سہرے کے پھول (قند مکرّر نویں سالگرہ کے لئے)

لاکھ سمجھایا کہ: مرزا اب تم پچاس سے اوپرہو، ماشاءاللہ آٹھ بچوں کے متفق علیہ باپ اور ایک عدد تندرست اور پائیدار بیوی کے باضابطہ شوہر بھی۔تو پھرآخر کیا سنک سمائی جو شادی کی جی میں آئی وہ بھی کمسن اور کنواری سےجبکہ تمہارے اپنے گھر میں جوان بیٹیاں ناکتخدا بیٹھی ہیں، چشمِ بد دُور۔ ان کے ہاتھ پیلے کرنے کی فکر کرو میاں، جن کا وقت ہے، اور تمہاری مذہبی اور سماجی ذمہ داری بھی ہے۔ ایک تم ہو کہ دولہا بننے کے شوق میں مرے جا رہے ہو، چلے ہو عقد ثالث کرنے! سبحان اللہ! سٹھیا گئے ہو کیا؟ بھئی سوچو! دنیا کیا کہے گی، بناوٹی بتیسی منہ میں ٹھونس، سفید بگلا سر خضابوں پتوا کرچلے ہو بیتی جوانی کو ڈھونڈنے اور عمر رفتہ کو آواز دینے۔ میری مانو تو اب عقبیٰ کی سوچو۔ نماز روزہ میں دل لگاؤ اور بھائی! حج کو چلے جاؤ ، جی بھی سنبھل جائے گا اور وہ جو فرض ہے تم پر، اس سے بھی عہدہ برآ ہو رہو گے۔ سہرے بارات باجے گاجے کی ہی دل کو لگی ہے تو لڑکوں کی شادی کر ڈالو، بہویں لاؤ ، چہل پہل ہو جائے گی ، گھر بھر دمک جائے گا ۔بس دیکھا کرنا ۔پوتے پوتیاں ہوں گے،کھلایا کرنا۔ اس عمر کی یہی دلچسپیاں ہوتی ہیں۔ خدار اِ س حماقت سے باز رہو۔یہ تمہارا سہرا سجانے اور دولہا بننے کا وقت نہیں ہے ، تمہارے بچوں کا ہے۔
مگر مرزا کہاں ماننے والے تھے ۔زہرخند ہوئے، پوپلے منہ کو کچھ اور پھُلا کر کہنے لگے ، ’’واہ ! ناصر میاں، واہ! ’’جن تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘۔ مجھے تو تم سے بہت امیدیں تھیں اور تم ہو کہ میرے دانتوں اور بالوں کی سفیدی کو بات بات میں اُچھالتے ہو، اعلانیہ میری جوانی کے دشمن ہوئے ہو ۔کبھی بچوں کو گنتے ہو ،کبھی بیوی کو، کوئی بات تو ڈھنگ کی کرو یار! لو، میں پوچھتا ہوں خدا نے انسان کو جنت بدر کیوں کیا دنیا بسانے کے لئے نا، اور تمہو کہ اس پر بھی ٹوک رہے ہو۔مداخلت فی الدین ہوئی یہ تو صریحاً۔ اور میری؟ میری تو محض تیسری شادی ہے، ابھی۔پہلی تم جانو، زچگی میں مر گئی، انا للہِ وانا اِلیہ راجعون، خدا بخشے۔ ووسری اللہ رکھے بھلی چنگی دِدکھتی ہے ، مگر کب تک چلے گی ؟ قلت خون کی مریضَہ ہے اور دل کی بھی۔ اُسے کچھ ہو گیا تو؟ آٹھ آٹھ بچے کون سنبھالے گا؟ اسی لئے سوچا ہے برے وقت سے پہلے ہی ایک اور شادی کر ڈالوں۔ جانے والی کے بچے آنے والی ماں سے مانوس ہو جائیں گے اور کوئی دقت نہیں ہو گی۔ اور ہاں چار دن میری خدمت کی سعادت اور کما لے گی۔ یہاں میرزا کھسیانی ہنسی ہنسے اور بات جاری رکھی۔
اور سنو! مجھے بوڑھا مت سمجھو۔ روز کسرت کرتا ہوں۔ ابھی رگ پٹھوں میں بہت دم ہے ، دانت تو نزلے سے گر گئے ، اسی کمبخت نے بال بھی سفید کر دئے۔ بال تو اجکل دس سال کے بچے کے بھی سفید ہو جاتے ہیں ، غذاجو خالص نہ ہوئی! نہ آٹا گھی ڈھنگ کا، نہ دودھ مکھن ۔بال سفید نہ ہوں تو کیا ہو؟ اور میاں بڑھاپا نام ہے آرزوں کی موت کا اور تمناؤں کے فقدان کا ۔ اس لئے تم نصحیتوں سے ہاتھ اٹھاؤ۔ نہ تو کار خیر میں روڑے اٹکاؤ اور نہ ہی مجھے تارکِ دنیا بناؤ ۔ اللہ کو تخریب پسند نہیں۔ گھر میں اللہ کا فضل ہے کھانے دانے کی کمی نہیں ، ایک نفر اور سہی ۔ ہم تو شادی ضرور کریں گے۔ ہم جان گئے کہ مرزا تُلے بیٹھے ہیں، اب نصیحت لاحاصل اور دلیل بیکار ہے۔ مرزا ہمیشہ سے دھن کے پکے تو تھے ہی ،سو، ہمیں خاموش ہوتے ہی بنی۔
اس ’’جوابِ جاہلاں باشد خموشی‘‘ کو مرزا نے”خاموشی نیم رضا“ جاناے اور چہک کر بولے: ای شاباش!یہ ہوئی نا بات، اب آئے ہو راہِ راست پر۔سن لو کہ سب انتظام تمہیں اور خان صاحب کو کرنے ہوں گے ۔کہہ دینا ان سے ، بس اب کچھ نہیں سنوں گا اور میر صاحب سہرا لکھیں گے ۔ سہرا ضرور ہو گا ۔ وہی پھڑکتا ہوا ”جوان دُولہا جوان سہرا“ والا جس کا مقطع تھا ”دولہا دلہن کے سر ہو شیر و شکر کا سہرا“ یہ ہوئی نا بات ! (پھر وہی کھسیانی ہنسی) سہرا باندھو گےبھی تم ہی ، سارا انتظام بھی تمہی کو کرنا ہو گا ۔ہم کچھ نہیں کرنے کے! دولہا میاں جوٹھہرے!۔ میرزا اپنی بات پر خود ہی کھل کر ہنسے۔
ہم تو چپکے ہو رہے تھے مگرخان صاحب، میر صاحب، شیخ جی، سبھی نے مرزا کو وقتاً فوقتاً ، اشاروں کنایوں میں بھی اور علی الجہر بھی سمجھایا مگر وہ مرزا ہی کیا جو مان کر دیتے ۔ جب یقین ہو گیا کہ مرزا یہ تیسرا عقدِ شرعی کر کے ہی چھوڑیں گے اور جب سب کچھ کھلی آنکھوں سے دیکھتے بھالتے ایک جگہ لڑکی والے بھی تیار ہو گئے مرزا کو رشتہ دینے پر ، تو سب اپنا سا منہ لے کر رہ گئے ۔گویا میدان مرزا کے ہاتھ رہا۔شادی کی تیاریاں زورو شور سے شروع ہو گئیں ۔بارات کی تیاریاں!؟ موٹرگاڑیوں ، پھولوں ہاروں، باجوں تاشوں، روشنیوں قندیلوں ، گولوں پٹاخوں کا وہ عالم تھا کہ ”دیکھا کرے کوئی“۔
سچ تو یہ ہے کہ مرزا ’’بہت ہیدولہا“ لگ رہے تھے (اس بہت ہی کو پطرس بخاری کی ’’بہت ہی‘‘ سے نہ ملایا جائے)۔ یاروں نے اپنے ہاتھ سے وہ میک اپ کرایا کہ سبحان اللہ ۔ کیا مجال جو بالوں میں سے ایک بھی سفید کھونٹی جھانک رہی ہو۔ ابٹنوں غازوں اور کریموں کے سینکڑوں قدیم و جدید نسخے مرزا خود ہی جانتے تھے جو انہوں نے اسی دن کے لئے رکھ چھوڑے تھے،۔ قدیم اور جدید کے اس امتزاج نے سچ مچ”جوان دولہا کے ساتھ جوان سہرا“ والی بات پیدا کر دی تھی۔
اصلی اور کاغذی ملے جلے پھولوں کا سہرا رُخِِ مرزا پر جھول رہا تھا اور سہروں کی روایتی اصطلاح کے مطابق رُخِ نوشہ کو چوم رہا تھا۔سہرے کی لڑیوں کی اوٹ سے رُخِ مرزا کی جلوہ پاشی اور حسنِ پنجاہ سالہ کی تجلی چھن چھن کردیکھنے والوں کو ”ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ“پر اُکسا رہی تھی۔ دیکھنے والے حیران تھے کہ یا مظہر العجائب ! یہ وہی اپنے اصلی اور خالص مرزا صاحب ہیں؟ کہیں بدل تو نہیں گئے!
بارات کی روانگی میں ابھی کچھ دیر تھی۔ خان صاحب بولے ”ہاں بھئی میر صاحب، کچھ وقت ہے!سہرا ہو جائے“۔میر صاحب نے جھک کر مرزا سے کچھ یوں اجازت طلب کی جیسے پٹھا اکھاڑے میں اترتے وقت استاد سے اِذن مانگتا ہے۔سٹیج پر پہنچے، مائک کی طرف بڑھے، اس کو یوں ہی ادھر ادھر ہلایا، حاضرین پر ایک نگاہِ غلط انداز ڈالی ، ذرا تن کر شیروانی کے بٹنوں پر ہاتھ پھیرا ، پھر دائیں جیب سے ایک کاغذ نکالا، داڑھی کو قدرے کھجلایا ، دولہا کو کھٹیمیٹھی نظروں سے گھورا ، کھنکارے ، مائکروفون کو چٹکی سے بجایا، اور کھنکتی ہوئی آواز میں گویا ہوئے ”حضرات سہرا عرض کرتا ہوں“۔
دیکھ کر نوشہ کا میک اپ ہنس دیے سہرے کے پھول
کھلکھلا کر مثل غنچہ گل ہوئے سہرے کے پھول
دیکھو قدرت کا تماشا آج سہرےمیں سجے
عقدِ ثالث کی گواہی کے لیے سہرے کے پھول
ایک بیوی سات بچے آٹھواں تخلیق میں
دشمن اتنے دوستوں کے ہو گئے سہرے کے پھول
بیوی بچے سب پریشاں دوست بھی حیران ہیں
پھول تھے جو قبر کےکیوں کر بنے سہرے کے پھول
سہرا باندھے ایک بڈھا شان سے ہنستا ہوا
ہیں لیکن پانی پانی شرم سےسہرے کے پھول
یہ تو سہرے کی ابتدا تھی مگر ۔۔۔ مرزا کی برداشت جواب دے گئی ، آداب نوشہی کو یکسربھلاکر، ایک ہی جھٹکے سے سہرا نوچ کر پھینک دیا اور بے تحاشا میر صاحب پر کوندے کی طرح لپکے۔میر صاحب بھی غافل نہیں تھے ۔ مائک چھوڑ، یہ جا وہ جا! شیخ جی نے حاضرین کو پھلانگ کر مرزا کو دبوچنا چاہا مگرکسی سے الجھ کر گرے، کسی کا تھپڑ ایسا کھایاکہ دوسرے کی نوبت ہی نہ آئی ۔ مرزا بری طرح ہانپنے لگے اور لگے اول فول بکنے۔ ”ارے تم سب ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہو، سب بدمعاش ہو، دوست کے پائجامے میں (جامے میں) دشمن ہو، سب گیدی ہو ، گیدی کے بچے ہو ، نالت (لعنت) ہے تم سب پر ، نالت ہے ایسی دوستی پر۔۔۔ ‘‘ الغرض جو منہ میں آیا بکتے رہے ۔ خانصاحب، میر صاحب، شیخ جی وغیرہ کا کہیں پتہ نہ تھا باقی دوست احباب بھی سٹک گئے ۔ ہم نے بھی فلاح اسی میں جانی کہ مرزا کے ہتھے نہ چڑھ جائیں ۔
اس ہنگامے کے نیتجے میں دو کام خیر کے ہو گئے ۔ایک تو یہ کہ ایک نوخیز دوشیزہ ، عقد ثالث کے آتش کدے میں ستی ہونے سے بچ گئی دوسرا یہ کہ مرزا نے پلٹ پلٹ کر عمر رفتہ کو آواز دینا چھوڑ دیا ، عطر سرمہ بسمہ کاجل ، مہندی پان ، قوام بیڑی، سگریٹ اور جوانی کے کایا کلپ والے نسخوں اور معجونوں کے اسراف سے ہمیشہ کے لئے نجات مل گئی ۔ خرچ اخراجات، گھر سے غیر حاضری ، بیوی بچوں سے بے توجہی ، گھریلو ذمہ داریوں سے پہلوتہی اور دروازے کھڑکیوں سے تاکا جھانکی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے جھگڑوں اور گھریلو تناؤ میں خاصا فرق آ گیا اور مرزا پھر سے بچوں کو شفقت کی اور بیوی کو شرارت کی نظر سے دیکھنے لگے۔
سنا ہے مرزا آج کل اپنے پہلوٹھی کے پوتے کے ساتھ کھیلا کرتے ہیں مگر بہو سے آنکھ نہیں ملا پاتے۔ یہ بھی بتانا ہو گا کہ کیوں؟ ہوا یوں تھا کہ وہی نوخیز دوشیزہ جو پچاس سال کے بھڑکتے ہوئے آتش کدے میں گرنے والی تھی، خوبیٔ قسمت سے مرزا کی بہو بن کر آ گئی۔ یہ انہونی آپ کے اس خادم المعروف سید شہزاد ناصر کی ایک گیدڑسنگھی کا کرشمہ ہے۔ خادم کے پاس کچھ اور گیدڑ سنگھیاں بھی ہیں، جن کا مذکور پھر کبھی سہی۔
 
دیکھئے ، ایک آدھ گیدڑ سنگھی اپنے لئے بچا رکھئے گا، خیر سے آپ بھی تو ابھی "جوان" ہیں! ہاں، سنگھی اور سنگی کا فرق ملحوظ رہے۔ نہیں تو ۔۔۔ سہرے کے پھول اور سہرے کے فول میں امتیاز مشکل ہو سکتا ہے۔
 
آخری تدوین:
Top