محمد اسامہ سَرسَری
لائبریرین
تمام قسطیں یہاں ملاحظہ فرمائیں۔
پندرھویں قسط:
محترم قارئین! آپ اس سلسلے کے ذریعے ’’شعر و شاعری‘‘ سیکھ رہے ہیں، مگر ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ شعراور شاعری دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
شعر تو ان دو مصرعوں کا نام ہے جن میں وزن اور قافیے کی رعایت کی گئی ہو۔ بالکل ابتدائی قسطوں میں قافیے سے متعلق ابتدائی معلومات اور ان کی مشق کروائی جاچکی ہے، اور وزن یہ ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں سے ہر ایک میں ہجائے بلند(۲) اور ہجائے کوتاہ(۱) برابر اور بالترتیب ہوں۔
البتہ شاعری شعر سے بھی آگے کی چیز کا نام ہے، مگر اس سے پہلے ہم پچھلی قسط میں بتائی جانے والی بات مکمل کرلیتے ہیں۔
یہ بتایا جارہا تھا کہ پانچ حرفی ارکان صرف دو ہیں: 1۔فاعلن 2۔فعولن۔
چھ حرفی کوئی رکن نہیں ہوتا۔
اور سات حرفی ارکان چھ ہیں جن میں سے ایک مَفَاعِیْلُن ہے۔
ہم نے ”مَفَاعِیْلُن“ اور ”مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن“ کی کئی مثالیں پیش کی تھیں۔
اب مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن (۲۲۲۱۔ ۲۲۲۱ ۔۲۲۲۱) کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ہمیں مکے میں جانے کی تمنا ہے…
2۔ مدینے کی زیارت کی بھی چاہت ہے…
3۔ خدایا ہم کو دے توفیق عمرے کی…
4۔ مفاعیلن کی مشقیں خوب آساں ہیں۔
مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن (۲۲۲۱۔ ۲۲۲۱ ۔۲۲۲۱۔ ۲۲۲۱) کی مثالیں:
1۔ یہ شوقِ شاعری کا سلسلہ ہے کس قدَر عمدہ…
2۔ ہمیں اس نے سکھایا عمدہ شعروشاعری کرنا…
3۔ یہ بحریں خوب آسانی سے آتی ہیں سمجھ میں سب…
4۔ ذرا سی مشق کرنے سے روانی آگئی بے حد۔
وہ بحر جس میں صرف مَفَاعِیْلُن کے ارکان ہوں انھیں ’’بحر ہزج‘‘ کہتے ہیں، جس بحر میں مَفَاعِیْلُن چاربار ہو وہ شعرا کے نزدیک پسندیدہ بحر شمار ہوتی ہے اور اس بحر کے مطابق تقریبا ہر شاعر نے نظمیں اور غزلیں لکھی ہیں۔
چند مشہور شعرا کے اس وزن کے مطابق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
1۔ مرزا اسد اللہ خان غالب:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان ، لیکن پھر بھی کم نکلے
2۔ احمد فراز:
دلوں میں فرق آئیں گے ، تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا ، جو سنا اس سے مکر جائوں تو بہتر ہے
3۔ علامہ اقبال:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے ، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
4۔ بہادر شاہ ظفر:
ظفر کو منزلِ مقصود پر تقدیر لے پہنچی
کدھر بھٹکی ہوئی سی عقل بے تدبیر پھرتی ہے
5۔ قتیل شفائی:
قتیل! آئینہ بن جائو زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری الہام تک پہنچے
6۔ جوش ملیح آبادی:
مری اچھائیوں کا ذکر کرنے سے ذرا پہلے
مجھے کچھ پیار کے لہجے میں تھوڑا سا برا کہنا
7۔ عبدالحفیظ جالندھری:
تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کرجائوں
اگر کچھ ہوسکے تو خدمتِ اسلام کرجائوں
محترم قارئین! آپ بھی ان شعرا کی طرح اس وزن کے مطابق شعر کہہ سکتے ہیں، بس ذرا سی مشق کی ضرورت ہے، آدھی مشق الحمدللہ آپ پچھلی قسط میں کرچکے ہوں گے، ان شاء اللہ مزید مشق اس ماہ کے کام کرنے سے ہوجائے گی۔
شروع میں ہم نے بتایا تھا کہ شعر اور شاعری ایک نہیں، بل کہ الگ الگ چیزیں ہیں، شعر تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ کلام ہوتا ہے جس میں وزن اور قافیے کی رعایت کی گئی ہو، اسے عروض بھی کہتے ہیں، بعض لوگ اسے سیکھے بغیر بھی موزوں طبع ہوتے ہیں، مگر ان کے لیے بھی عروض کے قواعد سیکھنا از حد ضروری ہے اور جو لوگ موزوں طبع نہیں ہوتے ان کے لیے تو ظاہر سی بات ہے اسے سکھے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔
البتہ شاعری اس سے بھی ذرا آگے کی چیز ہے۔
فرض کریں کہ آپ نے وزن اور قافیہ سازی میں مہارت حاصل کرلی، بل کہ فرض کرنے کی ضرورت نہیں، آپ تو ماشاء اللہ وزن اور قافیے سے اچھی خاصی واقفیت رکھنے لگے ہیں، مگر اس کا فائدہ محض اتنا ہے کہ آپ کسی بھی بات کو ایسے الفاظ کی شکل دینے پر قادر ہوچکے ہیں جو شعر اور عروض کے قواعد کے مطابق ہیں۔
شعر کے اندر اپنی باتیں پیش کرنے کے لیے ہم دو انداز اختیار کرسکتے ہیں:
1۔ محاکات
2۔ تخییل
ان دونوں کی عمدگی کو شاعری کا نام دیا جاتا ہے، ان کی کچھ تفصیل ان شاء اللہ اگلی قسط میں تحریر کی جائے گی۔
کام:
1۔ مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن کے وزن کی پانچ مثالیں لکھیں۔
2۔ مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن کے وزن کی پانچ مثالیں لکھیں۔
3۔ کسی بھی ایک شاعر یا مختلف شعرا کے دس ایسے اشعار تلاش کرکے لکھیں جو بحرِ ہزج میں ہوں، یعنی ان کا وزن ہو:
’’ مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن ‘‘
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
پندرھویں قسط:
محترم قارئین! آپ اس سلسلے کے ذریعے ’’شعر و شاعری‘‘ سیکھ رہے ہیں، مگر ہمیشہ یاد رکھیے گا کہ شعراور شاعری دو الگ الگ چیزیں ہیں۔
شعر تو ان دو مصرعوں کا نام ہے جن میں وزن اور قافیے کی رعایت کی گئی ہو۔ بالکل ابتدائی قسطوں میں قافیے سے متعلق ابتدائی معلومات اور ان کی مشق کروائی جاچکی ہے، اور وزن یہ ہے کہ شعر کے دونوں مصرعوں میں سے ہر ایک میں ہجائے بلند(۲) اور ہجائے کوتاہ(۱) برابر اور بالترتیب ہوں۔
البتہ شاعری شعر سے بھی آگے کی چیز کا نام ہے، مگر اس سے پہلے ہم پچھلی قسط میں بتائی جانے والی بات مکمل کرلیتے ہیں۔
یہ بتایا جارہا تھا کہ پانچ حرفی ارکان صرف دو ہیں: 1۔فاعلن 2۔فعولن۔
چھ حرفی کوئی رکن نہیں ہوتا۔
اور سات حرفی ارکان چھ ہیں جن میں سے ایک مَفَاعِیْلُن ہے۔
ہم نے ”مَفَاعِیْلُن“ اور ”مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن“ کی کئی مثالیں پیش کی تھیں۔
اب مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن (۲۲۲۱۔ ۲۲۲۱ ۔۲۲۲۱) کی مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
1۔ ہمیں مکے میں جانے کی تمنا ہے…
2۔ مدینے کی زیارت کی بھی چاہت ہے…
3۔ خدایا ہم کو دے توفیق عمرے کی…
4۔ مفاعیلن کی مشقیں خوب آساں ہیں۔
مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن (۲۲۲۱۔ ۲۲۲۱ ۔۲۲۲۱۔ ۲۲۲۱) کی مثالیں:
1۔ یہ شوقِ شاعری کا سلسلہ ہے کس قدَر عمدہ…
2۔ ہمیں اس نے سکھایا عمدہ شعروشاعری کرنا…
3۔ یہ بحریں خوب آسانی سے آتی ہیں سمجھ میں سب…
4۔ ذرا سی مشق کرنے سے روانی آگئی بے حد۔
وہ بحر جس میں صرف مَفَاعِیْلُن کے ارکان ہوں انھیں ’’بحر ہزج‘‘ کہتے ہیں، جس بحر میں مَفَاعِیْلُن چاربار ہو وہ شعرا کے نزدیک پسندیدہ بحر شمار ہوتی ہے اور اس بحر کے مطابق تقریبا ہر شاعر نے نظمیں اور غزلیں لکھی ہیں۔
چند مشہور شعرا کے اس وزن کے مطابق اشعار ملاحظہ فرمائیں:
1۔ مرزا اسد اللہ خان غالب:
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان ، لیکن پھر بھی کم نکلے
2۔ احمد فراز:
دلوں میں فرق آئیں گے ، تعلق ٹوٹ جائیں گے
جو دیکھا ، جو سنا اس سے مکر جائوں تو بہتر ہے
3۔ علامہ اقبال:
نہیں تیرا نشیمن قصرِ سلطانی کے گنبد پر
تو شاہیں ہے ، بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں میں
4۔ بہادر شاہ ظفر:
ظفر کو منزلِ مقصود پر تقدیر لے پہنچی
کدھر بھٹکی ہوئی سی عقل بے تدبیر پھرتی ہے
5۔ قتیل شفائی:
قتیل! آئینہ بن جائو زمانے میں محبت کا
اگر تم چاہتے ہو شاعری الہام تک پہنچے
6۔ جوش ملیح آبادی:
مری اچھائیوں کا ذکر کرنے سے ذرا پہلے
مجھے کچھ پیار کے لہجے میں تھوڑا سا برا کہنا
7۔ عبدالحفیظ جالندھری:
تمنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی کام کرجائوں
اگر کچھ ہوسکے تو خدمتِ اسلام کرجائوں
محترم قارئین! آپ بھی ان شعرا کی طرح اس وزن کے مطابق شعر کہہ سکتے ہیں، بس ذرا سی مشق کی ضرورت ہے، آدھی مشق الحمدللہ آپ پچھلی قسط میں کرچکے ہوں گے، ان شاء اللہ مزید مشق اس ماہ کے کام کرنے سے ہوجائے گی۔
شروع میں ہم نے بتایا تھا کہ شعر اور شاعری ایک نہیں، بل کہ الگ الگ چیزیں ہیں، شعر تو آپ سمجھ گئے ہوں گے کہ وہ کلام ہوتا ہے جس میں وزن اور قافیے کی رعایت کی گئی ہو، اسے عروض بھی کہتے ہیں، بعض لوگ اسے سیکھے بغیر بھی موزوں طبع ہوتے ہیں، مگر ان کے لیے بھی عروض کے قواعد سیکھنا از حد ضروری ہے اور جو لوگ موزوں طبع نہیں ہوتے ان کے لیے تو ظاہر سی بات ہے اسے سکھے بغیر چارہ ہی نہیں ہے۔
البتہ شاعری اس سے بھی ذرا آگے کی چیز ہے۔
فرض کریں کہ آپ نے وزن اور قافیہ سازی میں مہارت حاصل کرلی، بل کہ فرض کرنے کی ضرورت نہیں، آپ تو ماشاء اللہ وزن اور قافیے سے اچھی خاصی واقفیت رکھنے لگے ہیں، مگر اس کا فائدہ محض اتنا ہے کہ آپ کسی بھی بات کو ایسے الفاظ کی شکل دینے پر قادر ہوچکے ہیں جو شعر اور عروض کے قواعد کے مطابق ہیں۔
شعر کے اندر اپنی باتیں پیش کرنے کے لیے ہم دو انداز اختیار کرسکتے ہیں:
1۔ محاکات
2۔ تخییل
ان دونوں کی عمدگی کو شاعری کا نام دیا جاتا ہے، ان کی کچھ تفصیل ان شاء اللہ اگلی قسط میں تحریر کی جائے گی۔
کام:
1۔ مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن کے وزن کی پانچ مثالیں لکھیں۔
2۔ مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن کے وزن کی پانچ مثالیں لکھیں۔
3۔ کسی بھی ایک شاعر یا مختلف شعرا کے دس ایسے اشعار تلاش کرکے لکھیں جو بحرِ ہزج میں ہوں، یعنی ان کا وزن ہو:
’’ مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن مَفَاعِیْلُن ‘‘
الحمدللہ بندۂ ناچیز کی کتاب "آؤ ، شاعری سیکھیں" کتابی شکل میں شائع ہوگئی ہے۔
اگلی قسط
آخری تدوین: