یہ ہمارے لڑکپن کا دور تھا کہ ایک تپتی دوپہر میں مال ڈنگر کو نہلا کھلا کر ہمیں شوق چرایا کہ شہر کی طرف کھسکتے ہیں اور وہاں کا رونق میلہ دیکھ کر مغرب کی آذان کے قریب قریب واپس گاؤں نازل ہو جائیں گے بالکل ایسے جیسے کہ اندھیرا پھیلتے شیاطین کا نزول ہوتا ہے۔ پروگرام پر عملی جامہ پہنانے سے قبل زادِ راہ کی تجوری کھولی جو ہماری دھوتی کے ایک ڈب میں مومی کاغذ کے ضد الماء لاکر میں محفوظ تھی۔ جب شمار یات کا مرحلہ شروع ہوا تو اس بات کا خصوصی اہتمام کیا گیا کہ اس اکاؤنٹ کی بھنک کسی کو نہ پڑے ورنہ استثناء کے سرٹیفکیٹ کے حصول کی نوبت آنے کا خدشہ تھا۔ یہ پورے سات روپے پینتیس پیسے تھے جو پچھلے 3 ماہ کے جیب خرچ سے بچا کر اسی مقصد کے لئے جمع کئے گئے تھے۔ اب جبکہ میں 7 نمبریا سیٹھ بن چکا تھا میرے پاؤں زمین پر نہیں ٹِک رہے تھے۔ گاؤں کی شاہ راہ پر خود کو بادشاہ خیال کرنے کےوہ لمحات اب بھی سرشاری کا ایک لاجواب احساس جگا دیتے ہیں جب میں شہر جانے والی کسی سواری کے انتظار میں تھا ۔ یہ سواری کوئی سائیکل سوار ، گدھا ریڑھی یا چاچے یعقوبے کا گاؤں کا اکلوتا ٹریکٹر ہوتا۔ تھوڑے انتظار کے بعد مؤخرالذکر سواری دستیاب ہو گئی۔ دل بلیوں اچھلنے لگا کہ اب سفر بھی جلدی کٹ جائے گا اور شام کو واپسی میں بھی چاچے کے ساتھ واپس آ جاؤں گا۔ چاچے نے مجھے شہر کی چونگی پر اتارا اور خود غلہ منڈی چلا گیا جہاں سے اسے کھاد خریدنا تھی اور مجھے تاکید کر گیا کہ 5 بجے سے پہلے اسی جگہ پہنچ جاؤں ورنہ وہ میرا انتظار نہیں کرے گا کیونکہ گاؤں میں چلتی اس کی ذاتی دشمنی کے سبب ملگجے اوقات میں وہ سفر نہیں کیا کرتا تھا۔
والدِ مرحوم کے ساتھ پہلے بھی بہت بار شہر آ چکا تھا لیکن جیسی آزادی اور امارت اس "خود مختاری" کے سفر میں محسوس ہو رہی تھی وہ ایک الگ ہی مزا دے رہی تھی۔ ہمارے شہر میں ایک ہی بازار تھا اور ابھی تک ایک ہی ہے ، لمبا اتنا کہ شیطان کی آنت بھی چھوٹی پڑ جائے۔ خوب مٹر گشت کیا ۔ پیاس لگی تو سڑک کنارے لگے نلکوں سے پانی پینے کی کی بجائے سکنجبین کا گلاس نوش کیا جس کی قیمت دو آنے یعنی 12 پیسے تھی۔ چونی دی تو سکنجبین والے کے پاس کھلے پیسے نہ تھے فیصلہ کیا کہ ایک گلاس اور پی لیا جائے ۔فیصلے پر فوری عمل درآمد کیا گیا اور چونی میں سے مبلغ ایک ٹیڈی پیسہ واپس بھی وصول کر لیا گیا۔ ایک کھلی جگہ بیچ بازار کے بندر والا تماشہ لگائے کھڑا تھا۔اگر تب پتہ ہوتا کہ ارتقاء کے مرحلے میں فیل ہونے کی وجہ سے یہ بندر ابھی تک بندر ہی ہے ہماری طرح ارتقائی اشرف المخلوقات نہیں بن سکا تو اس کی ناکامی پر تین حرف بھیج کر اپنی راہ لیتا لیکن وائے ری لاعلمی۔میں نے بڑے انہماک سے اس کی انسان نما حرکتیں اور جسمانی ساختیں ملاحظہ فرمائیں اور اسی وقت ایک کام کی بات سیکھ لی جو شادی کے بعد اکڑ کرسسرال میں جانے کےبندرانہ رموز سے بھرپور ہے۔ تماشہ ختم ہوا تو بندرسر پر کاسہ رکھ کر سب کے سامنے آیا اور مین نے کمال فیاضی سے 35 پیسے میں سے بچے ہوئے 11 پیسے اس کے کاسے میں ڈال دیے۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں ڈھل گئے۔ وہ بندر بھی مر کھپ گیا ہو گا ۔ مرورِ زمانہ سفینہ حیات کو کہاں سے کہاں لے گیالیکن آج بھی جب کوئی اشرافی بندرتماشہ دکھانے کے بعد کاسہ اٹھا کر بھیک مانگنے جاتا ہے تو مجھے وہ حقیقی بندر یاد آ جاتا ہے۔ شاید ڈارون نے بھی ایسے ہی انسان نما بندروں پر تحقیق کر کے نظریہ ارتقاء پیش کیا ہو گا۔
واقعات و اشیاء کا تنقیدی مشاہدہ خدا نے میری سرشت میں رکھا ہے۔اس سے کبھی کبھار بڑی دلچسپ صورت حال بھی پیدا ہو جاتی تھی اور جب میں اپنے گھر والوں کے ساتھ کہیں مہمان جاتا تو مجھے سختی سے منع کر دیا جاتا کہ اپنی زبان بند رکھوں مبادا کہ کوئی ایسی بات دریافت کر بیٹھوں جو خفت کا باعث بنے۔ یہ بندش زبان پر نہیں بلکہ میرے تجسس پر ہوتی جس کی وجہ سے بہت سے سوالات مجھے پریشان کئے رکھتے۔ اب اسی تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر میں ایک ایسے شخص کے پاس جا بیٹھا جسے میں پہلے بھی اسی بازار میں دیکھا کرتا تھا لیکن لوگ اسے پاگل کہتے تھے۔یہ پاگل کبھی گالیاں دے رہا ہوتا تو کبھی قومی ترانہ گا رہا ہوتا۔ کبھی قائداعظم کی تقاریر کے انگریزی اقتباس اس کی زبان پر ہوتے تو کبھی فارسی اشعار کی مٹھاس گھولتا۔ مجھے بعد میں پتہ چلا کہ یہ اشعار گلستان و بوستان کے ہوا کرتے تھے۔ نام تو اس کا کچھ اور تھا لیکن لوگ اسے ایک آنکھ سے محروم ہونے کی وجہ سےشفیع کانا کہتے تھے۔ بڑے اسے تنگ کر کے اپنی بندرانہ انا کو تسکین پہنچاتے اور بچے اس کے غضب سے سہم جایا کرتے لیکن میرا تجسس مجھے کسی بھی بات سے بے خبر اس کے پاس لے گیا۔ میں نے ایک روپے کے 10 کیلے خریدے تھے اور ان میں سے کچھ بچے ہوئے میرے ہاتھ میں تھے۔ میں شفیع کے پاس گیا اور وہ کیلے اس کے سامنے زمین پر رکھ دیے۔ صرف یہ کہا 'یہ کھا لو'۔ وہ بہت بھوکا تھا ، اناج کا یا انسانی محبت کا۔ میں اس کا اندازہ نہیں کر پایا لیکن اس نے چند لمحوں میں وہ کیلے ختم کر لئے اور مجھے وہاں بیٹھنے کا کہہ کر خود چلا گیا۔ تھوڑی دیر بعد واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں کاغذ پر سوہن حلوے کا ایک برا سا ٹکڑا تھا جو وہ سامنے والی دکان سے خرید کر لایا تھا۔ اس نے مجھے وہ ٹکڑا دیا اور کہنے کگا کہ آدھا توڑ کر اسے دوں کیوں کہ اس کے ہاتھ گندے ہیں۔ اس کی اس بات سے مجھے یقین ہو گیا کہ وہ پاگل ہرگز نہیں ۔ سوہن حلوہ کھاتے کھاتے وہ رونے لگا اور پھر میرے گلے لگ کر یوں بلکا کہ جیسے کوئی ایک طویل جدائی کے بعد اپنوں سے مل کر روتا ہے۔ راہ گیر ہمارے ارد گرد اکٹھے ہو گئے اور مجھے آنکھوں ہی آنکھوں میں وہاں سے کھسکنے کا کہنے لگے کہ مبادا شفیع روتے روتے جارحانہ ہو جائے۔ لیکن میں نہ ہلا اور شفیع روتے روتے وہیں لیٹ گیا، شاید سو گیا تھا۔ میرے والد ِ مرحوم شہر میں ہی دکانداری کرتے تھےاسی اثنا میں کسی نے میرے والدِ مرحوم کو اطلاع کر دی کہ میں کس خطرناک شخص کے پاس بیٹھا ہوں۔وہ آئے تھے تو بہت غصے میں تھے لیکن مجھے اور شفیع کو پر سکون دیکھ کر خود بھی بہت کچھ سوچنے لگے اور مجھے دکان پر ساتھ لے گئے۔ وہاں جا کر بغیر اطلاع کے شہر آنے پر سرزنش بھی کی لیکن ساتھ ہی ایک وعدہ بھی کہ شفیع کے بارے میں مجھے ضرور بتائیں گے۔ انہوں نے شاید اسی کو غنیمت جانا ہو گا کہ میری متجسس طبیعت نے کوئی سنگین گُل نہیں کھلا دیا اور مجھے مطمئن کرنے کے لئے شفیع کے حالات بتانے کا وعدہ کیا ہو گا۔
والدِ مرحوم نے مجھے کھانا کھلوایا ۔میریےخفیہ اکاؤنٹ کے بارے مین افتخارانہ باز پرس کی جس میں ابھی بھی 6 روپے کی خطیر رقم موجود تھی۔ جب میرے بیان سے پدرانہ عدالت مطمئن ہوئی تو پے رول پہ میری رہائی کے آرڈر جاری ہوئے اور ایک شخص کی معیت میں مجھے چاچے یعقوبے کی واپسی پر اس کا ہم رکاب ہونے کے لئے بھیجا۔
یوں لوٹ کے بدھو گھر کو آیا۔ شفیع کچھ عرصہ بعد فوت ہو گیا۔ میں بھی کارِ جہاں میں مشغول رہا کہ اچانک والدِ مرحوم کی طبیعت خراب ہو گئی ۔ بیماری نے طول پکڑا۔ ہسپتال میں رکھا گیا۔ گھر سے دور ہونے کی وجہ سے وہ کچھ اداس رہنے لگے تو ڈاکٹر نے کہا ان کو پریشان نہ ہونے دو بلکہ باتوں میں لگا کر رکھا کرو۔ تب یہ موقع میرے ہاتھ لگا کہ میں ان سے شفیع کے بارے میں دریافت کرتا ۔ ان کی بیماری کی حالت میں انہوں نے مجھے شفیع کے بارے میں جو بتایا وہ بہت اثر انگیز ہے۔ بشرطِ زندگی اس پر ضرور لکھوں گا۔اس مضمون پر کئے گئے تبصرے پڑھنے اور اپنی رائے دینے کے لئے یہاں کلک کریں۔