امان زرگر
محفلین
رمضان المبارک کی فضیلت و اہمیت
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (البقرہ، آیت 183)بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
"اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے ان پر فرض کیے گئے تھے جو تم سے پہلے تھے تاکہ تم پرہیز گار ہو جاؤ۔"
عربی زبان میں روزے کے لئے صوم کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی رک جانا کے ہیں یعنی انسانی خواہشات اور کھانے پینے سے صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے صبح صادق سے لے کر غروب آفتاب تک رک جاتا ہے اور اپنے جسم کے تمام اعضاءکو برائیوں سے روکے رکھتا ہے۔
رمضان کا لفظ ”رمضا“ سے نکلا ہے اور رمضا اس بارش کو کہتے ہیں جو کہ موسم خریف سے پہلے برس کر زمین کو گردوغبار سے پاک کر دیتی ہے۔ مسلمانوں کے لئے یہ مہینہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے رحمت کی بارش کا ہے جس کے برسنے سے مومنوں کے گناہ دھل جاتے ہیں۔
رمضان المبارک اسلامی تقویم (کیلنڈر) میں وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے قرآن حکیم نازل فرمایا۔ رمضان المبارک کی ہی ایک بابرکت شب آسمانِ دنیا پر پورے قرآن کا نزول ہوا لہٰذا اس رات کو اﷲ رب العزت نے تمام راتوں پر فضیلت عطا فرمائی اور اسے شبِ قدر قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِّنْ اَلْفِ شَهْرٍo
القدر، 97 : 3
’’شبِ قدر (فضیلت و برکت اور اَجر و ثواب میں) ہزار مہینوں سے بہتر ہےo‘‘
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
(انہ سمع من یتق بہ۔۔۔۔خیر من الف شہر)
(موطا امام مالک، الاعتکاف، باب ماجاء فی لیلة القدر ۳۲۱/۱ طبع مصر)
’’انہو ں نے بعض معتمد علماء سے یہ بات سنی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ سے پہلے لوگوں کی عمریں دکھلائی گئیں تو آپ کو ایسا محسوس ہوا کہ آپ کی ا مت کی عمریں ان سے کم ہیں اور اس وجہ سے وہ ان لوگوں سے عمل میں پیچھے رہ جائے گی، جن کو لمبی عمریں دی گئیں۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس کا ازالہ اس طرح فرما دیا کہ امت محمدیہ کے لیے لیلة القدر عطا فرما دی۔‘‘
رمضان المبارک کی فضیلت و عظمت اور فیوض و برکات کے باب میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی چند احادیث مبارکہ درج ذیل ہیں :
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
إِذَا دَخَلَ رَمَضَانُ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّيَاطِيْنُ.
بخاری، الصحيح، کتاب بدء الخلق، باب صفة إبليس و جنوده، 3 : 1194، رقم : 3103
’’جب ماہ رمضان آتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو پابہ زنجیر کر دیا جاتا ہے۔‘‘
رمضان المبارک کے روزوں کو جو امتیازی شرف اور فضیلت حاصل ہے اس کا اندازہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اس حدیث مبارک سے لگایا جا سکتا ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيْمَانًا وَّإِحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّم مِنْ ذَنْبِهِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الصلاة التراويح، باب فضل ليلة القدر، 2 : 709، رقم : 1910
’’جو شخص بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے سابقہ گناہ بخش دیے جاتے ہیں۔‘‘
رمضان المبارک کی ایک ایک ساعت اس قدر برکتوں اور سعادتوں کی حامل ہے کہ باقی گیارہ ماہ مل کر بھی اس کی برابری و ہم سری نہیں کر سکتے۔
قیامِ رمضان کی فضیلت سے متعلق حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ قَامَ رَمَضَانَ، إِيْمَاناً وَاحْتِسَابًا، غُفِرَلَهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ.
بخاری، الصحيح، کتاب الايمان، باب تطوع قيام رمضان من الايمان، 1 : 22، رقم : 37
’’جس نے رمضان میں بحالتِ ایمان ثواب کی نیت سے قیام کیا تو اس کے سابقہ تمام گناہ معاف کر دیے گئے۔‘‘
(الصوم جنۃ یسجن بھا العبد من النار) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۷)
’’روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔‘‘
ایک دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:
(الصوم جنة من عذاب الله ) (صحیح الجامع، ح:۳۸۶۶)
’’روزہ اللہ تعالیٰ کے عذاب سے (بچاؤ کی ) ڈھال ہے۔‘‘
ایک حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(من صام يوما في سبيل الله، بعد الله وجهه عن النار سبعين خريفا) (صحیح البخاری، الجھاد والسیر ، باب فضل الصوم فی سبیل اللہ، ح:۲۸۴۰ وصحیح مسلم، الصیام، فضل الصیام فی سبیل اللہ۔۔۔ح:۱۱۵۳)
’’جس نے اللہ تعالیٰ کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا، تو اللہ تعالیٰ اس کے چہرے کو جہنم سے ستر سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(ان فی الجنة بابا یقال لہ۔۔۔۔۔۔۔۔فلم یدخل منہ احد) (صحیح البخاری، الصوم، باب الریان للصائمین، ح:۱۸۹۶ وکتاب بدء الخلق، ح: ۳۲۵۷ وصحیح مسلم، باب فضل الصیام، ح۱۱۵۲)
’’جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ’’ رَیّان‘‘ ہے، جس سے قیامت کے دن صرف روزے دار داخل ہوں گے، ان کے علاوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا، کہا جائے گا روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے علاوہ کوئی اس دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے، تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی اس سے داخل نہیں ہوگا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(الصیام والقرآن یشفعان۔۔۔۔۔۔ فیشفعان) (صحیح الجامع، بحوالہ مسند احمد، طبرانی کبیر، مستدرک حاکم وشعب الایمان، ح:۳۸۸۲، ۷۲۰/۲)
’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا : اے میرے رب! میں نے اس بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا: میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک دیا تھا، پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(فتنة الرجل فی اھلہ ومالہ۔۔۔۔۔۔والصدقة) (صحیح البخاری، الصوم، باب الصوم کفارة، ح:۱۸۹۵ وصحیح مسلم، الایمان باب رفع الامانة والایمان من بعض القلوب۔۔۔۔ الخ، ح:۱۴۴)
’’آدمی کی آزمائش ہوتی ہے اس کے بال بچوں کے بارے میں، اس کے مال میں اور اس کے پڑوسی کے سلسلے میں۔ ان آزمائشوں کا کفارہ نماز روزہ اور صدقہ ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:﴿ اِنَّ الْحَسَنٰتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّاٰتِ ﴾ (ھود:۱۱۴)’’نیکیاں برائيوں کو دور کر دیتی ہیں۔‘‘ اس حدیث و آیت سے معلوم ہوا کہ ایک مسلمان کو نماز، روزہ اور صدقہ و خیرات اور دیگر نیکیوں کا اہتمام کرتے رہنا چاہیے، تاکہ یہ نیکیاں اس کی کوتاہیوں اور گناہوں کا کفارہ بنتی رہیں۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(للصائم فرحتان یفرحہما۔۔۔۔۔فرح بصومہ) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴، وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
’’روزے دار کے لیے دو خوشیاں ہیں جن سے وہ خوش ہوتا ہے۔ ایک جب وہ روزہ کھولتا ہے تو خوش ہوتا ہے اور (دوسری خوشی) جب وہ اپنے رب سے ملے گا تو اپنے روزے سے خوش ہوگا۔‘‘
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(والذی نفس محمد بیدہ!۔۔۔۔۔۔ من ریح المسک) (صحیح البخاری، الصوم، باب ھل یقول: انی صائم اذا شتم، ح:۱۹۰۴ وصحیح مسلم، الصیام، باب فضل الصیام، ح:۱۱۵۱)
’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی جان ہے، روزے دار کے منہ کی بدلی ہوئی بو اللہ کے ہاں کستوری کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
(الصیام لی وانا اجزی بہ) (صحیح البخاری، باب فضل الصوم، ح:۱۸۹۴ وصحیح مسلم، باب ورقم مذکور)
’’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔‘‘
یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ ﴿الحسنة بعشر امثالھا﴾(حوالہ ہائے مذکورہ) نیکی کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناہ تک ملے گا۔ لیکن روزے کو اللہ تعالیٰ نے اس عام ضابطے اور کلیے سے مستثنیٰ فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی جزاء عطا فرمائے گا، جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی نوعیت کی ہوگی۔
رمضان المبارک کے آخری دس دنوں میں اعتکاف بیٹھنا مسنون ہے۔ حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے مروی ہے :
أَنَّ رَسُوْلَ اﷲِ صلی الله عليه وآله وسلم کَانَ يَعْتَکِفُ الْعَشْرَ الاوَاخِرَ مِنْ رَمَضَانَ.
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی المعتکف يلزم مکانًا من المسجد، 2 : 373، رقم : 1773
’’حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رمضان کے آخری عشرہ میں اعتکاف بیٹھا کرتے تھے۔‘‘
اعتکاف بیٹھنے کی فضیلت پر کئی احادیث مبارکہ وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے معتکف کے بارے میں ارشاد فرمایا : ’’وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنیوالے کی مثل پوری پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔‘‘
ابن ماجه، السنن، کتاب الصيام، باب فی ثواب الاعتکاف، 2 : 376، رقم : 21781
حضرت عبد اﷲ بن عباس رضی اللہ عنہ سے ہی ایک اور حدیث مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اﷲ جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ.
1.طبرانی، المعجم الاوسط، 7 : 221، رقم : 7326
2. بيهقی، شعب الإيمان، 3 : 425، رقم : 3965
3. هيثمی، مجمع الزوائد، 8 : 192
’’جو شخص اﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، اﷲ تبارک و تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کردیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔‘‘
حضرت علی (زین العابدین) بن حسین اپنے والد امام حسین رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :
مَنِ اعْتَکَفَ عَشْرًا فِی رَمَضَانَ کَانَ کَحَجَّتَيْنِ وَ عُمْرَتَيْنِ.
بيهقی، شعب الإيمان، باب الاعتکاف، 3 : 425، رقم : 3966
’’جس شخص نے رمضان المبارک میں دس دن کا اعتکاف کیا، اس کا ثواب دو حج اور دو عمرہ کے برابر ہے۔‘‘
خوش قسمت ہیں وہ مسلمان جن کی زندگی میں یہ مہینہ آیا اور وہ اللہ تعالیٰ کی رحمتیں حاصل کرنے میں اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔