مغزل
محفلین
::سمیع اللہ آفاقی سے آفاتی طور ملاقات کا قضیہ: :
(شرف ملاقات: م۔م۔مغل )
گزشتہ شام ۶ بج کر ۳ منٹ پر ہمارے پیٹ پاپی ملاقاتی میں مروڑ اٹھا کہ صاحب گزشتہ ۷ ماہ سے میل ملاقات کا ایندھن دستیاب نہیں ہوا، سو تبّحرِ علمی (مراد ہر دو محفلین کے نزدیک ”دقیق“ زبانِ لشکری اردو سے ہے) سے کسے فیضیاب کیا جائے کہ احباب میں بالخصوص محفلین میں سے جو ایک بار مل سکا ہے دوبارہ ” بہ بحر غوطہ زدی“ سے محروم ومحفوظ رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے ۔۔ یہ سوچ کر ہم نے دائیں بائیں دیکھا اورنئے شکار کی خواہش کے زیرِ اثر خباثت بھر ی مسکراہٹ سے خود کو معمور کیا ، باچھیں تو کیفِ مسرت (مسرت شاہین نہیں)میں کانوں کی لوؤں کو چھونے پر آمادہ تھیں مگر اٹھائیسی( ابھی بتیسی کا شرف حاصل نہیں ہوا۔۔) نے زبانِ شتر بے مہار کی آوارہ خیالی و مزاجی اور آلودہ دانتوں کی نمائش کے خوف سے ”ہنگامی صورت“ کا نفاذ کر دیا اور ہم نے چوروں اچکوں اٹھائی گیروں سے بچتے ہوئے لوحِ ہاتف(موئی فرنگی میں موبائل یا سیل فون) کی چمکتی جبین پر متلاشی انداز میں نظریں دوڑائیں تو شومیءقسمت حضر ت قبلہ حافظ سمیع اللہ آفاقی مد ظلہ کے اسمِ گرامی کے ساتھ ہندسے جگمگا رہے تھے ۔۔ ملاقاتی عارضہ نے تن ِ تواں و ناتوا ں و باقیاتِ خستگاں کا خیال نہ رکھتے ہوئے نعرہِ مستانہ بلند کیا۔۔ تنا نا نا ہو یا ہو و و و و۔۔۔۔اور اس خیال سے کہ آس پاس کے لوگ اداکار مستانہ سمجھ کر جگت بازی کی فرمائش نہ ڈالیں سو ۔۔ خفیف سی کھی کھی کھی کے ساتھ خموشی اختیار کر لی۔۔۔ پہلے پہل تو خیال آیا کہ قبلہ موصوف کو اسی شمارِ ہاتف (فون نمبر) سے رابطہ کیا جائے جو موصوف کے پاس محفوظ ہے۔۔ مگر بھلا ہو عمران سیریز کا کہ بچپن میں ۳۸۴ ناول پڑھ لینے کے بعد علی عمران جیسا مافوق الفطرت بننے کی خواہش بچپن سے ہی رگوں میں کسی آوارہ بد روح کی طرح ”می رقصم ومی رقصم “ کی عملی تصویر بنی بولائی بولائی پھرتی ہے۔۔۔ سو یوں غیر معروف ”سرکاری“ شمارِ لوحِ ہاتف کی وساطت سے ہم قبلہ موصوف کی نمازِ مغرب کے فرض اور سنتوں کے درمیان دخلِ در معقولات کے موجب ٹھہرے ، یہ ٹھیک ۶ بج کر ۳ منٹ کا عمل تھا جب دو وقت بغلگیر ہورہے تھے ، سو یوں ملاقات کا اشتیاق ہوا کے دو ش پر گوش گزاری کا شرف حاصل کر چکا تو مخاطب و مطلوب و مقصود کی مسکراہٹ سے لتھڑی اور شفقت سے آمیز و لبریزآواز نے کچھ مہلت طلبی کے بعد حاضر ہونے کی نوید سنائی ۔۔ قصہ کوتاہ ٹھیک ستائیس منٹ بعد برقِ کراچوی ہم پر گری یعنی بجلی محترمہ اپنے میکے سدھارگئیں تو ” اندھے کو اندھیرے میں سوجھی “ کہ صاحب۔۔ قبلہ سے اندھیرے میں ملاقات کا نقشہ کھینچوں گا کیا اور محفل میں پیش کیا کروں گا ۔۔۔۔ جتنے عرصے میں قبلہ موصوف سمیع اللہ آفاقی صاحب کے خدوخال کا جائزہ لینے میں استغراق کاشکار رہے اس عرصے میں شاہراہِ پاکستان پر ایک بلیلہ خرام کرتی ہوئی مجھ فاتر الحواس کی طرف نیوٹن کے اسراع کے قانون پر عمل پیرا رہی ، بلیلہ کے مدوّر سُم قوت اور رگڑ کے معاملات طے کرتے رہے اور یوں مجھ سے کچھ بیس قدم کے فاصلے پر کچھ گاڑیوں کی اوٹ میں ایک بلیلہ سوار آن رکا ۔۔یوں بہر کیف و بہر حال ٹھیک ۶ بج ۳۴ منٹ پرلوحِ ہاتف کی جبین جگمگا اٹھی ۔۔دوسری جانب قبلہ محترم و مکرم موجود تھے اشارے کنائے اور تعیّنِ سمت کے فرائض ادا ہوئے تو بیس قدموں پر مشتمل سفرِمراجعت شروع ہوا اور شاہراہِ پاکستان پر واقع یوسف پلازہ کے نکڑ پر(ایدھی سردخانے سے) بخاری برف خانہ تک کا سفر تمام ہوا اور یوں کوئٹہ النصیب ہوٹل کا نصیب جاگا۔۔ اور۔۔اندھیرے میں دوسائے سرعت سے بغلگیر ہوئے۔۔۔ آئیے ہم اپنے ممدوح کی خاکہ کشی کرتے ہیں :
سبزہ مائل سلیٹی رنگ کی شلوار قمیص میں ملبوس ، سیاہ پٹے دار پاپوش، شلوار کے پائنچے ٹخنوں سے فراق کی حدیں متعین کرتے ہوئے ،قریباً ۵ فٹ ۸ ،انچ، چوڑے چکلے شانے ، کسرتی متناسب استخوانی ڈھانچہ پر معتدل گوشت کی تہیں جن پر سپیدی مائل گندمی رنگت کی کھال جو فربہ وجود کو متوازن کرنے میں پوری قوت سے مشغول و منہمک نظر آتی تھی(ارے کہیں آپ مجھے ”بکراپیڑی“ (جانوروں کی منڈی) کا آڑھتی خیال کر رہے ہوں۔۔ توبہ توبہ۔۔ بھئی عیدِ قرباں کے دن نزدیک ہیں سوتمثیل کو اس حوالے سے دیکھنا ایسا ہے ہی جیسے بکرے کے سامنے مالک خریدار کو خواص گنوا رہا ہو ۔۔ ویسے لاشعوری طور پر ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔۔ ہاہاہاہاہا)۔۔خیر جناب مزید یہ کہ سامنے کی جیب میں چند سکّے اور کچھ روپے جو بغور دیکھنے پر بھی چھب دکھانے پر راضی نہ ہوئے ۔۔ جیب میں ایک عدد سانولا سلونا سا قلم ۔۔ گریبان کے بیڑوں (بٹنوں) کی تعداد یوں نہیں بتائی جاسکتی کہ انہیں قمیص کے ہم رنگ غلاف نے ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔ہونے اور نہ ہونے کے درمیان حدیں طے کرتی ہوئی مناسب گردن، کان کی لویں ہلکورے لیتی ہوئی جبکہ اپنی ہیئت میں کان کھوپڑی سے بغلگیر ہوتے ہوئے، اشکالی حولے میں ڈھاکہ چم چم کو اگر افقی سمت سے عمود پر ۹۹ درجے پر گرایا جائے توکھوپڑی کی ساخت کچھ ایسی ، سلیقے سے تراشیدہ گیسو جنہیں کروشیے سے بُنی ہوئی سیاہ رنگ سر پوشش (ٹوپی)نے اپنی آغوش میں لے رکھا تھا ، کشادہ پیشانی جس پر عجیب سی پُرکیف روشنی کا نزول اور سجدہ ریزی کے انمٹ نشان،مزید یہ کہ تین عدد باریک سلوٹیں جو(ماحول میں فرّاٹے بھرتے شور سے اکتا کر) صرف ارتکازِ توجہ کے وقت نمودار ہوتی تھیں، کشادہ بھنویں اور خمار آلودہ پلکیں ، چمکد ار بلوری آنکھیں جن کی پتلیاں تمام تر گفتگو میں ارتکاز وفرار کے درمیان سفر کرتی رہیں ۔پپوٹے کثرتِ مطالعہ اور کم خوابی کی وجہ سے بنفشی مائل سیاہی سے حلقہ بناتے ہوئے اور جھرّیاں آنکھوں کے عضلات پر قابوپانے میں ایسے مصروف جیسے سرنگا پٹم پر کوئی شہسوار فتح کا جھنڈا گاڑنے کو بیتاب ہو۔۔سرخ و سپید تمتاتے ہوئے رخسار جن پر دائیں جانب آنکھ کی سے ڈھلان کی طرف تِل بہاردکھلا رہے تھے، ستواں ناک جو طول و عرض کے سفر میں بیتاب نظر آئی ، ہونٹ تصنوع کے بغیر سرخی سے لبریز اور ساخت میں کشمیری سیب کی قاش کی سی شکل لیے ہوئے ۔ چہرہ پر متوازن سیاہ ریش جو شخصیت کو مزید وجیہہ بنانے میں مصروف، گفتگو میں بلا کا ٹھہراؤ، لہجہ دھیما،نپے تُلے تراشیدہ جملے نہ کوئی اضافی نہ کوئی کم،گفتگو کے دوران ہونٹ مسکراتے ہوئے اور اشتیاق میں معمور: الخ
ملاقات میں کیا کیا باتیں ہوئی یہ الگ قصہ ہے ، ہا ں یہ خبر ضرور مل گئی تھی کہ قبلہ موصوف گڑیا نازنین ناز کو اس ملاقات کی خبر دے کر آئے تھے ، زندگی کے بیسیوں شعبوں پر بات رہی اور اختتامی لمحوں میں عشایہ کے دعوت دی گئی ، جسے ہم نے آئندہ پر موقوف کرکے رخصت چاہی ۔۔ سو یوں قریب سات بج کر۴۴منٹ پر یہ ملاقات اختتام پزیر ہوئی۔۔لیاقت علی عاصم کے اس شعر کے ساتھ کہ:
ختم ہوجائے ذرا چائے تو پھر چلتے ہیں
اِس ملاقات کا انجام نہیں ہے کوئی !!!
(راقم الحروف: نیاز مند و مشرب: م۔م۔مغل)