فارسی شاعری زبور عجم اور نوائے فردا

الف نظامی

لائبریرین
ایک کتاب کا تعارف
"نوائے فردا"
از محمد ایوب
(ڈپٹی سیکرٹری وزارت مالیات ۔ حکومت پاکستان)​
طبع اول جون 1956​

نوائے فردا کے دیباچہ میں ڈاکٹر محمد رفیع الدین رقمطراز ہیں :
شیخ محمد ایوب صاحب کی کتاب "نوائے فردا" کا مطالعہ کرنے کے بعد میں یہ محسوس کرتا ہوں کہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ شعر میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا تتبع کرنے والوں کی فہرست میں شیخ صاحب کا نام بہت بلند ہے۔
۔
ایوب صاحب نے شعر میں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کا تتبع جس خوبی سے کیا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اقبال کی عقیدت اور اقبال کے پیش کردہ تصور حیات کی محبت ان کے دل پر چھائی ہوئی ہے۔ جب عقیدت انتہا کو پہنچ جاتی ہے تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معتقِد، معتقَد کے ان تمام افعال کی پیروی کرنے لگتا ہے جو اسے بے حد پسند ہوتے ہیں۔ ایوب صاحب کے ساتھ یہی معاملہ پیش آیا ہے۔ انہوں نے اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں میں سے ایک ایسی کتاب کو پسند کیا ہے جو خود اقبال رحمۃ اللہ علیہ کو بھی سب سے زیادہ پسند تھی۔ یعنی "زبورِ عجم" ، اور اس کتاب کے ظاہری اور باطنی محاسن کو اپنی کتاب "نوائے فردا" میں پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ "نوائے فردا" نظموں ، شعروں اور صفحات کی تعداد ، ردیف ، قافیہ ، بحر ، مطلع و مقطع کے وجود و عدم وجود ، املا ، کتابت و طباعت ، تقطیع کتاب ، حتی کہ معیارِ زبان اور اسلوبِ بیان اور اندازِ فکر و تخیل میں بھی "زبورِ عجم" کی پیروی کرتی ہے۔
ایوب صاحب پورے انہماک کے ساتھ ایک عرصہ دراز تک اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے مطالعہ میں مصروف رہے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ یہ ہوا ہے کہ انہوں اقبال رحمۃ اللہ علیہ کے خیالات و جذبات سے ایک نہایت گہرا اثر لیا ہے۔ قاعدہ ہے کہ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی اس محبت کی ایک چنگاری جو ان کے کلام کا اصل باعث ہے ، ایوب صاحب کے قلب و جگر پر پڑی ہے اور وہاں بھی اسی محبت کا ایک شعلہ جوالہ روشن کر گئی ہے۔ ایوب صاحب کے اشعار جو خود بخود اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی طرز اختیار کرتے چلے گئے ہیں اور جن میں اقبال کے مضامین بے ساختہ بندھتے چلے گئے ہیں ، اسی شعلہ کی چنگاریاں ہیں۔
ایوب صاحب خود لکھتے ہیں :
ایوب کہ از اقبال آموختن جگر سوزی
بے شعلہ آہے نیست ، بے ذوق نگاہے نیست
۔۔۔۔
ان کے اشعار کا مطالعہ کرنے کے بعد یہ کہنا پڑتا ہے کہ اندازِ فکر میں انہوں نے پوری طرح سے اقبال کا رنگ اختیار کیا ہے۔
نمونہ کے طور پر چند اشعار ملاحظہ ہوں:

غمیں مشو کہ ترا تشنگی فرا گیرد
کہ رودِ بادہ نہاں در سبوچہ تاک است

با ز صد لات و منات اندر حرم آسودہ اند
شیخِ ما دارد یقیں آنجا بتاں را راہ نیست

چشمِ او دزدیدہ سوئے من نگاہے افگند
یا شعاعِ نور از زیرِ نقاب آید بروں

مگر دوائے طبیبِ فرنگ بے اثر است
کہ دردِ ملتِ بیضا بقدرِ چارہ فزود

بے پردہ چہ خواہی شد ، آری چہ قیامت ہا!
در پردہ چو جانِ من ایں گونہ دلآویزی!

اگرچہ حرفِ اخوت بے کشش دارد
بیانِ واعظِ ما گشت باعث تفریق

بہ لرزہ ہست دلِ کہکشاں کہ اہلِ زمیں
بقصدِ صیدِ کواکب کمند بردوشند

بزیرِ دام نہند آب ودانہ را اینجا
اگر ز دام بترسی ز آب و دانہ گذر

شراب در قدحِ واژ گوں نخواہی یافت
اگرچہ ساقی میخانہ مائلِ کرم است

بذوق و شوق می راند حدی خواں ناقہ را لیکن
نمی داند کہ لیلی از درونِ محمل افتاد است

نمی گویم کہ ذوقِ اہل مغرب بےجنوں باشد
ولے گویم کہ آنجا دامنِ دشتِ جنوں تنگ است

ہماری قوم کو ایسے شعراء کی اور ضرورت ہے جو اقبال کے انداز میں شعر کہہ کر اس میں یقین اور عمل کی حرارت پیدا کرسکیں۔ امید ہے کہ ایوب صاحب کی یہ کوشش دوسرے ماہرینِ فن کو بھی شدت کے ساتھ اس ضرورت کی طرف متوجہ کرے گی۔ اچھے شعراء قوم کے لئے زندگی کا سامان ہیں۔
شاعر اندر سینہ ملت چو دل
ملتے بے شاعرے انبارِ گِل
(اقبال)

کراچی مورخہ 18 جون 1956
محمد رفیع الدین (ایم اے پی ایچ ڈی)
ڈائریکٹر اقبال اکیڈیمی ، کراچی

بخوانندہ کتاب
زبور عجم:​
می شَوَد پردۂ چشمِ پرِ کاہے گاہے​
دیدہ ام ہر دو جہاں را بنگاہے گاہے​
نوائے فردا:​
تیرہ آید بہ نظر جلوہ ماہے گاہے​
می نماید چو گلستاں پرِ کاہے گاہے​
زبور عجم:​
در طلب کوش و مدہ دامنِ امید ز دست​
دولتے ہست کہ یابی سرِ راہے گاہے​
نوائے فردا:​
اندریں وادی پُرپیچ طلب دیدہ پاک​
تا نہ تاراج شوی بر سری راہے گاہے​
زبور عجم:​
وادیِ عشق بسے دور و دراز است ولے​
طے شود جادۂ صد سالہ بآہے گاہے​
نوائے فردا:​
خس و خاشاکِ پریشانِ نیستانِ خرد​
می تواں سوخت بیک شعلہ آہے گاہے​
حصہ اول
زبور عجم:​
ز برون در گذشتم ز درون خانہ گفتم​
سخنی نگفتہ ئی را چہ قلندرانہ گفتم​
نوائے فردا:​
کم و کیفِ جامِ فردا بہ شراب خانہ گفتم​
ز کرشمہ ہائے ساقی چہ پیمبرانہ گفتم​

نمونہ کلام :-
دعا
زبور عجم
یارب درون سینہ دل با خبر بده
نوائے فردا:
یا رب شعورِ عظمت خیر البشر بدہ



زبورِ عجم:
یا چناں کن یا چنیں
نوائے فردا:
یا چناں کن یا چنیں! --- محمد ایوب

زبور عجم:
از خواب گراں خیز
نوائے فردا:
از خوابِ گراں خیز! --- محمد ایوب

زبورِ عجم:
انقلاب، اے انقلاب
نوائے فردا:
انقلاب! اے انقلاب --- محمد ایوب

یہ کتاب یو ای ٹی لاہور کے کتب خانہ National Library of Engineering Sciences میں موجود ہے۔
 

mohsin ali razvi

محفلین
زبورِ عجم:
خود را کنم سجودی ، دیر و حرم نماندہ ؛ علامہ اقبال
----
عامل شیرازی
از در گه ات خدایا عامل کند سوالی
این دین و آن پیامت دیگر بجا نمانده
قاتل چو شد چو مسلمینت ایمان زه دل نمانده
در مسجد و حرم پاک مسلم کند گناهان
خوفت به دل نمانده شرمی زه دل نمانده
سابق که بود شیطان اُستاد نا درستان
اکنون این بشر باد اُستادکل شیطان
 
Top