loneliness4ever
محفلین
سحر ہونے تک
از س ن مخمور
از س ن مخمور
جہاز جیسے ہی پاک سر زمین کی فضا میں بلند نظر آیا میں وہیں ائیرپورٹ پر اپنے رب کے حضور سجدہ ریز ہوگیا۔ میری آنکھیں سمندر ہورہی تھیں، ایک ذمہ داری تھی جو ساتھ خیریت کے پوری کروا دی تھی مالک نے۔ میں جانے کب تلک سجدے میں رہتا کہ سہیل نے جھک کر میرے شانے پر ہاتھ رکھ دیااورمیں سجدے سے اٹھ گیا۔ ہم دونوں دوست خاموشی سے کار میں بیٹھے اور گھر کی جانب روانہ ہوگئے۔ میں اورسہیل بچپن کے دوست تھے ایک ہی جیسا سوچنے والے اوریہ کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ دو جسم لیکن ایک ذہن مگرپھربھی کبھی کبھی ہماری سوچ کی سمت مختلف ہو جاتی تھی۔ اور مجھے اچھی طرح اندازہ تھا کہ وہ اس وقت آنے والے وقت کے بارے میں سوچ رہا ہوگا مگر مجھے گزرا ہوا وقت یاد آرہا تھا ۔ مجھے گزری ہر ایک بات ایسے یاد آرہی تھی جیسے ابھی کل کی ہی بات ہو ۔ تین مہینے پہلے کی تمام باتیں تازہ ہوگئیں اوراحمر کے گھر کا تمام معاملہ ایک فلم کی طرح میرے ذہن میں گردش کرنے لگا۔
احمر پھوٹ پھوٹ کے رو رہا تھا ،احمر کی امی زرین آپا اپنے بیٹے کابھرپور ساتھ دے رہی تھیں جبکہ احمر کے ابو آغا صاحب سر پکڑے خاموش بیٹھے مجھے التجائی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ احمر کی بے دریغ پٹائی لگاؤں اور سخت سست کہوں مگر والدین کی پرورش نے گرفت میں لئے رکھا تھا ۔ عصر کی نماز پڑھکر بیٹھا تھا، وضو قائم تھا اس لئے بھی غصے جیسی حرام کیفیت پربا آسانی قابوپائے ہوئے تھا۔
’’بیٹا یوں خاموش مت بیٹھو ، کچھ تو کہو، کوئی حل نکالو‘‘
زرین آپا نے روتے روتے کہا ، آنکھیں اُن کی سرخ انگارہ ہو چکی تھیں۔ مجھے بے حد ترس آرہا تھاان ماں باپ کو اس حالت میں دیکھ کر مگراحمر کی سرخ سرخ اور بھیگی آنکھوں کودیکھ کر میرے اوپر کوئی کیفیت طاری نہیں ہو رہی تھی، اور دراصل میں اپنی اس ہی حالت پر خاموش تھا اور محض تماشائی بنا ہوا تھا۔
’’آپا !! میرے بس میں کیا ہے؟ جو میں کچھ کر سکوں؟؟؟ ‘‘
’’ بیٹا ایسا نہ کہو، ایک ماں کی التجا ہے ، میری ممتا کو بہت آسرا ہے تم سے اور تم ہی ایسا کہہ رہے ہو‘‘
’’آپا ! آپ میری سگی خالہ ہی کی طرح ہیں مگرشاید آپ جانتی نہیں کہ پچھلے چھ مہینوں سے میرے ساتھ کیا ہو رہا ہے ،اور اچھا ہی ہےجو آپ لوگوں کے علم میں نہیں ورنہ آج آپ لوگ جس مصیبت میں ہیں اسکا علم مجھے نہیں ہوتا‘‘
یہ کہہ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔
’’ اللہ تمہاری مشکلیں آسان کرے ، بیٹا ۔ میں ساری عمر دعا دیتی رہوں گی تم کو۔ کچھ کرو بیٹا میں تمہارا احسان ہمیشہ یاد رکھوں گی‘‘
آپا کی گڑگڑاتی آواز میری سماعت میں سمٹ آئی اور مجھے یوں لگا کہ کسی کے ہاتھ میری ٹانگوں پر ہیں میں نے فوراَ آنکھیں کھول کر دیکھا، اور بھڑک کر صوفے سے اٹھ کر پرے کھڑا ہو گیا۔ آپا زرین میرے سامنے صوفے پر بیٹھی تھیں مگر انھوں نے یہ آخری بات میرے پاس فرش پر بیٹھ کر میری ٹانگیں پکڑ کر کہی تھی۔
’’ یہ آپ کیا کر رہی ہیں ۔ اٹھیں فرش سے ، صوفے پر بیٹھیں ،آپ میری بڑی ہیں اور بڑے چھوٹوں کے پاؤں نہیں ان کے کان پکڑتے ہیں ، برائے مہربانی فرش سے اٹھ کر صوفے پر بیٹھیں ۔ اور اپنے آپ پر قابو رکھیں ورنہ میرا یہاں رکنا محال ہو جائے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے میں نے احمر کو غضب ناک آنکھوں سے دیکھا، لگتا تھا کہ میرے اندر کا برسوں سے سویا ہواجنون بیدار ہو چکا ہو، میں نے احمر کا جھکا سر ٹھوڑی سے پکڑ کر اٹھایا۔
’’ دیکھو!! تم نے اپنے عمل کی وجہ سے اپنے ماں باپ کو کہاں پہنچا دیا ہے؟؟ کیاتمہیں گوارہ ہو سکتا ہے کہ تمہاری ماں کسی کے پاؤں پکڑ کر التجا کرے ؟ تمہارا باپ یوں سر پر ہاتھ رکھ کر آنکھوں میں جہاں بھر کی گدائی لئے خاموش فریادی بن جائے؟؟؟ ‘‘
احمرنے چپ چاپ اپنا سر جھکا لیا، وہ یوں ہی فرش پر بیٹھا روتا رہا۔
میں نے آپاسے پھر درخواست کی کہ وہ فرش سے اٹھکر صوفے پر بیٹھ جائیں۔ اور میں خود بھی دوسرے صوفے پر ڈھیر ہوگیا۔ میرے اس عمل سے کمرے کی سسکتی فضا پر خاموشی طاری ہوگئی ۔ احمر کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سلسلہ تو نہیں تھما مگر رونے کی وہ آوازجو مجھے تنگ کر رہی تھی، میرے اندر وحشت کو ابھار رہی تھی وہ میری سماعت میں آنا بند ہوگئی۔
’’ماہانہ پانچ ہزار میں تم نے کیا کیا؟؟ بہت کشش نظر آئی تھی ناں تم کو ان پانچ ہزار میں، نہ جانے کتنوں کا خون اور کتنوں کا مال غصب کرکے وہ تم جیسوں کو محض چند ٹکڑوں میں خرید لیتے ہیں، ماہانہ پانچ ہزار ، چائے پانی کا خرچہ، موبائل کارڈ کاخرچہ کیا یہ تمام ضرورتیں تمہارا باپ پوری نہیں کرسکتا تھا؟؟جو تم ان کے ہاتھوں اپنے آپ فروخت ہوگئے تھے؟ وہ طاقت کا نشہ ، وہ سرور اب کیوں نہیں محسوس کر رہے ہو جسکو حاصل کرنے کے لئے تم نے ماں باپ سے اختلاف کیا، اپنے مستقبل سے کھیلا،اسکو داؤ پر لگایا اور آج زندگی کے چراغ کو ان ظالموں کے ہاتھوں سے بچانےکے لئے کوشاں ہو۔ وہ تو تمہارے ساتھی ہیں، اور تم بھی ان کے وفادار ہو پھرآج وہ تم سے تمہاری زندگی کا سوال کیوں کر رہے ہیں؟؟؟ ‘‘
میں نے جو لاوا دل میں ابل رہا تھا نکالنا شروع کردیا۔
’’انکل آپ ہی پوچھیں کتنے لوگوں کا مال ضبط کرنے میں مدد کی ہے اس نے ؟ اتنی جلدی کیوں اسکو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے؟ ‘‘
’’ بیٹا !! مجھے اچھی طرح یاد ہے جب اِس نے نادر سے دوستی کی تھی، تو تم نے اسکو تنبیہ کی تھی، سمجھایا تھا کہ وہ لڑکا ٹھیک نہیں، ایک اوباش قسم کا لڑکا ہے مگر اس نے کس بدتمیزی سے دوٹوک جواب دیا تھا تم کو ‘‘
آغاصاحب کی آواز نے قریباَ پانچ سال پہلے کی بات ذہن کے قرطاس پر تازہ کردی۔
’’ انکل ایک نادر اور اسکا رویہ ہی کیا۔ اس بات پر تو مجھے آپ ماں باپ سے بھی شکایت رہی ہے کہ آخر آپ لوگوں نے اس پر سختی کیوں نہیں کی؟؟‘‘
’’ارے بیٹا!! آج کل کی اولادیں بس بہت سے بہت چھٹی ، ساتویں جماعت تک ہی قابو میں رہتی ہیں۔ اور یہ تو اس وقت سکینڈ ائیر میں تھا ۔ اور جو شاگرد اپنے استاد سے یہ کہہ دے کہ میں کسی سے بھی دوستی کروں یہ میرا ذاتی مسئلہ ہے تو وہ نالائق بھلا اپنے ماں باپ کی کیا سنے گا، باپ تو تم بھی تھے اس کے۔ ہم عرش سے فرش تک لانے کا ذریعہ تھے اور تم جیسے تو انسان کو فرش سے عرش تک لیجاتے ہیں۔ مگر بدنصیب ہوتے ہیں وہ جو آج کے دور میں ایسے استادوں کی قدر نہیں کرتے جن کوچراغ لیکر بھی ڈھونڈو تو نہ ملیں‘‘
آغاصاحب نے رنجیدہ لہجے میں اپنا دکھ بیان کرتے ہوئے کہا
’’ بیٹا !! کمی ، کوتاہی ہماری ہی تربیت میں رہ گئی جس کے سبب ہم آج یہ دن دیکھ رہے ہیں‘‘
یہ کہتے ہوئے انکی آنکھوں کا بند ٹوٹ ہی گیا۔
میں بھی سوچنے لگا کہ درست ہی کہہ رہے ہیں۔ یہ وہ دور کہاں جب جوان ہوتی اولاد ماں باپ کی بات مان لے، جوانی اور تازہ جوانی خود ایک ایسا خمار ہے جس میں مبتلا ہو کر انسان بڑے چھوٹوں کی تمیز بھول جاتا ہے، اور اپنے آپ کودنیا کا واحد عقلمند انسان سمجھتا ہے۔
’’ انکل ہمت کریں ، برائے مہربانی ہمت سے کام لیں‘‘
میں سمجھ چکا تھا کہ یہ وقت گلے شکوے کرنے کا نہیں بلکہ ٹھنڈے دماغ سے مسئلہ کو حل کرنے کا ہے۔
’’احمر صحیح صحیح بتاؤ ؟؟ اس تمام عرصے میں تم کیا کرتے رہے ہو؟؟‘‘
’’ سر مجھے معاف کردیں میں نے آپ سے بہت برا سلوک کیا تھا ۔ اور یہ اسکا ہی نتیجہ ہے کہ میں اپنے والدین کے لئے پریشانی کا سبب بنا‘‘۔
احمر نے میرے پاس کھسکتے ہوئے کہا، ایسا لگا کہ وہ بالکل تیار اور بے چین بیٹھا تھا یہ سب کہنے کے لئے، میں نے ہاتھ کے اشارے سے اسکو مزید بولنے سے روک دیااور کہا ۔
’’ یہاں اوپر بیٹھو اور میری بات کا جواب دو مگر سچ سچ‘‘ ۔
’’ سر یہ آپ باخوبی جانتے ہی ہونگے کہ وہ میری عمر کے لڑکوں کے ذمے موبائل فون چھینے اور نگرانی وغیرہ جیسے کام لگاتے ہیں۔ یا جلسے جلوسوں میں انتظامات مگر وہ بھی نچلی سطح پر، اور اسکے علاوہ میں نے دیگر کسی برائی سے اپنے ہاتھ سیاہ نہیں کرے ہیں ‘‘
میں احمر کی بات سن کر مسکرا دیا
’’ بیٹا !! میں بخوبی جانتا ہوں کہ تمہاری عمرکے لڑکوں کے ذمے وہ کیا کام لگاتے ہیں‘‘
’’ سر آپ صفدر بھائی سے بات کریں ، میں اب ان کے ساتھ کام نہیں کرسکتا، وہ لوگ مجھ سے مزید برے کام لینا چاہتے تھے جیسے ڈاکٹر رحیم انعام کی بیٹی کا اغوا وغیرہ مگر میں نے حیل حجت کرنا شروع کر دی تھی، میں ان کی میٹنگ سے غیر حاضر ہونے لگا توانہوں نے میری موت کا فرمان جاری کردیا تاکہ میری موت کو اخبار کی زینت بنا دیا جائے اور پھراُسکو اپنے خلاف سازش کا کہہ کرفائدہ اٹھایا جائے۔‘‘
’’مگر تم کوکیسے پتہ چلاکہ ان کا یہ منصوبہ ہے؟؟‘‘
’’ سر آخر تین سالوں میں کچھ لوگوں سے اتنی علیک سلیک تو ہو چکی تھی کہ آتے ہوئے برے وقت کا معلوم ہوجائے‘‘
’’ خیر یہاں آنے سے پہلے میں بھی معلوم کر چکا ہوں، صفدر کے بس میں جہاں تک تھا وہ میری مدد کر چکاہے، یہ لوگ اب بہت بدل چکے ہیں اور بوکھلائے ہوئے ہیں کیوں کہ اب شہر میں یہ اکیلے نہیں ہیں جن کی نگاہیں لوگوں کے مال پر ہیں، اب ان جیسے اور بھی یہاں آچکے ہیں ،اور اب یہ اس جانور کی طرح ہیں کہ بھوک لگے تو اپنے ہی انڈوں کو کھا جائیں اور تم جیسے ان کے لئے انڈوں ہی کے طرح ہوتے ہیں، وہ بھوکے ہیں اور ان کی بھوک تم جیسے نادان مٹاتے ہیں یا تمہارے ماں باپ یا مجھ جیسے لوگ ۔ مگر اس وقت وہ سیاسی مفاد کے ساتھ ، اپنے ناکارہ ہوتے ہوئے گھوڑے کو بھی ٹھکانے لگانا چاہتے ہیں جو اب دوڑ میں حصہ نہیں لینا چاہتا۔ اس لئے ان کی فہرست میں تمہارا بھی نام آچکا ہے‘‘
’’ بیٹا میں بھیک مانگتی ہوں ، میرے حال پر رحم کرو، میرے اکلوتے بیٹے کی زندگی کا سوال ہے‘‘
’’ آپا ایسا نہ کہیں میرے بس میں اب وہ نہیں جو آپ سمجھ رہی ہیں ، کل کی بات اور تھی یہ لوگ استاد ہونے کے ناطے میرا لحاظ کرتے تھے مگر آج ان کے ہی ہاتھوں اپنی پیشانی پر چوٹ کا نشان لئے گھومتا ہوں ۔ خود میری دو دفعہ پیشی ہو چکی ہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جو مجھ سے پڑھے ہوئے لڑکے تھے ان میں سے دو گولیوں کی نذر ہوچکے ہیں اور ایک نہ جانے کہاں روپوش ہے، زندہ بھی ہے یا نہیں۔ باقی جو لوگ آج بھی احترام کرتے ہیں مانا وہ بھی قابل ِاعتماد ہیں کیونکہ وہ خود اپنے آقاؤں سے اکتا چکے ہیں مگر وہ اتنے اثرورسوخ والے نہیں ہیں، جن کی بدولت یہ معاملہ سلجھ سکے۔‘‘
’’ بیٹا !!کچھ تو کرو خدارا ،ایک تم ہی ہماری آخری امید ہو‘‘۔
آغاصاحب نے کہا میری اس بات پرانکو بھی اندازہ ہو چکا تھا کہ یہ معاملہ میرے بس کا نہیں ہے کیونکہ اب حالات واقعی بدل چکے تھے۔ مگر باپ تھے اس لئے پھر بھی مجھ سے ہی کہے جارہے تھے۔
’’ نہیں انکل ایسا نہ کہیں ہم اکثر پریشانی میں غلط بول جاتے ہیں،ہماری تمام امیدیں رب تعالیٰ ہی کی ذات پاک سے وابستہ ہوتی ہیں، بس ہاتھ ، در، ذرائع تبدیل ہو جاتے ہیں، میں اور مجھ جیسے دیگر تو بس ذریعہ ہوتے ہیں‘‘۔
میں نے یہ کہہ کر کچھ سوچا اور موبائل فون سے اپنے جگری دوست کو فون کرکے اشارے کنایوں میں اسے مکمل بات سمجھائی ۔ وہاں سے مثبت جواب ملا تو میرے دل کو اطمینان نصیب ہوا۔ معاملہ کچھ یوں تھاکہ سہیل میرا دوست بیروزگار لوگوں کو بیرون ِملک بھیجتا تھا لوگوں کی نوکریاں طے کروا کر، میں نے کچھ سوچ کر ہی سہیل کو فون کیا تھا اور اس کے مثبت جواب نے مجھے بڑی تقویت بخشی، میں نے احمر اور اسکے والدین کو پورا منصوبہ سمجھا دیا کہ احمر کو کچھ وقت کے لئے گھر سے غائب کر دیتے ہیں اور تھوڑے تھوڑے وقفے سے ان لوگوں کے پاس بھی جاکر احمر کی پوچھ گچھ کرتے رہیں گے اور پھر کچھ عرصے بعد اخبار میں بھی احمر کی گمشدگی کا اشتہار دے دیں گے یوں زمانہ سمجھے گا کہ احمر کہیں غائب ہوگیا ہے اور دوسری جانب احمر کو ملک سے باہر روانہ کرنے کے انتظامات کر دئیے جائیں گے۔ اور پھر جیسے ہی کوئی بہتر موقع ملا احمر کو ملک سے روانہ کر دیں گے۔
آج اس پورے معاملے کو تین مہینے ہونے کو آئے تھے اور اللہ کے فضل سے ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تھے۔ مگر میں اس کامیابی پر خوش نہیں تھا، بلکہ بہت اداس تھا میرا ذہن باربارمجھ سے مختلف سوالات پوچھ رہا تھا اور میں الجھتا جارہا تھا۔ یکایک میری سوچوں کا سلسلہ منقطع ہو گیا۔ سہیل نے گھر کے سامنے کار روکتے ہوئے کہا
’’ ان شاء اللہ دوست کل ملیں گے۔‘‘
میں نے گرم جوشی سے اس کا ہاتھ دبایا اور کار سے باہر آگیا۔ گھر کی جانب جاتے ہوئے میرے قدموں کو سہیل کے سوال نے جکڑ لیا،
’’ مخمور ایک بات تو بتاؤ‘‘۔
میں پلٹ کر سہیل کی جانب متوجہ ہوگیا۔
’’پوچھو!!‘‘
’’ ہم آخر کب تک یہ کام کرتے رہیں گے؟؟ ہم کب اس خوف سے آزاد ہونگے؟؟ کب تک اپنے لوگوں کو اپنے ہی لوگوں سے ، اپنی ہی زمین سے فرار کا راستہ مہیا کرتے رہیں گے؟؟ ہم کب آنکھ میں آنکھ ڈال کر ان مسائل کا سامنا کریں گے؟؟‘‘
میری آنکھوں میں آنسو آگئے، یہ ہی وہ سوال تھے جوپورے سفر میں میرا ذہن مجھ سے پوچھتا رہا تھا
’’معلوم نہیں میرے دوست، معلوم نہیں‘‘
میں نے انتہائی افسردہ لہجے میں سہیل کی بات کا جواب دیا
میری بات سن کر سہیل کی آنکھوں میں جہاں بھر کا غم اتر آیا۔ اس نے یکدم گاڑی کے ایکسلیٹرر پردباؤ بڑھا دیا اور گاڑی ایک زنّاٹے سے گلی عبور کرگئی۔ میں بھیگی آنکھیں لئے گھرمیں داخل ہوگیا۔ مجھے یقین ہے کہ یہ رات ضرور کٹ جائے گی اور سحر بھی نصیب ہو جائے گی مگر کب ؟ اس سوال کے جواب کا منتظر جانے کب سے ذہن ہے ۔ سیاہی کی مہیب گھٹا میں روشنی کا چراغ یہ یقین ہی ہے کہ ہر شب کے بعد سحر ضرور آتی ہے مگر خوف ہر بارقریب آتی سحر کو اندھیروں میں گم کر دیتا ہے ۔ باہمی اختلاف، انفرادی رنجشیں اجتماعی مفاد پر غالب آجاتی ہیں۔ سحر اپنے آپ کبھی نہیں آتی ۔ زمین کی گردش، سورج کی چمک،غرض بہت سے عوامل ہوتے ہیں جو مستقل مزاجی سے ایک تسلسل قائم کئے ہوئے ہیں۔اور اس بات کو سامنے رکھ کر ضرورت اس امر کی ہے کہ سحر کا انتظار کرتے ہوئے ہم مزید تاریکی کا ساتھ نہ دیں بلکہ اپنے طور ننھے ننھے دئیے روشن کرتے چلے جائیں تاکہ ایک دن وہی دئیے تاریکی کے سورج کو شکست دے کر شب کو روشن سحر میں تبدیل کردیں۔ میں اور سہیل جیسے جانے کتنے ہی لوگ ہیں مگر خوفزدہ، اپنے اپنے حلقوں میں متحرک مگر باہمی ربط میں خوف و دہشت سے منجمد، ضرورت اس امر کی ہے کہ بکھرے ہوئے موتیوں کو ایک مضبوط مالا کی صورت پرو دیا جائے اور اس کام کے واسطے کسی فرشتے کی نہیں بلکہ ایسے انسانوں کی ضرورت ہے جو ذاتی رنجشوں کو اجتماعی مفاد پر اہمیت نہ دیں۔ میں نے کمرے کی دیوار پر لگی جناح رحمتہ اللہ کی تصویر کو دیکھتے ہوئے اپنی ان تمام سوچوں کے سمندر پر بند باندھ دیا۔ اور امید کے تابناک چراغوں کو آنکھوں میں روشن کر کے رات کے اس پہر سحر ہونے تک کے لئے کاغذ قلم لے کر بیٹھ گیا۔ میرا قلم قرطاس پر رقصاں ہے سحر ہونے تک۔ کاغذ سیاہ ہوتے جارہے ہیں اور میرے کمرے میں روشنی پھیلتی جا رہی ہے۔
س ن مخمور
امر تنہائی
آخری تدوین: