حسان خان
لائبریرین
لاہور: مائیکل مسیح، جوزف کالونی سے اُٹھنے والے والے دھوئیں کو بے بسی کی حالت میں دیکھ رہا ہے۔
گلیوں میں فائر بریگیڈ کی گاڑیوں سے آگ بجھانے کے لیے پھینکا جانے والا پانی کھڑا ہے اور جلی ہوئی اشیاء کی راکھ نے اس کو سیاہ کردیا ہے۔
مائیکل کے جوتے کیچڑ سے لت پت ہوجاتے ہیں۔ وہ دو گرجا گھروں کا جائزہ لیتا ہے، جنہیں جلا کر خاک کردیا گیا تھا، جن میں شاید اب کچھ بھی باقی نہ بچا ہو۔
بادامی باغ کے علاقے میں عیسائی برادری کی کالونی پر ہونے والے خوفناک حملے کو اب دوسرا دن گزر چکا ہے۔
اس علاقے کے بہت سے رہائشی جو حملے کے وقت جان بچا کر یہاں سے جانے پر مجبور ہوگئے تھے، اب لوٹ رہے ہیں۔
کئی ایسے ہیں جن کے دلوں کو یقین نہیں آرہا کہ ان کی جمع پونجی، ان کی گرہستی اور ان کو دھوپ اور بارش سے تحفظ دینے والی چھت سمیت ان کے گھر کا سب کچھ جل کر خاکستر ہوچکا ہے۔
اُن کے گھروں کے ساتھ اُن کی دو عبادت گاہوں پر بھی حملہ کیا گیا، اور ان کو تباہ کردیا گیا۔ اب ان کے گھروں کے ساتھ ساتھ گرجا گھروں کی بھی صرف باہری دیواریں ہی باقی رہ گئی ہیں۔
ایک گرجا گھر کی حالت یہ ہے کہ اس کی چھت کا بڑا حصہ جل کر ختم ہوگیا ہے، اور وہاں سے آسمان دکھائی دے رہا ہے۔
دیکھنے والا حسرت سے اس جگہ سے آسمان کو دیکھ کر آسمان والے سے فریاد کرتا ہے کہ ان کے ساتھ یہ سب کیوں ہورہا ہے؟
یہاں تین بوتلیں سرخ رنگ کے کپڑے سے ایک ساتھ بندھی ہوئی دکھائی دیں، ان کے ساتھ کچھ کیمیکل بھی تھا۔ کسی نے بتایا کہ یہ کیمیکل بم ہے، جو آج کل اس طرح کے حملوں میں اکثر استعمال کیا جارہا ہے۔
اپنے خاکستر گھروں اور عبادت گاہوں کی حالت دیکھ کر ہر ایک کی زبان پر پنجاب حکومت اور پنجاب پولیس کے لیے بدعاؤں کے علاوہ کچھ نہ تھا۔
مائیکل کی دکان مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ کالونی کی دیگر دکانیں سلامت ہیں لیکن ان کا ایک ایک سامان لوٹا جاچکا ہے۔
یہاں انڈوں کی بہت سی ٹرے اُلٹی پڑی ہیں لیکن کہیں بھی ٹوٹے ہوئے انڈے یا ان کی زردی، سفیدی دکھائی نہیں پڑتی، اس لیے کہ تمام انڈے لوٹ مار کرنے والے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔
کسی گھر کا ایک بڑا سا پُرانا صندوق باہر کھلا پڑا ہے، صندوق کی حالت خراب نہیں ہے، لیکن یقیناً اس میں موجود سامان، جس میں کسی غریب کی بیٹی کا زیور اور جہیز کا بہت سامان بھی ہوسکتا ہے، لوٹ مار کرنے والے اپنے ساتھ لے گئے۔
مائیکل کے دل میں بھی یقیناً طوفان اُٹھ رہے ہوں گے، لیکن اس اپنے جذبات کو ظاہر کیے بغیر کہا ‘انہوں نے ہماری دکانوں کے تالے توڑے، اور ہر چیز لوٹ لی، ہمارے گھروں سے قیمتی سامان اُٹھایا اور پھر آگ لگا کر نہایت اطمینان کے ساتھ چلے گئے’۔
حملے سے ہونےوالی تباہی کو دیکھ کر تو یہی محسوس ہوتا ہے کہ سب ہی مرچکے ہیں، اور اب جبکہ اس بربادی کو ایک دن گزرچکا ہے، اس پورے علاقے سے ہرطرف سے بین کرتی آوازیں گونج رہی ہیں، ہرایک نوحہ کناں ہے۔
بلکہ شاید یہاں کے ایک رہائشی کی یہ بات زیادہ درست ہو کہ ایک علاقہ قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔
ایک بڑے سے ٹینٹ میں بیٹھی کچھ خواتین اپنی بربادی پر آنسو بہا رہی ہیں، لیکن زیادہ تر لوگ چلتے پھرتے ہی نظر آئے جو اپنے گھروں میں ایسی چیزوں کو دیکھ رہے ہیں، جو جلنے سے محفوظ رہی ہیں۔
کچھ لوگ رات گزارنے کی فکر میں ہیں کہ اب کہاں وہ اپنے بیوی بچوں کو لے کر جائیں گے۔شاید انہیں یہ رات کھلے آسمان کے تلے گزارنی پڑے۔
اس لیے کہ حکومت کی جانب سے کہا گیا تھا کہ ان کے جلے ہوئے گھروں کو گرا دیا جائے گا، تاکہ ان کی از سر نو تعمیر کی جاسکے۔
لیکن یہ اقدام ان لوگوں کو مطمئن کرنے کے لیے سراسر ناکافی ہے، جن کا سب کچھ جلا کر خاک کردیا گیا۔
ایک عورت نے شہباز شریف کا نام لے کر کہا ‘وہ تو صرف چند منٹ کے لیے ہی یہاں آئے تھے’۔
ایک ستم رسیدہ عورت کا کہنا تھا ‘انہوں نے ایک امدادی پیکیج کا بھی اعلان کیا، جس کے حوالے سے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اسے بالکل بھی قبول نہیں کریں گے’۔
انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ‘وہ ہمارے جلائے گئے گھروں کو چار دن کے اندر اندر نئے سرے سے تعمیر کرکے دیں گے حالانکہ یہ کام چار دن کے اندر ممکن نہیں ہوسکتا، اور پھر ہم ان چار دنوں تک کہاں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں اور نوجوان بیٹیوں کے ساتھ رات گزاریں گے’؟
گرجا گھر کے ایک پادری نے ایک چھوٹے سے گھر میں ہفت وار عبادت کروائی۔ وہاں جمع ہونے والے اب بھی خوفزدہ حالت میں سمٹے ہوئے تھے، ٹوٹی پھوٹی چارپائی پر بیٹھے ہوئے پادری نے دعا کروائی اور کہا ‘ہم کسی قسم کی انتقامی کارروائی نہیں کریں گے’۔
وہاں موجود ایک عورت نے دعا کے دوران اپنی آنکھیں بند کررکھی تھیں، لیکن اس کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھےاور اس کے گالوں سے بہتے ہوئے اس کے دامن کو تر کیے جارہے تھے۔ایک دو سال کا بچہ اُس کے ساتھ بیٹھا تھا، اس نے کہا ‘رب ہمارے ساتھ ہے’۔
عیسائیت کا اصول ہے کہ اگر کوئی تمہارے ایک گال پرتھپڑ مارے تو تم دوسرا گال بھی آگے کردو۔ لیکن ایسا کب تک چلتا رہے گا؟
مائیکل نے سوال کیا کہ ‘کیا وہ ہمارے گرجا گھر اور ہماری مقدس کتاب جو اُن کے لیے بھی اتنی ہی مقدس ہے، کو نذرِآتش کرکےکیا توہین رسالت کے مرتکب نہیں ہورہے ہیں، کیا یہ الزام صرف ہم پر ہی عائد کیا جاتا رہے گا’؟
اعجاز مسیح نے شکایت کی کہ ‘آج دوسرا دن ہے، اور اب تک کسی سیاسی جماعت نے ہماری خبر گیری کے لیے ادھر کا رُخ نہیں کیا’۔
اگرچہ ایم کیوایم کے کچھ کارکنوں کی جھلک دکھائی دی تھی، اور شام تک پیپلز پارٹی کے اقلیتی ونگ کے لوگ مختصر تعداد میں یہاں پہنچے تھے۔
اعجاز مسیح نے کہا ‘یہاں اب تک کوئی میڈیکل کیمپ نہیں لگایا گیا ہے، ہمیں اس حالت میں سردرد کی بھی گولی میسر نہیں ہے،نہ ہی واش روم کی حاجت کے لیے ہمارے پاس کوئی جگہ بچی ہے۔ کچھ عزیزوں اور دوستوں نے ہمارے کھانے پینے کا بندوبست کیا ہے۔ جبکہ حکومت محض زبانی کلامی دعوے ہی کیے جارہی ہے’۔
یہاں متاثرین میں سے بعض نے دعویٰ کیا کہ میڈیا نے اپنی رپورٹوں میں حقائق پر سفیدی پھیر کر انہیں چھپادیا ہے۔
‘اگر وہ اپنی خبروں میں سچ دکھاتے تو بھی اس طرح ہماری مدد ہوسکتی تھی لیکن انہوں نے جو کچھ دکھایا وہ سچائی سے بہت دور تھا’۔
‘یہاں ابھی تک کسی قسم کی امدادی سرگرمیاں شروع نہیں کی گئی ہیں، اور اب تک یہاں کوئی امدادی ٹیم نہیں آئی ہے’۔
اپنے گھر کے جلے ہوئے سامان میں سے بچ جانے والی چیزوں کو اکھٹا کرتے کرتے اکرم مسیح کے کپڑے ہاتھ اور چہرے پر بھی سیاہی لگ گئی تھی، کا کہنا تھا کہ ‘بد قسمتی تو یہ ہے کہ حاکموں کو سوگ کے دن سے کوئی سروکار نہیں، ان کی دلچسپی کا سامان تفریح و طبع کے میلوں میں ہوتا ہے’۔
‘یہ انتہائی دل دکھانے والا اور مایوس کن رویّہ ہے کہ فیسٹیول کا پروگرام ملتوی نہیں کیا گیا، آخر اس کو ملتوی کرنے کیا حرج تھا’؟
اس نے اپنے سر نفی میں ہلاتے ہوئے کہا کہ ‘میں اس بات پر یقین نہیں کرسکتا کہ بے حسی اس حد تک بڑھ چکی ہے، ہم اس سانحے سے گزرے ہیں، اور سچ تو یہ ہے کہ ڈھائی سو سے زیادہ گھروں کو تباہ کیا گیا، اور ایک ہزار افراد پر مشتمل ہجوم یہ سب کچھ کرسکتا ہے’۔
اس سانحے کے ردعمل کے طور کیا جانے والا احتجاج لاہور پریس کلب اور نذرآتش کی گئی بستی کے قریب بادامی باغ کے علاقے میں ہی دیکھنے میں آیا۔
دن کے آغاز کے ساتھ احتجاج کرنے والے کچھ افراد نے اپنے گھروں کے جلائے جانے کے خلاف اپنا غم وغصہ نکالتے ہوئے نئی شروع کی گئی میٹرو بسوں کی کھڑکیوں کو پتھراؤ کرکے توڑدیا اور سیٹوں کو بھی نقصان پہنچایا۔
کرسچین پارٹی کے ایک کارکن کا کہنا تھا ‘اگر وہ سیدھے طریقے سے ہماری بات سننے کے لیے آمادہ نہیں ہیں تو پھر انہیں یہ سب کچھ تو دیکھنا ہی پڑے گا’۔
پریس کلب پر مرکز برائے انسانی حقوق کی تعلیم(سی ایچ آر ای) نے عابد حسن منٹو کی جماعت اور اقلیتی پارٹی کے حمایتیوں کے ہمراہ ایک جلوس نکالا۔
سیمسن سلامت جو سی ایچ آر ای کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں، کا کہنا تھا ‘اس علاقے کے رکن صوبائی اسمبلی نے نفرت کی آگ پھیلائی اور ایک یکسر مختلف معاملے کو انتہائی غلط سوچ کے تحت توہین رسالت کا رنگ دے دیا’۔
مذہبی علماء کونسل کی نمائندگی کرتے ہوئے مولانا طاہر اشرفی نے بھی پریس کلب سے نکالے گئے احتجاجی جلوس میں شرکت کی اور اس موقع پر لوگوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ‘یہ سب کچھ علاقے کے تاجروں اور بیوپاریوں اور ان کی انجمن کے باہمی گٹھ جوڑ کے تحت ہوا’۔
‘اس کا مقصد زمین پر قبضہ کرنا تھا، اس کا توہین سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہاں تک کہ اگر ایسا کچھ تھا بھی تو اس معاملے میں بھی قانون کے مطابق عمل کیا جانا چاہئے تھا’۔
‘یہاں ہمیں یہ معذرت کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت اقلیتوں کے خلاف اس طرح کی عسکریت پسندی اور انتہا پسندی کی پشت پناہی کررہی ہے’۔
انہوں نے مزید کہا کہ’ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے غیر مسلموں کے جان ومال کے تحفظ تبلیغ کی تھی، یہ جو حملہ آور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیروکار نہیں ہوسکتے۔ اور میں یہ بات دوبارہ کہتا ہوں کہ اگر حکومت اور ریاست ان کا تحفظ نہیں کرتی تو ہم مسلمانوں کو یہ کام کرنا پڑے گا’۔
مولانا اشرفی نے کہا کہ اگر رمشا مسیح کیس اور گوجرہ کے سانحہ کے ذمہ داروں کو کیفر کردار تک پہنچا دیا گیا ہوتا تو ایسا واقعہ دوبارہ ہرگز نہ ہوتا۔
اس موقع پرزینوبیہ رچرڈز نے کہا کہ ‘ہم یہ تسلیم کرتے ہیں کہ ہم اتنے مضبوط نہیں ہیں کہ انتہاپسندوں کے بڑھتے ہوئے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کرسکیں۔ ہم سیاسی طور پر منظم نہیں ہیں اور بہت ساری جگہوں پر تقسیم ہیں’۔
‘اس کے علاوہ ہماری اسمبلیوں میں نمائندگی بہت کم ہےاور ہماری اقلیتی نمائندے بھی مستقل دباؤ میں رہتے ہیں’۔
‘دوسروں کی طرح ہم بھی یہی محسوس کررہے ہیں کہ یہی وہ وقت ہے کہ ہمیں اپنے اوپر ہونے والے ظلم کے خلاف ملکی سطح پر احتجاج کرنا چاہئے’۔
ربط