الف عین
لائبریرین
نئے شعراء کے لئے ردیف کا استعمال ذرا ٹیڑھی کھیر ہے بطور خاص جب ردیف مشکل ہو۔ ایک مثال شمس الرحمن فاروقی نے پیش کی ہےٰ ۔ وہ یہاں پیش کرتا ہوں۔
خیال بندی کا کمال دیکھنا ہو تو تسلیم کی یہ غزل ان کے دوسرے دیوان "نظم ارجمند"(1872) سے نقل کرتا ہوں ؎
خیال بندی کا کمال دیکھنا ہو تو تسلیم کی یہ غزل ان کے دوسرے دیوان "نظم ارجمند"(1872) سے نقل کرتا ہوں ؎
چاندنی رہتی ہے شب بھر زیر پا بالاے سر
ہائے میں اور ایک چادرزیر پا بالاے سر
خار ہاے دشت غربت داغ سوداے جنوں
کچھ نہ کچھ رکھتا ہوں اکثرزیر پا بالاے سر
بھاگ کر جاؤں کہاںپست و بلند دہر سے
ہیں زمین و چرخ گھر گھر زیر پا بالاے سر
کون ہے بالین تربت آج سر گرم خرام
وجد میں ہے شور محشر زیر پا بالاے سر
بے تکلف کیابسر ہوتی ہے کنج گور می
خاک بستر خاک چادر زیر پا بالاے سر
اوڑھ کرآب رواں کا گر دوپٹا تم چلو
موج زن ہو اک سمند زیر پا بالاے سر
کچھ اڑا کر شوخیوں سے وہ ستارے بزم میں
کہتے ہیں دیکھ لو اختر زیر پا بالاے سر
جادہ و موج ہوا بے تیرے دونوں دشت میں
کر رہے ہیں کار خنجر زیر پا بالاے سر
جز خراش خار یا خاک مذلت قیس کو
اور کیا دیتا مقدر زیر پا بالاے سر
جیتے جی سب شان تھی مر کر بجاے تخت وتاج
خاک رکھتا ہے سکندر زیر پا بالاے سر
سایہ ہوں کیا اوج میرا کیا مری افتادگی
ایک عالم ہے برابر زیر پا بالاے سر
مردے ہیں پامال مشتاق نظارہ ہیں مسیح
دیکھتاچل او ستم گر زیر پا بالاے سر
جسم و جاں دونوں زمین و آسماں کے ہیں مکیں
ایک میں رکھتا ہوں دو گھر زیر پا بالاے سر
ہو نہیں سکتا کبھی خاصان حق کو کچھ حجاب
ایک تھا پیش پیمبر زیر پا بالاے سر
دعوی تشنہ سے اے تسلیم لکھی یہ غزل
ورنہ مہمل ہے سراسرزیر پا بالاے سر
ذرا دیکھئے،ایک بھی شعر ایسا نہیں جس میں ردیف پوری طرح ثابت نہ ہو۔ہر شعر میں کوئی تازہ بات ہے۔ گھر کا قافیہ دو بار لکھا اور دونوں بار الگ طرح سے،اور پوری طرح ثابت بھی کردیا۔ ستم گر کے کڈھب قافیے کے ساتھ حضرت مسیح پیغمبرکو باندھ لانا کمال نہیں اور کیا ہے۔سمندر بالاے سر بھی بہت خوب ہے۔ بظاہر یہ غزل کسی شاعر تشنہ کی چنوتی پر،یا ان کی دی ہوئی زمین میں کہی گئی تھی۔تشنہ صاحب کے حالات معلوم کرنے کی ضرورت فی الحال نہیں ہے۔