مغزل
محفلین
سندباد جہازی سے ہنگامی غرقابی ملاقات
(م۔م۔مغلؔ)
اکتوبر 2012 کے سرمئی دن نومبر کی شاموں سے سرگوشیوں میں مصروفیت کا رونا روتے روتے دسمبر کے کندھوں پر سر رکھ کر جیسے خوابیدہ ہو گئیں تھیں۔۔خنک راتیں گالوں پر برفانی ہواؤں کے لمس سے سرد جہنم کی اصطلاح کو حقیقت کا روپ دینے میں مصروف تھیں ایسے میں ہواکے تھپیڑوں کو رخسار زنی کی دعوت دینا ہمدرد جوشاندے کی نذر جیب کا گریبان دینے کے مترادف تھا ، کوئی مجھ ایسا بے وقوف ہی ہوگا جو بلیلہ کی باگیں تھامے ایڑ لگاتا سمندر کےسینے پر مونگ دلتے ہوئے قبرستانوں کے شہر کی جنگ زدہ سڑکوں پر میل ملاقات کی ٹھرک مٹانے کو ترجیحی بنیادوں پر رکھے گا ۔
اگست ستمبر پُروائیاں رہ رہ کے ’’چھیڑ یاراں سے چلی جائے ‘‘ کے مصرعوں پر سینہ کوبی کی ملاقات میں سعودی قونصل خانے کی مصروفیت کی وجہ سے حکم اور اجازتِ بیگم کے باوجود بھی نہ شریک ہوسکا ورنہ اور کچھ نہ سہی مزارِ قائد پر محمد علی جناح مرحوم کی روح پر ایک سوال ہی داغ آتا کہ ’’اے بابا ئے قوم ۔۔۔ قائد اور قائدہ گردی تو بہت ہوچکی کیا گاندھی گیری کی طرح میں بھی قائد گیری شروع کرسکتا ہوں؟؟‘‘ ۔
قصہ کوتاہ اردو محفل میں تذکرے سن سن کر (ارے نہیں کان پکنے کا محاورہ نہیں لکھنے جارہا) جی میں آیا کہ نسبتاً بزرگ سے ملاقات کی کوئی راہ نکالی جائے۔ جس کے ذکر کے طوطی ملاقات کے نقار خانے ایسے بج رہے تھے کہ خیال آتا تھا کہ ’’ جس نے حجازی نہ دیکھا اس کی ملاقاتی خو پر حرفِ چار مشتعل ‘‘۔۔بار بار محفل میں پرانے دھاگوں میں اس مبینہ بزرگ کی بزرگی کے چرچے پڑھنے پر جی ایسا کڑھتا کہ بس اور دلِ آوارہ میں خواہش وہ نے کچوکے دیے کہ ٹرک ۔یعنی ایسے ’’بابے‘‘ سے ضرور ’’رزقِ علمی‘‘ دستیاب ہو سکے گا۔ ۔
وہ کیا محاورہ ہے ۔۔ ہاں یاد آیا ۔۔ اندھا کیا چاہے دو آنکھیں اور ہم کیا چاہیں لیٹر بھر ایندھن اور ایک دخاندان مع برقی دیا سلائی ۔۔ لوحِ ہاتف پر چمکتے حروف اس نوجوان بوڑھے سے مواصلاتی رابطہ کرنے میں اپنے اوسان بحال کر چکے تو ۔۔ بڑی کھردری اور خراش آلود سی آواز نے سماعت پر دھرنا دینے کی دھمکی دے ڈالی’’السلام علیکم جی‘‘ ۔۔ ہم کچھ سمجھنے کی کوشش میں چند لمحوں کر غارت کر ہی پائے تھے کہ آواز آئی ’’ کہیے جنابِ من ؟ ‘‘ کھردری آواز نے مفرس لوچ کا چوغہ پہننے کی ناکام کوشش کی ۔ جی میں آیا کہ تمغوں والے بابا شمشاد بھائی کے لقب ’’ ظلِ سبحانی ‘‘ کا استعمال کیا جائے اور مخطوب کر مرعوب کیا جائے ، پھر ثانیئے بھر میں اپنے جی پر سنگ زنی کر ڈالی کہ مرعوبیت تخلیق کار کی موت ہوتی ہے اور مردہ سے ملاقات صرف پژمردگی کی عطا کرتی ہے۔ ادھر ہم سوچاں میں غلطاں تھے اور ادھر مطلوب نے فارسی کی جان چھوڑ کر فرنگی زبان میں راگ الاپنا شروع کردی ’’ہیلو ہیلو ہے لو و و و وو۔۔۔ ‘‘ کمال سُر تھے صاحب جی میں آیا کہ کہو ’’استاد راگ بھیرویں کو بخش دیں یہ مغرب کا وقت ہے ایسے میں کوئی ٹھمری شمری ہی ہوجائے ‘‘۔۔ اماں لاحول ولا۔ کیا ہوگیا ہے مغل میاں ابھی شہر بسا نہیں اور تم چلے اجاڑنے (ہم نے خود کلامی کی)۔۔
بہرحال تھوڑی بہت فارسی سے شدھ بدھ بلکہ جمعرات ہمیں بھی تھی مگر ہم نے اپنے رعونت کو ملاقت پر رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ الغرض 23 دسمبر اتوار کی سہہ پہر رابطے میں طے پایا کہ مزارِ قائد کی ہمسائگی کا شرف اٹھانے والے سے ملاقات آرٹس کونسل آف پاکستان میں منعقدہ حلقہ اربابِ ذوق کے تنقیدی اجلاس میں بغلگیری کا شرف حاصل ہوگا۔ ادھر وہ خراماں تھے ادھر ہم خراماں تھے کہ گورنر ہاؤس کے سامنے قوم پرستوں کے احتجاج نے راہ میں روڑے اٹکائے ادھر 6 بجے سے چند لمحے قبل ہی سند باد جہازی خلاصی کے ساتھ دروازے پر موجود تھے 6:22 پر ہم آرٹس کونسل کے بغلی دروازے سے داخل ہوئے تو بے چینی میں ٹہلنے کی اداکاری کرتے ہوئے دو نوجوان نظر آئے ۔۔۔ آئیے (محفلین ہونے کی وجہ سے صرف) سند باد جہازی کا ناک نقشہ کھینچے ہیں: (محاورہ ہے بھئی)
چھریرا بدن قد 5 فٹ 6 انچ سے نکلتا ہوا، سنہری رنگ کا پائجامہ اور جگرکے خون رنگت سے مسابقت کی حدیں طے کرتے ہوئے سیاہی مائل سرخ رنگ کے کرتے میں مقید جس کے گریبان پر چاک گریبانی کا دور دور تک کوئی تاثر نہ ملتا تھا البتہ سنہری زنجیروں کے نقوش ضرورملتے تھے ۔پکاسو کی مستطیلیت سے جان چھڑاتا ہوا تثلیث سے ہاتھ ملاتا چہرہ جس پر پیشانی کشادگی کی حدیں طے کرنے میں مصروف نظر آتی تھی بالوں کو کمال بے اعتنائی سے سرسے اتارنے کی کوشش میں کاڑھے ہوئے سیاہ چمکتے بال جو کھوپڑی کی جان چوڑنے پر آمادہ نظر نہ آتے تھے، قلمیں بوقلمونی پر اصرار کرتے ہوئے کانوں کی طرف سجدہ ریز، بھنویں خم دار اور زرخیرفصل کی چغلی کھاتے ہوئے، قرینے سے دوھرے کیمیائی تعاملات کی مساوات کا سا توازن قائم کرتی ہوئی روشن آنکھیں جن پر پلکوں کی جھالریں قحط الرجال کا نوحہ پڑھتی دکھائی دیتی تھی، ناک فربہی اور ستواں ہونے میں ناکامی کا منھ بولتا ثبوت فراہم کرتی ہوئی اور کمال خوئے بے نیازی سے اٹھلاتی ہوئی، گال بے رغبتی کے کانوں میں سرگوشیاں کرتے ہوئے جبڑوں سے معانقے میں مصروف، دھانے تراشیدہ اور کشمیری سیب کے خم کو شہ مات دیتے ہوئے ۔ تھوڑی پر روانی میں سر اٹھاتے ہوئے موئے کم آمیز بھی استرے کی ضربتِ کاری کے شکوے میں مصروف ،صراحی دار کلف زدہ گردن جسے کرتے اور کشادہ شانوں کی ٹکٹکی پر نشانے بازی کی مشق کے لیے نمایاں کردیاگیا تھا۔ تراشے گئے گلابی رنگت کے ناخنوں سے پیوست مخروطی فنکارانہ انگلیاں اشارے کنائے اور شرارتوں میں مصروف۔۔ یہی ہمارے مقصود نسبتاً مہدی نقوی حجاز تھے۔۔
بغلگیری کا شرف حاصل ہوا تو جہازی کے خلاصی سے ملاقات ہوئی یہ ارتضیٰ تھے جن ٰ پر لکھنا اول تو مقصود نہیں اور مقصود ہوتا بھی تو ہمیں اتنی فرصت ہی کہاں تھی جہازی سے ۔۔ قصہ کوتاہ حلقہ کی کاروائی شروع ہوچکی تھی مجوزہ جگہ کی بجائے ہم گھاس کے فرش پر سجائی گئی نشستوں پر بیٹھے پر مجبور تھے کہ آرٹس کونسل کی کابینہ نے حلف برداری میں مصروف ہونا تھا اور ہم حاشیہ برداروں میں نہ آتے تھے۔۔ مضمون پر رائے زنی اور ہمارے دوست عزیز مرزا کی غزل پر جراحت میں ہم تو جیسے تیسے بول ہی لیے مگر خواہش تھی کہ مہدی بھی کچھ بات کریں بڑی مشکل سے ارتضیٰ نے زبان کھولی تو مہدی انے عملی تنقید کے ایسے جواہر لٹائے کہ ہم چچا غالب کے مصرعے ’’انگشت بدنداں‘‘ کی تصویر بن کر رہ گئے ۔
اب اجلاس کی کاروائی کیا خاک لکھوں کہ ملاقات کے وہ لمحات پھر سے ذہن و دل پر قبضہ کرچکے ہیں جب ہم اپنے تبحّر علمی سمیت غرق ہوئے تھے ۔ الغرض ملاقات شاید اتنی ہی طے تھی اور اتنی ہی ہوئی ،وہ جو ہماری خوئے سبقتی تھی وہ تو کہیں منھ چھپاتے پھر رہی تھی ، ایسے بوڑھے نوجوان سےملاقات سے اور کچھ ہوا نہ ہوا کم از کم ہمارے تکبر کہ منھ ضرور بند ہوگیا۔ کچھ تصویری جھلکیاں شامل کرتا ہوں کہ بجلی صاحبہ داغِ مفارقت دینے کو ہے۔
میرے تئیں سند باد جہازی اور سب کے مہدی نقوی حجاز
مشترکہ تصویر:
پچھلی قطار میں بائیں سے دائیں:
محمد ارتضی ، مہدی نقوی حجاز، بندہ ناچیز (م۔م۔مغل) ، صاحبِ مضمون (نام محو ہے ذہن سے)، محمد امجد
اگلی قطار میں بائیں سے دائیں:
ظہر عباس، توقیر تقی، عزیز مرزا ، عقیل عباس جعفری،اور ایک’’یکے از سامع‘‘
مہدی نقوی حجاز اور محمد ارتضیٰ
نئیں کیا مطلب ہے آپ کا ؟؟ جب شعر میں وزن ہی نہیں تو کیسے اچھا کہوں ؟؟ دیکھیں میرے ایک ہاتھ پر آگیا ہے۔۔
او و و واکر بکڑ بمبے بو ۔۔۔
مغل بھائی میری نقل تو نہ اتاریں ناں ۔۔۔