شہر کی سیر

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

ساجد

محفلین
یہ ہمارے لڑکپن کا دور تھا کہ ایک تپتی دوپہر میں مال ڈنگر کو نہلا کھلا کر ہمیں شوق چرایا کہ شہر کی طرف کھسکتے ہیں اور وہاں کا رونق میلہ دیکھ کر مغرب کی آذان کے قریب قریب واپس گاؤں نازل ہو جائیں گے بالکل ایسے جیسے کہ اندھیرا پھیلتے شیاطین کا نزول ہوتا ہے۔ پروگرام پر عملی جامہ پہنانے سے قبل زادِ راہ کی تجوری کھولی جو ہماری دھوتی کے ایک ڈب میں مومی کاغذ کے ضد الماء لاکر میں محفوظ تھی۔ جب شمار یات کا مرحلہ شروع ہوا تو اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس اکاؤنٹ کی بھنک کسی کو نہ پڑے ورنہ استثناء کے سرٹیفکیٹ کے حصول کی نوبت آنے کا خدشہ تھا۔ یہ پورے سات روپے پینتیس پیسے تھے جو پچھلے 3 ماہ کے جیب خرچ سے بچا کر اسی مقصد کے لئے جمع کئے گئے تھے۔ اب جبکہ میں 7 نمبریا سیٹھ بن چکا تھا میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے تھے۔ گاؤں کی شاہ راہ پر خود کو بادشاہ خیال کرنے کےوہ لمحات اب بھی سرشاری کا ایک لاجواب احساس جگا دیتے ہیں جب میں شہر جانے والی کسی سواری کے انتظار میں تھا ۔ یہ سواری کوئی سائیکل سوار ، گدھا ریڑھی یا چاچے یعقوبے کا گاؤں کا اکلوتا ٹریکٹر ہوتا۔ تھوڑے انتظار کے بعد مؤخرالذکر سواری دستیاب ہو گئی۔ دل بلیوں اچھلنے لگا کہ اب سفر بھی جلدی کٹ جائے گا اور شام کو واپسی میں بھی چاچے کے ساتھ واپس آ جاؤں گا۔ چاچے نے مجھے شہر کی چونگی پر اتارا اور خود غلہ منڈی چلا گیا جہاں سے اسے کھاد خریدنا تھی اور مجھے تاکید کر گیا کہ 5 بجے سے پہلے اسی جگہ پہنچ جاؤں ورنہ وہ میرا انتظار نہیں کرے گا کیونکہ گاؤں میں چلتی اس کی ذاتی دشمنی کے سبب ملگجے اوقات میں وہ سفر نہیں کیا کرتا تھا۔​
والدِ مرحوم کے ساتھ پہلے بھی بہت بار شہر آ چکا تھا لیکن جیسی آزادی اور امارت اس "خود مختاری" کے سفر میں محسوس ہو رہی تھی وہ ایک الگ ہی مزا دے رہی تھی۔ ہمارے شہر میں ایک ہی بازار تھا اور ابھی تک ایک ہی ہے ، لمبا اتنا کہ شیطان کی آنت بھی چھوٹی پڑ جائے۔ خوب مٹر گشت کیا ۔ پیاس لگی تو سڑک کنارے لگے نلکوں سے پانی پینے کی کی بجائے سکنجبین کا گلاس نوش کیا جس کی قیمت دو آنے یعنی 12 پیسے تھی۔ چونی دی تو سکنجبین والے کے پاس کھلے پیسے نہ تھے فیصلہ کیا کہ ایک گلاس اور پی لیا جائے ۔فیصلے پر فوری عمل درآمد کیا گیا اور چونی میں سے مبلغ ایک ٹیڈی پیسہ واپس بھی وصول کر لیا گیا۔ ایک کھلی جگہ بیچ بازار کے بندر والا تماشہ لگائے کھڑا تھا۔اگر تب پتہ ہوتا کہ ارتقاء کے مرحلے میں فیل ہونے کی وجہ سے یہ بندر ابھی تک بندر ہی ہے ہماری طرح ارتقائی اشرف المخلوقات نہیں بن سکا تو اس کی ناکامی پر تین حرف بھیج کر اپنی راہ لیتا لیکن وائے ری لاعلمی۔میں نے بڑے انہماک سے اس کی انسان نما حرکتیں اور جسمانی ساختیں ملاحظہ فرمائیں اور اسی وقت ایک کام کی بات سیکھ لی جو شادی کے بعد اکڑ کرسسرال میں جانے کےبندرانہ رموز سے بھرپور ہے۔ تماشہ ختم ہوا تو بندرسر پر کاسہ رکھ کر سب کے سامنے آیا اور مین نے کمال فیاضی سے 35 پیسے میں سے بچے ہوئے 11 پیسے اس کے کاسے میں ڈال دیے۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھل گئے۔ وہ بندر بھی مر کھپ گیا ہو گا ۔ مرورِ زمانہ سفینہ حیات کو کہاں سے کہاں لے گیالیکن آج بھی جب کوئی اشرافی بندرتماشہ دکھانے کے بعد کاسہ اٹھا کر بھیک مانگنے جاتا ہے تو مجھے وہ حقیقی بندر یاد آ جاتا ہے۔ شاید ڈارون نے بھی ایسے ہی انسان نما بندروں پر تحقیق کر کے نظریہ ارتقاء پیش کیا ہو گا۔​
واقعات و اشیاء کا تنقیدی مشاہدہ خدا نے میری سرشت میں رکھا ہے۔اس سے کبھی کبھار بڑی دلچسپ صورت حال بھی پیدا ہو جاتی تھی اور جب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کہیں مہمان جاتا تو مجھے سختی سے منع کر دیا جاتا کہ اپنی زبان بند رکھوں مبادا کہ کوئی ایسی بات دریافت کر بیٹھوں جو خفت کا باعث بنے۔ یہ بندش زبان پر نہیں بلکہ میرے تجسس پر ہوتی جس کی وجہ سے بہت سے سوالات مجھے پریشان کئے رکھتے۔ اب اسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں ایک ایسے شخص کے پاس جا بیٹھا جسے میں پہلے بھی اسی بازار میں دیکھا کرتا تھا لیکن لوگ اسے پاگل کہتے تھے۔یہ پاگل کبھی گالیاں دے رہا ہوتا تو کبھی قومی ترانہ گا رہا ہوتا۔ کبھی قائداعظم کی تقاریر کے انگریزی اقتباس اس کی زبان پر ہوتے تو کبھی فارسی اشعار کی مٹھاس گھولتا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ اشعار گلستان و بوستان کے ہوا کرتے تھے۔ نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن لوگ اسے ایک آنکھ سے محروم ہونے کی وجہ سےشفیع کانا کہتے تھے۔ بڑے اسے تنگ کر کے اپنی بندرانہ انا کو تسکین پہنچاتے اور بچے اس کے غضب سے سہم جایا کرتے لیکن میرا تجسس مجھے کسی بھی بات سے بے خبر اس کے پاس لے گیا۔ میں نے ایک روپے کے 10 کیلے خریدے تھے اور ان میں سے کچھ بچے ہوئے میرے ہاتھ میں تھے۔ میں شفیع کے پاس گیا اور وہ کیلے اس کے سامنے زمین پر رکھ دیے۔ صرف یہ کہا 'یہ کھا لو'۔ وہ بہت بھوکا تھا ، اناج کا یا انسانی محبت کا۔ میں اس کا اندازہ نہیں کر پایا لیکن اس نے چند لمحوں میں وہ کیلے ختم کر لئے اور مجھے وہاں بیٹھنے کا کہہ کر خود چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کاغذ پر سوہن حلوے کا ایک برا سا ٹکڑا تھا جو وہ سامنے والی دکان سے خرید کر لایا تھا۔ اس نے مجھے وہ ٹکڑا دیا اور کہنے کگا کہ آدھا توڑ کر اسے دوں کیوں کہ اس کے ہاتھ گندے ہیں۔ اس کی اس بات سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ پاگل ہرگز نہیں ۔ سوہن حلوہ کھاتے کھاتے وہ رونے لگا اور پھر میرے گلے لگ کر یوں بلکا کہ جیسے کوئی ایک طویل جدائی کے بعد اپنوں سے مل کر روتا ہے۔ راہ گیر ہمارے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہاں سے کھسکنے کا کہنے لگے کہ مبادا شفیع روتے روتے جارحانہ ہو جائے۔ لیکن میں نہ ہلا اور شفیع روتے روتے وہیں لیٹ گیا، شاید سو گیا تھا۔ میرے والد ِ مرحوم شہر میں ہی دکانداری کرتے تھےاسی اثنا میں کسی نے میرے والدِ مرحوم کو اطلاع کر دی کہ میں کس خطرناک شخص کے پاس بیٹھا ہوں۔وہ آئے تھے تو بہت غصے میں تھے لیکن مجھے اور شفیع کو پر سکون دیکھ کر خود بھی بہت کچھ سوچنے لگے اور مجھے دکان پر ساتھ لے گئے۔ وہاں جا کر بغیر اطلاع کے شہر آنے پر سرزنش بھی کی لیکن ساتھ ہی ایک وعدہ بھی کہ شفیع کے بارے میں مجھے ضرور بتائیں گے۔ انہوں نے شاید اسی کو غنیمت جانا ہو گا کہ میری متجسس طبیعت نے کوئی سنگین گُل نہیں کھلا دیا اور مجھے مطمئن کرنے کے لئے شفیع کے حالات بتانے کا وعدہ کیا ہو گا۔​
والدِ مرحوم نے مجھے کھانا کھلوایا ۔میریےخفیہ اکاؤنٹ کے بارے مین افتخارانہ باز پرس کی جس میں ابھی بھی 6 روپے کی خطیر رقم موجود تھی۔ جب میرے بیان سے پدرانہ عدالت مطمئن ہوئی تو پے رول پہ میری رہائی کے آرڈر جاری ہوئے اور ایک شخص کی معیت میں مجھے چاچے یعقوبے کی واپسی پر اس کا ہم رکاب ہونے کے لئے بھیجا۔​
یوں لوٹ کے بدھو گھر کو آیا۔ شفیع کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا۔ میں بھی کارِ جہاں میں مشغول رہا کہ اچانک والدِ مرحوم کی طبیعت خراب ہو گئی ۔ بیماری نے طول پکڑا۔ ہسپتال میں رکھا گیا۔ گھر سے دور ہونے کی وجہ سے وہ کچھ اداس رہنے لگے تو ڈاکٹر نے کہا ان کو پریشان نہ ہونے دو بلکہ باتوں میں لگا کر رکھا کرو۔ تب یہ موقع میرے ہاتھ لگا کہ میں ان سے شفیع کے بارے میں دریافت کرتا ۔ ان کی بیماری کی حالت میں انہوں نے مجھے شفیع کے بارے میں جو بتایا وہ بہت اثر انگیز ہے۔ بشرطِ زندگی اس پر ضرور لکھوں گا۔

اس مضمون پر کئے گئے تبصرے پڑھنے اور اپنی رائے دینے کے لئے یہاں کلک کریں۔
 

ساجد

محفلین
شفیع کون تھا؟
کمالیہمیرا شہر۔دریائے راوی کے دائیں کنارے پر ، آریہ تہذیب کے اہم مقام ہڑپہ سے کچھ ہی دور، برصغیر کے قدیم ترین آباد شہروں
میں سے ایک شہر جو پنجاب میں انگریز کے خلاف مزاحمت کی تحریکوں میں بڑی اہمیت کا حامل رہ چکا ہے۔ یہ شہر ساندل بار کی اس پٹی میں واقع ہے جہاں سے بھگت سنگھ ، احمد خاں کھرل اور دُلا بھٹی جیسے آزادی کے متوالوں نے انگریز کے خلاف بڑی بے جگری سے مزاحمت کی۔اس کی کمزور اقتصادیات کی مثال دیتے ہوئے عام طور پر کہا جاتا ہے 'کمالیا سو کھا لیا'۔اس شہر کے نام اور حدود اربعہ سے ناواقف بعض من چلے یا دل جلے اسے کوہ ہمالیہ بھی کہہ لیتے ہیں۔ یہ شہر بہت قدیم ہے اور کسی وقت میں لاڑکانہ کے بعدپی پی پی کاسب سے بڑا مرکز ہوا کرتا تھا۔ بے نظیر کے منہ بولے انکل خالد خاں کھرل اسی شہر کے باسی ہیں۔ یہی شہر بھٹو دور کے بد نام زمانہ ڈاکٹر کیپٹن نصیر نکیل کیس کا شاہد ہے۔ جب پی پی پی کے جیالوں نےقومی اتحاد کے ڈاکٹر نصیر کو سر بازار نکیل ڈالی اور شمسی برادران کو مکمل برہنہ کر کے بازار میں گھمایا تو ناچیزاس وقت وہیں موجود تھا اور اس ظلم کی چبھن اپنی روح میں آج بھی محسوس کرتا ہے۔ بہر حال مجھے وعدہ کے مطابق شفیع پر لکھنا ہے۔​
جب پاکستان بنا تو کمالیہ میں جو لوگ ہجرت کر کے ائے ان میں سے زیادہ تر کا تعلق امرتسر ،لدھیانہ ، جالندھر اور ہوشیار پور سے تھا۔ چونکہ مذکورہ شہر متحدہ ہندوستان میں بھی علم و ہنر میں ایک خاص مقام رکھتے تھے خاص طور پر امرتسر اپنے پہلوانوں ، لذیذ ہریسہ و نہاری ،لکھاریوں اور کپڑا تیار کرنے والوں کے حوالے سے جانا جاتا تھا اس لئے یہاں کے افراد نے ہجرت کے وقت لاہور کے علاوہ کمالیہ ،جھنگ اور لائلپور(اب فیصل آباد)کا رُخ کیا ۔ کیوں کہ کمالیہ اور جھنگ کی زرعی پیداوار ان کے ہنر کے لئے کافی خام مال فراہم کر سکتی تھی اور لائلپور سیلاب کے خطرے سے محفوظ ہونے کی وجہ سے کارخانے لگانے کے لئے موزوں تھا۔اس پر مستزاد یہ کہ جھنگ اور کمالیہ قبل از تقسیم ہندو اکثریت کے علاقے تھے اس لئے یہاں قدم قدم پر معیاری سکول و کالج قایم تھے جس کی وجہ سے مذکورہ شہروں کے اہل علم مہاجروں کی نظرِانتخاب اس علاقے پر پڑی۔ آج بھی پاکستان میں سب سے زیادہ تعلیم یافتہ آرائیں برادری کی آبادی کا زیادہ ارتکاز فیصل آباد ، ٹوبہ ٹیک سنگھ ،گوجرہ ، پیر محل ، رجانہ اور کمالیہ میں ہے۔ میری کہانی کا شفیع بھی انہی اہل علم گروہوں کی کسی ایک شاخ سے تعلق رکھتا تھا۔ جب ہندوستان کی تقسیم کا فیصلہ ہوا تو شفیع ہو شیار پور کے ایک سکول میں استاد ہوا کرتا تھا۔ چونکہ میرے والد مرحوم بھی اسی شہر سے متعلق تھے اس لئے شفیع کو جانتے پہچانتے تھے۔ ان کے بقول شفیع ایک بہترین استاد ، غضب کا شاعر ، انگریزی میں ماہر ، قائد اعظم کا شیدائی ، اقبال کا عاشق ، تحریک پاکستان کا سرگرم کارکن ، مسلم لیگ کا ورکر ، پرجوش مقرر اور ایک قابل محرر تھا۔ وہ سکول کے بعد بھی بچوں کو مفت پڑھاتا (ویسے اس وقت ہر استاد ہی مخلص ہوا کرتا تھا) اور اردو کی لکھائی بہتر کرنے پر خصوصی توجہ دیتا کیوں کہ وہ ایک اچھا کیلی گرافر بھی تھا۔ جون 1947 میں ہی اس نے فیصلہ کر لیا کہ ہوشیار پور باسیوں کی اکثریت کی پیروی میں لائلپور یا اس کے نواح میں آباد ہونا ہے کیوںکہ وہاں اچھے سکول و کالج تھے ۔ لاہور بھی اس کے پیش نظر تھا لیکن اس کے رشتہ داروں کی اکثریت کپڑا بنانے سے منسلک تھی اور انہیں اپنے ہنر کا مستقبل لاہور کی بجائے ساندل بار کے کسی علاقے میں بہتر نظر آتا تھا (دریائے چناب اور راوی کے درمیان کا علاقہ ساندل بار کہلواتا ہے جو پنڈی بھٹیاں سے شروع ہو کر کمالیہ پر ختم ہوتا ہے۔ اسی بار میں جھنگ ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، گوجرہ ، پیر محل ، سمندری ، رجانہ اور فیصل آباد کے علاقے شامل ہیں۔ جو اپنی تعلیم اور ہنر مندوں کی وجہ سے مشہور ہیں)۔​
ہسپتال کے بیڈ پر جب میں نے اپنے والد مرحوم سے شفیع کی داستان سنانے کی فرمائش کی تو انہوں نے مجھے ایک دن صبر کرنے کا کہا اور اگلے دن میرے ذریعے ہی میرے دور کے رشتے کے خالو کو بھلا بھیجا۔ جو ہوشیار پور میں شفیع کے گاؤں میں رہتے تھے اور اس پر بیتنے والے حادثات کے چشم دید تھے۔ جو داستان پیش کی جارہی ہے یہ میرے والد مرحوم اور خالو کے بیانات کا مشترکہ نچوڑ ہے۔​
شفیع کے دو بیٹے اور ایک بیٹی تھی۔ تینوں بہن بھائی ذہین اور باپ کی طرح سے علم و ادب کے شوقین تھے۔ بڑا بیٹا 13 برس کا ، چھوٹا 11 برس کا اور بیٹی تقریبا 10 برس سے کچھ کم تھی۔ بڑا بیٹا چونکہ آٹھویں جماعت میں پڑھتا تھا اورا س کے امتحان مارچ 1948 میں ہونے تھے جبکہ پاکستان اگست 1947 میں قائم ہو رہا تھا۔ وہ شش و پنج میں تھا کہ کیا کرے۔ کیا 1948 تک ہندوستان نہ چھوڑے ؟۔ اگر چھوڑے تو آباد کاری کے جھنجھٹوں کی وجہ سے اس کے تینوں بچوں کی تعلیم کا کیا ہو گا؟۔ بیوی سے مشورہ کیا اور اس فیصلے پر پہنچا کہ پہلے خود پاکستان آ کر حالات کا جائزہ لے گا تب واپس جا کر بیوی بچوں کو لے کر آئے گا۔ وہ اکتوبر 1947 میں کمالیہ آیا اور یہاں سے دل میں ایک اطمینان لے کر رخصت ہوا ۔ ہندوستان واپس جا کر اس نے ہجرت کی تیاری شروع کر دی۔ اس کے گاؤں کا نام شاید جے جوں تھا۔ پورے برصغیر میں نفرت اور لوٹ مار کی جو آگ بھڑک رہی تھی جے جوں بھی اس کی تپش محسوس کر رہا تھا لیکن یہاں ابھی تک نفرت کی کوئی چنگاری شعلہ بن کر نہیں بھڑ کی تھی لیکن سکوت کے آثار کسی برے تلاطم کی خبر دیتے صاف دیکھے جا سکتے تھے۔وہی ہندو ،سکھ اور مسلمان جو کل تک بھائیوں کی طرح رہ رہے تھے اب ایک دوسرے کو خشمگیں نظروں سے گھورنے لگے تھے۔ شفیع کو ایک گونہ اطمینان اس بات کا تھا کہ اس علاقے کے سینکڑوں ہندو ، سکھ اور مسلمان اس کے شاگرد رہ چکے تھے اور سبھی اس کی عزت کرتے تھے ۔ یوں قدرے ہمت لیکن ایک انجانے خوف کے ہوتے انہوں نے اپنی پاکستان جانے کی تیاری جاری رکھی۔ سرکاری ملازم ہونے کے ناطے شفیع کو ہندوستان چھوڑنے سے قبل اپنے محکمے کو آگاہ کرنا ضروری تھا اور یہی بات اس کے لئے اصل خوف کا سبب تھی، کیونکہ اس کے محکمے کے کچھ سکھ اور ہندوکلرکوں نے اس سے قبل بھی مسلمان استادوں کی ہجرت کے وقت مسلح جتھوں کو خبر دے دی تھی ۔ اگرچہ اس کے ہم کار سکھوں اور ہندوؤں کی اکثریت اس کی خیر خواہ تھی لیکن چند لوگوں کی شر پسندی کی وجہ سے مسلمان اساتذہ کے خاندانوں کو قتل کر دیا گیا تھا اور ہوشیار پور تو وہ علاقہ تھا جہاں حافظ آباد ، شیخوپورہ اور گوجرانوالہ سے ہجرت کر کے آنے والے سکھ اور ہندوآباد ہو رہے تھے اور وہ اپنی تکلیف کا بدلہ وہاں سے ہجرت کرنے والے مسلمانوں سے لینے کے لئے بے تاب ہوئے جاتے تھے۔​
نومبر کے مہینے کی ایک قدرے سرد رات کو شفیع کے دروازے پر کھٹکھٹاہٹ ہوئی ۔ آھی رات کے وقت کون ہو سکتا ہے؟۔ شفیع نے یہ سوچتے ہوئے دروازے پر جا کر آنے والے کا نام پوچھا تو جواب ملا 'استاد جی میں ہوں سوہنا سنگھ باپُو کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے آپ کے پاس پیٹ درد کی پھکی ہوتی ہے وہ باپُو نے منگوائی ہے'۔ شفیع نے اپنے شاگرد کی آواز پہچان کر دروازہ کھول دیا۔ دروازہ کھلنے کی دیر تھی کہ سوہنا سنگھ کے ساتھ اس کے چار پانچ ساتھی دندناتے ہوئے شفیع کے گھر میں گھس گئے۔ جو کچھ ملا لوٹ لیا اور اس کے بعد اس کی دس سال کی بیٹی کی عزت کے درپے ہو گئے۔ شفیع نے بہت مزاحمت کی ۔ اس کے بیٹوں نے شور مچایا لیکن وہ باز نہ آئے۔ وہ بھالوں اور کرپانوں سے مسلح تھے اور انہوں نے اس کے گھر میں داخل ہونے سے قبل ارد گرد کے مکانوں کے باہری کنڈے چڑھا دئے تھے جس کی وجہ سے کوئی بھی ان کی مدد کو نہ پہنچ سکا۔ دونوں بیٹے زخمی ہوئے ۔باپ کی مزاحمت جاری تھی کہ ایک حملہ آور نے شفیع کی آنکھ میں کرپان کی نوک گھسا دی اور یوں شفیع شدید زخمی ہو گیا اور اس کی انکھ ضائع ہو گئی۔۔ ماں نے آخری حربے کے طور پرایک غنڈے کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا لیکن دوسروں نے بھالوں کے وارسے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اسے خاموش کر دیا۔ شفیع کی پھول سی بیٹی اغواء کر لی گئی اور دو دن بعد اس کی ادھ جلی لاش گاؤں سے باہر پائی گئی۔​
ایک قیامت تھی جو شفیع پر ٹوٹ گئی ۔ وہ سوہنا سنگھ کے باپ کے پاس گیا لیکن اس نے نہ صرف شفیع کو ذلیل کیا بلکہ یہ عذر پیش کیا کہ اس کا بیٹا تو کئی دن قبل سے ہی پونا میں اپنی پھوپھی کے پاس گیا ہوا ہے۔اس حملے سے اگلے دن ہی شفیع کے گاؤں کے تمام مسلمان کیمپوں کا رخ کر گئے لیکن شفیع نے محکمے سے رجوع کیا اور یوں انگریز فوجیوں کی معیت میں شفیع اور اس کے بیٹوں کو لاہور بارڈر پر لا کر چھوڑ دیا گیا۔ اس کا چھوٹا بیٹا پہلے سے ہی کچھ بیمار تھا مسلسل بے آرامی کی وجہ سے بخار میں اس قدر اضافہ ہو گیا کہ پاکستان کی حدود میں داخل ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی اس کی موت واقع ہو گئی۔ چند دن لاہور میں گزارنے کے بعد شفیع اور اس کا بیٹا کمالیہ کی طرف روانہ ہوئے لیکن اب شفیع کی ہستی ان زخموں سے اس قدر نڈھال ہو چکی تھی کہ شفیع پر بار بار ہذیانی کیفیت طاری ہونے لگی۔ جب اپنے خاندان کی بربادی کا خیال اس کے ذہن میں کوندتا تو وہ گلیوں میں نکل پڑتا اور انگریز کو ننگی گالیاں دینے لگتا ، سکھوں کی ماں بہن ایک کر دیتا ، ہندوؤں کو برا بھلا کہتا۔ جس مکان پر ہندی زبان میں نام کی تختی لگی دیکھتا اسے اینٹ سے توڑنے کی کوشش کرتا اور پھر کوئلے سے دیواروں پر اپنا نام اردو میں لکھنے لگ جاتا۔ جہاں کہیں لیٹر بکس نظر آتا اسے پتھر مار مار کر ٹیڑھا کر دیتا۔ شاید اس لئے کہ اس کی اپنے محکمے کے ساتھ خط و کتابت اس کی معصوم بچی کی عزت اور اس کی زوجہ کی جان نہ بچا سکی تھی اور وہ اسی کا غصہ لیٹر بکس پر نکالتا۔​
کمالیہ آ کر اس کے اکلوتے بیتے کو پیٹ پالنا مشکل ہو گیا۔ پاکستان بنتے ہی کرپشن اور افراتفری کا وہ دور شروع ہو گیا کہ جس کا ہاتھ پڑتا تھا کلیم اسی کو ملتا تھا بھلے وہ حق دار تھا یا نہین ۔ لیکن شفیع تو پاگل ہو چکا تھا۔ اس کا بیٹے کی عمر بہت کم تھی۔۔۔محض 14 برس۔ وہ ایک گھر میں براجمان ہوتے تو چند روز بعد انہیں کہا جاتا کہ یہ گھر خالی کرو فلاں کو یہ کلیم میں ملا ہے۔ تم اپنے کاغذات جمع کرواؤ۔ رشتے داروں نے بھی شفیع کی اس سلسلے میں کچھ مدد کرنے کی کوشش کی لیکن وہ کسی حکومتی اہلکار کو دیکھتے ہی گالیاں دینے لگ جاتا۔یوں دھیرے دھیرے شفیع مکمل پاگل ہو گیا اور من چلوں نے اس کی ہذیانی کیفیت پر ہمدردی کرنے کی بجائے اسے شفیع کانا کہہ کر چھیڑنا شروع کر دیا۔​
اب شفیع گلیوں بازاروں میں پھرتا تھا۔ کبھی ہنستا ،کبھی روتا ، کبھی قائداعظم کی انگریزی تقریریں سناتا ، کبھی گلستان و بوستان کی شیرینی تقسیم کرتا، کبھی سکھوں کو گالیاں دیتا ، کبھی نہرو کو صلواتیں سناتا ،پولیس کی وردی دیکھتے ہی اس کی آنکھیں ابل پڑتیں اور وہ ان پر طنزیہ نظمیں فی البدیہہ کہتا۔ لیٹر بکس کو دیوار سے اکھاڑ کر زمین پر دے مارتا۔​
اس کا بچ جانے والا بیٹا جس کا نام نفیس تھا وہ ہمیشہ اپنے باپ کی پنشن اور واجبات سے محروم رہا۔ پیٹ پالنے کے لئے اس نےسکولی بچوں کی تختیوں پر نام لکھنے کاکام شروع کیا اور چارٹس وغیرہ لکھتا لیکن ایک دن وہ ایسا غائب ہوا کہ پھر کبھی اس کی خبر کسی کو نہ مل سکی۔اس کے غیاب کے بعد شفیع زیادہ دن زندہ نہ رہا اور ایک صبح اس 65سالہ بد قسمت بوڑھے شفیع کی لاش بازار میں ایک دکان کے تھڑے پر پائی گئی۔​
میں سمجھتا ہوں کہ شفیع پاگل نہیں تھا ۔ہمارے روئیے نے سے پاگل بنا دیا۔ وہ جس سرزمین کی خاطر اتنا پرجوش تھا اسے اس نے اپنے خاندان کے لہو سے سیراب کر کے بھی ہمت سے کام لیا لیکن اپنے خوابوں کے جزیرے میں پہنچتے ہی وہ اپنے ساتھ رکھے جا نے والے ناراوا سلوک کو برداشت نہ کر سکا۔اکلوتا نفیس جب بے بس بوڑھے باپ کی آنکھوں کے سامنے در بدر ہوا اور آخر کار غائب ہو گیا یا کر دیا گیا وہ اس "پاگل" کو کیوں کر برداشت ہو سکتا تھا۔ جس قوم کو وہ اپنی سمجھ کر یہاں آیا اسی نے اسے شفیع کانا کا نام دے کر ذلیل کیا ، سرچھپانے کا سہارا بار بار چھینا تو پاگل پن کے لئے یہ کافی نہیں ہے؟۔​
اس مضمون پر کئے گئے تبصرے پڑھنے اوراپنی رائے دینے کے لئے یہاں کلک کریں۔​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top