عبدالقیوم چوہدری
محفلین
میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ ،آزاد جموں و کشمیر کے ضلع میر پور میں 1830 میں پیدا ہوئے ۔ ان کے آباءواجداد جموں کے رہنے والے تھےجن کی قومیت پسوال گجر تھی۔ بعد میں یہ قبیلہ جہلم اور گجرات کے اضلاع میں نقل مکانی کرگیا ۔ میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے پردادا نے ضلع گجرات میں چک بہرام میں سکونت اختیار کی۔ اور پھر میرپور کے علاقے کھڑی شریف میں منتقل ہو گئے۔ میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے والد کا نام میاں شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ تھا . میاں محمد بخش کے خاندان کی چار نسلیں علاقے کے انتہائی قابل احترام صوفی بزرگ پیر ےشاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کےدربار سے منسلک رہیں۔ ان کے پردادا ( میاں دین محمد رحمۃ اللہ علیہ ) حضرت پیرے شاہ غازی رحمتہ اللہ علیہ کے خلیفہ اور بعد میں جانشین بنے ،میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کے دادا اور والد بھی اسی دربار عالیہ کے سجادہ نشین رہے ۔
میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے بڑے بھائی میاں بہاول بخش رحمۃ اللہ علیہ نے سموال شریف میں حافظ محمد علی کے مدرسہ سے حدیث کی تعلیم حاصل کی . انھیں فارسی اور عربی زبانوں پر کافی عبور حاصل تھا ۔ اپنی ابتدائی عمر سے ہی انہوں نے شاعری میں گہری دلچسپی کا اظہار کیا ۔ نورالدین عبدالرحمن جامی رحمۃ اللہ علیہ کی یوسف زلیخا کو پڑھنا ان کا خاص شوق تھا۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد وہ پیر غلام محمد رحمتہ اللہ علیہ کے شاگرد بن گئے ۔ انھی کی ہدایات پر انہوں نے سری نگر کا دورہ کیا اور صوفی بزرگ شیخ احمد ولی رحمۃ اللہ علیہ کےحلقہ ارادت میں شامل رہے۔ ان کے والد میاں شمس الدین رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی موت سے قبل میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ سے کہا کہ وہ اگلے سجادہ نشین ہوں لیکن میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ نے تجویز پیش کی کہ ان کے بھائی میاں بہاول بخش رحمۃ اللہ علیہ ( جو ان سے چند سال بڑے تھے) کو سجادہ نشین بنایا جائے ۔
اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے تقریباً 4 سال انھی کے کمرے میں سکونت اختیار کی۔ اس کے بعد انھوں نے مزار سے ملحق جگہ پر گھاس پھونس کی ایک حجرہ نماجھونپڑی بنائی اور 14 سال وہاں قیام کیا ۔ 1880 میں میاں بہاول بخش رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد دربار پیرے شاہ غازی کے سجادہ نشین بنے اور اپنی باقی تمام عمر کھڑی شریف میں ہی گزاری۔ میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال 31 جنوری 1907 کوہوا اور مزار کے احاطے میں ہی دفنایا گیا۔ میاں محمد بخش نے ساری عمر شادی نہیں کی ۔
اپنے والد کی وفات کے بعد آپ نے تقریباً 4 سال انھی کے کمرے میں سکونت اختیار کی۔ اس کے بعد انھوں نے مزار سے ملحق جگہ پر گھاس پھونس کی ایک حجرہ نماجھونپڑی بنائی اور 14 سال وہاں قیام کیا ۔ 1880 میں میاں بہاول بخش رحمۃ اللہ علیہ کے انتقال کے بعد دربار پیرے شاہ غازی کے سجادہ نشین بنے اور اپنی باقی تمام عمر کھڑی شریف میں ہی گزاری۔ میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کا انتقال 31 جنوری 1907 کوہوا اور مزار کے احاطے میں ہی دفنایا گیا۔ میاں محمد بخش نے ساری عمر شادی نہیں کی ۔
میاں محمد بخش رحمۃ اللہ علیہ کافی ساری کتابوں کے مصنف تھے۔ جن میں سوہنی ماہیوال، تحفہ میراں، قصہ شیخ سنان، نیرنگِ عشق، قصہ شاہ منصور المعروف منصور حلاج، شیریں فرہاد، تحفہ رسولیہ، گلزارِ فقر، سسی پنوں، مرزا صاحباں، ہدایتِ مسلمین، پنج گنج، تذکرہِ مقیمی، ہیر رانجھا اور سب سے مشہور سیف الملوک۔ جس کا نام انھوں نے خود سفر العشق رکھا تھا۔
میاں محمد بخش اپنے ہم عصر پنجابی کے تمام صوفی شاعروں میں سب سے زیادہ فارسی شاعری سے متاثر تھے جن میں رومی اور جامی قابل ذکر ہیں۔ انھوں نے سیف الملوک صرف 33 سال کی عمر میں مکمل کر لی تھی۔ سیف الملوک فارسی مثنویات کی طرز پر ہےاور اس میں 9270 اشعار اور 64 ابواب ہیں۔ اس کے تمام عنوانات فارسی میں ہیں۔
سیف الملوک ایک تخیلاتی کہانی ہے جس کا مرکزی کردار شہزادہ سیف الملوک بمعنی سلاطین کی تلوار ہے جو مصر کے بادشاہ عاصم بن صفوان کا بیٹا ہےاور ایک پری بدیع الجمال بمعنی خوبصورتی میں بے مثل جو شرستان کے بادشاہ شاہ پال کی بیٹی ہے کی تصویر کپڑے کے ایک ٹکڑے پر دیکھ کر اس پر عاشق ہو جاتا ہے ۔شہزادی شرستان میں واقع ایک باغ جس کا نام باغ ارم ہے میں رہتی ہے۔ تصویر کو دیکھنے کے بعد شہزادہ سیف الملوک، بدیع الجمال کی تلاش میں نکل کھڑا ہوتا ہے اور اس کا یہ سفر کم و بیش 14 سالوں پر محیط ہے۔
شہزادے کو سفر میں بے شمار انوکھے اور مخیر العقول واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں اس کا گزر کئی علاقوں سے ہوتا ہے جس میں انسانوں کو کھانے والے لوگوں کا دیس، بڑے بڑے پرندے جو انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں اور ایک ایسا ملک جس میں صرف خواتین ہیں، بندروں کی سلطنت، اور کوہ قاف کے پہاڑوں میں ایک جن کا ملنا اور اس کی قید میں موجود سراندیپ کی شہزادی ملکہ خاتون اور جن کی جان کا ایک ایسے طوطے میں بند ہونا جو ایک بکس میں قید ہے، شامل ہیں۔ جن اور ملکہ خاتون شہزادے سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ طوطے کو مار ڈالے اور ملکہ خاتون کو رہائی دلائے تو وہ دونوں اسے شہزادی بدیع الجمال تک پہنچا سکتے ہیں۔
شہزادے کو سفر میں بے شمار انوکھے اور مخیر العقول واقعات کا سامنا کرنا پڑتا ہے جس میں اس کا گزر کئی علاقوں سے ہوتا ہے جس میں انسانوں کو کھانے والے لوگوں کا دیس، بڑے بڑے پرندے جو انسانوں کو اٹھا لے جاتے ہیں اور ایک ایسا ملک جس میں صرف خواتین ہیں، بندروں کی سلطنت، اور کوہ قاف کے پہاڑوں میں ایک جن کا ملنا اور اس کی قید میں موجود سراندیپ کی شہزادی ملکہ خاتون اور جن کی جان کا ایک ایسے طوطے میں بند ہونا جو ایک بکس میں قید ہے، شامل ہیں۔ جن اور ملکہ خاتون شہزادے سے وعدہ کرتے ہیں کہ اگر وہ طوطے کو مار ڈالے اور ملکہ خاتون کو رہائی دلائے تو وہ دونوں اسے شہزادی بدیع الجمال تک پہنچا سکتے ہیں۔
مثنوی میں بے شمار باتوں کا احاطہ کیا گیا ہے، جس میں صوفی موضوعات کو بھی چھیڑا گیا، اور پڑھنے والوں کے لیے بھی بے شمار نصیحتیں کی گئی۔ مثال کے طور پر ایک جگہ میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ شہزادہ سیف الملوک روح ہے۔ بدیع الجمال کی تصویر محبت اور خلوص ہے، ملکہ خاتون دل ہے، جن جسم پر چڑھا خود ہے، طوطا خواس خمسہ ہے، اس کا بکس جہالت ہے اور باغ ارم جنت ہے۔ حیران کن طور پر میاں صاحب نے شہزادی بدیع الجمال کا ذکر ان بڑے بڑے کرداروں کے ساتھ نہیں کیا لیکن خوبصورت پیرائے میں اس کو محسوس بھی کروا دیا ہے۔
یہ خیال کیا جاتا ہے کہ سیف الملوک کا ماخذ داستان الف لیلی ہے۔ جو فارسی، اردو، سرائیکی، سندھی، پشتو، بنگلہ اور پنجابی سمیت کئی زبانوں میں لکھی گئی ہے۔ ان تمام زبانوں کی تصنیفات میں سب سے زیادہ مشہور اور مقبول سیف الملوک ہے۔ پنجاب کے شمالی اضلاع کے لوگ سیف الملوک بڑے ذوق اور شوق سے پڑھتے اور سنتے ہیں۔ اور اکثر علاقوں میں سیف الملوک کے سننے کی محفل کا باقاعدہ انعقاد کیا جاتا ہے۔ سیف الملوک کی ہی وجہ سے لوگوں کی ایک بہت بڑی اکثریت میاں محمد بخش رحمتہ اللہ علیہ سے خاص محبت اور انسیت رکھتی ہے۔
آخری تدوین: