یونس
محفلین
آغازِ سفر
یہ 28اگست2013 کی روشن صبح تھی ۔۔۔
سی این جی اسٹیشن کے دفتر کے باہر کرسیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ باقی ساتھیوں کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔وقفے وقفے سے ایک آدھ مزید ساتھی ہاتھ میں بیگ اٹھائے نمودار ہوتا اور رسمی سلام دعا کے بعدان انتظار کرنے والوں میں شامل ہوجاتا۔ پروگرام کے مطابق سب کو چھ بجے صبح یہاں پہنچنا تھا لیکن اب ساڑھے سات بجے تک بھی کورم پورا نہیں ہوا تھا۔۔۔ وادئ سوات کی سیر کیلئے جلدی تو سب کو تھی‘ لیکن وقت پر گھر سے نکلناشایدسب کیلئے مشکل ترین مرحلہ رہا ہوگا ! بہرحال۔ کچھ ہی دیر میں استاد جمیل اپنے ٹویوٹا ہائی ایس ’’شراٹا ٹائم‘‘کے ساتھ نمودار ہؤا۔ رفتہ رفتہ باقی ساتھی بھی آ گئے۔اور گاڑی کے سلنڈر فُل ہونے تک سامان رکھے جانے کا مرحلہ مکمل ہو چکاتھا۔
قریباً ساڑھے آٹھ بجے دعائے خیر کے ساتھ سفر کا آغاز ہوا۔
اگر آپ کوصوبہ سرحد(اب خیبر پختون خواہ)‘ میں کبھی پبلک ٹرانسپورٹ کے سفر کا تجربہ ہوا ہو تو آپ کو یاد ہوگا کہ ڈرائیور سیٹ پر براجمان ہوتے ہی’’ دعائے خیر اوکا‘‘ یعنی ’’دعائے خیر کرلیجئے‘‘ پکارتا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ آپ ہاتھ اٹھا کرمسنون دعائے سفر کے الفاظ ادا کرنے لگیں‘ ڈرائیوراپنی دعامکمل کرنے کے بعد‘ ہاتھوں کو منہ پر پھیرکے ‘گاڑی اسٹارٹ کرکے ‘اسے گیئر میں ڈال کے ‘ اسٹیئرنگ سنبھال چکا ہوتا ہے!
سفر کے دوران نماز کے معاملے میں بھی پختون بھائی خاصے تیز واقع ہوئے ہیں (یا پھر ہم پنجابی بہت ہی سست ہیں!)‘دورانِ سفر نماز کا وقت ہونے پر گاڑی سڑک کنارے روکی‘ نماز کا اعلان کیا ‘ ندی چشمے وغیرہ پر گئے‘ وضو کیا‘ قصر کی نیت باندھی‘ نماز شروع کی‘ اور اگلے ہی لمحے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کے بعد جوتے پہنتے ہوئے پکار رہے ہوتے ہیں ’’ بھائی جلدی کرو بہت دیر ہو گیا‘‘ یقین مانئے ہمارے جیسے اس وقت تک بمشکل جائے نمازتک ہی پہنچتے ہیں ۔ بلکہ زیادہ تر تو ابھی وضو کے آخری مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
ہماری دعا اس قدربرق رفتاربہرحال نہیں تھی‘ جو بھی کسی کو یاد تھا‘ آرام سے پڑھ لیا گیا۔
یہ 28اگست2013 کی روشن صبح تھی ۔۔۔
سی این جی اسٹیشن کے دفتر کے باہر کرسیاں ڈال کر بیٹھے ہوئے کچھ لوگ باقی ساتھیوں کا بڑی بے چینی سے انتظار کر رہے تھے۔وقفے وقفے سے ایک آدھ مزید ساتھی ہاتھ میں بیگ اٹھائے نمودار ہوتا اور رسمی سلام دعا کے بعدان انتظار کرنے والوں میں شامل ہوجاتا۔ پروگرام کے مطابق سب کو چھ بجے صبح یہاں پہنچنا تھا لیکن اب ساڑھے سات بجے تک بھی کورم پورا نہیں ہوا تھا۔۔۔ وادئ سوات کی سیر کیلئے جلدی تو سب کو تھی‘ لیکن وقت پر گھر سے نکلناشایدسب کیلئے مشکل ترین مرحلہ رہا ہوگا ! بہرحال۔ کچھ ہی دیر میں استاد جمیل اپنے ٹویوٹا ہائی ایس ’’شراٹا ٹائم‘‘کے ساتھ نمودار ہؤا۔ رفتہ رفتہ باقی ساتھی بھی آ گئے۔اور گاڑی کے سلنڈر فُل ہونے تک سامان رکھے جانے کا مرحلہ مکمل ہو چکاتھا۔
قریباً ساڑھے آٹھ بجے دعائے خیر کے ساتھ سفر کا آغاز ہوا۔
اگر آپ کوصوبہ سرحد(اب خیبر پختون خواہ)‘ میں کبھی پبلک ٹرانسپورٹ کے سفر کا تجربہ ہوا ہو تو آپ کو یاد ہوگا کہ ڈرائیور سیٹ پر براجمان ہوتے ہی’’ دعائے خیر اوکا‘‘ یعنی ’’دعائے خیر کرلیجئے‘‘ پکارتا ہے۔ اور اس سے پہلے کہ آپ ہاتھ اٹھا کرمسنون دعائے سفر کے الفاظ ادا کرنے لگیں‘ ڈرائیوراپنی دعامکمل کرنے کے بعد‘ ہاتھوں کو منہ پر پھیرکے ‘گاڑی اسٹارٹ کرکے ‘اسے گیئر میں ڈال کے ‘ اسٹیئرنگ سنبھال چکا ہوتا ہے!
سفر کے دوران نماز کے معاملے میں بھی پختون بھائی خاصے تیز واقع ہوئے ہیں (یا پھر ہم پنجابی بہت ہی سست ہیں!)‘دورانِ سفر نماز کا وقت ہونے پر گاڑی سڑک کنارے روکی‘ نماز کا اعلان کیا ‘ ندی چشمے وغیرہ پر گئے‘ وضو کیا‘ قصر کی نیت باندھی‘ نماز شروع کی‘ اور اگلے ہی لمحے السلام علیکم و رحمتہ اللہ کے بعد جوتے پہنتے ہوئے پکار رہے ہوتے ہیں ’’ بھائی جلدی کرو بہت دیر ہو گیا‘‘ یقین مانئے ہمارے جیسے اس وقت تک بمشکل جائے نمازتک ہی پہنچتے ہیں ۔ بلکہ زیادہ تر تو ابھی وضو کے آخری مراحل طے کر رہے ہوتے ہیں ۔۔۔
ہماری دعا اس قدربرق رفتاربہرحال نہیں تھی‘ جو بھی کسی کو یاد تھا‘ آرام سے پڑھ لیا گیا۔