سناٹا

سناٹا
آج صبح اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو خلافِ معمول ماں جی کو وہاں موجود پایا۔ یہ کیا؟۔ ۔ ماں جی ایکوریم کے پاس، کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑی محویت سے اس میں کچھ دیکھ رہی ہیں۔ آنکھوں میں وہی بچوں جیسی دل چسپی اور حیرت ہے۔ میں دبے پاوءں چلتا ہوا انکے پیچھے آ کر انکے کندھوں کے اوپر سے ایکوریم میں جھانکنے لگا۔ نیلی نیلی روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے ایکوریم میں رنگ برنگ کی مچھلیاں ہیں۔ ماں جی کی توجہ ایک ننھی سی گولڈ فش پر ہے جو تہہ میں پڑے ہوئے کنکروں کے آس پاس تھرک رہی ہےاور ان کنکروں میں چھپے ہوئے خوراک کے ریزے بار بار منہ کھول کر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انکو اس منظر میں نجانے کیا خوشی مل رہی ہے۔ مسکرا رہی ہیں۔۔۔ماں جی بھی عجیب ہیں۔
میں نے چپکے سے اپنے بازو انکے گرد حمائل کردیئے ہیں لیکن انکی توجہ میں خلل نہیں آیا ۔ بس میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہم دونوں ماں بیٹے کو اس طرح کی فراغت ملے ہوئے۔ اِس لمحے مجھے شدت سے خواہش ہو رہی ہے کہ انکا سر اور کندھے دبا دوں۔ کافی عرصے سے انکا سر نہیں دبایا ۔ اور وہ دبانے بھی کب دیتی ہیں۔ میری انگلیاں انکے بالوں میں مساج کرنے لگیں تو انکی محویت ٹوٹی اور فوراَ میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔۔۔' ' اوںہوں۔۔رہن دے"'۔ لیکن میں نے بھی آج فیصلہ کر لیا ہے کہ ماں جی کی ایک نہیں سننی۔ میرے ہاتھ انکے نحیف و نزار کندھوں کو دبانے لگے۔
جب سے ماں جی کے ایک بازو اور ایک ٹانگ پر فالج کا حملہ ہوا ہے، چلنا پھرنا بالکل موقوف ہوگیا ہے اور تقریباَ بستر سے ہی لگ کر رہ گئی ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فالج سے انکا ذہن بھی متاثر ہوا ہے۔ گفتگو میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ جو کہنا چاہتی ہیں کہہ نہیں سکتیں۔ زبان ساتھ نہیں دے پاتی۔اپنی ضروریات بتانے سے قاصر ہو گئی ہیں۔ ہم لوگ صرف انکی آنکھیں دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ شائد پیاس لگی ہے یا شائد باتھ روم جانا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جائے گی۔
خیر۔۔۔بات ہورہی تھی ماں جی کی۔ میں کندھوں اور گردن کے پٹھوں کا مساج کرتے کرتے سوچ رہا ہوں کہ ماں جی کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ جب بھی میں انکے پاس بیٹحھ جاتا تھا تو بغیر کچھ کہے سنے میرے بالوں کو یا میرے ماتھے کو سہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ اب بھی انکا ہاتھ میرے سر کو ڈھونڈھ رہا ہے۔انکو اس کشمکش سے بچانے کیلئے میں انکے پاوءں کی طرف آ گیا ہوں۔
''لیٹ جاوء تسی''۔
اور وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح کارپٹ پر ہی لیٹ گئیں۔میں انکے پاوءں دبا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ ماں جی بھی عجیب ہیں۔مدت ہو گئی مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ماں جی مجھ سے کوئی فرمائیش کریں۔میں نے جب بھی چھٹی پر وطن واپس جانا ہوتا ہے پوچھ پوچھ کر تھک جاتا ہوں کہ بتائیں آپ کے لئیے کیا لیکر آوّں، اُدھر سے بس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔' "وے رہن دے۔۔بس توں آجا"'۔ ایک دفعہ سوچ سوچ کر میں نے انکے لئیے ایک شال بھیج دی۔اتنی خوش ہوئیں کہ گھر میں جو بھی آتا وہ شال ضرور دکھائی جاتی۔ "'ویکھ۔۔میرے ممود نے پیجی ایہہ''۔
کوئی انکا معمولی سا کام بھی کردے، بغیر کہے پانی پلا د ے یا اکیلی بیٹھی ہوں اور ہم میں سے کوئی قریب آ کر بیٹھ جائے تو اس قدر شکر گذار نگاہوں سے دیکھتی ہیں کہ مارے شرمساری کےانسان کو اپنا آپ اپنی ہی نگاہوں میں بے حد حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔پہلے تو ایسی کسی بات پر دعائیں دینا شروع ہو جاتی تھیں لیکن جب سے زبان نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے، یہ دعائیں اب آنکھوں سے نکلتی ہیں آنسووّں کی جھڑی کی صورت۔اب دیکھیئے یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے کہ تھوڑے دن پہلے میں نے انکو کمرے میں اکیلے بیٹھےکافی دیر تک دروازے کی طرف دیکھتے پایا تو ایسے ہی انکا جی بہلانے کے لئیے نصرت کی کیسٹ لگا دی۔ پھر اُنہی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگیں۔جب یہ غزل شروع ہوئی "' دل مر جانے نوں کیہہ ہویا سجناں، کدے نئی سی اج جِناں رویا سجناں''، پھر جو انکی ہچکی بندھی ہے، کہ سارے گھر کو رُلا کر چھوڑا ۔بعد میں والد صاحب سے مجھے کافی جھڑکیاں سننی پڑیں۔
میں انکے پاوءں دباتا جا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ اب ماں جی کا ویزہ ختم ہوتا ہے تو انکو واپس وطن بھیج دوں۔ وہاں میری بیوی ہے، بچے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال ہوجائے گی انکی۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ماں جی کو شور بہت برا لگتا ہے۔ بچوں کے شور میں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور پھر وہاں انکو ٹیپ ریکارڈر پر انکے زمانے کی غزلیں اور گانے کوں سنایا کرے گا۔اور جب بھی وہ خاموش گم صم بیٹھی ہوں تو کون مسخرہ پن کرکے انہیں ہنسایا کرے گا؟
یہی کچھ سوچ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ انکی پنڈلی پر زیتون کے تیل سے مساج بھی کر رہا ہوں۔ فالج کی وجہ سے پٹھے کسقدر اکڑ گئے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ انکا پاوءں پکڑ کر چوم لوں کیونکہ پہلے تو وہ برا منا جائیں گی اور جب میں باز نہیں آوءں گا تو ہنسنے لگیں گی۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک کمرے کا ائیر کنڈیشنر ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ ۔ایکدم سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا۔ میرے نگاہیں بے اختیار کمرے میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ وہی بے ترتیبی اور بکھری ہوئی کتابیں ہیں آس پاس۔۔۔اور کسی ایکوریم کا وجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ارے ہاں یاد آیا، جنریٹر بند ہونے کا مطلب ہے کہ چھ بج گئے ہیں۔آٹھ بجے تک ڈیوٹی پر پہنچنا ہے کہیں لیٹ نہ ہو جاوءں۔ آجکل چھٹی سختی سے منع ہے۔ اور ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو ایمرجنسی چھٹی کاٹ کر واپس آیا ہوں، ماں جی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر۔۔۔۔
فرمائش تو انہوں نے کبھی کی نہیں تھی۔ اس مرتبہ بھی ایک چادر ہی تھی وہی انکی قبر پر چڑھا آیاچند پھولوں کے ساتھ ۔ اور میں کچھ دے بھی کیا سکتا تھا انہیں۔
سناٹے کی گونج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔
ّ
 
دوستو یہ میری پہلی کاوش ہے نثر میں کچھ لکھنے کی۔بتائیے کہاں تک کامیاب رہا اور کہاں تک ناکام۔ اسے افسانہ تو نہیں کہوں گا، کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے۔ آپکے کمنٹس کا منتظر ہوں، صرف شکریے کا ہی نہیں۔:)
بات کرتے کہ میں لب تشنہءتقریر بھی تھا​
 

فاتح

لائبریرین
محمود صاحب! آنسوؤں سے چہرہ بھگو دیا اور اس پر تبصروں کی بھی فرمائش۔
تبصرہ تو کوئی نہیں ہے ہاں بس یہی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی والدہ محترمہ کے درجات بلند فرمائے اور آپ کو ان کے نیک اعمال کا وارث بنائے۔ آمین!
 
محمود آپ کا انداز ہمارے ایک پرانے ساتھی جنہیں لوگ انجان مسافر کے نام سے جانتے تھے سے بہت ملتا جلتا ہے ۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
 

فرخ منظور

لائبریرین
اچھی تحریر ہے لیکن اگر آپ کوشش کریں تو یہ ایک خاکہ یا افسانہ بھی بن سکتا ہے۔ یعنی اسے خاکے کے حوالے سے بڑھائیں گے تو ایک اچھا خاکہ بن سکتا ہے اور اگر افسانے کو مدِنظر رکھ کر بڑھائیں گے تو ایک اچھا افسانہ بن سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ قدرت اللہ شہاب کا مشہور افسانہ ماں جی کا مطالعہ مدد گار رہے گا۔ ماں جی افسانہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔
 

زبیر مرزا

محفلین
محمود بھائی میں نے کچھ دن قبل نیرنگ خیال کو منع کیا تھا کہ ماں سے متعلق کچھ بھی تحریرکرو مجھے مت بُلانا
میرا حوصلہ جواب دے جاتا ہے آپ کی تحریرکاعنوان سناٹاتھا اندازہ نہیں تھا کہ درد کی طنابیں اورآنسوؤں کے بند پھرٹوٹیں گے
باربار آنکھیں صاف کی اورتحریرکوپڑھا اتنا سادہ اورپُراثرانداز تحریر جو دل مٹھی میں لے لے - آپ نے لکھا یہ ہمت کا کام ہے
جذبات کودرد کورقم کرنا بڑی بات ہے یہ الگ بات ہے اس تحریرنے کلیجے دے زخماں نُون فیرچا تازہ کی تا اے
ہتھیں ٹُور کے پُتراں نوں شالا ماں نا کوئی مرجاوے
جے کسے دن ہمت ہوئی تے میں وی لخا دا اس بارے اچ
 

نایاب

لائبریرین
افففففففففف ۔۔۔۔۔۔۔۔
کتناپر شور ہے یہ سناٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہستی بہنے لگی آنکھوں سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اللہ تعالی والدہ محترمہ کے درجات بلند فرمائے آمین
شراکت پر بہت شکریہ بہت دعائیں محمود بھائی
 

بھلکڑ

لائبریرین
بھائی :crying3: ڈالا یار ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کچھ کہنے کے لائق نہیں ہوں بس دعا ہے کہ خدا سب کے سروں پر ماں باپ کا سایہ سلامت رکھے۔آمین
 
محمود احمد غزنوی جی بہت پراثر تحریر ۔۔۔ پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے ۔۔۔ میری والدہ اور والد دونوں حیات ہیں ۔۔۔۔ میں کمینہ اپنی مصروفیات میں اتنا مگن ہوں کہ ان کو یکسر فراموش ہی کربیٹھا ہوں ۔۔۔۔ آپ کی تحریر نے آنکھیں کھول دیں ۔۔۔۔ جی چاہتا ہے کہ دونوں کی خوب خدمت کروں تاکہ بعد از جدائی دل میں کوئی ارمان نہ رہے۔
 

الشفاء

لائبریرین
ماشاءاللہ۔۔۔ بہت خوب تحریر۔۔۔
ماں باپ، وہ ہستیاں کہ جن کے بارے میں خالق ارض و سماوات فرماتا ہے کہ فلا تقل لھما اُفّ ، کہ ان سے اف تک نہ کہنا۔ ولا تنھرھما وقل لھما قولاً کریما۔ اور ان سے سختی سے نہیں بلکہ پیار اور نرمی سے بات کرنا۔ واخفض لھما جناح الذل من الرحمۃ۔ اور اپنے آپ کو ان کے سامنے عاجزی و انکساری کے ساتھ بچھا دیا کرو۔ وقل رب ارحمھما کما ربّیٰنی صغیرا۔ اور ان کے لئے اس طرح دعا کیا کرو کہ یا رب ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے ہمیں بچپن سے پیارومحبت سے پالا پوسا ہے۔۔۔سبحان اللہ۔۔۔
ہم کب سے یہاں اللہ عزوجل کی اس عظیم نعمت ، ماں کے بارے میں کچھ لکھنے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ جو کچھ بھی لکھتے ، اللہ کی اس عظیم تخلیق کی عظمت کے سامنے پھیکا نظر آنے لگتا ۔۔۔ اس لئے سب کچھ مٹا دیا ، بس یہی رہ گیا کہ
ماں۔۔۔ واہ۔۔۔ سبحان اللہ۔۔۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اپنی تحریر پر آپ نے ربط دیا تو یہاں پہنچا۔ محترم کیا ہی عمدہ لکھتے ہیں۔ دل افسردہ تھا اور سوچنے لگا ہمارے ارد کرد کتنی ماؤں کے ساتھ یوں ہوتا ہو گا۔ اللہ پاک ماں کا دل دکھانے سے بچائے۔ آمین! اور ایک گزارش تھی کہ کہانی لکھنا مت چھوڑنا۔ یہ اپنی بات دوسروں تک پہنچانے کے لیئے قدرت کی طرف سے بڑا تحفہ ہوتا ہے۔ اللہ اپنی امان میں رکھے!
 

باباجی

محفلین
زبردست تحریر محمود بھائی
آجکل زندگی کی مصروفیات و جدوجہد اس قدر بڑھ گئی ہیں کہ ہم اپنے ماں باپ کو وقت نہیں دے پاتے
مثال کے طور پہ میں رات نو بجے گھر جاتا ہوں کچھ وقت امی کے پاس بیٹھتا ہوں پھر صبح آفس کے کپڑے نکال کر رکھتا ہوں اتنے میں 11 بج جاتے ہیں اور میں سوجاتا ہوں
وہ شکوہ بھی نہیں کرتیں کیونکہ سروائیو کرنے کے لیئے مجھے اپنے کام کو وقت دینا زیادہ ضروری ہے
 

جاسمن

لائبریرین
آپ کے ساتھ آنسو بہا سکتی ہوں اور بہا رہی ہوں محمود بھائی۔ آللہ اُنہیں بہت بہت خوشیاں دے اُدھر۔ اُن کی قبر کو ٹھنڈا،کشادہ اور ہوادار کرے۔اور اُس میں جنت کی کھِڑکیاں کھول دے۔ ہر عذاب معاف کرے۔ اور آپ سب کو اُن کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین! میرا خیال ہے کہ مجھے اب لیپ ٹاپ کو بند کر کے امی کے پاس جانا چاہیے۔
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
آپ کے ساتھ آنسو بہا سکتی ہوں اور بہا رہی ہوں محمود بھائی۔ آللہ اُنہیں بہت بہت خوشیاں دے اُدھر۔ اُن کی قبر کو ٹھنڈا،کشادہ اور ہوادار کرے۔اور اُس میں جنت کی کھِڑکیاں کھول دے۔ ہر عذاب معاف کرے۔ اور آپ سب کو اُن کے لئے صدقۂ جاریہ بنائے۔ آمین! میرا خیال ہے کہ مجھے اب لیپ ٹاپ کو بند کر کے امی کے پاس جانا چاہیے۔

ثم آمین!
 

سید فصیح احمد

لائبریرین
اچھی تحریر ہے لیکن اگر آپ کوشش کریں تو یہ ایک خاکہ یا افسانہ بھی بن سکتا ہے۔ یعنی اسے خاکے کے حوالے سے بڑھائیں گے تو ایک اچھا خاکہ بن سکتا ہے اور اگر افسانے کو مدِنظر رکھ کر بڑھائیں گے تو ایک اچھا افسانہ بن سکتا ہے۔ اس کے لئے آپ قدرت اللہ شہاب کا مشہور افسانہ ماں جی کا مطالعہ مدد گار رہے گا۔ ماں جی افسانہ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔

بات تو پرانی ہے مگر ایک رائے دینا چاہوں گا اس سلسلے میں۔ صرف ایک طرزِ ادائیگی بدلنے سے یہ بیانیہ کہانی اچھی خاصی افسانے میں ڈھل سکتی ہے۔ اس کے علاوہ ایک یا دو افسانے کے اجزأ اسے، اس سے بھی بہترین پارے میں تبدیل کر سکتے ہیں۔ مثلاً منظر کشی ( ماحول کا جزیاتی بیان قاری کو چھیڑنے کے لیئے ) اور کرداروں کی حرکات و سکنات کی قدرے زیادہ تفصیل۔ یوں تو فقط طرزِ بیان ہی کافی ہے مگر فاضل مصنف اگر مزید اجزأ شامل کریں تو تحریر مزید نکھر جائے گی۔ اجزأ کی کمی نے ابہام کی قلت پیدا کی ہے جو افسانے کے لیئے اہم ہے۔
 

نور وجدان

لائبریرین
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک کمرے کا ائیر کنڈیشنر ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ ۔ایکدم سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا۔ میرے نگاہیں بے اختیار کمرے میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ وہی بے ترتیبی اور بکھری ہوئی کتابیں ہیں آس پاس۔۔۔اور کسی ایکوریم کا وجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ارے ہاں یاد آیا، جنریٹر بند ہونے کا مطلب ہے کہ چھ بج گئے ہیں۔آٹھ بجے تک ڈیوٹی پر پہنچنا ہے کہیں لیٹ نہ ہو جاوءں۔ آجکل چھٹی سختی سے منع ہے۔ اور ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو ایمرجنسی چھٹی کاٹ کر واپس آیا ہوں، ماں جی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر۔۔۔۔
فرمائش تو انہوں نے کبھی کی نہیں تھی۔ اس مرتبہ بھی ایک چادر ہی تھی وہی انکی قبر پر چڑھا آیاچند پھولوں کے ساتھ ۔ اور میں کچھ دے بھی کیا سکتا تھا انہیں۔
سناٹے کی گونج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔
ّ

درد جس کا حاصل کچھ نہیں ۔۔۔ لا علاج غم ۔۔۔ پر تاثر اور مدلل ۔۔۔ بہت خوب لکھا۔۔۔ ماں کے موضوع پر
 
Top