شاعری سیکھیں (تیرھویں قسط) ۔ آپ بیتی

تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔

تیرھویں قسط:
محترم قارئین! پچھلی قسط میں ہم آپ کو اپنا شاعری سیکھنے کا قصہ سنارہے تھے، شروع میں جب ہم نے فارسی میں نعت لکھی تو ہمیں حوصلہ شکنی کا سامنا کرنا پڑا، جس کی وجہ سے ہم نے شاعری سیکھنے کا ارادہ ترک کردیا۔
پھر اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ ہمارے مدرسے میں ایک نئی کتاب شروع کردی گئی جو اس سے پہلے نصاب میں شامل نہیں تھی، اس کا نام تھا: ’’اردو کی پہلی کتاب‘‘، اس میں چھوٹے بچوں کو آسان انداز میں اردو سکھائی گئی ہے۔ ہم نے بھی ایک دن اس کا مطالعہ کیا، چوں کہ ہم فارسی کے طالب علم تھے، اس لیے وہ کتاب ہمیں بہت آسان لگی اور پھر جب اس کے آخری صفحات کا مطالعہ کیا تو ہماری حیرت اور خوشی کا کوئی ٹھکانا نہ رہا، کیوں کہ اس کتاب کے آخری چند صفحات میں اردو زبان میں آسان آسان نظمیں تھیں، ہمارے منہ سے بے ساختہ یہ جملہ نکلا:
’’ارے… شاعری تو اردو میں بھی کی جاسکتی ہے…!!‘‘
آج پھر کاغذ ، قلم تھا اور ہم… ایک اور نظم بننی شروع ہوگئی… مگر اس بار دو تبدیلیاں رونما ہوئیں… ایک تو نظم ہم نے اردو میں بنانی شروع کردی … دوسرے چوں کہ ہم نے اردو زبان میں حمد یعنی اللہ کی تعریف پر مشتمل نظم دیکھی تھی، اس لیے خود بھی حمد ہی لکھنے بیٹھے۔
بالآخر ایک پورا دن لگا کر ہم ایک عدد حمد بنانے میں کام یاب ہوہی گئے، جس کے ابتدائی اشعار کچھ یوں تھے:

’’یااللہ! یارحمان!
یا حنان! یا منان!

تو ہے ہم پر مہربان
تیری شان عالی شان

تو نے بنائے چاند سورج
تو نے بنائے زمین اور آسمان‘‘
پھر وہ حمد ہم اپنے استاد محترم کو دکھانے گئے اور بڑے فخر کے ساتھ ان کے سامنے وہ نظم پیش کی، مگر ا س بار بھی توقع کے بالکل برخلاف استاد صاحب نظم پڑھتے ہی فرمانے لگے:
’’بیٹا! میں نے آپ کو منع بھی کیا تھا کہ ان چیزوں میں ابھی نہ پڑیں، اپنی پڑھائی پر توجہ دیں، مگر پتا نہیں کیوں آپ کو ان چیزوں کا شوق ہوتا جارہا ہے… بیٹا! ابھی یہ آپ کے لیے بہت نقصان دہ ہے…‘‘ آگے بھی انھوں نے شاید بہت کچھ نصیحتیں کیں، مگر ہم کہیں اور کھو چکے تھے۔
گھر آکر ہم نے اپنی وہ نظم کمپیوٹر میں ٹائپ کی اور اس کا ایک پرنٹ نکال کر گھر میں اپنے کمرے کے دروازے پر چسپاں کردیا۔
اس دروازے سے ہماری حوصلہ افزائی کا باب کھلتا چلا گیا۔
ابتدا کچھ یوں ہوئی کہ پہلے تو سب گھر والوں نے تعریف کی، پھر اگلے دن ایک مہمان عمررسیدہ خاتون آئیں، انھوں نے بھی خوب سراہا، انھیں وہ نظم اتنی پسند آئی کہ نظم کا صفحہ دروازے سے اتار کر اپنے ساتھ لے کر چلتی بنیں، رات کو ہم گھر آئے تو یہ تکلیف دہ ، مگر حوصلہ افزا خبر سن کر ہکا بکا رہ گئے۔
ہم نے سوچا کہ اب تو شاعری کرنا ہمارے لیے اتنا مشکل نہیں رہا، لہٰذا وہی نظم ہم نے الفاظ کی کچھ تبدیلی کے ساتھ دوبارہ لکھ ڈالی، خاندان کے بیش تر افراد نے ہماری وہ نظم پسند کی، ہم بہت خوش ہوئے، پھر ہم نے چوہے اور بلی سے متعلق ایک طویل نظم لکھی، اسے بھی خوب پذیرائی ملی، ہمارا حوصلہ بڑھا تو ہم یکے بعد دیگرے کئی نظمیں مختلف موضوعات پر لکھتے چلے گئے، جس میں امی اور ابو کے مقام کے علاوہ اساتذہ کے احسانات پر بھی کئی اشعار لکھے، نظمیں مقبول ہوتی گئیں اور ہمارا شاعری کا شعلہ شہرت کی ہواؤں سے تیزہوتا چلا گیا۔
مگر تاحال ہمیں یہ نہیں معلوم تھا کہ شاعری میں وزن کا کیا مقام ہے، ہم تو بس اتنا جانتے تھے کہ قافیے کی رعایت کرتے ہوئے اندازے سے برابر برابر جملے لکھنے سے نظم وجود میں آجاتی ہے۔
پھر ایک دن ہمارے ایک ساتھی نے ہم سے ایک نظم بنانے کی فرمائش کی۔
’’کس موضوع پر بنانی ہے؟‘‘ ہم نے کمالِ سنجیدگی سے پوچھا۔
’’اپنے مدرسے کی تعریف میں۔‘‘ اس نے کہا۔
’’واہ…! یہ تو میں ضرور بنائوں گا، کس لے میں پڑھنی ہے؟‘‘ ہمارے اس سوال سے وہ ساتھی کافی مرعوب ہوگئے اور پھر وہ ایک نظم ایک مشہور لے میں پڑھ کرہمیں سنانے لگے، جس کے دو اشعار فی الحال ہماری یاد داشت میں محفوظ ہیں:

سنو دوستو! اب ہماری کہانی
کہانی ہے کیا ، اک نشانی پرانی

کہیں سیڑھیاں تھیں ، کہیں پُل بنے تھے
تو اس وقت مطبخ بھی بالکل بنے تھے
غرض کسی اور مدرسے سے متعلق بنائی گئی وہ نظم اس ساتھی نے ہمیں اپنی سریلی آواز میں ایک مخصوص لے کے ساتھ سنائی، وزن کا تو ہمیں کچھ پتا نہیں تھا، البتہ اس لے کو ہم نے حتی الامکان اپنے دماغ میں محفوظ کرلیا اور نظم بنانے کی ہامی بھرلی۔
وہ دن ہماری شاعری کا ترقی یافتہ دن تھا، کیوں کہ ہم ایک عدد فرمائشی نظم بنارہے تھے، سارا دن اس مخصوص طرز اور لے سے مذکورہ بالا نظم کو ہم گنگناتے رہے اور اسی کے مطابق اپنے مدرسے سے متعلق نظم بنانے کی کوشش کرتے رہے، ہماری اس کوشش کا بے وزن نتیجہ کچھ اس طرح نکلا:

یہ چمن کیا ہی خوب چمن ہے
یہ ہمارا اک علمی وطن ہے

ہمارے استاد مالی ہیں
ہم علم کے سوالی ہیں

نہیں مدرسہ کوئی اس جیسا
پیارا کتنا ، اچھا کیسا

دل ہمارا اس سے وابستہ
روح ہماری اس سے پیوستہ
کچھ اسی طرح کی بے وزن نظم مکمل کرکے ہم بڑے فخر سے اس ساتھی کے پاس گئے اور کاغذ پر لکھی اپنی اس نئی کاوش کو ان کی خدمت میں پیش کیا۔
’’بنا بھی لی؟!‘‘ انھوں نے حیرت سے دریافت کیا۔
’’جی۔‘‘ ہم نے ایک انجانی سی خوشی کے احساس کے ساتھ اثبات میں سرہلا۔
’’ٹھیک ہے، پھر میں اس کو پڑھنے کی مشق کرتا ہوں۔‘‘
’’اگر کہیں مشکل ہو تو مجھ سے پوچھ لینا۔‘‘ ہم نے کہا اور چل دیے۔
اسی دن اگلی ملاقات میں وہ ساتھی ہم سے کہنے لگے:
’’بھائی! اس نظم کو میں اس مخصوص طرز اور لے میں نہیں پڑھ پارہا۔‘‘
’’کیا بات کرتے ہو؟‘‘ ہمارے منہ سے نکلا۔پھر انھوں نے ہماری نظم ہمارے سامنے بھی پڑھنے کی کافی کوشش کی، مگر نہ پڑھ سکے، ہماری پیشانی پر شکنیں آگئیں، ہم سارا دن چیں بجبیں رہے کہ اس کی کیا وجہ ہوسکتی ہے؟ جب ہم اس نظم کو دل ہی دل میں پڑھتے ہیں تو ہمیں کوئی دقت محسوس نہیں ہوتی، پھر انھیں کیوں ہو رہی ہے؟
گھر آکر بھی ہم اسی پریشانی میں تھے کہ ہماری نظر اردو کی کسی کتاب پر پڑی، ہم بے دھیانی میں اس کی ورق گردانی کرنے لگے، ایک صفحے پر ہمیں ایک نظم نظر آئی، ہم بڑے غور سے اسے دیکھنے لگے، پھر کسی خیال کے تحت ہم نے وہ نظم ایک کاغذ پر لکھ لی اور اگلے دن اپنے اس ساتھی کو دکھا کر کہا کہ یہ نظم پڑھو، کیا یہ اسی طرز اور لے میں ہے؟ اس نے جب یہ نظم پڑھی تو خوش ہوکر کہنے لگا: ’’بھئی! یہ تو آرام سے اسی طرز پر پڑھی جارہی ہے۔‘‘ اب ہمارا ماتھا ٹھنکا اور دماغ کے کسی گوشے میں ایک خیال چپکے سے کوندا کہ یہاں کوئی ایسا راز ہے جس کی تہ تک ابھی ہماری رسائی نہیں ہوپائی ہے۔
ہمارے کئی دن اور کئی راتیں یہ سوچنے میں گزر گئیں کہ آخر وہ کون سا راز ہے جس سے ناواقفیت کی بنا پر ہم مطلوبہ طرز کی نظم نہیں بناپارہے، پھر مسلسل سوچنے کی برکت اور اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک رات ہمارے ذہن کے بند دریچے میں وزن کی روشنی درآمد ہوئی اور آہستہ آہستہ ہم غورکرتے اور سمجھتے گئے کہ یہ سارا متحرک اور ساکن کا کھیل ہے، یعنی ایک حرف متحرک اور اس کے بعد ایک حرف ساکن مل کر مکمل آواز بنتی ہے، جسے ہم اب ’’ہجائے بلند‘‘ یا ’’۲‘‘ کا نام دیتے ہیں اور اس کے علاوہ جتنے بھی حروف ہیں وہ ادھوری آوازیں ہیں جنھیں اب ہم ’’ہجائے کوتاہ‘‘ یا ’’۱‘‘ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔
الغرض اس آب بیتی کے سنانے کا مقصد یہ ہے کہ شاعری کے میدان کے نئے شہ سواروں کو گھبرانے کی چنداں ضرورت نہیں، ابتدا میں سب کے ساتھ اسی طرح ہوا کرتا ہے۔

کام:
1۔ یہ بتائیے کہ ان صاحب نے جو نظم ہمیں دکھائی تھی، وہ کس وزن پر تھی؟ اور ہم نے جو نظم بنائی اس کو ہمارا ساتھی مشہور طرز میں کیوں نہیں پڑھ سکا۔
2۔ کیا آپ کے شاعری سیکھنے کا محرِّک یہی سلسلہ ہے یا اس سے پہلے بھی آپ نے شاعری کی ہے تو اس کا محرِّک کیا بنا؟
3۔ اپنے مدرسے ، اسکول ، ادارے یا شہر کی تعریف میں پانچ اشعار پر مشتمل ایک چھوٹی سی نظم بحر متدارک میں بنائیے، یعنی اس کا وزن ’’فاعلن فاعلن فاعلن فاعلن‘‘ ہو۔

الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔

اگلی قسط
 
آخری تدوین:

ساقی۔

محفلین
بہت شکریہ محمد اسامہ سَرسَری بھائی ۔ بہت زبردست سلسلہ ہے ۔ میں نے تیرہ قسطوں پر مشتمل کتاب بنا لی ہے ۔ ہفتے میں ایک قسط کے حساب سے سیکھنے کا ارادہ ہے ۔

مزید کتنی اقساط باقی ہیں؟
 
آخری تدوین:
بہت شکریہ محمد اسامہ سَرسَری بھائی ۔ بہت زبردست سلسلہ ہے ۔ میں نے تیرہ قسطوں پر مشتمل کتاب بنا لی ہے ۔ ہفتے میں ایک قسط کے حساب سے سیکھنے کا ارادہ ہے ۔

مزید کتنی اقساط باقی ہیں؟
پسند فرمانے کا بہت شکریہ ساقی بھائی۔
کل بیس قسطوں کا ارادہ ہے۔
 

ساقی۔

محفلین
اس کا تین نمبر والا کام نہیں ہو رہا ۔اس لیے فی الوقت اس کے پہلو سے گزر جانا اچھا لگا۔:)
 
Top