ردیف ن حصہ اوّل- غزلیں 103 تا 118

تفسیر

محفلین
.
صفحہ اول​


فہرست تبصرہ غزلیات
ردیف ن حصہ اوّل- غزلیں 103 تا 118


103 ۔ لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
104 ۔ وہ فراق اور وہ وصال کہاں
105 ۔ کی وفا ہم سے تو غیر اس کو جفا کہتے ہیں
106 ۔ آبرو کیا خاک اُس گُل کی۔ کہ گلشن میں نہیں
107 ۔ عہدے سے مدِح‌ناز کے باہر نہ آ سکا
108 ۔ مہرباں ہو کے بلالو مجھے، چاہو جس وقت
109 ۔ ہم سے کھل جاؤ بوقتِ مے پرستی ایک دن
110 ۔ ہم پر جفا سے ترکِ وفا کا گماں نہیں
111۔ مانع دشت نوردی کوئی تدبیر نہیں
112 ۔ مت مردُمکِ دیدہ میں سمجھو یہ نگاہیں
113 - برشکالِ* گریۂ عاشق ہے* دیکھا چاہئے
114 ۔ عشق تاثیر سے نومید نہیں
115 ۔ جہاں تیرا نقشِ قدم دیکھتے ہیں
116 ۔ ملتی ہے خُوئے یار سے نار التہاب میں
117 ۔ کل کے لئے کر آج نہ خسّت شراب میں
118 ۔ حیراں ہوں، دل کو روؤں کہ پیٹوں جگر کو مَیں


صفحہ اول​


ردیف الف - غزل 1 تا 15

ردیف الف ۔ غزل 16 تا 30

ردیف الف ۔ غزل 31 تا 45

ردیف الف ۔ غزل 46 تا 60

ردیف ب تا چ - غزل 61 تا 69

ردیف د تا ز - غزل 70 تا 87

ردیف س تا گ - غزل 88 تا 97

ردیف ل تا م - غزل 98 تا 102

ردیف ن حصہ اول - غزل103 تا 118

ردیف ن حصہ دوئم - غزل 119 تا 131

ردیف ن حصہ سوئم - غزل 132 تا 142

ردیف و - غزل 143 تا 155

ردیف ھ - غزل 156 تا 160

ردیف ے اول - غزل 161 تا 175

ردیف ے دوئم - غزل 176 تا 190

ردیف ے سوئم - غزل 191 تا 205

ردیف ے چہارم - غزل 206 تا 220

ردیف ے پنجم- غزل221 تا 235

ردیف ے ششم ۔غزل 236 تا 250

ردیف ے ہفتم - غزل 251 تا 265

ردیف ے ہشتم - غزل 266 تا 274

.
 

تفسیر

محفلین
.
شعر​

لوں وام بختِ خفتہ سے یک خوابِ خوش ولے
غالب یہ خوف ہے کہ کہاں سے ادا کروں

فرہنگ

وام = قرض۔ اُدھار
بخت = حصہ ۔ نصیب۔ بھاگ۔ قسمت
خفتہ = پوشیدہ۔ درپردہ۔ چُھپا ہوا
غالب = زبردست۔ زورآور۔ ملغوب کرنے والا۔ اکثر وبیشتر ۔ اُردو کے شاعر اسد اللہ خان کا تخلص
خوابِ = وہ بات جو انسان نیند میں دیکھے۔ سپنا۔ وہم
خوش = مسرور۔ شاداں۔ شادماں۔
خوابِ خوش = گہری نیند، ۔ اچھے خواب
والے = مگر
خوف = ڈر۔ دہشت۔ ہراس
ادا = انداز۔ ناز۔ اشایہ۔ قرینہ۔ طریقہ۔ عادت۔انداز معشوقانہ۔ حن کی دلکشی۔


غالب کہتے ہیں :

میرے نیند کے چھپے ہوئےخزانے سے میں ایک شاداں خواب تو مانگ لوں مگر مجھے ڈر ہے کہ میں کہاں سے اور کیسے ایسے واپس کروں گا۔

تبصرہ

قسمت سورہی ہے۔ اور میں جاگ رہا ہوں۔ اگر یہ میرے اختیار میں ہو کہ میں ایک خوشی کا سپنا اُدھار لےلوں۔ تب ہی مجھے ایک مل سکتا ہے۔ لیکن میں اس قرض کو کہاں سے ادا کروں گا؟ مجھ سے تو خوابوں کا خزانہ چھن لیا گیا ہے۔
دوسری سطر میں کیا غالب نے اپنے نام کے معنی استعمال کیے ہیں یعنی’ زبردست‘ خوف ؟
قرض کے بجاے دام اور اک بجائے یک غالب کا فارسی رحجان ظاہر کرتا ہے۔ لیکن ایسا استعمال الفاظ کی مناسبت کو بھی ظاہر کرتا ہے اور ‘ قرض دام کرنا‘ کا محاورہ ’ زبردستی‘ کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔
اس شعر میں غالب نے ’ خ ‘ سے شروع والے چار الفاظ خفتہ خوابِ خوش اور خوف ۔ کیا اسکا نتیجہ ہم کو نیند آور کرنا ہے؟
 
Top