زرقا مفتی
محفلین
میرے شوہر کو شکایت ہے کہ میں بہت شور مچاتی ہوں مگر مجھے اس پر قطعاً ندامت نہیں ہوتی اور نہ ہی میں اپنی اصلاح کی کوشش کرتی ہوں۔ اب اس کی کیا وضاحت پیش کروں چلئے ایک فرسودہ سی وضاحت پیش کرتی ہوں۔
برسوں پہلے میں نے خود کو گُم کر دیا تھا تب سے خود فراموشی کے عالم میں جی رہی ہوں اس لئے غیر ارادی طور پر روزانہ شورمچاتی ہوں تاکہ دوسروں کو میرےہونے کا احساس رہے۔
آپ بھی کہیں گے کیسی فضول وضاحت ہے چلئے میں کچھ عملی بہانے گھڑتی ہوں
صبح سویرے میرے دونوں بیٹے سکول کالج جانے کے لئے خود بخود نہیں اُٹھتے۔ حالانکہ بڑا بیٹا اپنے موبائل پر الارم لگا کر سوتا ہے اور چھوٹے کو میرے شوہر مسجد سے آکر جگاتے ہیں مگر وہ اُس وقت تک بسترسے باہر نہیں نکلتے جبتک میں اوپر جا کر شورنہ مچاؤں۔ میرے بڑے بیٹے کو شکوہ ہے کہ میں اُسے آواز نہیں دیتی اور چھوٹے کو مسلسل پکارے جاتی ہوں اس لئے وہ بستر سے نہیں نکلتا۔ میں اُسے اس لئے آواز نہیں دیتی کہ مجھے معلوم ہے وہ میرے اوپر پہنچنے سے پہلے ہی بیدار ہو چکا ہوتا ہے۔ چھوٹا بیٹا جو کافی دُبلا پتلا ہے سکول کے لئے تیار ہونے میں ایک گھنٹہ لیتا ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں وہ اپنا چھوٹا سا منہ دھونے میں اتنی دیر کیوں لگاتا ہے۔ مجھے ہر روز یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اُسے سکول سے دیر نہ ہوجائے اس لئے ناشتہ تیار کرکے اُسے وقفے وقفے سے آواز دیتی ہوں۔ اُس کے نیچےآ جانے پر بھی میں خاموش نہیں ہوتی اور دو تین بار ناشتہ جلدی ختم کرنے کی ہدایت کرتی ہوں۔ وہ ناشتے کے بعد دوبارہ ہاتھ دھوتا ہے اور اکثر ناشتے سے پہلے یا ناشتے کے بعد جوتوں پر برش لگاتا ہے اور ہاتھ دھوتا ہے۔ میرے شوہر اکثر مجھے خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ بچوں کو دو تین بار سکول کالج سے دیر ہو جائے گی تو خو ہی سدھر جائیں گے۔ مگر مجھے یہ سُننا بالکل پسند نہیں کہ ماما آپ کی وجہ سے مجھے سکول سے دیر ہوئی۔ اس لئے میرا شور مچانا جائز ہے۔
سکول سے واپسی پر میں اپنے بیٹے سے پوچھتی ہوں کہ وہ کتنی دیر میں یونیفارم بدلے گا وہ جواب دیتا ہے کہ پانچ منٹ میں لیکن پون گھنٹے سے پہلے کھانے کے لئے نہیں آتا۔ میں اس کے لئے گرم پراٹھا بناتی ہوں کیوں کہ اُسے ٹھنڈا کھانا پسند نہیں۔ اب پراٹھا ٹھنڈا ہونے کے ڈر سے شور مچانا شروع کرتی ہوں۔ اس پر بھی مجھے تلقین کیجاتی ہے کہ بار بار آواز مت دیا کرو۔ میں جانتی ہوں کہ میرے شوہر کا تحفظِ ماحولیات سے دور دور کا واسطہ نہیں پھرنجانے وہ روزانہ مجھے کیوں سمجھاتے ہیں۔ میں ڈرتی ہوں کہ وہ کسی دن شور ماپنے والا آلہ نہ خرید لائیں اور مجھے گھرکا ماحول بگاڑنے کا مجرم نہ قرار دے دیں۔ کیونکہ یہ تو سب خواتین جانتی ہونگی کہ شوہر حضرات گھر میں پیدا ہونے ہر بگاڑ کا ذمہ داربے چاری بیویوں کو ہی ٹھہراتے ہیں۔
خیر میں بتا رہی تھی کہ رات کے کھانے سے پہلے ہمارے گھر میں پھر شور سُنائی دیتا ہے۔ کھانے کے دوران میرا پڑھاکو بیٹا ٹی وی آن کر لیتا ہے ۔ اور کھانا تب تک ختم نہیں کرتا جب تک ٹی وی کا پروگرام ختم نہ ہو جائے۔ اُس کی دادی یہ ماجر ا سُن کر کہتی ہیں اس کی شادی کے روز کیا ہو گا ۔ یہ کھانا کھاتا رہ جائے گا اور باراتی دُلہن لے کر لوٹ آئیں گے۔اب ا ٓپ ہی تصور کیجیے لوگ کیا سوچیں گے اس لئے میں ابھی سے اُس کو سدھارنے کے لیے شور مچاتی رہتی ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہماری امی بھی تو ہمیں رات کو جلدی سونے کی تلقین کرتی تھیں۔ مگر ہمارے جنت مکانی والد صاحب کبھی اُنہیں ٹوکنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ ہمارے زمانے کے شوہروں کیا ہو گیا ہے ۔ ان کو امورِ خانہ داری میں دخل اندازی کا استحقاق کس نے دیا ہے۔ پر مجھے کیا معلوم دوسرے گھروں میں خواتین کو شور مچانے کی آزادی ہے یا نہیں ۔ اصل میں مجھے فون پر لمبی لمبی باتیں کرنے کی عادت نہیں اس لئے دوسرے گھروں کے خانگی حالات سے لاعلم ہی رہتی ہوں۔مجھے کچھ علم نہیں کہ برابر والے گھر میں آج کیا پکایا جا رہا ہے ۔ اور نہ ہی مجھے یہ علم ہے کہ کونسی ہمسائی نے کتنے نئے سوٹ بنائے ہیں ۔ لیکن میں اس مفروضے پر یقین رکتی ہوں کہ سب خواتین نے میری والدہ کی مانند اپنے شوہروں کو پابند کر رکھا ہو گا کہ وہ گھریلو معاملات میں دخل اندازی سے باز رہیں یہ میری ہی بے جا ڈھیل کا نتیجہ ہے جو میری آزادی پر قدغن لگانے کی بے سود کوشش کی جاتی ہے۔
آپ بھی کہیں گے کہ میں کتنی خود سر ہوں۔ شوہر کے مخلصانہ مشوروں پر عمل نہیں کرتی۔ کیا کروں مجھے شور مچانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔
شاید میری اتنی لمبی چوڑی عملی وضاحت بھی آپ کو قائل نہیں کر سکی۔ تو میں ایک آخری کوشش کرتی ہوں
میرا خیال ہےکہ مجھے اپنی ہی آواز سُننے کا شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
برسوں پہلے میں نے خود کو گُم کر دیا تھا تب سے خود فراموشی کے عالم میں جی رہی ہوں اس لئے غیر ارادی طور پر روزانہ شورمچاتی ہوں تاکہ دوسروں کو میرےہونے کا احساس رہے۔
آپ بھی کہیں گے کیسی فضول وضاحت ہے چلئے میں کچھ عملی بہانے گھڑتی ہوں
صبح سویرے میرے دونوں بیٹے سکول کالج جانے کے لئے خود بخود نہیں اُٹھتے۔ حالانکہ بڑا بیٹا اپنے موبائل پر الارم لگا کر سوتا ہے اور چھوٹے کو میرے شوہر مسجد سے آکر جگاتے ہیں مگر وہ اُس وقت تک بسترسے باہر نہیں نکلتے جبتک میں اوپر جا کر شورنہ مچاؤں۔ میرے بڑے بیٹے کو شکوہ ہے کہ میں اُسے آواز نہیں دیتی اور چھوٹے کو مسلسل پکارے جاتی ہوں اس لئے وہ بستر سے نہیں نکلتا۔ میں اُسے اس لئے آواز نہیں دیتی کہ مجھے معلوم ہے وہ میرے اوپر پہنچنے سے پہلے ہی بیدار ہو چکا ہوتا ہے۔ چھوٹا بیٹا جو کافی دُبلا پتلا ہے سکول کے لئے تیار ہونے میں ایک گھنٹہ لیتا ہے۔ میں اکثر سوچتی ہوں وہ اپنا چھوٹا سا منہ دھونے میں اتنی دیر کیوں لگاتا ہے۔ مجھے ہر روز یہ اندیشہ لاحق رہتا ہے کہ اُسے سکول سے دیر نہ ہوجائے اس لئے ناشتہ تیار کرکے اُسے وقفے وقفے سے آواز دیتی ہوں۔ اُس کے نیچےآ جانے پر بھی میں خاموش نہیں ہوتی اور دو تین بار ناشتہ جلدی ختم کرنے کی ہدایت کرتی ہوں۔ وہ ناشتے کے بعد دوبارہ ہاتھ دھوتا ہے اور اکثر ناشتے سے پہلے یا ناشتے کے بعد جوتوں پر برش لگاتا ہے اور ہاتھ دھوتا ہے۔ میرے شوہر اکثر مجھے خاموش رہنے کی تلقین کرتے ہیں۔ اُن کا خیال ہے کہ بچوں کو دو تین بار سکول کالج سے دیر ہو جائے گی تو خو ہی سدھر جائیں گے۔ مگر مجھے یہ سُننا بالکل پسند نہیں کہ ماما آپ کی وجہ سے مجھے سکول سے دیر ہوئی۔ اس لئے میرا شور مچانا جائز ہے۔
سکول سے واپسی پر میں اپنے بیٹے سے پوچھتی ہوں کہ وہ کتنی دیر میں یونیفارم بدلے گا وہ جواب دیتا ہے کہ پانچ منٹ میں لیکن پون گھنٹے سے پہلے کھانے کے لئے نہیں آتا۔ میں اس کے لئے گرم پراٹھا بناتی ہوں کیوں کہ اُسے ٹھنڈا کھانا پسند نہیں۔ اب پراٹھا ٹھنڈا ہونے کے ڈر سے شور مچانا شروع کرتی ہوں۔ اس پر بھی مجھے تلقین کیجاتی ہے کہ بار بار آواز مت دیا کرو۔ میں جانتی ہوں کہ میرے شوہر کا تحفظِ ماحولیات سے دور دور کا واسطہ نہیں پھرنجانے وہ روزانہ مجھے کیوں سمجھاتے ہیں۔ میں ڈرتی ہوں کہ وہ کسی دن شور ماپنے والا آلہ نہ خرید لائیں اور مجھے گھرکا ماحول بگاڑنے کا مجرم نہ قرار دے دیں۔ کیونکہ یہ تو سب خواتین جانتی ہونگی کہ شوہر حضرات گھر میں پیدا ہونے ہر بگاڑ کا ذمہ داربے چاری بیویوں کو ہی ٹھہراتے ہیں۔
خیر میں بتا رہی تھی کہ رات کے کھانے سے پہلے ہمارے گھر میں پھر شور سُنائی دیتا ہے۔ کھانے کے دوران میرا پڑھاکو بیٹا ٹی وی آن کر لیتا ہے ۔ اور کھانا تب تک ختم نہیں کرتا جب تک ٹی وی کا پروگرام ختم نہ ہو جائے۔ اُس کی دادی یہ ماجر ا سُن کر کہتی ہیں اس کی شادی کے روز کیا ہو گا ۔ یہ کھانا کھاتا رہ جائے گا اور باراتی دُلہن لے کر لوٹ آئیں گے۔اب ا ٓپ ہی تصور کیجیے لوگ کیا سوچیں گے اس لئے میں ابھی سے اُس کو سدھارنے کے لیے شور مچاتی رہتی ہوں۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ ہماری امی بھی تو ہمیں رات کو جلدی سونے کی تلقین کرتی تھیں۔ مگر ہمارے جنت مکانی والد صاحب کبھی اُنہیں ٹوکنے کی جرات نہیں کرتے تھے۔ میں سوچتی ہوں کہ ہمارے زمانے کے شوہروں کیا ہو گیا ہے ۔ ان کو امورِ خانہ داری میں دخل اندازی کا استحقاق کس نے دیا ہے۔ پر مجھے کیا معلوم دوسرے گھروں میں خواتین کو شور مچانے کی آزادی ہے یا نہیں ۔ اصل میں مجھے فون پر لمبی لمبی باتیں کرنے کی عادت نہیں اس لئے دوسرے گھروں کے خانگی حالات سے لاعلم ہی رہتی ہوں۔مجھے کچھ علم نہیں کہ برابر والے گھر میں آج کیا پکایا جا رہا ہے ۔ اور نہ ہی مجھے یہ علم ہے کہ کونسی ہمسائی نے کتنے نئے سوٹ بنائے ہیں ۔ لیکن میں اس مفروضے پر یقین رکتی ہوں کہ سب خواتین نے میری والدہ کی مانند اپنے شوہروں کو پابند کر رکھا ہو گا کہ وہ گھریلو معاملات میں دخل اندازی سے باز رہیں یہ میری ہی بے جا ڈھیل کا نتیجہ ہے جو میری آزادی پر قدغن لگانے کی بے سود کوشش کی جاتی ہے۔
آپ بھی کہیں گے کہ میں کتنی خود سر ہوں۔ شوہر کے مخلصانہ مشوروں پر عمل نہیں کرتی۔ کیا کروں مجھے شور مچانے کی عادت سی ہو گئی ہے۔
شاید میری اتنی لمبی چوڑی عملی وضاحت بھی آپ کو قائل نہیں کر سکی۔ تو میں ایک آخری کوشش کرتی ہوں
میرا خیال ہےکہ مجھے اپنی ہی آواز سُننے کا شوق ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔