مغزل
محفلین
غزل
سورج کہاں اٹھانے لگا، روشنی کا دکھ ؟
شاید چراغ بانٹ لے اس تیرگی کا دکھ
سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جاکے بھلا زندگی کا دکھ
اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ
بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ
اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِدوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ
اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ
محمود ، تم نے یہ بھی غزل کہہ تو لی مگر
کس بے دلی سے باندھ دیا شاعری کا دکھ
عاجز و احقر:
م۔م۔مغل
آپ احباب کی رائے ، تنقید اور بحث کا انتظار رہے گا۔
والسلام
سورج کہاں اٹھانے لگا، روشنی کا دکھ ؟
شاید چراغ بانٹ لے اس تیرگی کا دکھ
سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جاکے بھلا زندگی کا دکھ
اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ
بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ
اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِدوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ
اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ
محمود ، تم نے یہ بھی غزل کہہ تو لی مگر
کس بے دلی سے باندھ دیا شاعری کا دکھ
عاجز و احقر:
م۔م۔مغل
آپ احباب کی رائے ، تنقید اور بحث کا انتظار رہے گا۔
والسلام