محمود احمد غزنوی
محفلین
سناٹا
آج صبح اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو خلافِ معمول ماں جی کو وہاں موجود پایا۔ یہ کیا؟۔ ۔ ماں جی ایکوریم کے پاس، کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑی محویت سے اس میں کچھ دیکھ رہی ہیں۔ آنکھوں میں وہی بچوں جیسی دل چسپی اور حیرت ہے۔ میں دبے پاوءں چلتا ہوا انکے پیچھے آ کر انکے کندھوں کے اوپر سے ایکوریم میں جھانکنے لگا۔ نیلی نیلی روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے ایکوریم میں رنگ برنگ کی مچھلیاں ہیں۔ ماں جی کی توجہ ایک ننھی سی گولڈ فش پر ہے جو تہہ میں پڑے ہوئے کنکروں کے آس پاس تھرک رہی ہےاور ان کنکروں میں چھپے ہوئے خوراک کے ریزے بار بار منہ کھول کر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انکو اس منظر میں نجانے کیا خوشی مل رہی ہے۔ مسکرا رہی ہیں۔۔۔ماں جی بھی عجیب ہیں۔
میں نے چپکے سے اپنے بازو انکے گرد حمائل کردیئے ہیں لیکن انکی توجہ میں خلل نہیں آیا ۔ بس میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہم دونوں ماں بیٹے کو اس طرح کی فراغت ملے ہوئے۔ اِس لمحے مجھے شدت سے خواہش ہو رہی ہے کہ انکا سر اور کندھے دبا دوں۔ کافی عرصے سے انکا سر نہیں دبایا ۔ اور وہ دبانے بھی کب دیتی ہیں۔ میری انگلیاں انکے بالوں میں مساج کرنے لگیں تو انکی محویت ٹوٹی اور فوراَ میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔۔۔' ' اوںہوں۔۔رہن دے"'۔ لیکن میں نے بھی آج فیصلہ کر لیا ہے کہ ماں جی کی ایک نہیں سننی۔ میرے ہاتھ انکے نحیف و نزار کندھوں کو دبانے لگے۔
جب سے ماں جی کے ایک بازو اور ایک ٹانگ پر فالج کا حملہ ہوا ہے، چلنا پھرنا بالکل موقوف ہوگیا ہے اور تقریباَ بستر سے ہی لگ کر رہ گئی ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فالج سے انکا ذہن بھی متاثر ہوا ہے۔ گفتگو میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ جو کہنا چاہتی ہیں کہہ نہیں سکتیں۔ زبان ساتھ نہیں دے پاتی۔اپنی ضروریات بتانے سے قاصر ہو گئی ہیں۔ ہم لوگ صرف انکی آنکھیں دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ شائد پیاس لگی ہے یا شائد باتھ روم جانا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جائے گی۔
خیر۔۔۔بات ہورہی تھی ماں جی کی۔ میں کندھوں اور گردن کے پٹھوں کا مساج کرتے کرتے سوچ رہا ہوں کہ ماں جی کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ جب بھی میں انکے پاس بیٹحھ جاتا تھا تو بغیر کچھ کہے سنے میرے بالوں کو یا میرے ماتھے کو سہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ اب بھی انکا ہاتھ میرے سر کو ڈھونڈھ رہا ہے۔انکو اس کشمکش سے بچانے کیلئے میں انکے پاوءں کی طرف آ گیا ہوں۔
''لیٹ جاوء تسی''۔
اور وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح کارپٹ پر ہی لیٹ گئیں۔میں انکے پاوءں دبا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ ماں جی بھی عجیب ہیں۔مدت ہو گئی مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ماں جی مجھ سے کوئی فرمائیش کریں۔میں نے جب بھی چھٹی پر وطن واپس جانا ہوتا ہے پوچھ پوچھ کر تھک جاتا ہوں کہ بتائیں آپ کے لئیے کیا لیکر آوّں، اُدھر سے بس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔' "وے رہن دے۔۔بس توں آجا"'۔ ایک دفعہ سوچ سوچ کر میں نے انکے لئیے ایک شال بھیج دی۔اتنی خوش ہوئیں کہ گھر میں جو بھی آتا وہ شال ضرور دکھائی جاتی۔ "'ویکھ۔۔میرے ممود نے پیجی ایہہ''۔
کوئی انکا معمولی سا کام بھی کردے، بغیر کہے پانی پلا د ے یا اکیلی بیٹھی ہوں اور ہم میں سے کوئی قریب آ کر بیٹھ جائے تو اس قدر شکر گذار نگاہوں سے دیکھتی ہیں کہ مارے شرمساری کےانسان کو اپنا آپ اپنی ہی نگاہوں میں بے حد حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔پہلے تو ایسی کسی بات پر دعائیں دینا شروع ہو جاتی تھیں لیکن جب سے زبان نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے، یہ دعائیں اب آنکھوں سے نکلتی ہیں آنسووّں کی جھڑی کی صورت۔اب دیکھیئے یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے کہ تھوڑے دن پہلے میں نے انکو کمرے میں اکیلے بیٹھےکافی دیر تک دروازے کی طرف دیکھتے پایا تو ایسے ہی انکا جی بہلانے کے لئیے نصرت کی کیسٹ لگا دی۔ پھر اُنہی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگیں۔جب یہ غزل شروع ہوئی "' دل مر جانے نوں کیہہ ہویا سجناں، کدے نئی سی اج جِناں رویا سجناں''، پھر جو انکی ہچکی بندھی ہے، کہ سارے گھر کو رُلا کر چھوڑا ۔بعد میں والد صاحب سے مجھے کافی جھڑکیاں سننی پڑیں۔
میں انکے پاوءں دباتا جا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ اب ماں جی کا ویزہ ختم ہوتا ہے تو انکو واپس وطن بھیج دوں۔ وہاں میری بیوی ہے، بچے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال ہوجائے گی انکی۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ماں جی کو شور بہت برا لگتا ہے۔ بچوں کے شور میں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور پھر وہاں انکو ٹیپ ریکارڈر پر انکے زمانے کی غزلیں اور گانے کوں سنایا کرے گا۔اور جب بھی وہ خاموش گم صم بیٹھی ہوں تو کون مسخرہ پن کرکے انہیں ہنسایا کرے گا؟
یہی کچھ سوچ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ انکی پنڈلی پر زیتون کے تیل سے مساج بھی کر رہا ہوں۔ فالج کی وجہ سے پٹھے کسقدر اکڑ گئے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ انکا پاوءں پکڑ کر چوم لوں کیونکہ پہلے تو وہ برا منا جائیں گی اور جب میں باز نہیں آوءں گا تو ہنسنے لگیں گی۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک کمرے کا ائیر کنڈیشنر ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ ۔ایکدم سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا۔ میرے نگاہیں بے اختیار کمرے میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ وہی بے ترتیبی اور بکھری ہوئی کتابیں ہیں آس پاس۔۔۔اور کسی ایکوریم کا وجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ارے ہاں یاد آیا، جنریٹر بند ہونے کا مطلب ہے کہ چھ بج گئے ہیں۔آٹھ بجے تک ڈیوٹی پر پہنچنا ہے کہیں لیٹ نہ ہو جاوءں۔ آجکل چھٹی سختی سے منع ہے۔ اور ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو ایمرجنسی چھٹی کاٹ کر واپس آیا ہوں، ماں جی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر۔۔۔۔
فرمائش تو انہوں نے کبھی کی نہیں تھی۔ اس مرتبہ بھی ایک چادر ہی تھی وہی انکی قبر پر چڑھا آیاچند پھولوں کے ساتھ ۔ اور میں کچھ دے بھی کیا سکتا تھا انہیں۔
سناٹے کی گونج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔
ّ
آج صبح اپنے کمرے کا دروازہ کھولا تو خلافِ معمول ماں جی کو وہاں موجود پایا۔ یہ کیا؟۔ ۔ ماں جی ایکوریم کے پاس، کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی ہیں اور بڑی محویت سے اس میں کچھ دیکھ رہی ہیں۔ آنکھوں میں وہی بچوں جیسی دل چسپی اور حیرت ہے۔ میں دبے پاوءں چلتا ہوا انکے پیچھے آ کر انکے کندھوں کے اوپر سے ایکوریم میں جھانکنے لگا۔ نیلی نیلی روشنیوں سے جگمگاتے ہوئے ایکوریم میں رنگ برنگ کی مچھلیاں ہیں۔ ماں جی کی توجہ ایک ننھی سی گولڈ فش پر ہے جو تہہ میں پڑے ہوئے کنکروں کے آس پاس تھرک رہی ہےاور ان کنکروں میں چھپے ہوئے خوراک کے ریزے بار بار منہ کھول کر اپنی طرف کھینچنے کی کوشش کر رہی ہے۔ انکو اس منظر میں نجانے کیا خوشی مل رہی ہے۔ مسکرا رہی ہیں۔۔۔ماں جی بھی عجیب ہیں۔
میں نے چپکے سے اپنے بازو انکے گرد حمائل کردیئے ہیں لیکن انکی توجہ میں خلل نہیں آیا ۔ بس میرے ہاتھ کو پکڑ لیا ہے۔میں سوچ رہا ہوں کہ کتنا عرصہ ہو گیا ہے ہم دونوں ماں بیٹے کو اس طرح کی فراغت ملے ہوئے۔ اِس لمحے مجھے شدت سے خواہش ہو رہی ہے کہ انکا سر اور کندھے دبا دوں۔ کافی عرصے سے انکا سر نہیں دبایا ۔ اور وہ دبانے بھی کب دیتی ہیں۔ میری انگلیاں انکے بالوں میں مساج کرنے لگیں تو انکی محویت ٹوٹی اور فوراَ میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا۔۔۔' ' اوںہوں۔۔رہن دے"'۔ لیکن میں نے بھی آج فیصلہ کر لیا ہے کہ ماں جی کی ایک نہیں سننی۔ میرے ہاتھ انکے نحیف و نزار کندھوں کو دبانے لگے۔
جب سے ماں جی کے ایک بازو اور ایک ٹانگ پر فالج کا حملہ ہوا ہے، چلنا پھرنا بالکل موقوف ہوگیا ہے اور تقریباَ بستر سے ہی لگ کر رہ گئی ہیں۔ زیادہ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ فالج سے انکا ذہن بھی متاثر ہوا ہے۔ گفتگو میں کافی دشواری پیش آتی ہے۔ جو کہنا چاہتی ہیں کہہ نہیں سکتیں۔ زبان ساتھ نہیں دے پاتی۔اپنی ضروریات بتانے سے قاصر ہو گئی ہیں۔ ہم لوگ صرف انکی آنکھیں دیکھ کر اندازے لگاتے ہیں کہ شائد پیاس لگی ہے یا شائد باتھ روم جانا ہے۔ ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں شدت آتی جائے گی۔
خیر۔۔۔بات ہورہی تھی ماں جی کی۔ میں کندھوں اور گردن کے پٹھوں کا مساج کرتے کرتے سوچ رہا ہوں کہ ماں جی کی عادت ابھی تک نہیں گئی۔ جب بھی میں انکے پاس بیٹحھ جاتا تھا تو بغیر کچھ کہے سنے میرے بالوں کو یا میرے ماتھے کو سہلانا شروع کر دیتی ہیں۔ اب بھی انکا ہاتھ میرے سر کو ڈھونڈھ رہا ہے۔انکو اس کشمکش سے بچانے کیلئے میں انکے پاوءں کی طرف آ گیا ہوں۔
''لیٹ جاوء تسی''۔
اور وہ کسی فرمانبردار بچے کی طرح کارپٹ پر ہی لیٹ گئیں۔میں انکے پاوءں دبا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ ماں جی بھی عجیب ہیں۔مدت ہو گئی مجھے حسرت ہی رہی کہ کبھی تو ماں جی مجھ سے کوئی فرمائیش کریں۔میں نے جب بھی چھٹی پر وطن واپس جانا ہوتا ہے پوچھ پوچھ کر تھک جاتا ہوں کہ بتائیں آپ کے لئیے کیا لیکر آوّں، اُدھر سے بس ایک ہی جواب ہوتا ہے۔' "وے رہن دے۔۔بس توں آجا"'۔ ایک دفعہ سوچ سوچ کر میں نے انکے لئیے ایک شال بھیج دی۔اتنی خوش ہوئیں کہ گھر میں جو بھی آتا وہ شال ضرور دکھائی جاتی۔ "'ویکھ۔۔میرے ممود نے پیجی ایہہ''۔
کوئی انکا معمولی سا کام بھی کردے، بغیر کہے پانی پلا د ے یا اکیلی بیٹھی ہوں اور ہم میں سے کوئی قریب آ کر بیٹھ جائے تو اس قدر شکر گذار نگاہوں سے دیکھتی ہیں کہ مارے شرمساری کےانسان کو اپنا آپ اپنی ہی نگاہوں میں بے حد حقیر دکھائی دینے لگتا ہے۔پہلے تو ایسی کسی بات پر دعائیں دینا شروع ہو جاتی تھیں لیکن جب سے زبان نے ساتھ دینا چھوڑ دیا ہے، یہ دعائیں اب آنکھوں سے نکلتی ہیں آنسووّں کی جھڑی کی صورت۔اب دیکھیئے یہ بھی کوئی رونے کی بات ہے کہ تھوڑے دن پہلے میں نے انکو کمرے میں اکیلے بیٹھےکافی دیر تک دروازے کی طرف دیکھتے پایا تو ایسے ہی انکا جی بہلانے کے لئیے نصرت کی کیسٹ لگا دی۔ پھر اُنہی نظروں سے میری طرف دیکھنے لگیں۔جب یہ غزل شروع ہوئی "' دل مر جانے نوں کیہہ ہویا سجناں، کدے نئی سی اج جِناں رویا سجناں''، پھر جو انکی ہچکی بندھی ہے، کہ سارے گھر کو رُلا کر چھوڑا ۔بعد میں والد صاحب سے مجھے کافی جھڑکیاں سننی پڑیں۔
میں انکے پاوءں دباتا جا رہا ہوں اور ساتھ ساتھ سوچ رہا ہوں کہ اب ماں جی کا ویزہ ختم ہوتا ہے تو انکو واپس وطن بھیج دوں۔ وہاں میری بیوی ہے، بچے ہیں۔ مناسب دیکھ بھال ہوجائے گی انکی۔ لیکن پھر سوچتا ہوں کہ ماں جی کو شور بہت برا لگتا ہے۔ بچوں کے شور میں تو وہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتی ہیں۔ اور پھر وہاں انکو ٹیپ ریکارڈر پر انکے زمانے کی غزلیں اور گانے کوں سنایا کرے گا۔اور جب بھی وہ خاموش گم صم بیٹھی ہوں تو کون مسخرہ پن کرکے انہیں ہنسایا کرے گا؟
یہی کچھ سوچ رہا ہوں اور ساتھ ساتھ انکی پنڈلی پر زیتون کے تیل سے مساج بھی کر رہا ہوں۔ فالج کی وجہ سے پٹھے کسقدر اکڑ گئے ہیں۔ میرا دل چاہ رہا ہے کہ انکا پاوءں پکڑ کر چوم لوں کیونکہ پہلے تو وہ برا منا جائیں گی اور جب میں باز نہیں آوءں گا تو ہنسنے لگیں گی۔
ابھی میں یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ یکایک کمرے کا ائیر کنڈیشنر ایک مہیب گڑگڑاہٹ کے ساتھ بند ہو گیا اور میری آنکھ کھل گئی۔ ۔ ۔ ۔ایکدم سناٹا سائیں سائیں کرنے لگا۔ میرے نگاہیں بے اختیار کمرے میں کچھ تلاش کرنے لگیں۔ وہی بے ترتیبی اور بکھری ہوئی کتابیں ہیں آس پاس۔۔۔اور کسی ایکوریم کا وجود نہیں ہے۔ ۔ ۔ ارے ہاں یاد آیا، جنریٹر بند ہونے کا مطلب ہے کہ چھ بج گئے ہیں۔آٹھ بجے تک ڈیوٹی پر پہنچنا ہے کہیں لیٹ نہ ہو جاوءں۔ آجکل چھٹی سختی سے منع ہے۔ اور ابھی تھوڑے دن پہلے ہی تو ایمرجنسی چھٹی کاٹ کر واپس آیا ہوں، ماں جی کو اپنے ہاتھوں سے قبر میں اتار کر۔۔۔۔
فرمائش تو انہوں نے کبھی کی نہیں تھی۔ اس مرتبہ بھی ایک چادر ہی تھی وہی انکی قبر پر چڑھا آیاچند پھولوں کے ساتھ ۔ اور میں کچھ دے بھی کیا سکتا تھا انہیں۔
سناٹے کی گونج گہری سے گہری ہوتی چلی جا رہی ہے۔ ۔ ۔
ّ