقی نہ رہے اور کسی کو انگلیاں اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ ورنہ مبتدیوں یا شاعروں کو زحافات کے چکر میں نہیں الجھنا چاہئے بحوالہ محمد وارث ۔ :)
 
زحافات ہوتی کیا ہیں؟
کیا مفعول زحاف ہے یا مف؟؟

یہ وہ ہوتے ہیں جن کے چکر میں اساتذہ بھی نہیں پڑتے بھئی۔:sick:
خیر۔ زحافات کسی سالم رکن میں کچھ کم یا زیادہ کرنے کا نام ہے۔
مثلاً:
خرم کا زحاف مفاعیلن میں سے میم کم کردیتا ہے۔
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
آئیں گے تیری راہ میں کچھ خار ، نہ ڈر
آمادہ ہے تیرے لیے گلزار، نہ ڈر
وحشت میں تجھے ڈال دیا کیف نے کیوں
یہ عشق کی حدت ہے، مرے یار نہ ڈر۔۔۔(اسد اللہ اسد)
کیا یہ رباعی ہے؟
 
آئیں گے تیری راہ میں کچھ خار ، نہ ڈر
آمادہ ہے تیرے لیے گلزار، نہ ڈر
وحشت میں تجھے ڈال دیا کیف نے کیوں
یہ عشق کی حدت ہے، مرے یار نہ ڈر۔۔۔ (اسد اللہ اسد)
کیا یہ رباعی ہے؟

جی جناب۔
مفعول مفاعیل مفاعیل فعَل
 
جی جناب ٹھیک جا رہے ہیں۔ :)

دیکھیں رباعی کہنا کتنا آسان ہے۔ ایک عام سے عام موضوں طبع انسان بھی رباعی کہہ سکتا ہے۔
اور دوسری طرف نظم طبطبائی کی غالب شرح رفیع والی میں لکھا ہے کہ انسان سالوں کی مشق کے بعد بھی اس میں فی البدیہہ رباعی کے شعر نہیں کہہ سکتا۔ اسی وجہ سے غالب نے رباعی میں غلطی کردی اور مثالیں ہندی پنگل کی دے دی ہیں اپنا فلسفہ ثابت کرنے کے لئے۔ :)
بس جسے سمجھ نہ آئے وہ جھینپ مٹاتا ہے۔ :cool:
 

شاہد شاہنواز

لائبریرین
چلیے باقی کل کہہ لوں گا، یہ مت سمجھئے گا میں فی البدیہہ نہیں کہہ سکتا، بھیا سر پر چلا رہے ہیں کہ اب تو جان چھوڑ دو، اب تو جان چھوڑ دو۔ اس لیے میں جارہا ہوں۔۔۔
 
Top