سُورج کو چراغ ۔۔ علامہ اقبال (فکر و فن) کی تفہیم

علامہ اقبال پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ میں اپنے تئیں کوئی نئی سے نئی بات سمجھ کر کروں تو جواب میں بیسیوں حوالے مل جائیں گے کہ صاحب یہ تو بہت پہلے کہا کا چکا، کوئی نئی بات کیجئے۔

نئی بات تو نہیں البتہ اقبال کے فن اور فکر کی تفہیم (بلکہ ”خود تفہیمی“) کے سلسلے میں میرے جیسے اور بھی دوست ہوں گے، جو کچھ لکھنا بولنا چاہیں گے۔ ابتدا کرتے ہیں، اللہ کا نام لے کر۔

خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ
ان سات اشعار پر اپنی گزارشات پوسٹ کر دوں گا، ان شاء اللہ
 
۱۸؍ جون ۲۰۰۲ء
حکمِ اذاں
(علامہ اقبال کی نظم ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ کا مطالعہ)
حکیم الامّت، شاعرِ مشرق حضرت علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ کی شاعری کا خاصہ یہ ہے کہ انہوں نے فن اور مقصد کو یوں یک جان کر دیا جیسا ان سے پہلے کسی سے نہ ہوا تھا۔ علامہ کی شاعری میں زبان و بیان کی چاشنی کے ساتھ ساتھ عمیق افکار کا وہ رچاؤ پایا جاتا ہے جس کی مثال اردو شاعری میں کہیں اور نہیں ملتی۔ ان کے کلام کی خاص بات عالمانہ سلاست ہے۔فنِ شعر کی عمومی اصطلاح ’’سلاست‘‘ اقبال کے کلام پر یوں موزوں نہیں بیٹھتی کہ ان کے ہاں سادہ اور آسان فہم الفاظ کی بجائے فارسی کی بھاری بھرکم تراکیب زیادہ مستعمل ہیں۔ سحرطرازی کی بات یہ ہے قاری کو ان تراکیب کی ثقالت کا احساس تک نہیں ہوتا، اور وہ انہیں سلاست کے ساتھ پڑھتا چلا جاتا ہے۔ ان کی تلمیحات ان کی دقیق بصیرت کا پتہ دیتی ہیں، بلکہ بہت سے مقامات پر یہ تلمیحات استعارے بن جاتی ہیں۔ کلامِ اقبال کے اسی وصفِ خاص کو ہم نے ’’عالمانہ سلاست‘‘ کا نام دیا ہے۔
اقبال کا عرصۂ حیات وہ تھاجب پوری دنیا کی سیاسی بساط تغیر پذیر تھی اور بڑی بڑی عالمی سیاسی قوتوں پر تبدیلیوں کے سائے منڈلا رہے تھے۔ برطانوی سامراج، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ وہاں سورج غروب نہیں ہوتا، نوآبادیات پر اس کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ پہلی عالمی جنگ کے اثرات ابھی زوال پذیر بھی نہ ہوئے تھے کہ دوسری عالمی جنگ کے سائے لرزنے لگے۔ترکی میں خلافتِ عثمانیہ کے زوال کے ایک عرصہ بعد ہندوستان میں مغلیہ دور کا خاتمہ، پہلی عالمی جنگ کی تباہ کاریاں اور دوسری عالمی جنگ کے آثار،اسلامی دنیا کی بے حسی، چین میں سیاسی بیداری اور یورپی حکومتوں کا خلفشار، الغرض پوری دنیا بے چینی کا شکار تھی۔ ہندوستان کے اندر بھی سیاسی بیداری پیدا ہو رہی تھی اور یہاں کے دونوں بڑے مذہبی گروہ ہندو اور مسلمان بدیسی تسلط کے خلاف نہ صرف متحرک ہو چکے تھے بلکہ گاندھی اور محمد علی جناح جیسی شخصیات میدانِ عمل میں آ چکی تھیں۔ ان کی کوششوں کا رخ اگرچہ مختلف تھا، تاہم ایک قدرِ مشترک یعنی انگریزی تسلط سے نجات کی کوشش ضرور موجود تھی۔ سیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ بہت سے سماجی عوامل ایسے تھے جو کسی بھی صاحبِ دل کو بے چین کر دینے کے لئے کافی تھے۔ اقبال کی دور بین نگاہوں نے وہ مناظر بھی دیکھ لئے تھے جو عام ہندوستانی مسلمان کی نظر کی رسائی میں نہیں تھے۔ جستجو کا وہ مادہ جو ایک مردِ فقیر کی شخصیت کا خاصہ ہو سکتا ہے، ان کی تمام شاعری میں نمایاں ہے۔ اسی عنصر کی کارفرمائی تھی کہ علامہ نے فارس کی تہذیب پر مابعدالطبیعیات کا مطالعہ کیا اور مذہبی افکار کی تہذیبِ نو پر کام کیا۔ انہوں نے مولانا روم سے لے کر ابن عربی اور نطشے تک کے افکار کو دیکھا پرکھا۔ اور نہ صرف ہندوستان بلکہ پوری دنیا کی تہذیبی اور سیاسی زندگی کا مطالعہ کیا تو امتِ مسلمہ کی حالتِ زار پر تڑپ اٹھے۔ اقبال نے اسلامی دنیا کے مسائل کا عملی حل وہی پیش کیا جو قرونِ اولیٰ میں کامیاب ثابت ہو چکا تھا۔ اقبال کے پیغام کا خلاصہ اگر ایک جملے میں بیان کیا جائے تو وہ یوں ہو گا کہ ’’مسلمانوں کو اپنی اصل کی طرف لوٹنا ہوگا!‘‘۔
اس پیغام کی ترسیل کے لئے فطرت نے اقبال کو نہ صرف حکیمانہ نظر عطا کی تھی بلکہ نوائے سروش سے بھی نوازا تھا۔ اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اقبال کی شاعری بلا مبالغہ اپنی مثال آپ ہے۔ ان کے پیرائے کا تتبع بھی کسی سے نہ ہو سکا، اور اگر کہیں کسی نے کوئی ایک آدھ شعر اس ڈھنگ میں کہہ بھی لیا تو عوام الناس نے اس شعر کو بھی اقبال کے حساب میں ڈال دیا۔
آج بھی ناقدین کی اکثر محفلوں میں یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: شاعری میں فن کو اولیت حاصل ہے یا مقصد کو؟ جب کہ کلامِ اقبال کی صورت میں اس سوال کا شافی جواب ہمارے پاس پہلے سے موجود ہے، جہاں فن اور مقصد دونوں ایک دوسرے کو نکھارتے دکھائی دیتے ہیں اور یوں کلامِ اقبال ایک سرمدی پیغام بن جاتا ہے۔ اقبال کی دوسری بہت بڑی خصوصیت ان کے ہاں روایت سے ایسا مضبوط رابطہ ہے جس سے جدتیں پھوٹتی ہیں۔ ان کے بہت سے معاصرین اور متقدمین کے ہاں یہ عمومی مسئلہ رہا ہے کہ بہتوں کی روایت نے جمود کی صورت اختیار کر لی اور اگر کہیں جدید تجربے ہوئے بھی تو ان میں ادبی چاشنی بری طرح متاثر ہوئی۔ موضوعات کے حوالے سے اقبال سے پہلے گنتی کے چند شعراء ایسے ہیں جنہوں نے گل و بلبل اور لب و عارض سے ہٹ کر موثر لہجے میں بات کی ہو۔ اقبال کا اعجازِ بیان یہ بھی ہے کہ انہوں نے پہلے سے رائج معروف تراکیب کو نئے معانی عطا کئے اور یہ کارنامہ محض نئے الفاظ یا افکار متعارف کرا دینے سے کہیں آگے ہے۔ ان کے ہاں ’’گل و بلبل‘‘ روایتی محب اور محبوب کے قالب سے نکل کر مابعدالطبعیاتی سطح پر پہنچ جاتے ہیں، ’’جنوں‘‘ منفی معانی کی گرفت سے آزاد ہو کر ایک نصب العین بن جاتا ہے، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ کلامِ اقبال کا خاصہ یہ ہے کہ دقیق موضوعات پر بات کرتے ہوئے ان کا انداز عالمانہ ہوتا ہے اور تعلقِ خاطر کے سادہ مضامین میں ان کے الفاظ نرم اور ملائم ہوتے ہیں۔ ان کا لہجہ مجموعی طور پر ’’دبنگ‘‘ ہونے کے باوجود، ان کے ہاں غزل کی نرماہٹ متاثر نہیں ہوتی اور نہ نظم کے بہاؤ میں کو رکاوٹ آتی ہے۔ ایسی کتنی ہی خصوصیات ہیں جو اقبال کے کلام کو اوروں سے ممتاز بناتی ہیں۔
.......................
خودی اقبال کا بہت بڑا موضوع ہے۔ آدمی جب مکمل عدل کے ساتھ خود شناسی اور خود نگہی کے عمل سے گزرتا ہے تو اسے اپنے اور اپنے خالق کے مابین حقیقی تعلق کا ادراک نصیب ہوتا ہے ۔ اللہ کی وحدانیت اور الوہیت اس کے لئے کوئی سربستہ راز نہیں رہتی اور ’’لا الٰہ الّااللہ ‘‘ کی تفسیر اس کے قالب میں ڈھل جاتی ہے۔ یوں وہ عمومی عبدیت سے اٹھ کر نائب اللہ کے اس مقام پر فائض ہو جاتا ہے جو تخلیقِ انسان اور ’’فی الارض خلیفہ‘‘ کا حقیقی مقصد ہے۔ خلیفۃ اللہ کی اولین ذمہ داری یہ ہے کہ وہ زمین میں ’’لا الٰہ الّااللہ ‘‘ کا قانون نافذ کرے اور یہی اسلام کی روح ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ کائنات بے مقصد تخلیق نہیں کی گئی اور اس میں اللہ کا نائب فارغ البال رہنے کے لئے مقرر نہیں ہوا۔ فراغ کا تصور نائب اللہ کے مقام سے لگّا نہیں کھاتا، اسے اللہ کی بنائی ہوئی کائنات میں موثر کردار ادا کرنا ہے لہٰذا یہاں ’’تقدیر‘‘ کا انفعالی تصور ناقص قرار پاتا ہے۔ مختصر ترین الفاظ میں ’’اقبال کا خودی کا تصور عین اسلام کا تصور ہے‘‘۔ اقبال کی نظم ’’لا الٰہ الااللہ‘‘ کا مطالعہ ہمارے اس موقف کی دلالت کرتا ہے۔
خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ
الٰہ اور معبود کے معانی عموماً خلط ملط کر دئے جاتے ہیں حالانکہ یہ دو لفظ دو مختلف معانی رکھتے ہیں۔ معبود کے ساتھ جواز کی شرط نہیں ، جس شخص، شے، پتھر، مظہرِ فطرت وغیرہ کو لوگ پوجنے لگے وہ معبود ٹھہرا۔
’’قل یا ایّہا الکٰفرون ۔ لا اعبدُ ما تعبدون ۔ ولا انتم عابدون ما اعبد ۔ ولا انا عابدٌ مّا عبدتّم ولا انتم عابدون ما اعبدُ ۔ لکم دینُکم و لِیَ دینِ‘‘
.......................
پوجنے والے اور پوجے جانے والے کہاں تک حق بجانب ہیں، یا ہیں بھی کہ نہیں؟ لفظ ’’معبود‘‘ اس پر بحث نہیں کرتا۔ اِلٰہ کے ساتھ جواز شرط ہے۔ اِلٰہ یا حقیقی معبود کامقام کسی کو حاصل نہیں ہو سکتا، ماسوائے اس ہستی کے جو تمام تصورات سے بالاتر ہو،جو کسی بھی لحاظ سے کسی پر انحصار نہ کرے، جس کا وجود کسی دوسرے کا محتاج نہ ہو، جو اپنے ارادے اور عمل میں کسی دوسرے کی منظوری یا نامنظوری سے مبرّا ہو، جو کسی دوسری ہستی کا عبادت گزار نہ ہو، جو زمان اور مکان کی یا کسی بھی دوسری قید سے آزاد ہو، جس کے لئے یہ لازم نہ ہو کہ وہ دوسروں پر عیاں ہے یا نہیں، جس کی ہر امکانی اور غیر امکانی شے تک نہ صرف رسائی ہو بلکہ وہ ایسی ہر شے پر قدرت بھی رکھتا ہو، اس کی عبادت کرنے والے اس کی مرضی، منشا اور ارادے کے ماتحت ہوں اور وہ ان کی مرضی، منشا اور ارادے سے بالاتر ہو، جس کا معبود ہونا اس امر کا مرہون نہ ہو کہ دوسرے اس کو معبود تسلیم کرتے ہیں یا نہیں، بلکہ وہ فی نفسہٖ معبود ٹھہرے۔ غور طلب سوال ہے کہ انسانی عقل اور اس سے ماورا کائنات میں کیا کوئی ایسی ہستی ہے جو ان تمام شرائط کو احاطہ کر سکے؟ جواب اثبات میں ہے! ہاں، ایسی صرف اور صرف ایک ہستی ہے اور وہ خود اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ مفہوم ہے ’’لا اِلٰہ اِلّا اللہ‘‘ کا کہ تمام آفریدہ اور نا آفریدہ جہانوں میں کوئی بھی اِلٰہ ہونے کی شرائط پر پورا نہیں اترتا ماسوائے اس ایک اللہ کے جس کے حکم کن پر فیکون کا عمل جاری و ساری ہے۔
اللہ کے اِلٰہ ہونے کا تصور، ماسواء اللہ کے اِلٰہ ہونے کی مکمل نفی کرتا ہے اور ایسے تمام تصورات اور عقائد کا بطلان کرتا ہے جو اُس ایک ذات کے سوا کسی بھی حوالے سے کسی دوسرے کو معبود کے مرتبے پر فائز کر سکے۔ گویا فطری طور پر انسانی تصور کو کسی ایسی تیغ کی ضرورت ہے جو الوہیت سے متعلقہ ایسے تمام عقائد اور تصورات کو کاٹ پھینکے جو ماسواء اللہ کی طرف جاتے ہوں۔ یہ وہی تیغ ہے جو ایک دین سے دوسرے ادیان کوقطع کرتی ہے، اسی کو اقبال نے ’’خودی‘‘ کا نام دیا ہے اور اس تیغ کو کارآمد اور آبدار رکھنے کے لئے اس فساں یا سان کی ضرورت باقی رہتی ہے جس میں الوہیت غیراللہ کے رد کی بنیاد فراہم ہوتی ہے۔ معبود حقیقی کے تصور کا صحیح ادراک لاالٰہ الّااللہ کے راز سے آگہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات وہ سربستہ راز ہے جو کسی کی عقل کے احاطے میں آ ہی نہیں سکتا۔ اس لئے کہ خالق وہ ہے اور یہ مخلوق کے بس کی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ وہ اپنے خالق کی حقیقت کو جان سکے۔ حفظِ خودی یا روحِ اسلام اسی سرِ نہاں کو تسلیم کرنے اور اس کے سوا کسی بھی دوسرے کو الوہیت کے مقام پر رکھنے کی مکمل نفی ہے۔ اقبال کی اس نظم کا مطلع انہی افکار کا مظہر ہے۔
اللہ تعالیٰ کی الوہیت اصولاً اس بات کی متقاضی ہے کہ صرف اللہ کو معبود و مسجود تسلیم کیا جائے اور اسی کو دعا اور طلب کا مرجع بنایا جائے۔ اُس کے سوا کسی بھی دوسری ہستی کو معبود بنا لینا دو حوالوں سے ظلم قرار پاتا ہے : اول یہ کہ الوہیت اور عبودیت جو اللہ کا حق ہے کسی دوسرے کو دے دیا جب کہ وہ دوسرا اس مقام کا حقدار نہیں تھا لیکن اس پر فائز کر دیا گیا۔ دوم یہ کہ انسان جو اپنے ہبوط میں اللہ کا نائب ہے اور اس سے اوپر اللہ کے سوا کوئی نہیں، اس نے کسی دوسری شے کو معبود کی صورت میں خود سے افضل تسلیم کر لیا اور خود اپنے ساتھ ظلم کیا۔ یہ دوسری شے کوئی دوسرا انسان ہو، کوئی پتھر ہو، کوئی درخت، پانی کی موج، آگ کا لپکا، کوئی ستارہ ہو یا کوئی ایسی خواہش، محبت، اشتہاء، جذبہ ہوجس کی وجہ سے اللہ کا مقام الوہیت نظر سے اوجھل ہو جائے، صنم بن جاتا ہے۔ صنم کے لئے مادی وجود لازمی نہیں۔ جو شے بھی، خواہ مرئی ہو یا غیر مرئی، مادی ہو یا غیر مادی ، حقیقی ہو یا غیر حقیقی، جب عابد اور معبودِ حقیقی کے درمیان آ جائے اور اللہ اور بندے کی رابطہ لائن کو کاٹ دے، صنم ہے۔ صنم کو کاٹنے کے لئے خودی کی وہ تیغِ مبرّم درکار ہے جو لاالٰہ الّا اللہ کی فساں پر گھِس کر آبدار ہوئی ہو۔ تیغ بردار یقیناًوہ شخص ہو گا جو عقلی، فکری اور ایمانی سطح پر لاالٰہ الّا اللہ پر یقین رکھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ایمان عقلِ سلیم اور فکرِ راست کی ایک درخشاں مثال ہے۔ آپ علیہ السلام نے مشاہدہ کیا کہ لوگ گونگے بہرے اور بے دست و پا اصنام کو معبود بنائے بیٹھے ہیں، جو اپنا وجود برقرار رکھنے پر بھی قادر نہیں اور کوئی بھی انہیں توڑ کر ریزہ ریزہ کر سکتا ہے۔ خود نمرود اس وقت کا سب سے بڑا، جیتا جاگتا بت تھا جو معبود بنا بیٹھا تھا۔
ابوالبشر حضرت آدم علیہ السلام کا اس دنیا میں آنے سے پہلے ایک عرصہ تک آسمانوں پر قیام رہا۔ آپ نے جنت میں سکونت رکھی، اور اللہ تعالیٰ کی ان نعمتوں سے فیض یاب ہوئے جو جیتے جی کسی اور کو نہ ملی ہوں گی۔آپ علیہ السلام کو جہنم کا بھی علم تھا، جنات اور فرشتوں کا بھی اور وہ علوم بھی آپ کو حاصل تھے جن کا مختصر حوالہ کتابِ مبین میں دیا گیا ہے۔ ابلیس کی چالوں سے آپ کو خبردار کر دیا گیا تھا۔ آپ کو پہلا انسان ہونے کے ساتھ ساتھ پہلا نبی ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ زمین پر آ ئے تو آپ کی اولاد ہی آپ کی امت ٹھہری۔ یوں الٰہ کا تصور فطرت کا خاصہ بن گیا۔ خلیفۃ اللہ کی حیثیت سے بھی انسان کوایک اور صرف ایک الٰہ پر یقین رکھنا لازمی ہے۔ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام بھی اس حقیقت سے آگاہ تھے کہ فطری طور پر انسان کو ایک معبود کی ضرورت ہے، اور وہ معبود ایسا نہیں ہو سکتا تھا جیسے معبود آپ نے دیکھے۔ آپ متلاشی تھے۔ ستارے کو دیکھا تو کہا کہ ہو نہ ہو یہ میرا رب ہے، یہ بلند، چمکدار اور متحرک ہے۔ مگر وہ ڈوب گیا۔ چاند کو دیکھا کہ یہ اُس سے بڑا ہے، زیادہ نورانی ہے، اس کی روشنی میں راحت کا احساس ہے، کہا: وہ نہیں یہ میرا رب ہے۔ وہ بھی ڈوب گیا! سورج کو دیکھا، کہا یہ ان دونوں سے بڑا ہے، اس کی روشنی میں حرارت اور زندگی ہے، کہا: یہ میرا رب ہے، مگر وہ بھی ڈوب گیا۔ حقیقی الٰہ کو زوال نہیں ہو سکتا! کہا: نہیں میرا رب زوال پذیر تو کیا زوال آمادہ بھی نہیں ہو سکتا، میرا رب تو وہ ہے جس نے ان سب کو پیدا کیا۔ میں ان سب سے منہ موڑتا ہوں اس ہستی کی طرف جس نے آسمانوں کو اور زمین کو پیدا کیا۔قابلِ توجہ امر ہے کہ جب ایک معبودِ حقیقی موجود ہے تو ان اصنام کی پوجا کا کوئی جوازباقی نہیں رہتا، ان کو ختم ہو جانا چاہئے۔ کلہاڑا لیا اور ان جھوٹے معبودوں کو ریزہ ریزہ کر ڈالا۔ پرسش ہوئی تو کہا: خود اپنے معبودوں سے پوچھ لو، کہ ان کا یہ حال کس نے کیا ہے۔بھٹکے ہوئے لوگوں کو خفت زدگی کے ساتھ تسلیم کرنا پڑا کہ یہ اصنام تو ہلنے بولنے پر قادر نہیں، توڑ پھوڑ کیسے کر سکتے ہیں؟ بوالعجبی یہی ہے کہ عابد تو سن سکتا ہے، بول سکتا ہے، حرکت کر سکتا ہے اور معبود میں یہ بھی سکت نہیں۔ظلم کی یہ بدترین صورت ہے!
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں، لا الٰہ الّا اللہ
اصنام آج بھی موجود ہیں، مگر ان کی صورت اور ہیئت میں کسی قدر تبدیلی واقع ہو گئی ہے۔ اقتدار، مال و منال، ہوائے دوام، لذت، لہوو لعب، ہوسِ جاہ اور ایسے بے شمار اصنام الٰہ اور انسان کے درمیان آ کھڑے ہوئے ہیں اور آج کے نام نہاد قائدینِ عالم ان بتوں کو پوجتے بھی ہیں اور اسی طرح حفاظت بھی کر رہے ہیں جیسے نمرود کے پجاری کیا کرتے تھے۔ یہاں ’’براہیم‘‘ ایک ایسے انداز فکر و عمل کی علامت ہے جو اِن سب بتوں کو توڑ کر ابنِ آدم کو لا الٰہ الااللہ پر جمع کرے۔ اور اللہ کے گھر کی اس مرکزی حیثیت کا احیاء کرے جہاں سے تمام عالم پر اللہ کا قانون عملاً نافذ کیا جائے۔یہ زمانہ کسی ایسے مردِ حق کا منتظر ہے، جو اِس امت میں کہیں پوشیدہ ہے جس کی نسبت براہیمی ہے اور جو ایک جہانِ نو کا معمار ہے۔ یہ ایک فرد بھی ہو سکتا ہے، اور ایک جماعت بھی، کوئی بندۂ صحرائی بھی اور کوئی مردِ قہستانی بھی۔ اقبال کو فی زمانہ ایسا کوئی فرد یا گروہ نظر نہیں آتا بلکہ اس کے برعکس وہ دیکھتے ہیں کہ جن کے اسلاف پیغمبرانہ صفات کے حامل تھے، وہ بت گری میں مشغول ہیں، اللہ سے اعلانِ جنگ کرتے ہوئے ہچکچاتے نہیں۔ دورِ حاضر میں اللہ کا نام لینے والوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ وہ حیات بعد الموت پر یقین نہیں رکھتے اوراس جہانِ آب و گِل کو جاوداں سمجھے بیٹھے ہیں، گویا یہ عالمِ فانی بھی ایک صنم ٹھہرا۔
غرور ہوا بھرے غبارے کی مانند ہے، ذرا کہیں ہوا خارج ہوئی تو سکڑ کر رہ گیا اور خارج نہ ہوئی تو بھک سے اُڑ گیا۔ متاعِ غرور یعنی عالمِ فانی کی کیفیت بھی یہی ہے۔ ایک تخیل ہے جو ہزاروں بت تراش لیتا ہے اور جیتی جاگتی ایک د نیا تخلیق کر لیتا ہے۔ پھر انسان اس کی رنگینیوں میں کھو جاتا ہے، اور سود وزیاں کے اوہام کا اسیر ہو کر رہ جاتا ہے۔ مومن کی اصل میراث کچھ اور ہے جس کا سب سے قیمتی جزو حفظِ خودی ہے۔ اس جوہر کے مقابلے میں متاعِ غرورکو ترجیح دینا کسی طرح بھی دانش مندی نہیں کہلا سکتا۔
کیا ہے تو نے غرور کا سودا
فریب سود و زیاں لا الٰہ الا اللہ
.......................
اصل متاع وہ جوہرِ خودی ہے جس کی بنیاد لاالٰہ الااللہ پر ہے۔ عقل شواہد کے تابع ہے اور اس دنیا کے شواہد اسی غبارے کا حصہ ہیں جس کی فسوں کاری کا کلی انحصار مقید ہوا پر ہے۔ عقل عالمِ حوادث سے آگے جا ہی نہیں سکتی، جب تک اسے ایقان و ایمان کا وسیلہ دستیاب نہ ہو۔ اِس کے پاس لے دے کر وہم و گمان کے کچھ بُت رہ جاتے ہیں۔ ایک بُت انسان کا انسان سے تعلق ہے، یہ دو بھائیوں کا بھی ہو سکتا ہے، میاں بیوی کا بھی، آقا اور غلام کا بھی، عابد اور معبود کا بھی، و علیٰ ہٰذاالقیاس۔ یہ تعلق بھی تب تک ہے جب تک متعلقین موجود رہیں اور تعلق قائم رہے۔ دوسرا بت متاعِ جہان ہے، مال و دولت جس کے لئے انسان انسان نہیں رہتا۔ اور مال و دولت حاصل کر بھی لے تو صورتِ قارون خزانے کے ساتھ زمین کا رزق ہو جانا ہی اس کا مقدر ہے۔
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
زمان اور مکان کی حقیقت ایک حرف ’’کن‘‘ سے زیادہ کچھ نہیں۔ ’’کن‘‘ کہنے والا ’’لاتکن‘‘ کہنے کا بھی مختار ہے۔ اُس نے اِس عالمِ حوادث سے پرے ایک عالمِ لاہوت بنایا ہے، کتنے ہی زمانے اور جہان ایسے ہیں جن کا ادراک تو کیا، نام تک خرد کو معلوم نہیں۔ کائنات کی تخلیق کرنے والا حرفِ ’’کن‘‘ ایک دوسرا جہان بھی رکھتا ہے، جو اس جہان سے صرف ایک برزخ کے فاصلے پر ہے۔ وہ جہان اتنا بڑا ہے کہُ اس کے مقابلے میں اِس جہان کی حیثیت صفر ہے، بایں ہمہ کہ اِس کائنات کی پہنائی انسان کو خوف زدہ کر دیتی ہے۔ عقل یا سائنس کے پاس وہی حوالے اور دلائل ہیں جو اسی کائنات سے ماخوذ ہیں۔ کائنات کی تسخیر، جس کا مژدہ خالقِ کائنات نے سنایا ہے، اُس تدبر اور فکرِ رسا کے بغیر ممکن نہیں جو مقامی حوالوں سے باہر نکل کر سوچے۔ افلا تتفکرون کا منشا اور مقصد یہی ہے اور حاصل لاالٰہ الا اللہ کا مرجع ہے۔
خرد ہوئی ہے زمان و مکاں کی زناری
نہ ہے زماں نہ مکاں لا الٰہ الا اللہ
حالانکہ اس کائنات کی سب سے بڑی حقیقت وہ سربستہ راز ہے جو مستور ہوتے ہوئے بھی مختلف انداز میں جلوہ گر رہتا ہے۔ اسی رازِ نہاں کے جلووں کی تلاش عشق ہے۔ازلی حقیقت یہی لاالٰہ الا اللہ ہے، اور اسے تسلیم کئے بغیر نہیں بنتی۔ لا الٰہ الا اللہ کا مفہوم پا لینا، آدمی کو ہزار سجدوں سے نجات دلاتا ہے اور ایک سرمدی سکون بہم پہنچاتا ہے۔ انسان کے لئے یہ بات کم اطمینان کی تو نہیں کہ اُس سے بالا تر ایک اور صرف ایک اللہ ہے جو جتنا جبار اور قہار ہے اتنا ہی ستار اور غفار بھی ہے،جس کا شیوہ عدل ہے۔ ہاں اگر کوئی خودپر ظلم کرے تو اس کی ذمہ داری اس رحیم و کریم مالک پر عائد نہیں ہوتی۔ مناسب ہو گا کہ یہاں ’’ظلم‘‘ کا مفہوم واضح کر لیا جائے۔ جو نہیں ہونا چاہئے وہ واقع ہو، یا جو ہونا چاہئے وہ نہ ہو، یا ’ہونا چاہئے‘ اور’ نہیں ہونا چاہئے‘ کا فرق مٹ جائے تو یہ ظلم ہے۔ اسی بناء پر تیرگی کو ظلمت کہا گیا کہ وہاں یہ تمیز نہیں رہتی کہ کیا ہو رہا ہے۔ بالفاظِ دیگر حق دار کو اس کا حق نہ دیا جائے یا غیر مستحق کو حق دار بنا دیا جائے، یا حق دار اور غیر مستحق کا امتیاز باقی نہ رہے تو یہ ظلم ہے۔ عبدیت کی اصل روح یہ ہے کہ تمام محبتیں، خواہشات اور اعمال معبود کے لئے اور اس کی مرضی اور منشاء کے ماتحت ہو جائیں اور معبودِ حقیقی تمام ترجیحات پر اولیت حاصل کر لے۔ جب انسان نے اپنے سارے معاملات اپنے حقیقی مالک کی منشاء کے مطابق ڈھال لئے تو وہ نصیر و قدیر یقیناًاس پر کوئی آنچ نہیں آنے دے گا۔ اس سے بڑی مسرت اور کیا ہو گی؟
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
.......................
ہاں، یہ ضرور ہے کہ وہ آزماتا بھی ہے اور اپنے مقربین کو زیادہ آزماتا ہے۔ یہ آزمائش در اصل دوسروں کے لئے ہوتی ہے کہ دیکھو! میرا ذوق و شوق کیسی کیسی مشکلات کی نفی کر دیتا ہے۔ ورنہ وہ علیم و خبیر تو بخوبی جانتا ہے کہ اپنے کس بندے کو اس نے کتنا بڑا ظرف بخشا ہے۔ رہے دور ہٹ جانے والے تو یہ کھلی کھلی بات ہے کہ جو غبار کی چاہ میں اس سے دور ہو گیا، یا ذرا سی آزمائش پر پیچھے ہٹ گیا، اللہ کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ ایسا شخص یا ایسی جماعت اِس دارِ فانی میں عسرت سے گزارے یا عشرت سے، آخرش ایسوں کو خواری نصیب ہو گی اور ایسی خواری جس کا تصور بھی عقل کے بس کی بات نہیں۔ مردِ مومن کا وظیفہ یہ مقرر کیا گیا کہ عیش و آرام میں بھی اور محن و آلام میں بھی وہ لاالٰہ الا اللہ سے غافل نہ ہو۔
اب اس کا کیا کیجئے کہ بار بار کے انتباہ کے باوجود انسان عارضی لذتوں اور خسارے کی طرف دوڑتا ہے۔ ایک مردِ خدا اپنے زمانے کے بتوں کو توڑتا ہے تو بعد والے نئے بت تراش لیتے ہیں۔ کوئی پتھر کا بُت ہے، جس سے مرادیں مانگی جاتی ہیں، کوئی اقتدار کا بُت ہے جس سے امان طلب کی جاتی ہے، کوئی تخیلاتی دیوتا ہے، تو کوئی جیتا جاگتا دجال ہے جس کے شر کے خوف سے اس کی اطاعت کی جاتی ہے۔ کوئی جمہوریت کا بت ہے، کوئی اشتراکیت کا، کوئی ملوکیت کا اور کوئی فرعونیت کا۔ کوئی مفاد کا بت ہے، کوئی اشتہا کا اور کوئی خود فریبی کا۔ جماعت کی جمعیت ان بتوں کے دائروں میں بٹ چکی ہے، انسانیت محوِ خواب ہے۔
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذان لا الٰہ الا اللہ
ایسے میں اصلاح کا بیڑا اٹھانا کوئی آسان کام نہیں۔ کم و بیش سوا لاکھ داعیانِ حق کرہِ ارض میں ہر جگہ دعوتِ خیر دے کر اپنی اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھا گئے اور یہاں پھر کسی ’’براہیم‘‘ کی ضرورت ہے، جو سوئی ہوئی انسانیت کو جگائے۔یہ دمِ فجر بھی ہو سکتا ہے کہ ظلمت کی رات چھٹنے والی ہے اور ازلی ابدی انسانی اقدار کی صبح طلوع ہونے میں کچھ زیادہ دیر نہیں۔ اس کارِ براہیم کو تکمیل تک پہنچانا، اب ہماری ذمہ داری ہے۔ ہمیں بہ آوازِ بلند، بغیر کسی خوف کے، پوری دنیا کو خبردار کرنا ہے کہ انسانیت کا مرجع وہ ایک اکیلا الٰہ ہے۔انسان کو بالآخر اس کی طرف لوٹنا ہو گا، فطرت کا اصول بھی یہی ہے کہ ہر شے اپنی اصل کی طرف لوٹتی ہے۔ رجوع الی اللہ کے اس کٹھن سفر میں ایمان اور یقین کی قوت میسر ہو جائے تو کوئی دوری دوری نہیں رہ جاتی۔ بقول علامہ اقبال:
جب اس انگارۂ خاکی میں ہوتا ہے یقیں پیدا
تو کر لیتا ہے یہ بال و پرِ روح الامیں پیدا
*******
 
الٰہ اور معبود کے معانی عموماً خلط ملط کر دئے جاتے ہیں حالانکہ یہ دو لفظ دو مختلف معانی رکھتے ہیں۔ معبود کے ساتھ جواز کی شرط نہیں ، جس شخص، شے، پتھر، مظہرِ فطرت وغیرہ کو لوگ پوجنے لگے وہ معبود ٹھہرا۔

*******
بہت اچھا مضمون ہے ۔ ۔ لیکن یہ بات محلِّ نظر محسوس ہوتی ہے کہ الٰہ کے ساتھ جواز کی شرط ہے۔ کیونکہ معبود بھی عربی کا ہی لفظ ہے لیکن قرآن میں معبودانِ باطلہ کیلئے بھی لفظ الٰہ استعمال ہوا ہے۔ پس لا الہ الااللہ کے ترجمے میں تاویل کی جاتی ہے۔ لفظی ترجمہ تو کچھ اور ہی کہتا ہے۔ ۔ واللہ اعلم بالصواب:)
 
میں نے لا الہ الا اللہ کے تناظر میں بات کی ہے۔ ویسے آپ کا ارشاد درست ہے۔ قرآن کریم میں رب کا لفظ بادشاہ مصر کے لئے بھی ہے، اور رسول کا لفظ ہدہد کے لئے بھی وارد ہوا ہے۔ سیاق و سباق بھی معانی کا تعین کرتے ہیں۔

میں آپ سے اس نکتے پر اختلاف کی جسارت نہیں کر سکتا۔ اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔
 

اک انسان

محفلین
ایک فورم پر اقبال کے حوالے سے بحث ہورہی تھی تو میں نے یہ جواب پوسٹ کیا تھا، یہاں بھی شیئر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔

اقبال:
مجھے حسن نثار صاحب سے خاص عقیدت اور محبت ہے مگر اقبال سے مجھے ’’الف‘‘ والا ’’اشق‘‘ ہے۔ اسی لئے ایک بار اُنہوں نے اقبال کے فرزندِ ارجمند کے حوالے سے ایک بات لکھی کہ ایک پروگرام میں کسی نے پوچھا کہ اقبال تو کہتے تھے کہ
کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
تو اقبال کا فرزند کہتا ہے ’’وہ تو شاعر تھے، اور شاعر کچھ بھی کہہ سکتا ہے‘‘ دوسرے الفاظ میں ’’غلو‘‘ اور ’’محض جذبات‘‘۔۔۔ اس بات پر حسن نثار صاحب نے جاوید اقبال صاحب کی بے حد پذیرائی کی اور قارئین کو ’’حقیقت پسندی‘‘ کا درس دیا۔ میرے ذاتی خیال کے مطابق حسن نثار صاحب کی حد سے زیادہ حقیقت پسندی ’’مادیت پسندی‘‘ ہے۔ دوسری بات یہ کہ اقبال کی شاعری سمجھنے کے لئے اقبال کا فرزند ہونا کافی نہیں۔ حتٰی کے اقبال کو خود اپنی حقیقت کا علم نہیں تھا۔ یہ میں نہیں کہہ رہا اقبال خود فرما رہے ہیں۔
میں خود بھی نہیں اپنی حقیقت کا شناسا
گہرا ہے میرے بحر خیالات کا پانی۔۔!!
اور وہ مصرعہ بھی کہ ’’اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے‘‘ یہ حقیقت ہے کہ اقبال کی سوچ نے اُسے وہاں پہنچا دیا تھا جس پر بعض اوقات وہ خود بھی حیران و پریشان ہو جاتے تھے۔ اقبال کی جتنی شاعری میں نے پڑھی ہے اور جتنا میں نے غور و فکر سے کچھ خیالات تک رسائی حاصل کی ہے اُس حوالے سے میں اتنا کہنا چاہتا ہوں کہ ’’علم کا چھپانا کفر ٹھہرا مگر آگہی کا عذاب خود ہی جھیلنا پڑتا ہے‘‘ اقبال نے بہت کچھ کہا ہے اور بہت کچھ چھپایا ہے۔ مگر کمال یہ ہے کہ چھپایا بھی کہہ کر ہے۔۔۔
میں نے ایک جگہ جہاد کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’جاہل‘‘ کا کردار اور ’’ابوجہل‘‘ کا تلوار سے مقابلہ کرنا جہاد ہے۔ اور یہی اقبال کے اُس شعر کا مفہوم ہے۔۔۔۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔۔۔۔۔۔۔۔ تلوار سے نہیں کردار سے۔
 
ایک فورم پر اقبال کے حوالے سے بحث ہورہی تھی تو میں نے یہ جواب پوسٹ کیا تھا، یہاں بھی شیئر کرنے کی اجازت چاہتا ہوں۔
۔۔۔۔
۔۔۔۔
میں نے ایک جگہ جہاد کے حوالے سے لکھا تھا کہ ’’جاہل‘‘ کا کردار اور ’’ابوجہل‘‘ کا تلوار سے مقابلہ کرنا جہاد ہے۔ اور یہی اقبال کے اُس شعر کا مفہوم ہے۔۔۔ ۔ مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تلوار سے نہیں کردار سے۔

اتفاق دیکھئے کہ اکبر حسین اکبر کے صاحب زادے عشرت حسین کا معاملہ بھی کچھ کچھ ایسا ہی رہا۔

کل یا پرسوں کی بات ہے ایک نوجوان کہنے لگا: ’’آپ جنابِ فلاں کو جانتے ہیں؟‘‘، کہا: ’’نہیں!‘‘ بولے: ’’وہ حضرت فلاں کے صاحب زادے ہیں، فلاں کے شاگرد ہیں، فلاں سے بیعت ہیں، فلاں استاد سے شعر میں اصلاح لیا کرتے تھے ۔۔۔ فلاں‘‘ ۔۔۔ فلاں ۔۔۔۔ ، عرض کیا: ’’وہ خود کیا ہیں؟ آپ ان کے اپنے حوالے سے کچھ فرمائیے‘‘۔

بہت آداب۔
 
استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
ہم سے کیا تشریح ہونی ہے ہاں اب سے یہ ضرور کریں گے کے اقبال کا جو شعر بھی سمجھ میں نہ آیا یا اپنے طور پر آیا بھی ہو تو یہاں پوسٹ کر کے آپ سے تشریح کرانے کی جسارت کر لیا کریں گے
 
استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب
ہم سے کیا تشریح ہونی ہے ہاں اب سے یہ ضرور کریں گے کے اقبال کا جو شعر بھی سمجھ میں نہ آیا یا اپنے طور پر آیا بھی ہو تو یہاں پوسٹ کر کے آپ سے تشریح کرانے کی جسارت کر لیا کریں گے

ضرور جناب، مگر اس فقیر پر اور ہوا دینے والے پتوں پر تکیہ نہ کیجئے گا۔
اس محفل میں بہت اہلِ علم موجود ہیں، کسی نہ کسی اہلِ علم کو بھی ساتھ ہی ٹیگ کر دیا کیجئے گا۔ کون جانے یہ فقیر کہاں اکھڑ جائے (ہتھے سے اکھڑنا نہیں، ڈگمگا جانا مراد ہے)۔
 
ضرور جناب، مگر اس فقیر پر اور ہوا دینے والے پتوں پر تکیہ نہ کیجئے گا۔
اس محفل میں بہت اہلِ علم موجود ہیں، کسی نہ کسی اہلِ علم کو بھی ساتھ ہی ٹیگ کر دیا کیجئے گا۔ کون جانے یہ فقیر کہاں اکھڑ جائے (ہتھے سے اکھڑنا نہیں، ڈگمگا جانا مراد ہے)۔
محفل میں موجود سبھی صاحبانِ علم کی میں قدر کرتا ہوں اور آپ کے حکم کی تعمیل کر کے ان کو ٹیگ بھی کر دیا کروں گا، لیکن آپ سے کچھ خاص ہے جو بیان سے باہر ہے شاید آپ سے ملاقاتیں ہو چکیں اس لئے۔
یہ اکھڑنے کی وضاحت کر کے آپ نے احسان عظیم کیا کہ مجھ جیسا کم عقل پہلے والا مطلب ہی لیتا
 
شعر برائے تشریح عرض ہے
علامہ اقبال کا ہی ہے

نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا
 
شعر برائے تشریح عرض ہے
علامہ اقبال کا ہی ہے

نہ ہو طبیعت ہی جن کی قابل وہ تربیت سے نہیں سنورتے
ہوا نہ سر سبز رہ کے پانی میں عکس سرو کنار جو کا

ایک منظر ذہن میں لائیے۔ ایک ندی ہے، اس کے اردگرد درخت ہیں، کوئی سرو کا درخت بھی رہا ہو گا۔ ان سب کا عکس پانی میں بن رہا ہے۔ درخت ہرے سوکھے جیسے بھی ہیں وہ تو پانی سے باہر ہیں۔ عکس تو عکس ہوتا ہے پانی میں بنے ریت میں بنے، وہ ازخود تو پھل پھول نہیں سکتا، یعنی عکس چاہے درخت کا ہے اس میں قوتِ نمو نہیں ہے۔ وہ پانی میں رہے بھی تو کیا ہے! اسی کو انسانوں پر منطبق کیجئے۔ وہ جو تربیت، عبرت، فیضان، نصیحت قبول نہیں کرتے وہ نہیں کرتے، چاہے کیسا بھی اتالیق (فرد یا معاشرہ) موجود ہو۔

زیرِ نظر شعر کا مدعا بھی یہی ہے۔

دوسرا مصرع تشبیہاتی انداز کا حامل ہے۔ ندی کے کنارے کھڑے سرو کا عکس پانی میں رہ کر بھی سرسبز نہ ہوا۔ یہ خود نہیں پھل پھول سکتا (اس میں تبدیلی تب آئے گی، جب اس درخت میں تبدیلی آئے گی جس کا وہ عکس ہے)۔
 
آخری تدوین:
ایک منظر ذہن میں لائیے۔ ایک ندی ہے، اس کے اردگرد درخت ہیں، کوئی سرو کا درخت بھی رہا ہو گا۔ ان سب کا عکس پانی میں بن رہا ہے۔ درخت ہرے سوکھے جیسے بھی ہیں وہ تو پانی سے باہر ہیں۔ عکس تو عکس ہوتا ہے پانی میں بنے ریت میں بنے، وہ ازخود تو پھل پھول نہیں سکتا، یعنی عکس چاہے درخت کا ہے اس میں قوتِ نمو نہیں ہے۔ وہ پانی میں رہے بھی تو کیا ہے! اسی کو انسانوں پر منطبق کیجئے۔ وہ جو تربیت، عبرت، فیضان، نصیحت قبول نہیں کرتے وہ نہیں کرتے، چاہے کیسا بھی اتالیق (فرد یا معاشرہ) موجود ہو۔

زیرِ نظر شعر کا مدعا بھی یہی ہے۔

دوسرا مصرع تشبیہاتی انداز کا حامل ہے۔ ندی کے کنارے کھڑے سرو کا عکس پانی میں رہ کر بھی سرسبز نہ ہوا۔ یہ سایہ ہے جو خود نہیں پھل پھول سکتا (اس میں تبدیلی تب آئے گی، جب اس درخت میں تبدیلی آئے گی جس کا وہ عکس ہے)۔
چار چاند لگا دئیے آپ نے شعر کو سمجھا کے ہمارے شعور میں اور یہی مقصود بھی تھا آپ کے سامنے پیش کرنے کا استاد محترم
 
چار چاند لگا دئیے آپ نے شعر کو سمجھا کے ہمارے شعور میں اور یہی مقصود بھی تھا آپ کے سامنے پیش کرنے کا استاد محترم

یہ فقیر کیا چاند لگائے گا یا ’’چاند چڑھائے گا‘‘۔ یہ تو خود اقبال کی فکر کا نخچیر ہے!
 
اس کے بہت قریب کا مضمون ’’جوابِ شکوہ‘‘ میں بھی ہے۔
ع: ہم تو مائل بہ کرم ہیں کوئی سائل ہی نہیں
پورا بند دیکھئے گا۔
پورا بند زبانی یاد تھا استادِ محترم لیکن آپ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے غور سے پورا بند دوبارہ پڑھ لیا اور یہ تو سونے پہ سہاگا ہو گیا
 
یہ فقیر کیا چاند لگائے گا یا ’’چاند چڑھائے گا‘‘۔ یہ تو خود اقبال کی فکر کا نخچیر ہے!
مفسر کی ضرورت تو بہرحال رہے گی نہ استادِ محترم کہ بندہ نا چیز کو تو اقبال کو پڑھتے ہوئے نہ جانے کتنی دفعہ لغت کی ورق گردانی کرنی پڑتی ہے تو شعر کا مدعا پانے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہوں گے اسکا اندازہ آپ خود ہی لگا سکتے ہیں اور اس میں بھی غلطی کا امکان بہر طور پھر بھی باقی رہتا ہے
 
Top