سورج کہاں اٹھانے لگا روشنی کا دکھ ----------------- تازہ غزل

مغزل

محفلین
غزل

سورج کہاں اٹھانے لگا، روشنی کا دکھ ؟
شاید چراغ بانٹ لے اس تیرگی کا دکھ

سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جاکے بھلا زندگی کا دکھ

اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ

بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ

اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِ‌دوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ

اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ

محمود ، تم نے یہ بھی غزل کہہ تو لی مگر
کس بے دلی سے باندھ دیا شاعری کا دکھ

عاجز و احقر:
م۔م۔مغل

آپ احباب کی رائے ، تنقید اور بحث کا انتظار رہے گا۔
والسلام
 

فاتح

لائبریرین
سبحان اللہ! ایک اور خوبصورت غزل۔ ماشاء اللہ! بہت بہت مبارک ہو جناب۔ حسن مطلع اور تیسرا شعر تو کمال ہیں:
سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جاکے بھلا زندگی کا دکھ

اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ

اور اب بقول 'غالب' اور بعدہ بقول 'اسد' (قتیل و وارثِ غالب) ایک سخن گسترانہ ---
مطلع اولیٰ کے مصرعتین میں روشنی اور تیرگی کے الفاظ گو سماں باندھ رہے ہیں مگر مضمون کا ربط سمجھ نہیں آسکا۔

درج ذیل شعر کا مضمون تو نہایت عمدہ ہے اور مصرع ثانی کی ترکیب بھی لیکن مصرع اولیٰ میں "بہتر ہے اس سے" کھٹک رہا ہے اور "خوشی خوشی" کی ترکیب شاید 'دکھ' کے متضاد کے طور پر استعمال کی ہے لیکن میری ادنیٰ رائے میں شعر کا حسن خراب کر رہی ہے:
بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ

ان کے بعد ذیل کے دو اشعار اپنی مثال آپ ہیں۔ سبحان اللہ!
اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِ‌دوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ
(گو آخرش سے قبل اور کی ترکیب لفظ آخرش کی خوبصورتی کو گہنا رہی ہے)

اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ

مقطع اوسط درجہ کا ہے۔
 

محمد وارث

لائبریرین
بہت اچھی غزل ہے محمود صاحب، لا جواب

سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جا کے بھلا زندگی کا دکھ

واہ واہ واہ، لا جواب
 

نایاب

لائبریرین
السلام علیکم
ماشااللہ
محترم جناب م-م- مغل
سورج کی روشنی عام ہے ،،
اور چراغ ٹھہرا محدود نور کا حامل۔۔
اچھا کلام ہے آپ کا
اللہ کرے زور علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب
 

مغزل

محفلین
سبحان اللہ! ایک اور خوبصورت غزل۔ ماشاء اللہ! بہت بہت مبارک ہو جناب۔ حسن مطلع اور تیسرا شعر تو کمال ہیں:
سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جاکے بھلا زندگی کا دکھ

اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ

فاتح صاحب آپ کا مراسلہ نظر نواز ہوا جی خوش ہوگیا کہ جس واسطے غزل پیش کی وہ کام دیر سے سہی شروع تو ہوا ۔
آپ کی محبتوں اور حوصلہ افزائی پر سراپا تشکر ہوں ۔۔ اسی طرح میری رہنمائی کرتے رہیں۔۔ اظہارِ پسندیدگی کیلیے شکریہ


اور اب بقول 'غالب' اور بعدہ بقول 'اسد' (قتیل و وارثِ غالب) ایک سخن گسترانہ ---
مطلع اولیٰ کے مصرعتین میں روشنی اور تیرگی کے الفاظ گو سماں باندھ رہے ہیں مگر مضمون کا ربط سمجھ نہیں آسکا۔

گسترانہ کیوں سرکار ۔۔ یہ میرے لیے شادیِ مرگ کی سی کیفیت کا سما ں ہے کہ کرم کیا ۔
میں عرض کرتا ہوں کہ :: ’’ سورج کہاں اٹھانے لگا روشنی کا دکھ ----------- شاید چراغ بانٹ لے اس تیرگی کا دکھ
ممکن ہے میر امطمح ِ نظر واضح ہوچلا ہوں ۔۔ اس طرف توجہ دلانے کیلیے ممنو ن ہوں ۔۔۔


درج ذیل شعر کا مضمون تو نہایت عمدہ ہے اور مصرع ثانی کی ترکیب بھی لیکن مصرع اولیٰ میں "بہتر ہے اس سے" کھٹک رہا ہے
اور "خوشی خوشی" کی ترکیب شاید 'دکھ' کے متضاد کے طور پر استعمال کی ہے لیکن میری ادنیٰ رائے میں شعر کا حسن خراب کر رہی ہے:
بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ

جی بہتر ہے میں دوبارہ کہہ لیتا ہوں ۔بس باباجانی کی رائے اور آجائے ۔۔ وارث بھائی کی رائے موصول ہوچلی ہے ۔

ان کے بعد ذیل کے دو اشعار اپنی مثال آپ ہیں۔ سبحان اللہ!

بہت شکریہ ، آپ کا حسن نظر ہے ، ورنہ من آنم کہ من دانم ۔

اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِ‌دوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ
(گو آخرش سے قبل اور کی ترکیب لفظ آخرش کی خوبصورتی کو گہنا رہی ہے)

صحیح صحیح میں دیکھ لیتا ہوں ویسے کوئی جائے اماں اور نظر نہیں آتی ۔ بہت شکریہ

اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ

بہت شکریہ ۔

مقطع اوسط درجہ کا ہے۔

یقیناً ، ویسے آج کل مقطع نگارش ایسے ہی مقدور ہے ، شاید کیفیت یا ادراک ۔۔

آپ کی محبتوں ، کرم نوازی اور حوصلہ افزائی کیلیے ایک بار پھر ممنو ن ہوں‌، امید ہے
اسی طرح میری رہنمائی اور حوصلہ افزائی فرمائیے گا۔ سدا سلامت رہیں جناب ۔
والسلام
عاقبت نا اندیش
م۔م۔مغل
 

مغزل

محفلین
بہت اچھی غزل ہے محمود صاحب، لا جواب

سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جا کے بھلا زندگی کا دکھ

واہ واہ واہ، لا جواب

بہت بہت شکریہ وارث بھائی ۔
آپ کی محبت ہے ۔۔ ورنہ میں کیا میری اوقا ت کیا ۔ امید ہے
اسی طرح حوصلہ افزائی اور رہنمائی کیجئے گا ۔۔
والسلام
 

محمد امین

لائبریرین
غزل

سورج کہاں اٹھانے لگا، روشنی کا دکھ ؟
شاید چراغ بانٹ لے اس تیرگی کا دکھ

سنبھلے نہیں سنبھلتا ہے بے مائیگی کا دکھ
کہیے تو کس سے جاکے بھلا زندگی کا دکھ

اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ

بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ

اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِ‌دوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ

اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ

محمود ، تم نے یہ بھی غزل کہہ تو لی مگر
کس بے دلی سے باندھ دیا شاعری کا دکھ

عاجز و احقر:
م۔م۔مغل

آپ احباب کی رائے ، تنقید اور بحث کا انتظار رہے گا۔
والسلام

اتنے قدآور سخن وروں اور صاحبانِ ذوق کے درمیان میں بھی تھوڑا سا عرض کر کے گویا سرکس کے مسخروں کی طرح مصنوعی تانگیں لگا کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔

اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ

زبردست۔۔۔

اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ

بے بسی کی کیا تصویر کھینچی ہے۔۔۔بہت اعلیٰ خیال۔

سارے ہی اشعار اچھے ہیں مگر ان دو کا جواب نہیں۔ امید ہے آئندہ بھی آپ فیضیاب فرماتے رہیں گے۔۔۔ :)
 

مغزل

محفلین
السلام علیکم
ماشااللہ
محترم جناب م-م- مغل
سورج کی روشنی عام ہے ،،
اور چراغ ٹھہرا محدود نور کا حامل۔۔
اچھا کلام ہے آپ کا
اللہ کرے زور علم و عمل اور زیادہ آمین
نایاب


بہت بہت شکریہ نایاب بھائی۔ بس اسی تضاد سے شعر کہا گیا ہے ۔
بہت شکریہ پسندیدگی اور حوصلہ افزائی کیلئے ۔
والسلام
 

محمد نعمان

محفلین
محمود بھائی بہت بہت داد قبول کیجیے۔ واللہ کیا غزل کہی ہے۔مزہ آ گیا جناب۔
اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِ‌دوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ

یہ شعر سب سے زیادہ پسند آیا۔
ویسے تو اساتذہ کرام کی رائے ہی ہمارے لیے حتمی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیئے کہ ہم جیسے کم علم اور ان اساتذہ کا کوئی میل کہاں۔
مگر کسی کی تخلیق پر اور پھر ایسی نادر تخلیق پر کچھ نہ کہنا تخلیق کار ہی کی نہیں تخلیق کی بھی ناقدری ہے۔
بھئی اور کیا کہیں اس کے سوا کہ آپ نے ہمارا دل موہ لیا۔
آپکے کلام کا ہمیں ویسے بھی بے صبری سے انتظار ہوتا ہے کہ ہم جیسے نوآزمودہ جب آپ کی تخلیقات پڑھتے ہیں ،اسی طرح اور دوستوں کی بھی ، تو ہمارا حوصلہ بھی بلند ہو جاتا ہے۔
 

الف عین

لائبریرین
محمود، غزل تو حسبِ معمول اچھی ہے لیکن میں اپنی اس رائے پر قائم ہوں کہ شعوری طور پر ردیف قافیوں کی اکھاڑ پچھاڑ ناسخ کا وہی شعر یاد دلا تی ہے کہ
وہ پہلوانِ عشق ہوں ناسخ کہ ؎بعد مرگ
برسوں مرے مزار پہ مگدر گھما کئے
۔۔۔۔۔۔۔
مطلع میری بھی سمجھ میں نہیں آیا۔ باقی اشعار تو اچھے بلکہ بہت خوب ہیں۔ لیکن
بہتر ہے اس سے موت ہی آئے خوشی خوشی
یہ دکھ بھی کوئی دکھ ہے بھلا، زندگی کا دکھ
فاتح نے درست بات کہی ہے۔ کیا پہلے مصرع میں خوشی خوشی کی جگہ ’بصد خوشی‘ سے یہ اعتراض دور ہو سکتا ہے؟

اور آخرش نصیب ہوئی ہجرتِ‌دوام
کب تک کوئی اٹھائے بھلا بے گھری کا دکھ
یہاں بھی فاتح کا اعتراض درست ہے۔ لیکن معنی کے اعتبار سے تو وہی بات ہو گئی نا۔۔ آخرش قیام تو نصیب نہیں ہوا ہے نا جو بے گھری کا دکھ ختم ہو۔ ویسے فاتح کا اعتراض یوں ختم ہو سکتا ہے۔
لو آخرش تمام۔۔۔۔۔۔
 

مغزل

محفلین
اتنے قدآور سخن وروں اور صاحبانِ ذوق کے درمیان میں بھی تھوڑا سا عرض کر کے گویا سرکس کے مسخروں کی طرح مصنوعی تانگیں لگا کر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہوں۔۔۔
اک پیاس اس لیے تنِ تنہا کھڑی رہی
دریا کو، تا بہ عمر ر ہے تشنگی کا د کھ
زبردست۔۔۔
اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ
بے بسی کی کیا تصویر کھینچی ہے۔۔۔بہت اعلیٰ خیال۔
سارے ہی اشعار اچھے ہیں مگر ان دو کا جواب نہیں۔ امید ہے آئندہ بھی آپ فیضیاب فرماتے رہیں گے۔۔۔ :)

پیارے امین ، سدا سلامت رہو
غزل اور چنیدہ اشعار کی پسندیدگی کیلئے ممنون ہوں
رہی بات صاحبانِ فن کو تو بھیا ۔۔ اپنے آپ کو کمتر ثابت کرنے
پر توانائی خرچ کرنے سے بہتر ہے کہ اپنی برتری ثابت کرنے کے
لیے ان صاحبانِ فن سے کچھ نہ کچھ سیکھو ۔ محض عقیدت کا اظہار
ہی سب کچھ نہیں ہوتا کل رات تم سے ملاقات میں میری توجہ کا
مرکز تمھاری آنکھیں رہیں ان میں بلا کی سی روشنی ہے بہت آگے
جاؤگے ۔۔ سدا سلامت رہو ۔
والسلام
تمھارا بھائی
 

مغزل

محفلین
محمود بھائی بہت بہت داد قبول کیجیے۔ واللہ کیا غزل کہی ہے۔مزہ آ گیا جناب۔
یہ شعر سب سے زیادہ پسند آیا۔
ویسے تو اساتذہ کرام کی رائے ہی ہمارے لیے حتمی ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیئے کہ ہم جیسے کم علم اور ان اساتذہ کا کوئی میل کہاں۔
مگر کسی کی تخلیق پر اور پھر ایسی نادر تخلیق پر کچھ نہ کہنا تخلیق کار ہی کی نہیں تخلیق کی بھی ناقدری ہے۔
بھئی اور کیا کہیں اس کے سوا کہ آپ نے ہمارا دل موہ لیا۔
آپکے کلام کا ہمیں ویسے بھی بے صبری سے انتظار ہوتا ہے کہ ہم جیسے نوآزمودہ جب آپ کی تخلیقات پڑھتے ہیں ،اسی طرح اور دوستوں کی بھی ، تو ہمارا حوصلہ بھی بلند ہو جاتا ہے۔

بہت بہت شکریہ نعمان بھائی ، سدا سلامت رہیں۔
اظہارِ پسندیدگی کیلیے ممنو ن ہوں۔ غزل آپ کو اچھی لگی میری خوش قسمتی ہے یہ۔
اساتذہ کرام کی رائے پر کوئی دو رائے نہیں نعمان بھیا ۔ درا صل دوسروں پر تنقید کرنے
کا میرا مقصد یہی ہے کہ کوئی مجھے تنقید کا نشانہ بنائے تا کہ میرے معائب میرے سامنے آئیں
اب تھوڑی بہت تنقید سے شد بد ہے اس لیے میں جانتا ہوں ہوں کہ تنقید صرف اور صرف تعمیری
ہی ہوتی ہے ۔۔ یہ الگ قصہ ہے کہ میں جدت پسندوں سے ہوں اور مجھ پر تنقید کرنے والا اگر داغ
مکتبہ فکر کا ہو ۔۔۔ اس صورت میں‌بھی میں اپنی مرضی کی تنقید کشید کرلیتا ہوں ۔پھر ایک بات اور
اپنا لہجہ تلاشنے یا یوں کہیئے کہ نیا مصرع لکھنے کی کوشش میں ایسے بہت سے معاملات پیش آتے ہیں
جو میرے درست سمت سفر کی نشانی ہے ۔۔ وگرنہ یہ اعتراضات نہ ہو ں تو بالکل ایسا ہی کہ میں
ابھی تک اسی یکسانیت کا شکار ہونے جارہا ہوں ۔ بہر کیف آپ کی محبت اور حوصلہ افزائی کے
لیےسراپا ممنون ہوں جہاں مجھے تنقید سے حوصلہ ملتا ہے وہاں آپ ایسے دوستوں سے
مزید کچھ نیا کہنے کی تحریک ملتی ہے وگرنہ پچھلے سال بھرمیں شاید دو ایک غزلیں
ہی کہہ پایا تھا اور اب الحمد للہ ہفتہ بھر میں آٹھ دس غزلیں ہوگئیں۔
میرے حق میں دعا کرتے رہیے گا ۔ اللہ آپ کی منز ل آسان
فرمائے آمین ثم آمین۔ سدا خوش رہیں جناب
والسلام علیکم
م۔م۔مغل​
 

مغزل

محفلین
نعمان بھائی یہ دیکھیے پچھلے ایک مراسلے میں میری معروضات:

HTML:
بہت شکریہ ۔ آپ کی محبت ہے ورنہ میری حیثیت تو من آنم کہ من دانم بلکہ چہ پدی چہ پدی شوربہ والی ہے۔ 
مشکل ردیف و قوافی بات سر آنکھوں پر ۔ مگر بابا جانی میں نے پچھلےدو سالوں میں کوئی 8 ہزار غزلیں پڑھیں۔ ان سب 
کے پڑھنے کے بعد میرے ذہن میں ایک معیار نے اکسانا شروع کیا کہ اسی فیصدی غزلیں ایک ہی جیسے التزام و مزاج اور 
موضوعت پر مبنی ہیں۔۔ مگر بیس فیصدشعرا کا کلام اپنے مختلف اسلوب پر مبنی ہے ۔ وہ کیا بات ہے جو انہیں ممتاز کرتی ہے ۔
۔ پہلا خیال ان کے اشعارکی بند پر گیا ۔ جس کی آخری مثال مظفر حنفی کہ یہاں پیش کردہ غزل ہے ۔ اب موضوع سے فرار تو
 ممکن نہیں مگر   وہ کیا شے ہے جو ۔۔- ان کے شعر کا ان کاشعر  ہی بتاتی ہے ۔۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں دنیا میں ہرانسان اپنی 
اکائی پر پیدا ہوا ۔۔حتی کہ نقش ہائے انگشت بھی مختلف ہیں تو میں نے سوچا کیوں نہ اپنا ذائقہ تلاش کیا جائے ۔۔ مجھے بھی 
میرے رب نے محمود پید ا کیا ہے تو کیوں نہ میں اپنا لہجہ تلاش کروں۔۔یہی سوچ کر اس یک نشستی ٍغزل میں ایک کرافٹ 
(بنت) کی شعوری رو  در آئی ۔۔ یہ میرا پہلا قدم ہے ۔۔ مجھے امید ہے کہ آ پ کی محبتیں اور رہنمائی شاملِ حال رہی تو میں
 بھی جلدیا بدیر اپنا لہجہ یا ذائقہ تلاش کرنے میں کامیاب ہوجاؤں گا۔آپ کی محبت، حوصلہ افزائی کیلئے سرتاپا ممنون متشکر ہوں
----- والسلام

اور جنابِ سرور عالم راز کا ایک مراسلہ :
HTML:
عزیز مکرم محمود مغل صاحب: سلام محبت
یقین کیجیے کہ آپ کاخط پڑھ کر دلی مسرت سے دو چار ہوا۔ آپ نے نہ صرف اپنی انفرادی فکر کی تشریح اور اس کے جواز کی اساس
 عنایت کی ہے بلکہ اردو شاعری، خصوصا اردو غزل کے حوالے سے ایک بہت ہی اہم اور نازک صورت حال کی نشاندہی بھی کی ہے۔
 اردو غزل جتنے ادوار سے گزر چکی ہے اور اس میں جس کثرت سے شاعر ہویے ہیں ان کے پیش نظر یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ اب 
انسانی تجربہ، مشاہدہ، احساس اور جذبات کا کویی پہلو ایسا نہیں رہ گیا ہے جس پر کسی نہ کسی شاعر نے اپنے انداز میں فکرنہ کی ہو۔ 
گویا خیالات اور جذبات و احساسات کے بجایے اب کسی شاعر کو اس کا انداز فکر ونظر ہی دنیایے شعر مین دوام دے سکتا ہے۔ پرانے
 خیالوں کو پرانے انداز میں بار بار بیان کرنا تحصیل لا حاصل ہے لیکن بیشتر شعرا کا اسی پر مدار ہے اورآیندہ بھی رہے گا۔ اس کے
 اسباب میں جانے کی ضرورت نہیں ہےالبتہ انھیں ذہن میں رکھنا یقینا ضروری ہے۔ آپ نے جو راہ اختیار کرنے کی ٹھانی ہے وہ 
یقینا خاردار اور مشکل ہے لیکن اگر آپ لگن، مطالعہ اور محنت سے اس پر گامزن رہے تو آپ کی کامیابی یقینی ہے۔ اس نیی راہ میں آپ
 تلمیحات، علامات اور اشارے و کنایے استعمال کرنے پر خود کو مجبور پاییں گے۔ اس حقیقت سے آپ یقینا واقف ہیں۔ ضرورت 
اس بات کی ہو گی کہ آپ کی یہ کوشش الفاظ و علامات و تلمیحات کی ایسی بھول بھلیاں ہو کر نہ رہ جایے کہ آپ اپنے قاری کو کوسوں 
پیچھے چھوڑ جاییں اور آپ:لکھے عیسی اور پڑھے موسیِ: کا شکار ہو کر رہ جاییں۔ یہ راہ بہت کٹھن ہے لیکن اپنے دامن میں ہزار ہا گوہر آبدار
 رکھتی ہے۔ میں آپ کی کامیابی کے لیے صدق دل سے دعا گو ہوں اور یقین رکھتا ہوں کہ ایک دن آپ کو اس دلسوزی اور جگرکاوی کا 
ثمر ملے گا۔ انشاء اللہ 
سرور عالم راز سرور
 

خرم شہزاد خرم

لائبریرین
جزاک اللہ جناب بڑے بھائی جان بہت خوب غزل کہی ہے آپ نے مجھے یہ شعر بہت پسند آیا ہے

اندر ہی کوئی شور ، نہ باہر کوئی صدا
دیوار ہی سے بانٹیے ہمسائیگی کا دکھ

شاہد مجھے بھی اسی بات کا افسوس رہتا ہے
باقی ساری غزل بہت ہی پیاری ہے بہت خوب اسی طرح نوازتے رہیں تانکہ ہمیں بھی کچھ نا کچھ حاصل ہوتا رہے
بہت شکریہ
خرم
 

محمد نعمان

محفلین
بہت شکریہ محمود بھائی۔۔
انشا اللہ آپکی کوشش اور آپ کی کاوش ضرور رنگ لائیں گی۔۔۔۔
آپ کا اسلوب اور انداز الگ ہے اور میرے خیال سے آپ کا اس بات کا ادراک کہ آپ الگ ہیں اور آپ کی اپنے ہی رنگ اور اپنے ہی انداز کی تلاش ہی آپ کے منفرد ہونے کے لیے کافی ہے۔۔۔۔
ہاں مگر ایک سچا تخلیق کار ہمیشہ اپنے اندر ایک کمی پاتا ہے اور کبھی بھی راضی نہیں ہوتا دوسرے الفاظ میں کہ ایک سچا تخلیق کار چاہے کچھ بھی تخلیق کیوں نہ کر لے اس کا پیٹ بھر نہیں پاتا۔۔۔۔۔۔۔
اور یہی تو کامیابی کی ایک نشانی ہے کہ جب کوئی اپنے آپ کو یہ سمجھ لے کہ وہ مکمل ہو گیا تو یہ اس کی بلندی کی طرف پرواز کا آخری لمحہ ہوتا ہے
اور اپنے آپ کو ادھورا سمجھتے ہوئے اور اپنی موجودہ پرواز پر اکتفا نہ کرتے ہوئے بلند سے بلند مقام تک پہنچنا ہی اصل کامیابی ہے۔۔۔۔۔
مگر یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ ایک بہت باریک سی لکیر ہے جس پہ چلنا ہے۔
ایک طرف تو اپنے آپ کو یہ باور کرانا ہے اور کرواتے رہنا ہے کہ یہ مقام میری منزل نہیں اور اس سے آگے جانا ہی میرے حق میں بہتر ہے کہ اس طرح انجماد کا خطرہ نہیں رہتا اور یہ بھی اپنے آپ کو باور کرانا ہے کہ میری ہمت کبھی کم نہیں ہو گی کہ یہ سفر انتہائی کٹھن ہے اور یہ اندیشہ بار بار سر اٹھاتا ہے کہ مجھ میں بہت کمیاں ہیں اور سفر طویل تر۔ اسی لکیر پہ سفر اپنا مقدر بنا لیں کہ اس باریک لکیر سے
بھٹکنے نہ پائیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کہ اس لکیر پہ سفر کرنا انتہائی کٹھن ہے۔
اللہ آپ کو اور ہمیں اس سفر پر گامزن رکھے اور بھٹکنے سے بچائے ۔۔
آمین
 
Top