رضیہ پاکستانی اور میڈیائی غنڈے

عاطف بٹ

محفلین
اکیسویں صدی کا موڑ مڑتے ہی پاکستانی معاشرہ میڈیا نامی عفریت کے ہتھے چڑھ گیا۔ یکے بعد دیگرے نشریاتی ادارے قائم ہونا شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے عام آدمی محاوراتی رضیہ کی طرح ان نشریاتی اداروں کے نرغے میں پھنس گیا۔ نجی ٹیلیویژن چینل چونکہ سرمایہ دارانہ نظام کے استعماری ایجنڈوں کو فروغ دینے کے لئے وجود میں آئے تھے، لہٰذا ان سے کسی بھی بہتری کی توقع یا معاشرے میں کسی صحت مند رحجان کی ترویج کی امید دیوانے کے خواب سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ایسے نشریاتی اداروں کی بنیاد بھی رکھی گئی جن کے قیام کا واحد مقصد اپنے مالکان کی کالے دھن کو سفید کرنے کی کوششوں میں ممد ثابت ہونا تھا۔
یادش بخیر قومی اسمبلی میں موجودہ قائد حزبِ اختلاف اور سابق وفاقی وزیر برائے محنت و افرادی قوت سید خورشید شاہ نے تین برس قبل اسمبلی اجلاس کے دوران ایک توجہ دلاؤ نوٹس کا جواب دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ بارہ نجی ٹیلیویژن چینلوں نے ٹیکس کی مد میں حکومت کو پونے تین ارب روپے ادا کرنا ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی ادارہ اپنے ذمے واجب الادا رقم ادا کرنے پر آمادہ نہیں۔ اس واجب الادا خطیر رقم میں آدھے سے زیادہ حصہ اس نجی نشریاتی ادارے کا تھا جو خود کو صحافتی اور انسانی حقوق کا سب سے بڑا علمبردار اور قانون کا اول درجے کا پاسبان گردانتا ہے۔
نجی نشریاتی اداروں کی بدعنوانی کا حوالہ محض مالی ہی نہیں بلکہ پیشہ ورانہ بھی ہے۔ خبری مواد کی جمع آوری سے لے کر اس کے تدوین کے مراحل سے گزر کر نشر ہونے تک دنیا بھر میں جن مسلمہ اصولوں کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے، ہمارے ہاں ان اصولوں کی دھجیاں کس طرح اڑائی جاتی ہیں اس کا مشاہدہ ہمیں تین بڑے نشریاتی اداروں سے انسلاک کے دوران ہوا۔ ایک انتہائی تکلیف دہ حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کی نشریاتی صحافت خبری عمارت کے لئے نیو کی حیثیت رکھنے والی ادارتی حکمتِ عملی یا ایڈیٹوریل پالیسی کے نام سے ہی ناواقف دکھائی دیتی ہے۔ پاکستان میں نجی نشریاتی اداروں کی ادارتی حکمتِ عملی محض اس کلیے کے گرد گھومتی ہے کہ بہتر سے بہتر ریٹنگ لے کر زیادہ سے زیادہ اشتہارات کیسے حاصل کیے جاسکتے ہیں۔
ریٹنگ کی اس دوڑ میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لئے نجی ٹیلیویژن چینلوں نے ہر طرح کی اخلاقی، معاشرتی اور مذہبی اقدار کو بھی بالائے طاق رکھ دیا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ رواں برس ریٹنگ نام کی بلا ماہِ رمضان کے تقدس کو بھی نگل گئی ہے۔ ہر نجی ٹی وی پر رمضان نشریات کے نام سے پیش کئے جانے والے پروگراموں کی میزبانی رنگ برنگے ڈیزائنر کُرتوں میں ملبوس سرمایہ دارانہ استعماریت کے دلدادہ جدید ملا کررہے ہیں یا سحر و افطار کے اوقات میں رحمتوں اور برکتوں کے پردے میں نحوستیں اور خباثتیں بانٹنے کے لئے میڈیا کا دیوِ استبداد اداکاراؤں اور عام دنوں میں صبح کی نشریات پیش کرنے والی نیلم پریوں کا رہینِ منت دکھائی دیتا ہے۔
پاکستانی معاشرے میں بسنے والے عام آدمی کی فکری پستی یا سادہ لوحی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ظلمت کے ان تاجروں سے ضیاء خریدنے کے لئے ٹیلیویژن کہلانے والے چوکور برقی ڈبے سے یوں چپکا بیٹھا ہے جیسے بندر کا نومولود بچہ ماں کے سینے سے لپٹا ہوتا ہے۔ 2002ء میں نشریاتی اداروں کی نگرانی کے لئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نامی ادارے کا قیام تو عمل میں لایا گیا تھا مگر پاکستان میں سیاسی اور ذاتی مفادات چونکہ اکثر ہی وسیع تر قومی مفاد کا روپ دھار لیتے ہیں، لہٰذا ہمارے سامنے کوئی ایک بھی ایسی بیّن مثال موجود نہیں جسے پیمرا کی مثبت کارکردگی کے ضمن میں پیش کیا جاسکے۔ اگر حکومت، پیمرا اور نجی نشریاتی اداروں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ایک وقت آئے گا جب ’نشریات گردی‘ کے ستائے ہوئے لوگ بجلی کی بندش اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی طرز پر ٹیلیویژن چینلوں کے دفاتر پر دھاوا بول دیا کریں گے کیونکہ پاکستانی میڈیا آزاد تو کب کا ہوچکا مگر ذمہ دار ابھی تک نہیں ہوسکا۔

پسِ تحریر: یہ مضمون بنیادی طور پر ’ہم آپ ڈاٹ کام‘ نامی ویب سائٹ کے لئے لکھا گیا تھا اور وہاں شائع بھی ہوچکا ہے۔
 

زبیر مرزا

محفلین
میڈیا آزاد ہے اپنی ذمہ داریوں سے - سنسنی خیز خبریں ہوں یا منفی پروپگینڈا میڈیا پیش پیش نظرآتا - خبروں کا
ڈرامائی انداز میوزک کے ساتھ حقائق کم انٹرٹینمنٹ زیادہ پیش کرتا ہے - ایک دفعہ ایک قتل کی واردات سے متعلق
لائیورپورٹ دیکھنے کا اتفاق ہوا چند منٹوں کی اس رپورٹ میں قاتل کا نام دس بار تبدیل ہوا جس سے اندازہ ہوتا ہے
کہ تحقیق کا کیا عالم ہے اس قدر جلدی تھی قاتل کا نام ظاہر کرنے کی ایک آدمی کو دس نام دے دیئے گئے
 

شمشاد

لائبریرین
آزاد میڈیا ہے اور ایک چینل دوسرے چینل سے بازی لے جانے میں سر دھڑ کی بازی لگا دیتا ہے بھلے سے خبر سرے سے ہی غلط ہو۔
 

آصف اثر

معطل
پاکستانی معاشرے میں بسنے والے عام آدمی کی فکری پستی یا سادہ لوحی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ظلمت کے ان تاجروں سے ضیاء خریدنے کے لئے ٹیلیویژن کہلانے والے چوکور برقی ڈبے سے یوں چپکا بیٹھا ہے جیسے بندر کا نومولود بچہ ماں کے سینے سے لپٹا ہوتا ہے۔ 2002ء میں نشریاتی اداروں کی نگرانی کے لئے پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) نامی ادارے کا قیام تو عمل میں لایا گیا تھا مگر پاکستان میں سیاسی اور ذاتی مفادات چونکہ اکثر ہی وسیع تر قومی مفاد کا روپ دھار لیتے ہیں، لہٰذا ہمارے سامنے کوئی ایک بھی ایسی بیّن مثال موجود نہیں جسے پیمرا کی مثبت کارکردگی کے ضمن میں پیش کیا جاسکے۔ اگر حکومت، پیمرا اور نجی نشریاتی اداروں نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ایک وقت آئے گا جب ’نشریات گردی‘ کے ستائے ہوئے لوگ بجلی کی بندش اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں کی طرز پر ٹیلیویژن چینلوں کے دفاتر پر دھاوا بول دیا کریں گے کیونکہ پاکستانی میڈیا آزاد تو کب کا ہوچکا مگر ذمہ دار ابھی تک نہیں ہوسکا۔
جب تک یہ فکری پستی اور جمہوریت کے نام پر قوم کو بے وقوف بنانے کا سلسلہ یا بے وقوف بننے کا سلسلہ ختم نہیں ہوگا تب تک کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔۔

خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
شریک محفل کرنے کا شکریہ۔
اسی طرح پرورشِ لوح وقلم کرتے رہیے۔۔۔
 
Top