محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
سولھویں قسط:
محترم قارئین! آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے…
ارے آپ تو پہلے ہی خوش ہوگئے…
واقعی ’’خوش خبری‘‘ کا لفظ ہی ایسی تاثیر رکھتا ہے کہ اگر آپ کسی سے کہیں کہ آپ اسے خوش خبری سنانے والے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے چہرے کا رنگ خوش خبری سننے سے پہلے ہی خوشی کی تصویر بن گیا ہوگا۔
مگر بہت معذرت کے ساتھ پہلے ہم سولھواں سبق پڑھ لیں، پھر اس کے بعد آپ کو وہ خوش خبری سنائیں گے، بل کہ پڑھائیں گے۔
پچھلی قسط میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ شعر الگ ہے اور شاعری الگ۔
جس کلام میں وزن اور قافیے کی رعایت کی جائے اسے شعر کہا جاتا ہے، گزشتہ پندرہ اقساط میں ہم نے قافیہ اور وزن ہی سیکھا ہے۔
اب آتے ہیں شاعری کی طرف۔
آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی کلام کے لیے ’’وزن‘‘ اور ’’قافیہ‘‘ ایک برتن کی سی حیثیت رکھتے ہیں، اس برتن کو حاصل کرنا بھی معمولی بات نہیں، اس کا اندازہ آپ پچھلی قسطوں سے لگا ہی چکے ہیں، مگر اس سب کے باوجود ابھی آپ کو محض ایک برتن حاصل ہوا ہے، اس برتن میں شاعر اپنے قارئین کے لیے کیا پیش کرتا ہے، یہ شاعر پر منحصر ہے۔
جو نئے نئے شاعر ہوتے ہیں چوں کہ ان کے لیے کلام کو وزن اور قافیے کے مطابق پیش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اس کوشش میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ اپنا کلام موزوں اور مقفی تو کردیتے ہیں، مگر وزن اور قافیے کے سحر میں اس قدر جکڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ زبان وکلام اور محاورات کی بہت سی غلطیوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خیال کو بھی مکمل طور بیان نہیں کرپاتے، یہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کا کلام سننے اور پڑھنے والوں کو خیال آفرینی کی لذت بالکل محسوس نہیں ہوتی۔ ایسے کلام کو ہم شعر تو کہہ سکتے ہیں، مگر اسے شاعری کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
شاعری کے اصلی اجزا دو ہیں:
1۔محاکات
2۔ تخییل
1۔ محاکات:
کسی چیز یا کسی حالت کو اس انداز سے بیان کرنا کہ سننے یا پڑھنے والے کے دماغ میں اس چیز یا حالت کی عمدہ سے عمدہ تصویر آجائے۔
تصویر ساز اور شاعر دونوں قلم سے تصویر بناتے ہیں، مگر تصویر ساز بہت سے احوال کی تصویر پیش کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اچھا موسم دکھانا ہو تو تصویر ساز اپنی تصویر میں پھول، درخت وغیرہ اس انداز میں خوش نما بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھنے والے کو تصویر میں اچھا موسم محسوس ہو، مگر شاعر کا کام اس سے بھی آگے کا ہے، ناصر کاظمی کا یہ شعر غور سے پڑھیں:
کیا کوئی تصویر ساز کاغذ پر ایسی تصویر بناسکتا ہے کہ دیواریں رو رہی ہوں، اداس ہوں، غمگین ہوں، اگر تصویر ساز دیوار پر دو آنکھیں بنادے اور ان سے آنسو نکلوا دے تو شاعر کی اداسی کا نقشہ محسوس ہونے کے بجائے وہ ایک مضحکہ خیز تصویر کہلائے گی۔
2۔تخییل:
یہ لفظ خیال سے مشتق ہے۔ ’’تخیل‘‘ اور ’’تخییل‘‘ میں لازم اور متعدی کا فرق ہے یعنی تخیل کے معنی ہیں خیال آنا اور تخییل کا مطلب ہے خیال لانا۔
شاعری کی اصطلاح میں تخییل اس قوت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے نظر نہ آنے والی اشیا یا وہ اشیا جو حواس کی کمی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتیں، انھیں خود محسوس کیا جائے یا دوسروں کو کروایا جائے۔
غالب کے اس شعر میں غور کیجیے:
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’محاکات‘‘ بھی ’’تخییل‘‘ کا ایک حصہ ہے، خیال آفرینی کے بغیر کوئی نقشہ کھینچنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے بھلا!
محاکات اور تخییل بہت تفصیل طلب موضوع ہیں، ہم نے کسی قدر دونوں کا خلاصہ پیش کردیا ہے، ان شاء اللہ آیندہ کسی قسط میں ہم ان تمام کتب کے نام بھی بتا دیں گے جن میں شاعری سے متعلق تمام باتیں آپ کو بالتفصیل مل جائیں گی۔
اب آتے ہیں خوش خبری کی طرف…
دیکھا، آپ کا چہرہ پھر خوشی کی تصویر بن گیا۔
خوش خبری یہ ہے کہ اب آپ بڑے ہوگئے ہیں، یعنی شاعری کے حوالے سے، اب ہم نے سوچا ہے کہ آپ کو باقاعدہ کام نہ دیا جائے، بل کہ اب آپ اس سلسلے کے تمام اسباق کی باتوں کو سامنے رکھ کر مکمل نظمیں یا غزلیں لکھیے اور ماہرین سے اصلاح لیتے رہیے۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
سولھویں قسط:
محترم قارئین! آپ کو ایک خوش خبری سنانی ہے…
ارے آپ تو پہلے ہی خوش ہوگئے…
واقعی ’’خوش خبری‘‘ کا لفظ ہی ایسی تاثیر رکھتا ہے کہ اگر آپ کسی سے کہیں کہ آپ اسے خوش خبری سنانے والے ہیں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کے چہرے کا رنگ خوش خبری سننے سے پہلے ہی خوشی کی تصویر بن گیا ہوگا۔
مگر بہت معذرت کے ساتھ پہلے ہم سولھواں سبق پڑھ لیں، پھر اس کے بعد آپ کو وہ خوش خبری سنائیں گے، بل کہ پڑھائیں گے۔
پچھلی قسط میں ہم نے ذکر کیا تھا کہ شعر الگ ہے اور شاعری الگ۔
جس کلام میں وزن اور قافیے کی رعایت کی جائے اسے شعر کہا جاتا ہے، گزشتہ پندرہ اقساط میں ہم نے قافیہ اور وزن ہی سیکھا ہے۔
اب آتے ہیں شاعری کی طرف۔
آسان لفظوں میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ کسی بھی کلام کے لیے ’’وزن‘‘ اور ’’قافیہ‘‘ ایک برتن کی سی حیثیت رکھتے ہیں، اس برتن کو حاصل کرنا بھی معمولی بات نہیں، اس کا اندازہ آپ پچھلی قسطوں سے لگا ہی چکے ہیں، مگر اس سب کے باوجود ابھی آپ کو محض ایک برتن حاصل ہوا ہے، اس برتن میں شاعر اپنے قارئین کے لیے کیا پیش کرتا ہے، یہ شاعر پر منحصر ہے۔
جو نئے نئے شاعر ہوتے ہیں چوں کہ ان کے لیے کلام کو وزن اور قافیے کے مطابق پیش کرنا بہت مشکل ہوتا ہے اس لیے وہ اس کوشش میں اتنے محو ہوتے ہیں کہ اپنا کلام موزوں اور مقفی تو کردیتے ہیں، مگر وزن اور قافیے کے سحر میں اس قدر جکڑے ہوئے ہوتے ہیں کہ زبان وکلام اور محاورات کی بہت سی غلطیوں کے ساتھ ساتھ وہ اپنے خیال کو بھی مکمل طور بیان نہیں کرپاتے، یہی وجہ ہوتی ہے کہ ان کا کلام سننے اور پڑھنے والوں کو خیال آفرینی کی لذت بالکل محسوس نہیں ہوتی۔ ایسے کلام کو ہم شعر تو کہہ سکتے ہیں، مگر اسے شاعری کہنا ٹھیک نہیں ہوگا۔
شاعری کے اصلی اجزا دو ہیں:
1۔محاکات
2۔ تخییل
1۔ محاکات:
کسی چیز یا کسی حالت کو اس انداز سے بیان کرنا کہ سننے یا پڑھنے والے کے دماغ میں اس چیز یا حالت کی عمدہ سے عمدہ تصویر آجائے۔
تصویر ساز اور شاعر دونوں قلم سے تصویر بناتے ہیں، مگر تصویر ساز بہت سے احوال کی تصویر پیش کرنے سے عاجز ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر اچھا موسم دکھانا ہو تو تصویر ساز اپنی تصویر میں پھول، درخت وغیرہ اس انداز میں خوش نما بنانے کی کوشش کرتا ہے کہ دیکھنے والے کو تصویر میں اچھا موسم محسوس ہو، مگر شاعر کا کام اس سے بھی آگے کا ہے، ناصر کاظمی کا یہ شعر غور سے پڑھیں:
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصر!
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
دیکھیے، یہ شعر پڑھ کر دماغ میں یہ تصویر سامنے آئی کہ ناصر صاحب بہت اداس ہیں اور اتنے اداس ہیں کہ ان کی اداسی کا اثر ان کے گھر کے در و دیوار پر بھی پڑ چکا ہے اور ان کے گھر کی دیواریں حد درجے اداس ہیں۔اداسی بال کھولے سو رہی ہے
کیا کوئی تصویر ساز کاغذ پر ایسی تصویر بناسکتا ہے کہ دیواریں رو رہی ہوں، اداس ہوں، غمگین ہوں، اگر تصویر ساز دیوار پر دو آنکھیں بنادے اور ان سے آنسو نکلوا دے تو شاعر کی اداسی کا نقشہ محسوس ہونے کے بجائے وہ ایک مضحکہ خیز تصویر کہلائے گی۔
2۔تخییل:
یہ لفظ خیال سے مشتق ہے۔ ’’تخیل‘‘ اور ’’تخییل‘‘ میں لازم اور متعدی کا فرق ہے یعنی تخیل کے معنی ہیں خیال آنا اور تخییل کا مطلب ہے خیال لانا۔
شاعری کی اصطلاح میں تخییل اس قوت کو کہتے ہیں جس کے ذریعے نظر نہ آنے والی اشیا یا وہ اشیا جو حواس کی کمی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتیں، انھیں خود محسوس کیا جائے یا دوسروں کو کروایا جائے۔
غالب کے اس شعر میں غور کیجیے:
ان کے دیکھے سے جو آجاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
یعنی دیکھنے والے نے تو شاعر کے چہرے پر رونق دیکھی، اس کے دل میں جو غم تھے، وہ دیکھنے والا اپنے حواس کی کمی کے باعث محسوس نہ کرسکا، اب شاعر اسے محسوس کروانے کے لیے بتا رہا ہے کہ دل اب بھی بیمار ہے، چہرے پر جو بظاہر رونق آگئی ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی نظرِ التفات حاصل ہورہی ہے۔وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ ’’محاکات‘‘ بھی ’’تخییل‘‘ کا ایک حصہ ہے، خیال آفرینی کے بغیر کوئی نقشہ کھینچنا کیسے ممکن ہوسکتا ہے بھلا!
محاکات اور تخییل بہت تفصیل طلب موضوع ہیں، ہم نے کسی قدر دونوں کا خلاصہ پیش کردیا ہے، ان شاء اللہ آیندہ کسی قسط میں ہم ان تمام کتب کے نام بھی بتا دیں گے جن میں شاعری سے متعلق تمام باتیں آپ کو بالتفصیل مل جائیں گی۔
اب آتے ہیں خوش خبری کی طرف…
دیکھا، آپ کا چہرہ پھر خوشی کی تصویر بن گیا۔
خوش خبری یہ ہے کہ اب آپ بڑے ہوگئے ہیں، یعنی شاعری کے حوالے سے، اب ہم نے سوچا ہے کہ آپ کو باقاعدہ کام نہ دیا جائے، بل کہ اب آپ اس سلسلے کے تمام اسباق کی باتوں کو سامنے رکھ کر مکمل نظمیں یا غزلیں لکھیے اور ماہرین سے اصلاح لیتے رہیے۔
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
آخری تدوین: