حسان خان
لائبریرین
سویم فگند تیر و خطا را بهانه ساخت
تیری دگر کشید و ادا را بهانه ساخت
تا در تو بیند و سخنی با تو سر کند
حق بازپرسِ روزِ جزا را بهانه ساخت
در جستجوی بود سکندر لبِ ترا
بیچاره شوقِ آبِ بقا را بهانه ساخت
از راهِ ناز کرد پریشان به رخ دو زلف
بر نعشِ من رسید و عزا را بهانه ساخت
کردش اشاره غیر و ز غمخانهام برون
چون باد رفت و گشتِ هوا را بهانه ساخت
در بزمِ غیر رفت و مَی از خُم به جام کرد
دورم نشاند و تنگیِ جا را بهانه ساخت
شب بر زمین به عالمِ مستی نهاد سر
با ما سحر نمازِ عشا را بهانه ساخت
پیشِ که نالم از غمِ دل کان مسیحدم
دردم فزود و قحطِ دوا را بهانه ساخت
شب بر سنان نهاد سرِ مدعی و صبح
با حاضران اشارهٔ ما را بهانه ساخت
خونِ قتیلِ بی سر و پا را به پایِ خویش
مالید آن نگار و حنا را بهانه ساخت
(قتیل لاهوری)
ترجمہ:
اُس نے میری جانب تیر پھینکا اور خطا کا بہانہ بنایا؛ (بعد ازاں) ایک دیگر تیر کھینچا اور ادا کا بہانہ بنایا۔
تاکہ وہ تمہیں دیکھے اور تمہارے ساتھ کوئی گفتگو شروع کرے، حق تعالیٰ نے روزِ جزا کی بازپرس کا بہانہ بنایا۔
سکندر تمہارے لب کی جستجو میں تھا، (لیکن) بے چارے نے آبِ حیات کے شوق کا بہانہ بنایا۔
اُس نے از راہِ ناز اپنے رخ پر دو زلفیں پریشان کیں اور میری نعش پر پہنچا لیکن اُس نے عزا کا بہانہ بنایا۔
غیر نے اُسے اشارہ کیا اور وہ میرے غم خانے سے ہوا کی طرح بیرون چلا گیا لیکن اُس نے ہوا کی سیر کا بہانہ بنایا۔
وہ غیر کی بزم میں گیا اور (وہاں) اُس نے خُم سے جام میں شراب ڈالی؛ اُس نے مجھے دور بٹھایا اور تنگیِ جا کا بہانہ بنایا۔
شب میں اُس نے عالمِ مستی میں زمین پر سر رکھا لیکن صبح ہمارے سامنے اُس نے نمازِ عشاء کا بہانہ بنایا۔
میں غمِ دل کے باعث کس کے سامنے نالہ کروں کہ اُس مسیحا دم نے میرے درد میں اضافہ کیا اور قحطِ دوا کا بہانہ بنایا۔
شب میں اُس نے مدعی کا سر نوکِ سناں پر نصب کر دیا لیکن صبح اُس نے حاضرین کے سامنے ہمارے اشارے کا بہانہ بنایا۔
اُس نگار نے اپنے پاؤں پر عاجز و فرومایہ قتیل کا خون مَلا لیکن اُس نے حنا کا بہانہ بنایا۔
تیری دگر کشید و ادا را بهانه ساخت
تا در تو بیند و سخنی با تو سر کند
حق بازپرسِ روزِ جزا را بهانه ساخت
در جستجوی بود سکندر لبِ ترا
بیچاره شوقِ آبِ بقا را بهانه ساخت
از راهِ ناز کرد پریشان به رخ دو زلف
بر نعشِ من رسید و عزا را بهانه ساخت
کردش اشاره غیر و ز غمخانهام برون
چون باد رفت و گشتِ هوا را بهانه ساخت
در بزمِ غیر رفت و مَی از خُم به جام کرد
دورم نشاند و تنگیِ جا را بهانه ساخت
شب بر زمین به عالمِ مستی نهاد سر
با ما سحر نمازِ عشا را بهانه ساخت
پیشِ که نالم از غمِ دل کان مسیحدم
دردم فزود و قحطِ دوا را بهانه ساخت
شب بر سنان نهاد سرِ مدعی و صبح
با حاضران اشارهٔ ما را بهانه ساخت
خونِ قتیلِ بی سر و پا را به پایِ خویش
مالید آن نگار و حنا را بهانه ساخت
(قتیل لاهوری)
ترجمہ:
اُس نے میری جانب تیر پھینکا اور خطا کا بہانہ بنایا؛ (بعد ازاں) ایک دیگر تیر کھینچا اور ادا کا بہانہ بنایا۔
تاکہ وہ تمہیں دیکھے اور تمہارے ساتھ کوئی گفتگو شروع کرے، حق تعالیٰ نے روزِ جزا کی بازپرس کا بہانہ بنایا۔
سکندر تمہارے لب کی جستجو میں تھا، (لیکن) بے چارے نے آبِ حیات کے شوق کا بہانہ بنایا۔
اُس نے از راہِ ناز اپنے رخ پر دو زلفیں پریشان کیں اور میری نعش پر پہنچا لیکن اُس نے عزا کا بہانہ بنایا۔
غیر نے اُسے اشارہ کیا اور وہ میرے غم خانے سے ہوا کی طرح بیرون چلا گیا لیکن اُس نے ہوا کی سیر کا بہانہ بنایا۔
وہ غیر کی بزم میں گیا اور (وہاں) اُس نے خُم سے جام میں شراب ڈالی؛ اُس نے مجھے دور بٹھایا اور تنگیِ جا کا بہانہ بنایا۔
شب میں اُس نے عالمِ مستی میں زمین پر سر رکھا لیکن صبح ہمارے سامنے اُس نے نمازِ عشاء کا بہانہ بنایا۔
میں غمِ دل کے باعث کس کے سامنے نالہ کروں کہ اُس مسیحا دم نے میرے درد میں اضافہ کیا اور قحطِ دوا کا بہانہ بنایا۔
شب میں اُس نے مدعی کا سر نوکِ سناں پر نصب کر دیا لیکن صبح اُس نے حاضرین کے سامنے ہمارے اشارے کا بہانہ بنایا۔
اُس نگار نے اپنے پاؤں پر عاجز و فرومایہ قتیل کا خون مَلا لیکن اُس نے حنا کا بہانہ بنایا۔
آخری تدوین: