الف نظامی
لائبریرین
ٹیکس قوانین کی خلاف ورزی کرنے والے ارکان پارلیمنٹ کے حوالے سے کوئی تبصرہ کیے بغیر الیکشن کمشنر کا کہنا تھا کہ فی الوقت انتخابات میں کم وقت رہ گیا ہے اور وقت پر الیکشن کرانا ہی الیکشن کمشن آف پاکستان کی اولین ترجیح ہے۔ "ریٹرن آف انکم" جمع کرانے کا لازمی قانون بنائے جانے کے باوجود 70 فیصد ارکان پارلیمنٹ( 437 میں سے 305) نے 2011ء میں ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور اس وجہ سے وہ قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوچکے ہیں۔
سینٹر فار دی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 67.3 فیصد ارکان پارلیمنٹ نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور یہ تعداد پیپلز پارٹی کے ریٹرن جمع نہ کرانے والے ارکان کی تعداد( 66.8 فیصد) سے زیادہ ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ 87.5 فیصد اے این پی کے ارکان کی ہے جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی قانون کی اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر ایف بی آر کے اعداد و شمار کی پڑتال کی جائے تو صوبائی اسمبلیوں کے ایسے سینکٹروں ارکان پارلیمنٹ بے نقاب ہو سکتے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
اگرچہ الیکشن کمشن آف پاکستان اس بارے میں کچھ نہیں کہتا کہ وہ قانون کی ایسی خلاف ورزی کرنے والے ارکان کو دوبارہ پارلیمنٹ / اسمبلی میں آنے سے روکے گا ؛لیکن آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ایسا ارتکاب کرنے والا شخص انتہائی مشکوک ہوجاتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 62 رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کی خواہش رکھنے والے کی اہلیت کے متعلق ہے کہ اسے ایماندار اور اچھی شہرت کا حامل شخص ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق سینکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ایسے ملیں گے جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور ایسے شخص کو کس طرح صادق اور امین قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب یہ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں وضع کردہ خصوصیات کے حامل شخص کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
بحوالہ
روزنامہ جنگ 6 فروری2013
کیا اب بھی کرپٹ انتخابی میں اصلاحات کا مطالبہ غلط ہے؟َ؟؟
سینٹر فار دی انوسٹی گیٹو رپورٹنگ ان پاکستان کی حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان مسلم لیگ (ن) کے 67.3 فیصد ارکان پارلیمنٹ نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرائے اور یہ تعداد پیپلز پارٹی کے ریٹرن جمع نہ کرانے والے ارکان کی تعداد( 66.8 فیصد) سے زیادہ ہے۔ اس معاملے میں سب سے زیادہ 87.5 فیصد اے این پی کے ارکان کی ہے جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ صوبائی اسمبلیوں میں بھی قانون کی اس خلاف ورزی کا ارتکاب کرنے والے ارکان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور اگر ایف بی آر کے اعداد و شمار کی پڑتال کی جائے تو صوبائی اسمبلیوں کے ایسے سینکٹروں ارکان پارلیمنٹ بے نقاب ہو سکتے ہیں جنہوں نے ٹیکس ریٹرن جمع نہیں کرایا۔
اگرچہ الیکشن کمشن آف پاکستان اس بارے میں کچھ نہیں کہتا کہ وہ قانون کی ایسی خلاف ورزی کرنے والے ارکان کو دوبارہ پارلیمنٹ / اسمبلی میں آنے سے روکے گا ؛لیکن آئین پاکستان کے آرٹیکل 62 کے تحت قومی یا صوبائی اسمبلی کے لیے ایسا ارتکاب کرنے والا شخص انتہائی مشکوک ہوجاتا ہے۔
آئین کا آرٹیکل 62 رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے کی خواہش رکھنے والے کی اہلیت کے متعلق ہے کہ اسے ایماندار اور اچھی شہرت کا حامل شخص ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایف بی آر کے ریکارڈ کے مطابق سینکڑوں ارکان قومی و صوبائی اسمبلی ایسے ملیں گے جنہوں نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے اور ایسے شخص کو کس طرح صادق اور امین قرار دیا جاسکتا ہے۔ اب یہ الیکشن کمشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ آئین میں وضع کردہ خصوصیات کے حامل شخص کی پارلیمنٹ اور اسمبلیوں تک رسائی کو یقینی بنانے کے لیے اقدامات کرے۔
بحوالہ
روزنامہ جنگ 6 فروری2013
کیا اب بھی کرپٹ انتخابی میں اصلاحات کا مطالبہ غلط ہے؟َ؟؟