محمد یعقوب آسی
برگِ آوارہ کی تمثیل
(۱)
کوئی ابہام نہ رہ جائے سماعت کے لیے
بات کی جائے تو تصویر بنا دی جائے
نہ جانے کون سا لمحہ تھا جب میں نے خود کو امتحان میں ڈالنے کا فیصلہ کر لیا۔ علی مطہر اشعر کی شاعری پر بات کرنا برگِ آوارہ کی تمثیل سے بھی زیادہ مشکل ہے ۔ بہاروں کے سودائی تو بہت ہیں کہ برگ و گل سب کو اچھے لگتے ہیں ۔ خزاں سے پیار کرنے کا سلیقہ کم کم لوگوں کو آتا ہے ۔ اشعر صاحب کا نام ایسے ہی چیدہ چیدہ لوگوں میں شامل ہے ۔ زندگی خزاں اور بہار کا امتزاج ہے ، اسے قبول کرنا ہے تو کلی طور پر قبول کرنا ہے
جوان ہاتھ میں اشعر تھا اک ضعیف کا ہاتھ
خزاں بدست خرامِ بہار اچھا لگا
اشعر صاحب کی شاعری پر بات کرنا دراصل اپنا قد بڑ ھانے کی کوشش ہے ، جیسے لوہا پارس کو چھونے کی کوشش کرے کہ سونا ہو جائے ۔ میں نے اُن کے کلام کا مطالعہ شروع کیا تو محسوس ہوا کہ میرا فیصلہ (کہ اُن کی شاعری پربات کی جائے ) چاند کو گودلینے کا فیصلہ ہے ۔ سو، میں نے اُن کی ذات اور چند واقعات کو اِس تحریر میں شامل کر دیا ہے تا کہ میرے لیے بات کرنا کسی قدر آسان ہو سکے ۔
اشعر صاحب کی شاعری کا سب سے بڑ ا وصف راست گوئی ہے ۔ شوکتِ الفاظ ا ور شانِ معانی جو اُن کے کلام میں پائی جاتی ہے ، اُس کے پیچھے اُن کی پوری شخصیت پوری قوت کے ساتھ موجود ہے ۔ مناسب ہو گا اگر اُن کے فن کے ساتھ ساتھ اُن کی ذات اور زندگی کی باتیں بھی چلتی رہیں ۔ اشعر صاحب کا تعلق خانوادۂ سادات سے ہے اور فکر و عقیدت کا محور سبطِ رسول کی ذات ہے ۔ ان کے بزرگ ہندوستان کے علاقہ روہتک کے ایک قصبہ شکارپور میں رہتے تھے ۔ قیامِ پاکستان کے بعد ۱۹۵۱ء میں اشعر صاحب نے مہاجرت اختیار کی اور پاکستان آ گئے ۔ بعد ازاں اُن کے والد ۱۹۵۸ء میں یہاں آئے ، وہ عربی فارسی انگریزی اور اردو کے معروف عالم تھے ۔ رئیس امروہوی، نسیم امروہوی اور جون ایلیا اشعر صاحب کے سسرالی عزیزوں میں سے ہیں ۔ اشعر صاحب کو بچپن ہی سے شعر کا چسکا تھا، طبع موزوں تھی، سکول کے زمانے سے شعر کہنا شروع کیا۔ ایک گفتگو میں انھوں نے بتایا: ’ایک ہندو لڑ کا میرا ساتھی تھا، ایک مصرع وہ کہتا دوسرا میں کہتا اور یوں ہم شعر موزوں کیا کرتے تھے
عجیب بات ہے دورِ شباب میں اشعر
مصیبتوں کا زمانہ شباب پر آیا
یہ شعر انھوں نے ۱۹۵۵ء میں کہا (راقم کی تاریخ پیدائش ۱۹۵۳ء ہے )۔اپنے اس دور کے ہم جلیسوں کے نام یاد کرتے ہوئے اشعر صاحب نے بتایا: ’’ایک صفدر خان تھا، وہ پٹھان تھا، اس کا تعلق لکھنؤ سے تھا، اور ایک میں ۔ ہم اکٹھے رہتے ، گھنٹوں بحثیں ہوتیں ، موضوع کی کوئی قید نہ ہوتی، خوب خوب نکتہ آفرینیاں ہوتیں ، شعر کہے جاتے اور ایک دوسرے کے کلام پر ناقدانہ گفتگو ہوتی۔ تپش برنی، کمال کاسگنجوی اور شاہد نصیر کے ساتھ نشستیں ہوتیں ‘‘۔ انھوں نے بتایا کہ شاہد نصیر سے کسبِ فیض کرنے والوں میں احمد فراز، محسن احسان اور ناصر کاظمی شامل ہیں ۔
واہ چھاؤنی کا صنعتی ماحول اپنی نوعیت کا منفرد ماحول ہے ۔ یہاں تعلیمی سہولتیں کسی قدر بہتر ہونے کی وجہ سے شعور اور آگہی، جذبات اور احساسات کو جلا ملتی ہے ۔ بارش کا پانی تو ہر جگہ برستا ہے ، اب یہ مٹی پر منحصر ہے کہ وہ پھول اگاتی ہے یا جھاڑ جھنکاڑ۔ علی مطہر اشعر پر جب آگہی کی بارش ہوئی تو وہ رنگ برنگ پھول کھلے اور وہ خوشبو پھیلی کہ ایک زمانہ انھیں جان گیا۔ کلام کی در و بست، الفاظ کی نشست و برخاست، محاورے کا استعمال، تلمیح کی علامتی اور محسوساتی سطح، خیال کی گہرائی اور گیرائی، زیرک نگاہی، وقار اور تمکنت، شوکتِ لفظی، لہجے کی گھن گرج اور اعتماد، اور بے شمار ایسی خوبیاں ہیں جو قاری کو پہلی خواندگی میں اسیر بنالیتی ہیں ۔ علی مطہر اشعر کا لہجہ اور اسلوب بہت نمایاں ، بہت منفرد ہے ۔ ایک حمد میں ، مَیں چونک اٹھا ، مندرجہ ذیل دو شعرذوبحرین ہیں
چند لفظوں کے توسط سے بھلا کیسے لکھوں
میرے مالک میں تری حمد و ثنا کیسے لکھوں
وسعتِ ارض و سما کیا ہے بجز وہم و خیال
اور کچھ بھی ہے یہاں تیرے سوا کیسے لکھوں
یہ اشعار بحرِ رمل مثمن مقصور (فاعلاتن فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) پر بھی پورے اترتے ہیں اور بحر نمبر ۰ء۷۱۴ (فاعلن فاعلتن فاعلتن فاعلتن) پر بھی۔[حوالہ: ’’فاعلات‘‘ از محمد یعقوب آسی، مطبوعہ دوست ایسوسی ایٹس لا ہور ۱۹۹۳: صفحہ ۸۸]
نعت کہنا دو دھاری تلوار پر چلنے کے مترادف ہے ۔ اس میں جہاں ادب، احترام، خود سپردگی اور خلوص ضروری ہے وہیں یہ بھی لازم ہے کہ اُس ذاتِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کو جو اللہ کو بھی سب سے عزیز ہے ، اللہ کے مصداق نہ بنا دیا جائے اور
جب اُن کی ذاتِ گرامی پہ گفتگو کیجے
ادب ادب کی طرح ہو، یقیں یقیں کی طرح
علی مطہر اشعر کی نعت گوئی میں حُسنِ بیان بھی ہے اور وقار بھی، مگر اس خواہش کو کیا کہیے کہ جس ذاتِ بے مثال کی مدحت بیان کی جا رہی ہے اُس کی نسبت سے طرزِ بیان بھی اُتنا ہی بے مثال ہو، اشعر صاحب کو یوں بے چین کر دیتی ہے کہ وہ کہہ اٹھتے ہیں
کرتے تو رہے مدحتِ سرکارِ رسالت
ہم وضع نہ کر پائے مگر طرزِ بیاں اور
بیٹھے ہیں سرِ رہ گزرِ شہرِ مدینہ
منتظرِ اِذنِ سفر غم زدگاں اور
ملاحظہ فرمائیے کہ ترکیب سازی، الفاظ کی نشست اور معنویت کیا بر محل ہے ! محسوس ہوتا ہے کہ دل کے تار چھیڑ ے جا رہے ہیں اور فن کار کی ضرب ہے کہ وجود کا تار و پو جھنجھنا اٹھتا ہے ۔ اشعر صاحب کا تعلق خانوادۂ شبیر سے ہے اور اظہار کی دولت جو انھیں عطا ہوئی ہے ، خوب ہوئی ہے ۔ سانحۂ کربلا پر انھوں نے اتنا کچھ لکھا ہے کہ اس کے لیے ایک الگ کتاب کی ضرورت ہے ۔ اشعر صاحب کے بقول انیس اور دبیر اُن پر ’’وارد‘‘ ہوئے ہیں ۔ میں نے اُن کے ہاں خاص طور پر یہ محسوس کیا ہے کہ وہ اِس عظیم سانحے کی تفہیم زندگی کی اطلاقی سطح پر کرتے ہیں
دستورِ آگہی ہے ، وفا کا نصاب ہے
شبیر ایک لفظ نہیں ہے ، کتاب ہے
پھر سر اٹھا رہے ہیں یزیدانِ عصرِ نو
محسوس ہو رہی ہے ضرورت حسین کی
الغرض، حوالہ فکری ہو یا فنی، اشعر صاحب کے ہاں دونوں حوالوں سے خوبصورت شاعری ملتی ہے ۔ انھوں نے نظمیں بھی کہیں ، افسانے بھی لکھے مگر اُن کی شناخت میرے نزدیک ان کی غزل ہے ۔ اشعر صاحب کا تعلق محنت کش طبقے سے ہے ۔ وہ ایک عمر واہ کی اسلحہ ساز فیکٹری میں گزار آئے ۔ ایک تو صنعتی ماحول جس میں انسان بھی کل پرزہ بن جاتا ہے اور پھر اسلحہ سازی اور بارود سازی کا۔ ایسے میں ایک حساس شخص جو جسم و جاں کا رشتہ قائم رکھنے کے لیے شب و روز محنت کرتا ہے اُس کے محسوسات کیا ہوں گے ، اور اگر اسے قدرتِ اظہار بھی عطا ہوئی ہو تو اس کے الفاظ کس قدر فسوں سازی کریں گے ، یہ تب کھلتا ہے جب ہم ان کی غزل کا مطالعہ کرتے ہیں ۔
انھوں نے بتایا: ’’میں شعر کہا کرتا تھا۔ راز مراد آبادی یہاں آئے اور ’واہ کاریگر‘ جاری کیا تو مجھے افسانوں پر لگا دیا۔ میں نے کئی افسانے لکھے جو سب ’واہ کاریگر‘ میں شائع ہوئے ۔ میرے پاس ان کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔ میں نے کچھ تنقیدی مضامین بھی لکھے جو’نیرنگِ خیال‘ اور’ادبیات‘ میں شائع ہوئے ۔
واہ اور ٹیکسلا کے ادبی منظر نامے میں اشعر صاحب بہر طور نمایاں نظر آتے رہے ہیں ۔ فانوس، بزمِ رنگ و آہنگ، مجلسِ ادب، صریرِ خامہ (واہ چھاؤنی) اور حلقہ تخلیقِ ادب (ٹیکسلا) ، اِن سب تنظیموں سے منسلک رہے مگر انتظامی امور سے گریز اپنائے رکھا۔ کچھ عرصہ پہلے حلقہ تخلیقِ ادب نے اُن کے ساتھ شام منانے کا اہتمام کیا۔ انھیں گھر (لالہ زار کالونی)سے لانے لے جانے کی ذمہ داری جاوید اقبال نے لی۔ گاڑ ی لے کر اُن کے ہاں پہنچے توپتہ چلا اشعر صاحب کسی کام سے ٹیکسلا گئے ہیں ۔ اجلاس کے میزبانوں نے انھیں پا پیادہ ایچ ایم سی بس سٹاپ سے ایچ ایم سی سکول (مقامِ اجلاس) کو آتے دیکھا تو حیران ہوئے ۔ پوچھا آپ پیدل آ رہے ہیں ، آپ کو لینے تو گاڑ ی گئی ہوئی ہے ۔ کمال بے نیازی سے کہا: ’’بس، میں تو چلا آیا!‘‘
(۲)
دورانِ گفتگو اشعر صاحب نے کہا: ’’مشاعرہ ایک باقاعدہ انسٹی ٹیوشن ہے ۔ اور طرحی مشاعرے نے روایت کو زندہ رکھنے میں بہت اہم کردار ادا کیا ہے ‘‘۔ اشعر صاحب خود بھی جب سے شعر سے وابستہ ہوئے ، مشاعروں میں حصہ لیتے رہے ہیں ۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آج کے شعراء کیسا لکھ رہے ہیں (اشارہ گرو و نواح کے موجود شاعروں کی طرف تھا)۔ انھوں نے سب سے پہلے اختر عثمان کا نام لیا اور کہا: ’’اختر نے جدید شاعری کی ہے اور جدت اور روایت کو ساتھ ساتھ رکھا ہے ، رؤف امیر اپنے حوالے کی صحیح شاعری کر رہا ہے اور اپنی تاریخ بنا رہا ہے ۔ عرب میں مشاعرے کی ابتدا جنگ سے ہوئی۔ لوگ جمع ہوتے اور اپنے اپنے قبیلے کے جوانوں کی بہادری اور شجاعت کی داستانیں بیان کرتے ۔ دوسرے فریق کی ہجو کہتے ۔ بسا اوقات تلواریں کھنچ جاتیں ۔ شاید ہی کوئی عرب ہو جو سخن گو نہ ہو۔یونان اس میدان میں عرب سے بہت پیچھے تھا۔ غنائیہ یونان کی نہیں عرب کی سرزمین سے اٹھا ہے ۔ عرب کے لغوی معنی ہیں : بات کرنے والا، بولنے والا۔ اس طرح وہ غیر عربوں کو عجمی یعنی گونگا کہا کرتے ۔ ایران نے البتہ عرب تہذیب کو متاثر کیا ہے اور عربوں نے فارس کی زبان کو قبول بھی کیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ترکیب سازی میں عربی اور فارسی الفاظ باہم مستعمل ہیں ‘‘۔ اشعر صاحب ایسی قیمتی باتیں اکثر بتایا کرتے ہیں اور جدید تراکیب اس روانی سے استعمال کرتے ہیں کہ قاری کو حیران ہونے کا موقع بھی نہیں دیتے
وہ سال خوردہ صداؤں کی بازگشت میں تھی
سو ہم نے لوحِ سماعت کو پھر سے سادہ کیا
عجیب نقش بنائے تھے ریگِ صحرا نے
ہوا نے راہ نوردوں کو خوش لبادہ کیا
ہر ایک لفظ ہے تمثیلِ برگِ آوارہ
خزاں پسندیِ جاں ہے غزل سرائی میں بھی
اسیرِ خواہشِ تکمیلِ فن تو ہم بھی ہیں
مگر سلیقۂ کسبِ ہنر نہیں رکھتے
اُس کی ہر جنبشِ ابرو کی ضیافت کے لیے
اک طرف سلسلۂ شیشۂ پندار بھی ہو
جو کشتی کو ڈبونا چاہتے تھے
وہ خوش بختانِ ساحل ہو گئے ہیں
پھر ایک سلسلۂ فصلِ گل ہویدا ہوا
جب اُس نے خونِ کفِ پا سپردِ جادہ کیا
اشعر صاحب نے برصغیر میں اردو شاعری کے ارتقا کا مختصر جائزہ یوں بیان کیا ہے : ’’برصغیر کی موجودہ شاعری ان سلاطین کی مرہونِ منت ہے جو قصیدے لکھوایا کرتے تھے ۔ اَوَدھ کے نوابوں نے شعرا کی باقاعدہ کفالت کی اور وظائف مقرر کیے ۔ رثائی ادب پروان چڑ ھا۔ ہندوستان میں فارسی کے نفوذ کے ساتھ غزل بھی اردو شاعری میں داخل ہوئی۔ مشاعرہ وجود میں آیا۔ طرحی مشاعرہ نے ذوق کو جلا بخشی اور مسابقت کو ہوا دی۔ نتیجہ کے طور پر زبان و بیان، مضمون آفرینی، معاملہ بندی اور ہیئت کے نئے نئے تجربات سامنے آئے ۔ صرف غزل کی بات کریں تو بھی مشاہیر کے ہاں ایک ہی زمین میں بہت سی غزلیں ملتی ہیں ۔اور نئے ذائقے طرحی مشاعرے کی دین ہیں ۔‘‘ انھی تجربات کے تسلسل میں اشعر صاحب نے معروف زمینوں میں طبع آزمائی کی ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے
میرے پندارِ محبت نے سکھایا ہے مجھے
اپنی آنکھوں کے دریچوں میں سجانا دل کا
بدن تو تیرگی میں جذب ہو جانے کے عادی ہیں
مگر مانوس ہوتی ہے نظر آہستہ آہستہ
ہم سر گزشتِ دستِ تمنا لکھیں اگر
آسودگانِ کوے بُتاں کی خبر ملے
وہ سنگِ در بھی حلقۂ اہلِ ہَوَس میں ہے
ٹکرائیں صاحبانِ وفا اپنے سر کہاں
حالات ذاتی ہوں ، مقامی، ملکی یا بین الاقوامی، انسان کے افکار پر اثر انداز ہوا کرتے ہیں اور کسی حد تک تبدیلی بھی لاتے ہیں ۔ اہلِ قلم نے ہر زمانے میں اپنے منصب کا پاس رکھا ہے اور کڑ ے وقتوں میں بھی اپنے دور کی صحیح صحیح تصویر کشی کی ہے ۔ اشعر صاحب کے الفاظ میں ’’اگر آپ کسی دور کی تاریخ دیکھنا چاہیں تو اُس دور کی شاعری میں دیکھیں ‘‘۔ معاشرہ تبدیلیوں کا شکار ہوا۔ حکمرانوں کی مجرمانہ غفلت کا نتیجہ پورے برصغیر کے باشندوں کو یوں بھگتنا پڑ ا کہ انگریز، جو یہاں تاجر کے روپ میں آیا تھا حاکم بن بیٹھا۔ اہل قلم نے نئے حالات میں قوم کو نئی سوچ دی۔ موضوعات تبدیل ہوئے ، استعاروں اور علامات کی معنویت کو نئے زاویے ملے ۔ غلامی اور آزادی، انسان کی تذلیل و توقیر، عمل اور ردِ عمل کی شاعری ہونے لگی۔ گل و بلبل اور عارض و لب کی جگہ زندگی کے دیگر مسائل نے لے لی۔ نظیر اکبر آبادی، اکبر الہ آبادی، علامہ محمد اقبال اور الطاف حسین حالی کی شاعری میں اُس دور کے واقعات کا رد عمل نمایاں ہے ۔ تحریکِ پاکستان کے حوالے سے بھی یہی صادق آتا ہے ۔ پہلے پہل چند لوگ ہوا کرتے ہیں جو افکار کو نئی راہیں دکھاتے ہیں ۔ جیسے فیض نے ایک بار کہا کہ منفی سیاسی رویوں نے مثبت شاعری کو جنم دیا ہے ۔‘‘
۱شعر صاحب نے اقبال کے حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بھی سنایا: لکھنؤ میں مشاعرہ تھا۔ اقبال کو دعوت دی گئی اور ان کا ٹرین سے لکھنؤ جانا قرار پایا۔ منتظمین نے جن لوگوں کو استقبال کے لیے ریلوے سٹیشن بھیجا وہ اقبال کے صورت آشنا نہیں تھے ۔ انھوں نے اقبال کو شناخت تو کر لیا تاہم تصدیق کی غرض سے پوچھا: ’آپ ہی علامہ محمد اقبال ہیں ؟‘۔ اقبال نے کہا ’ہاں جی۔‘ ایک صاحب فوراً بولے :’جی ہاں ، آپ اقبال ہی ہیں ‘۔ اقبال چنداں حیران ہوئے ، پوچھا :’یہ کیا ماجرا ہے ؟ خود ہی سوال کرتے ہیں اور خود ہی جواب دیتے ہیں !‘۔ کہا گیا: ’ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ ہاں جی کہیں گے ، جی ہاں نہیں کہیں گے ‘۔
علی مطہر اشعر کے اشعار میں تاریخ کی جھلکیاں دیکھیے
پھر حلیفوں میں نہ گھِر جائے کہ نادان ہے وہ
اس نے حالات کو سمجھا کہ نہیں دیکھ تو لیں
میرا اک بچہ بھی مزدوری کے قابل ہو گیا
اس حوالے سے مرے حالات کچھ بہتر بھی ہیں
میرے اوقات بھی پابندِ سلاسل ہیں کہ اب
وقف رکھتا ہے انھیں شعبدہ گر اپنے لیے
تاریخ میں تو قوموں کے حالات ہوتے ہیں ۔ اشعر صاحب تو ایک انفرادی واقعے کو دیکھتے ہیں اور اسے شعر میں یوں ڈھالتے ہیں کہ ان کے جملہ محسوسات قاری تک پہنچ جاتے ہیں ۔ چند نمونے ملاحظہ ہوں
مقامِ فکر ہے سوزن بدست ماں کے لیے
رفو طلب ہے پسر کا لباسِ صد پارہ
گھر کے سب لوگ گراں گوش سمجھتے ہیں مجھے
سنتا رہتا ہوں بڑ ے غور سے سب کی باتیں
اپنے ماں باپ کی ہر بات بتاتا ہے مجھے
میرے کانوں میں وہ کرتا ہے غضب کی باتیں
وہ مری بات کبھی غور سے سنتا ہی نہیں
کیسے سمجھاؤں اُسے حدِّ ادب کی باتیں
علی مطہر اشعر کی زندگی پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے عیاں ہو جاتا ہے کہ وہ ایک عمر کانٹوں کی سیج پر گزار آئے ہیں ۔ کار زارِ حیات میں پیٹ بھرنے ، تن ڈھانپنے ، سر چھپانے کی کٹھن گھاٹیوں کے علاوہ عزتِ نفس اور احترامِ آدمیت کا حساس مسئلہ بھی ہے ۔ روپے کی چمک دمک اور مصنوعی زندگی کی چکا چوند کے اس دَور میں جہاں چہرے کی سلوٹوں سے زیادہ لباس کی سلوٹوں اور دلوں کی وسعتوں سے زیادہ طباقوں کی وسعت کو دیکھا جاتا ہے ، وہاں دلِ درد مند کا تڑ پ اٹھنا ناگزیر ہے ۔مثال کے طور پر اشعر صاحب کے یہ شعر دیکھیے
اک چھوٹے سے سیب کو کتنی قاشوں میں تقسیم کروں
کچھ بچوں کا باپ ہوں اشعر، کچھ بچوں کا تایا ہوں
اسے سمجھنے کی خواہش ہے سعیِ لا حاصل
وہ ایک غم جو مری ہر خوشی میں در آیا
پیرہن تبدیل کر لینا تو ممکن ہے مگر
اپنے چہرے سے نقوشِ مفلسی کیسے مٹائیں
ذرا سی بات تھی گھر سے دکان تک جانا
بڑ ا طویل سفر تھا کہ گھر تک آئے ہیں
کہا جاتا ہے کہ غربت تمام برائیوں کی جڑ ہے ۔ اس سے قطع نظر کہ یہ خیال کہاں تک درست ہے ، یہ ضرور ہے کہ جب دولت کو شرافت کا اورقوت کو اعتبار کا معیار سمجھا جانے لگے تو سوچیں بھٹک جایا کرتی ہیں ۔ انسان کے اندر فطرت کا قائم کردہ نیکی اور بدی، حق اور ناحق کو پرکھنے کا نظام خلفشار اور بے چینی کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اعتبار واہمہ بن جاتا ہے اور شرافت خود ایک سوالیہ نشان میں ڈھل جاتی ہے ۔ معاشرے کے حالات اور عمومی رویے جیسے بھی ہوں اقدار کا شہرِ آرزو بسا رہتا ہے اور معاشرے کا حقیقی نباض کچھ اس طرح کی باتیں کرتا ہے
مژدۂ خوبیِ تعبیر ملے گا کہ نہیں
دیکھیے خواب میں دیکھا ہوا کب دیکھتے ہیں
پہلے وہ بہاروں کے کچھ آثار بنا لے
پھر دام تہِ دامنِ آثار بنے گا
اب اس زمین کو نسبت ہے ایسی بیوہ سے
کہ جس غریب کے سارے پسر ہوں آوارہ
اے تیرگی ہم سے تو ترا عقد ہوا ہے
ظاہر ہے ہمیں چھوڑ کے تو کیسے چلی جائے
بات کرنے کی اجازت بھی ہے اِس شرط کے ساتھ
قصۂ تلخیِ حالات نہیں کہہ سکتے
ہم بھی ہجومِ بے بصراں میں شریک تھے
دستار اُس کے ہاتھ میں دی جس کا سر نہ تھا
تعمیرِ نو کی بات تھی توسیعِ قصر تک
موضوعِ گفتگو کسی مفلس کا گھر نہ تھا
میں نے پوچھا: ’آپ نے اتنی شاعری کی مگر ابھی تک کوئی کتاب نہیں لائے ۔ اس میں کیا مصلحت ہے ؟ مسکرا کر خاموش ہو گئے ۔ [’’تصویر بنا دی جائے ‘‘کے نام سے ان کا شعری مجموعہ دسمبر ۲۰۰۴ء میں منظرِ عام پر آیا]۔ پھر کہنے لگے : ’’میری شاعری میں فرق واقع ہوا ہے ۔ شاعر کا اپنا ایک پس منظر اور پیش منظر ہوتا ہے ، جس کے سحر سے وہ نکل نہیں پاتا۔ رؤف امیر اور اختر عثمان منفرد لہجہ رکھتے ہیں ‘‘۔ مجھے مخاطب کر کے کہا: ’’آپ نے عروض پر کام کیا ہے ۔ ’فاعلات‘ مجھے اس لیے اچھی لگی کہ جس طرح شاعری میں جدت آئی ہے ، اسی طرح علم عروض میں بھی ایک نیا پن آیا ہے ۔ ویسے عام مشاہدہ ہے کہ جو شخص عروضی شاعر ہو وہ موضوعات کے اعتبار سے اتنا مستحکم نہیں ہوتا۔ سرِ نوکِ خیال جو آئے کہہ ڈالیں ، بعد میں اس کی نوک پلک درست کرتے رہیں ۔ شاعری انسان کی فطرت میں شامل ہے ۔ ہر شخص شاعری کرتا ہے ۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس کی سطح کیا ہے ۔‘‘ اشعر صاحب کے بقول امان اللہ نے افسانوں میں شاعری کی ہے ۔ شاعری کی مقصدیت اور منصب کے حوالے سے انھوں نے کہا: ’’شاعری میں غم کا عنصر اسے چاشنی دیتا ہے اور فکری تحریک اسے آگے بڑ ھاتی ہے ۔ غم کے ساتھ اس کے تدارک کی فکر شاعری کو ایک مقصد دیتی ہے ‘‘
اس کوزۂ جاں کو سرِ مژگاں نہ تہی کر
کچھ خون کے قطرے کسی طوفاں کے لیے رکھ
اشعر جو فشارِ غمِ فردا سے بچا لے
ایسا کوئی نشتر بھی رگِ جاں کے لیے رکھ
(۳)
پھر کہیں اس کی جسامت کا تعین ہو گا
پہلے قطرے کو سمندر میں اترنے دیجے
شاعری میں دو باتیں بہت اہم ہوتی ہیں : (۱) شاعر نے کہا کیا ہے اور (۲) کس طرح کہا ہے ۔ پہلی بات شاعری کے موضوعات اور شاعر کی طرزِ فکر کو احاطہ کرتی ہے اور دوسری بات شاعر کے سلیقے اور اندازِ اظہار کو۔ سلیقہ اور انداز، جیسا کہ ان کے ناموں سے ظاہر ہے ، لگے بندھے الفاظ کی میکانکی نشست یا محاورات کے استعمالِ محض کا نام نہیں ہے بل کہ اس میں زبان کے جملہ عناصرِ ترکیبی اور علمِ بیان کی تمام جہتوں کا رچاؤ سامنے رکھتے ہوئے شاعری کا مطالعہ کیا جاتا ہے اور یہ دیکھا جاتا ہے کہ شاعر نے زبان و بیان کی چاشنی کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے موعودہ مضامین کو کس قدر حسن و خوبی سے شعر بند کیا ہے ۔اصنافِ شعر اور اس سے متعلقہ اصطلاحات کا لفظاً ذکر کیے بغیر ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ قلم کار کی علمی استعداد نے اسے کس قدر چابک دستی عطا کی ہے ، معنی آفرینی کے لیے وہ کون سے حربے استعمال کرتا ہے اور کس قدر سلیقے کے ساتھ۔ یہ سارا معاملہ چوں کہ ذوقِ لطیف سے تعلق رکھتا ہے لہٰذا اسے کسی لگے بندھے جملے میں بیان کرنا شاید ممکن نہیں ۔ احساسات، ضروری نہیں کہ لفظوں کی صورت میں بعینہ ادا ہو جائیں ۔ تاہم ترسیلِ احساس کی ممکنہ بلند سطح کو چھوتے ہوئے شاعرکیسی زبان استعمال کرتا ہے اور لطیف احساسات کو زبان کی لطافتوں سے کس طرح اور کس حد تک ہم آہنگ رکھتا ہے ، یہ اسلوب ہے ۔ عام زبان میں کہا جا سکتا ہے کہ اسلوب کے کچھ عناصر ترکیبی ہیں مثلاً زبان دانی اور لفظیات، ترکیب سازی، استعارے اور علامات، سوالیہ یا بیانیہ انداز، لف و نشر اور مراعات النظیر کی بندش، معنی آفرینی کے حربے ، صنائع اور بدائع کا برتاؤ، اور دیگر فنیات۔ مگر یہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی اس وقت تک اسلوب کا نام نہیں پا سکتے جب تک ہم شاعر کی ذات، اس کی پسندیدہ لفظیات اور ان کی نشست و برخاست کو شامل نہ کر لیں ۔ اس پورے پس منظر اور پیش منظر میں شاعر کی اپنی ترجیحات بھی شامل ہوتی ہیں اور نفسِ مضمون کے اعتبار سے لسانی تقاضے بھی۔ اب یہ شاعر پر منحصر ہے کہ وہ اس پوری صورتِ حال سے کس طرح عہدہ برآ ہوتا ہے ۔ علی مطہر اشعر کی غزلوں کے مطالعے سے یہ بات بڑ ی اچھی طرح سامنے آئی کہ وہ شعری حسن اور سلیقے کے محض قائل ہی نہیں بل کہ انھوں نے اس کو بڑ ی خوبی سے نبھایا ہے اور ساتھ ساتھ خود تنقیدی کے عمل کو بھی ہر سطح پر قائم رکھا ہے
یہ شغلِ شعر و سخن بھی عذاب ہے اشعر
خود اپنے خون میں اپنا قلم ڈبونا ہے
رنگوں سے نہ رکھیے کسی صورت کی توقع
وہ خون کا قطرہ ہے کہ شہکار بنے گا
کج کلا ہوں کو یہ توفیق کہاں ہے اشعر
جتنے اخلاص سے ہم اہل ہنر سوچتے ہیں
اشعر صاحب کے ہاں کچھ الفاظ اور تراکیب بڑ ے تواتر سے آئی ہیں اور بہت خوب آئی ہیں ۔ اس لیے ہم انھیں اشعر صاحب کے اسلوب کا حصہ کہہ سکتے ہیں
اشعر کہو بہشتِ بریں کتنی دور ہے
اس شہر آرزو کے ہیں دیوار و در کہاں
یہی بہت ہے سکونِ دل و نظر کے لیے
پسِ خیال سرِ شہرِ آرزو رہنا
کیا قباحت ہے جو ویران دریچوں میں چلیں
کیا یہی کوے بتاں ہے ، ذرا دیکھیں تو سہی
کیا قباحت ہے اگر شہر میں دریافت کریں
ہے کوئی اور بھی ہم سا کہ نہیں ، دیکھ تو لیں
یہ بات باعثِ حیرت بھی ہے فرشتوں میں
کہ آدمی نے ابھی حوصلہ نہیں ہارا
یہ بات باعثِ حیرت ہے ہم سفر کے لیے
کہ ہم ارادۂ ترکِ سفر نہیں رکھتے
اشعر صاحب نے خوب صورت فارسی تراکیب وضع کی ہیں اور انھیں اس چابک دستی ہے استعمال کیا ہے کہ ثقالت کا ذرا سا تاثر بھی پیدا نہیں ہونے دیا۔ دریدہ حال، زندہ دلانِ شب، غریبِرہ گزر، اندیشہ پسند، قصۂ تلخیِ اوقات، بامِ ہوس، اندیشۂ تخریبِ رگِ جاں ، غبارِ دشتِ طلب، اکتفا پسندیِ جاں ، ترتیبِ رسمِ غم، داستانِ عرصۂ جاں ، محوِ یاس، رہینِ خوے قناعت، ہجومِ نقشِ کفِ پا، عرصۂ گُل، گماں سرشت، حجلۂ شب۔ علاوہ ازیں انھوں نے اپنے اشعار میں عربی اور فارسی کے ایسے مفرد الفاظ بھی باندھے ہیں جو بالعموم کم کم دکھائی دیتے ہیں ۔ متذکرہ بالا تراکیب کو اشعار میں سلاست کے ساتھ باندھنا، ظاہر ہے ، بچوں کا کھیل نہیں ہے ۔ آج کے سہل پسند دور میں یہ نعرہ بڑ ی شد و مد کے ساتھ لگایا جا رہا ہے کہ اردو کو ’’فارسیت سے پاک‘‘ کیا جائے ، بھلے اس کے لیے ہندی اور انگریزی کے الفاظ ہی کیوں نہ لانے پڑ یں ۔ اس نعرے کے پیچھے کار فرما سیاسی مقاصد اور سازشوں سے قطع نظر اس وقت ہمارے پیش نظر حقیقت یہ ہے کہ اردو کا خمیر فارسی اور عربی سے اٹھا ہے ۔ یہ کل کی بات ہے کہ برصغیر پاک و ہند میں اردو کو مسلمانوں کی زبان ہونے کا طعنہ دیا جاتا تھا۔ منطقی طور پر یہ بات بالکل بجا ٹھہرتی ہے کہ جس حسن و خوبی سے فارسی اور عربی تراکیب اردو میں سما جاتی ہیں ، ہندی انگریزی بل کہ بعض علاقائی زبانوں کی تراکیب بھی اتنی نفاست سے نہیں آ سکتیں ۔ اشعر صاحب کے ہاں ایسی بظاہر بھاری بھرکم اور مشکل تراکیب اس قدر نرمی سے شاملِ کلام ہوتی ہیں کہ پڑ ھنے اور سننے والے کو لطف آ جاتا ہے
اک نقص یہ بھی تھا کہ سرِ جادۂ طلب
جتنے بھی رہ نورد تھے سب محوِ یاس تھے
میں اس کی دوسری دستک نہ سن سکا اشعر
رہینِ خوے قناعت تھا وہ گدائی میں بھی
وابستہ در و بام کی تعمیر سے اشعر
اندیشۂ تخریبِ رگِ جاں بھی بہت ہے
ساری شکایتوں کا ہدف میری ذات ہے
وہ محوِ گفتگو ہے بظاہر پسر کے ساتھ
پدر کی سوچ میں حائل ہوا تھا بے چارہ
کہ سرخ ہو گیا بچے کا زرد رخسارہ
ابھی نہ جاؤ خرابوں میں روشنی لے کر
دریدہ حال و پریشاں ہیں ، بے لباس ہیں لوگ
سہل ممتنع یا کلامِ بے ساختہ ایسے اشعار کو کہا جاتا ہے جو شعر کی جملہ پابندیوں کے اندر رہتے ہوئے نثر بل کہ ’بے ساختہ نثر‘ کے بہت قریب ہوں ۔ ایسے اشعار کی زبان سادہ، سہل اور رواں ہوتی ہے ۔ اشعر صاحب کے ہاں بھی ایسے اشعار بہت ملتے ہیں جن کو نثر کی صورت میں بھی یوں لکھا اور ادا کیا جا سکتا ہے کہ مفاہیم ذرہ بھر بھی متاثر نہیں ہوتے
ہم اپنا قد بڑ ھا کر کیا کریں گے
غنیمت ہے کہ پاؤں پر کھڑ ے ہیں
ہم میں اک شخص بھی ناواقفِ حالات نہیں
سب کے سب صاحبِ ادراک ہیں ، سب سوچتے ہیں
شبِ غم کی سحر ہونے سے پہلے
کوئی آنسو سرِ مژگاں نہ رکھنا
یہ بھی اک طرفہ تماشا ہے کہ اُس کی چاہ میں
اپنے کچھ بے لوث یاروں کو عدو کہنا پڑ ا
مجھ پہ اکثر خواب کا عالم بھی گزرا ہے
طوفانوں میں ساحل میرے ساتھ رہے ہیں
صرف اسی پر بس نہیں ۔ میری نظر میں اُ ن کے کتنے ہی ایسے مصرعے بھی آئے جو ادائی میں تو بے ساختہ پن رکھتے ہی ہیں ، معنوی سطح پر بھی اپنی جگہ مکمل مفہوم دیتے ہیں اور زبردست فکری گہرائی اور گیرائی کے حامل ہیں ۔ چند مصرعے نقل کرتا ہوں
ع خدا جانے ہمیں کیا ہو گیا ہے
ع اس کو یہ گماں تھا کہ مرے یار بہت ہیں
ع مسافر خواب میں گھر دیکھتا ہے
ع سمجھ لیجے سویرا ہو گیا ہے
ع مری اپنی کوئی حالت نہیں ہے
ع ہم برے سارا زمانہ اچھا
ع آنکھ یوں ہی تو نم نہیں ہوتی
ع یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا
انکسار اور خود سپردگی کا عنصر رومانی شاعری کا خاصہ ہے ۔ بسا اوقات ایسا ہو جاتا ہے کہ ایسے عالم میں شاعر عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی کے مضامین خلط ملط کر بیٹھتا ہے ۔ بعض مقامات پر وہ یا تو اپنی ذات کی مکمل نفی تک پہنچ جاتا ہے یا اظہار کا وقار مجروح کر بیٹھتا ہے ۔ اس سے شعر کی فکری سطح تو گرتی ہی ہے ، فنی طور پر بھی کمزوری در آتی ہے ۔ اشعر صاحب کے ہاں خود سپردگی اور انکسار میں بھی اپنی ذات کا ادراک اور عزتِ نفس کا احساس برابر قائم رہتا ہے اور عاشقی میں خود سپردگی اورخودداری کا ایسا حسین امتزاج بنتا ہے ، جس کا وصفِ خاص اعتدال ہے ۔ ملاحظہ فرمائیے
ہوا کی تاب کہاں لا سکیں گے ایسے پر
جو مل بھی جائیں کہیں سے بنے بنائے پر
کاسہ بدست گھر سے نکلتے ہی دفعتاً
اشعر خیالِ عزتِ سادات آ گیا
قد بڑ ھانے کے طریقے ہمیں تعلیم نہ کر
تو اگر حد سے گزرتا ہے گزر اپنے لیے
دیکھ اے قریۂ نو میری سلیقہ مندی
ایسے آباد ہوں جیسے کبھی اجڑ ا ہی نہ تھا
ہمیں کسی سے تغافل کا ڈر نہیں اشعر
کہ ہم قدم کسی دہلیز پر نہیں رکھتے
(۴)
اردو اور فارسی شاعری میں غزل کی اہمیت اور مقام کی بدولت اسے شاعری کا عطر بھی کہا جاتا ہے ۔ میرے نزدیک اس کی بڑ ی وجہ غزل میں اختصار کا عنصر ہے ۔ شاعر کو دو مصرعوں میں ایک مکمل مفہوم بیان کرنا ہوتا ہے ۔ دوسری بڑ ی وجہ غزل کا دھیماپن ہے ۔ وسیلۂ اظہار کے طور پر الفاظ کے چناؤ اور برتاؤمیں صوتی اور معنوی دونوں سطحوں پر زبان کی لطافت کو ملحوظ رکھنا ہوتا ہے ۔ یہاں یہ بیان کرنا دل چسپی سے خالی نہ ہو گا کہ بعض نقاد اب بھی غزل کے مستقبل کو مخدوش قرار دے رہے ہیں ۔ اُن کے نزدیک آج کے دور کے مسائل اس وقت سے کہیں مختلف ہیں جب غزل کو رواج ملا۔ انسانی زندگی کے عملی مسائل میں غم جاناں کے سوا اور بھی بے شمار غم ہیں ۔ آج کے دور کی بے چینی، عدم تحفظ، بھوک اور افلاس، خوف اور گھٹن، جنگ اور قحط، معاشرتی جبر وغیرہ کے سامنے لب و عارض اور گل و بلبل کی حکایات میں چنداں کشش نہیں رہی۔ منکرینِ غزل دوسری وجہ غزل کی ہیئت کو گردانتے ہیں کہ اس میں اوزان، ردائف، قوافی اور دیگر لوازمات کی پابندیاں اظہار کی راہ میں رکاوٹ بنتی ہیں ۔ میرے نزدیک یہ ایک غیر صحت مند رویہ ہے اور اس کا محرک سہل پسندی کے سوا کچھ نہیں ۔
اردو شاعری اپنا فطری سفرطے کرتے ہوئے جب ولی دکنی تک پہنچی تو اُس وقت تک غزل ایک مضبوط شعری صنف کے طور پر تسلیم کی جا چکی تھی۔ یاد رہے کہ بعض تحقیقاتی اختلافات کے باوجود قلی قطب شاہ، شاہ مراد اورولی دکنی کا دور اردو شاعری کی فنیات کا پہلا دور کہلاتا ہے ۔ تب سے اب تک غزل کی ہیئت میں کوئی قابلِ ذکر تبدیلی نہیں ہوئی۔ بہ ایں ہمہ، غزل ہر دور میں مستحکم رہی ہے ۔ نظم کی دیگر اصناف میں کتنی ہی نئی چیزیں آئیں ۔آزاد نظم کا تجربہ بڑ ی حد تک کامیاب رہا تو بات آزاد نظم سے بڑ ھتی ہوئی نام نہاد نثری نظم تک جا پہنچی جسے آج کل ’’نثم‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے ۔ غزل میں بھی ’آزاد غزل‘ کی اصطلاح کے پردے میں ابیات اور فردات کو غزل قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ عین ممکن ہے اگلے چند سالوں میں کوئی ’’نثری غزل‘‘ بھی سامنے آ جائے ۔بدیسی زبانوں کی بعض اصناف کو بعینہ ان کے اصل ناموں سے اردو میں رائج کرنے کی کوششیں اب بھی جاری ہیں ۔ ان میں ہائیکو اور سانیٹ نمایاں ہیں ۔ زمانہ شاہد ہے کہ ایسے تجربات اگرچہ وقتی طور پر بہت مقبول ہوتے دکھائی دیتے ہیں مگر اپنی ثقافتی بنیاد نہ ہونے کی وجہ سے دیرپا اور حقیقی قبولِ عام کبھی حاصل نہیں کر پاتے ۔ جیسے نثر لکھ کر شاعر کہلوانے کے شوق نے ’’نثری نظم‘‘ یا ’’نثم‘‘ کو جنم دیا، ویسے ہی غزل کہے بغیر غزل گو کہلوانے کی دُھن میں ابیات اور فردات کو ’’آزاد غزل‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے ۔ فنی اور فکری سطح پر ایسے انحطاط زدہ رویوں کے باوجود غزل نے اپنی اصلی روایتی صورت میں رہتے ہوئے ہر بدلتے زمانے کا نہ صرف ساتھ دیا ہے بل کہ خود کو تسلیم بھی کروایا ہے ۔ ہر دور کے مسائل کو غزل میں بڑ ی خوبصورتی سے نبھایا جا رہا ہے ۔ اور تو اور، جسے اینٹی غزل کا نام دیا گیا، وہ بھی تو غزل ہی کی مسخ شدہ صورت تھی۔
اصل میں فرق جدت اور جدیدیت کا ہے ۔ میرے نزدیک جدت روایت سے جنم لیتی ہے اور روایت کے ساتھ منسلک رہتے ہوئے اسے آگے بڑ ھاتی ہے ۔ یہ ایک فطری عمل ہے جس کا ایک عظیم ثبوت خود ہماری اردو زبان ہے جو در حقیقت جدت کی پیداوار ہے ۔ واضح رہے کہ روایت اور جمود میں فرق ہے ۔ جب ہم روایت کو بیک جنبشِ قلم رد کر دیں اور اس کے باوجود مصر رہیں کہ یہی روایت ہے تو بات بگڑ جاتی ہے ۔ مختصراً ہمیں یہ کہنا ہے کہ غزل اردو شاعری میں جدتوں کی روایت کا ایک خوب صورت مظہر ہے ۔ میں علی مطہر اشعر کا شمار ایسے شعرا میں کرتا ہوں جنھوں نے اپنی زریں روایات سے مضبوط تعلق قائم رکھتے ہوئے جدید تقاضوں کو نبھایا ہے اور تلخیِ ایام کی حکایت بیان کرتے ہوئے بھی غزل کی لطافت کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ انھوں نے افلاس اور غربت، غیر یقینی صورتِ حالات، خوف اور واہموں کی بہتات، انسانی اقدار کے انحطاط، معاشرتی سیاسی اور معاشی جبر، اور ایسے ہی بہت سارے مسائل کو غزل میں بیان کیا ہے جہاں لہجہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہو جایا کرتا ہے ۔ بہ ایں ہمہ اُن کی غزل میں چاشنی کم نہیں ہوئی۔
انسان بیک وقت دو قسم کی کیفیات سے دو چار ہے ؛ خارجی اور داخلی۔ خارجی کیفیات ایسے عوامل کی پیدا کردہ ہیں جو انسان کے ارد گرد پائے جاتے ہیں اور داخلی کیفیات انسان کے طرزِ فکر اور طرزِ احساس کا نتیجہ ہوتی ہیں ۔ بہ نظرِ غائر دیکھا جائے تو یہ دونوں عالم در اصل ایک دوسرے کا ردِ عمل بھی ہیں اور تکملہ بھی، اور دونوں کے باہمی تعلق میں انسان کی ذات اپنی پوری جزئیات کے ساتھ اہم اور بنیادی کردار ادا کرتی ہے ۔ اس طرح انسان کا داخل اس کے خارج پر اور خارج اس کے داخل پر اثر انداز ہوتا ہے ۔ اشعر صاحب کی غزلوں میں مضامین کے تنوع کے ساتھ ساتھ یہ بات بہت اہم ہے کہ انھوں نے انسان کے داخل اور خارج کے مابین ایک توازن کو ملحوظ رکھا ہے اور یہی حفظِ مراتب ان کے اسلوب کا نمایاں وصف ہے جسے ہم نے اعتدال کا نام دیا ہے ۔
سانحۂ کربلا انسانی تاریخ کا فقیدالمثال واقعہ ہے اور اس کی جس قدر تعبیرات کی گئی ہیں وہ سب انسانی زندگی کو احاطہ کرتی ہیں ۔ ایک طرف یہ حق اور باطل کی جنگ ہے تو دوسری طرف تسلیم و رضا اور جبر و استبداد کی چشمک ہے ۔ ایک طرف جان نثاری کی روشن مثالیں ہیں تو دوسری طرف پچھتاوے ہیں ۔ انسانی فطرت کی بو قلمونیوں کے علاوہ اس عظیم تاریخی واقعے میں جو سب سے نمایاں بات نظر آتی ہے وہ حق پر قربان ہو جانے کا جذبہ ہے ۔ ظلم کو بطور اصول کبھی تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اس طرح دریاے فرات کے کنارے لڑ ی جانے والی اس عدیم المثال جنگ میں بہنے والا لہو رہتی دنیا تک حق کی سرخ روئی کی دلیل رہے گا۔ اشعر صاحب کے خاندانی پس منظر میں بتایا جا چکا کہ ان کا تعلق اسی گھرانے سے ہے جس کے شیرخوار بچوں کے خون کی سرخی بھی اس سعیِ حاصل میں شامل ہے ۔ پھر، بچپن میں انیس اور دبیر کا مطالعہ ان کا معمول رہا۔ جون ایلیا اور رئیس امروہوی جیسے بزرگ ان کے اقربا میں شامل ہیں ۔ خود اشعرصاحب کو ادراک و اظہار کی جو دولت ملی اور لفظوں پر جو تصرف انھیں حاصل ہے ان تمام عوامل کو سامنے رکھیں تو بجا طور پر اُن سے یہ امید کی جانی چاہیے کہ انھوں نے سانحۂ کربلا کو انتہائی گہرائی میں نہ صرف محسوس کیا ہو گا بل کہ اپنے قاری اور سامع کو بھی اس میں شامل رکھا ہو گا۔ میرے پاس ان کا جو نمونۂ کلام موجود ہے اس میں حمد و نعت کے بعد یہ سب سے بڑ ا موضوع ہے ۔ اشعر صاحب نے اس سانحے کو محسوساتی اور اطلاقی دونوں سطحوں پر بھرپور عقیدت کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ صرف چند اشعار نقل کر رہا ہوں
اصطلاحاً یہی اک نام مناسب ہو گا
کربلا کیا ہے ، گلستانِ ابو طالب ہے
جا بجا دشتِ بلا خیز میں سادات کا خون
منتشر خونِ رگِ جانِ ابو طالب ہے
ہنوز طفل کھڑ ے ہیں اس اعتماد کے ساتھ
جو مَشک لے کے گیا ہے وہ آب لائے گا
اس کے لہو سے دینِ نبی سرخ رو ہوا
وہ اک دلیلِ عظمتِ خطمی مآب ہے
ممکن نہیں ہے ترکِ عزاداریِ حسین
ہم قرض جانتے ہیں محبت حسین کی
یہ کس کے نقشِ پا ہیں صبحِ عاشورہ سے محشر تک
ذرا سی دیر میں طے کر لیا یہ فاصلہ کس نے
یہ کس حق آشنا کی بازگشتِ سجدہ ریزی ہے
جنوں کو کر دیا پابندِ تسلیم و رضا کس نے
ابھی ممکن نہیں اشعر یہ امرِ مستند لکھنا
کہ کی ہے کربلا کے سانحے کی ابتدا کس نے
اشعر صاحب کو فطرت نے سوزِ فکر کے ساتھ سوزِ گلو سے بھی نوازا ہے اور کلامِ اشعر بہ زبانِ اشعر کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے ۔ انھوں نے مرثیے ، سوز، سلام، منقبت لکھے بھی خوب ہیں اور پڑ ھے بھی خوب ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی ہم دیکھتے ہیں کہ ان کی شاعری میں جا بجا کربلا کے حوالے کہیں جلی اور کہیں خفی انداز میں بھرپور توانائی اور اطلاقی روح کے ساتھ موجود ہیں
اشعر وہی جو آج ستم گر کے ساتھ ہیں
کل حسنِ اتفاق سے سب میرے پاس تھے
مرے لبوں کی نمی تھی کہ سعیِ لا حاصل
وہ ریگ زار سا چہرہ بہت ہی پیاسا تھا
مرنے کے باوجود جو زندہ دکھائی دے
مقتل میں کوئی ایسا بھی لاشہ دکھائی دے
ہر قطرۂ خوں منتظرِ اذنِ فغاں ہے
یہ قرضِ محبت ہے ادا ہو کے رہے گا
وہ بھی مجرم ہے کہ فریاد نہیں کی جس نے
اس کو نا کردہ گناہی کی سزا دی جائے
منزل شناس تھے جو گئے قتل گاہ تک
ہر مستقر پہ گھٹتے رہے کارواں کے لوگ