شہید صحافت: محمد صلاح الدین (مدیر تکبیر، کراچی)

یوسف-2

محفلین
salahuddin-1.jpg

salahuddin-2.jpg

salahuddin-3.jpg
 

شمشاد

لائبریرین
شہید صحافت
یہ دسمبر۹۴ء کے پہلے اتوار کی شام تھی۔ میں حسب معمول اپنے اخبار کے لئے لندن سے موصول ہونے والی خبروں کی تدوین و ترجمہ میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک روزنامہ کے مدیر تھے جو ممتاز صحافی محمد صلاح الدین سے متعلق ایک خبر کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ متعلقہ رپورٹر سے فوری رابطہ کے بعد اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ کچھ ہی دیر قبل صلاح الدین صاحب کو ان کے دفتر سے نکلتے ہی نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کر دیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔​
جب ذرا اوسان بحال ہوئے تو صلاح الدین صاحب کے ایک دیرینہ رفیق کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ جمعیت الفلاح گئے ہوئے ہیں اور جب میں وہاں پہنچا تو اجلاس کا اختتامی سیشن چل رہا تھا۔ اور صدر مجلس بتلا رہے تھے کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو صلاح الدین صاحب نے فون پر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع دی تھی۔ اے کاش کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے دفتر سے جلد اٹھ جاتے تو یہ سب کچھ تو نہ ہوتا جو ہو گیا ہے۔۔۔ مگر اس طرح تو وہ شہادت کی سعادت سے محروم نہ ہو جاتے؟۔۔۔ پھر کیا ہوتا، کم از کم ہم تو ان سے محروم نہ ہوتے۔۔۔ ہم بھی کتنے خود غرض ہیں کہ ہر دم اپنی غرض۔۔۔ اپنی محرومی ہی کا خیال رہتا ہے۔ ایک وہ تھے جو اپنے شہر، اپنے ملک بلکہ پورے عالم اسلام کی محرومیاں دور کرنے کی سعی مسلسل کرتے ہوئے اپنی جان تک کی بازی لگا بیٹھے۔​
گو صلاح الدین صاحب سے جمعیت الفلاح کے اجلاسوں اور شہر میں ہونے والی دیگر تقاریب کے علاوہ کبھی براہ راست فیض حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ان کے ساتھ کسی اخبار یا رسالہ میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر اس کے باوجود مجھے ان کی تحریروں اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں کےمطالعہ سے براہ راست بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے صلاح الدین صاحب پر ایک بھرپور خاکہ لکھا جو غالباً ان کی زندگی میں ان پر لکھی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تحریر ہے۔ یہ خاکہ تکبیر ہی میں شائع ہونے والے معروف سیاسی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کے مقبول عام سلسلہ "تاب سخن" کی طرز پر لکھا گیا تھا۔ یہ خاکہ اس اعتبار سے منفرد نوعیت کا حامل ہے کہ صلاح الدین صاحب کے پرستاروں نے اسے ان کے خلاف اور ان کے مخالفین نے حمایت میں لکھا ہوا خاکہ قرار دیا۔​
مجلس ادب کی ایک تنقیدی نشست میں ممتاز شاعر جمیل علوی نے کہا کہ یہ کالم لکھ کر موصوف "گڈول" بنانے کے چکر میں ہیں۔ شمس الدین خالد نے کہا کہ یوسف ثانی نے خاکہ اڑانے والے کا خاکہ خوب اڑایا ہے۔ کمانڈر عبد الجلیل صاحب نے کہا کہ خاکہ نویس اپنا بھرپور روایتی انداز پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، غالباً ان پر زیر بحث شخصیت کا خوف طاری رہا ہے۔ جبکہ اس خاکسار نے یہ خاکہ صلاح الدین صاحب کو ارسال کرتے ہوئے ان کے نام اپنے پہلے اور آخری مکتوب میں صاف صاف واضح کر دیا تھا کہ : "کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود مضمون نگار اپنے تحریر کردہ مضمون کے نفس سے متفق نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب لکھنے والا کالم نویس یا فکاہیہ نگار ہو۔ وہ اکثر و بیشتر خلق خدا کی آراء کو زبان عطا کرتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کالم نویس نے لکھا ہے وہ دراصل خود اس کے ذاتی نظریات و خیالات ہیں۔"​
 

شمشاد

لائبریرین
صلاح الدین صاحب کی زندگی میں لکھا گیا یہ خاکہ گو اپنی جگہ ایک مکمل اور مربوط تحریر ہے جس کے حصے بخرے کرنے سے اس کا حسن اور تسلسل متاثر ہو سکتا ہے۔ تاہم اس کے منتخب حصے پیش خدمت ہیں جو یقیناً قارئین کی دلچسپی کا باعث ہونگے۔
صحافیوں کے نزدیک نِرے مولوی ہیں تو بعض مولویوں کے نردیک نَر صحافی۔ نتیجتاً موصوف میں نہ صحافیوں والی مخصوص "بُو" پائی جاتی ہے نہ مولویوں والی روایتی "خُو"۔ ابھی تک یہ بات واضح نہین ہو سکی ہے کہ موصوف کا اصل پیشہ سیاست ہے یا صحافت؟ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کو اسپانسر کرنے والے ہمارے ممدوح کے سلسلے میں ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں خسارے کی سرمایہ کاری نہ کر بیٹھیں۔ موصوف کو چاہیے کہ وہ ان اسپانسرز کی پریشانی دور کر دیں۔ ان کی اپنی (مالی) پریشانیاں خود بخود دور ہو جائیں گی۔​
ہمارے ممدوح کی سیاسی وابستگی بھی عورت ذات کی طرح ایک ایسا معمہ ہے جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جا سکتا ہے۔ گو کہ ہر دو کام پہلے بھی جارے تھے اور غالباً آئندہ بھی جاری رہیں گے۔ عوام الناس انہیں "جماعتی" سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ جماعتی انہیں جماعتی سمجھتے تو تھے مگر اب ایسا ہرگز نہیں سمجھتے اور آئندہ کے لئے تو انہوں نے توبہ ہی کر ڈالی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو کبھی پیدائشی مسلم لیگی کہتے ہیں تو کبھی الجماعت (جس کا وجود ع ہر چند کہیں ہے کہ نہیں ہے، کی طرح متنازعہ ہی ہے) کارکن گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ جماعت سے متفق ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ جماعت میں متفقین ہی کی تعداد سب سے زیادہ ہے اور اس جمہوری دور میں لوگ عموماً اکثریتی گروہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ پھر شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے قارئین کی اکثریت کا تعلق مبینہ طور پر متفقین جماعت ہی سے ہے۔​
 

شمشاد

لائبریرین
صلاح الدین دھن کے بڑے پکے ہیں۔ جس راگ کو اپنا لیں اسے ہر موسم میں الاپتے رہتے ہیں۔ حکومت خواہ اپنوں کی ہو یا پرایوں کی۔ اپنوں کی حکومت میں گھر اور دفتر جلوا کر سرکاری امداد ببانگ دہل وصول کرتے ہیں۔ مگر راس نہ آنے پر اسی طرح لوٹا دیتے ہیں جیسے بیت المال کی رکنیت۔ یہ اتنے بڑے صحافی ہیں کہ اچھے اچھے صحافی پلاٹ پرمٹ حاصل کرکے بھی اچھے ہی رہے اور یہ نہ حاصل کر کے بھی بُرے کے بُرے۔ گو تکبیر کا آغاز "مجھے ہے حکم اذاں" سے کرتے ہیں مگر بدخواہوں کا کہنا ہے کہ یہ بین السطور "اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں" بھی کہنا چاہتے ہیں۔ غالباً اسی عقیدہ کی بنیاد پر جماعت میں "بت" ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی "شکنی" کرتے رہتے ہیں۔ گویا محمود غزنوی بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اوپر یہ الزام بھی لگنے نہیں دینا چاہتے۔ احتیاطً موصوف اپنا دفتر بھی محمود غزنوی روڈ کے قریب سے اٹھا کر بہت دور لے گئےہیں۔
صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے (نفس کے) تن کو قید رکھنے کے قائل ہیں تو یہ خود کو "تن قید" پر مائل پاتے ہیں۔ اب تک جتنی تنقید سیاست اور سیاست دانوں پر کر چکے ہیں اگر اتنی تنقید ادب اور ادیبوں پر کی ہوتی تو اب تک پی ایچ ڈی اور ڈی لٹ کی ڈگریوں کی مالا گلے میں لٹکائے ادب کے سادھو بنے بیٹھے ہوتے اور اردگرد ادیبوں کا میلہ لگا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس۔ عورتیں تو محض "پی" کو کوستی ہیں یہ پی۔۔۔ پی کو کوستے رہتے اور وہ بھی ایسے جیسے پی پی کے کوس رہے ہوں۔ چنانچہ کود بھی بند ہوئے اور اپنی ادارت میں شائع ہونے والے اخبار کو بھی بند کرواتے رہے۔ غالب کو تو شکایت تھی کہ ع پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ مگر یہ ایسے بھولے نکلے کہ دوسرے کے لکھے اداریوں پر بارہا پکڑے گئے مگر کبھی شکایت نہیں کی۔ نہ لکھنے والے سے نہ پکڑنے والوں سے۔ چنانچہ بالا آخر اخبار سے یہ کہتے ہوئے نکلے یا نکالے گئے کہ ع بہت "با آبرو" ہو کر تیرے کوچے سے میں نکلا۔ جس کی حمایت کرتے ہیں اسے شہید کا درجہ دلوا کر رہتے ہیں۔ مثلاً ضیاء الحق شہید۔ جس کی مخالفت کرتے ہیں اسے پھانسی پر لٹکوا کر ہی چھوڑتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو۔ شنید ہے کہ آج کل موصوف نواز شریف کی حمایت اور قاضی حسین احمد کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ تعالٰی ہر دو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے (آمین)۔​
جماعت سے گو متفق ہیں مگر "جماعتوں" سے غیر متفق۔ مطلب یہ کہ گڑ تو پسند ہے مگر گلگلوں سے پرہیز فرماتے ہیں۔ گل بہار (بانو نہیں) سے خاصی انسیت ہے۔ مگر جب سے وہاں کے باسی بزور کلاشنکوف اسے دوبارہ گولی مار بنانے پر تل گئے ہیں، طبیعت کچھ اچاٹ سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جیل کی کوٹھڑی میں ہوتے تھے تو کوٹھڑی کے باہر پولیس والا کھڑا ہوتا تھا کہ مبادہ کوٹھڑی سے نکل کر باہر نہ بھاگ جائیں۔ پھر خدا نے وہ دن دکھایا کہ یہ گل بہار میں ہوتے تھے تو گھر کے باہر پولیس کا پہرہ ہوتا تھا کہ مبادا اردگرد موجود ان گنت کلاشنکوف بردار قریب سے گزرنے والی بسوں، منی بسوں کے کنڈیکٹروں کی صدا۔ گولی مار!گولی مار! پر عمل ہی نہ کر بیٹھیں۔​
 

شمشاد

لائبریرین
کوچہ صحافت میں جہاں کہیں بھی رہے اپنی انفرادیت برقرار رکھی۔ اپنی صحافتی ٹیم کے کارکنوں کے ساتھ وہی سلوک کرتے ہیں جو کسی مشاعرہ میں شاعر یا اکھاڑے میں پہلوان اپنے شاگردوں کے ساتھ کرتا ہے۔ یعنی قافیہ، ردیف اور داؤ پیچ خود بتلاتے ہیں، شاگرد انہی پر عمل کر کے کامیاب یا ناکام ہوتا ہے۔ کثیر الشاگرد صحافی ہیں۔ جو شاگردی سے انکار کر دے اسے اپنی ٹیم سے ہی نکال دیتے ہیں۔ ایک غیر خواہ کے بقول خود کو صحافت کا وڈیرہ اور قاری کو اپنا ہاری تصور کرتے ہیں۔ ایک عرصہ سے نیوز میگزین کے نام پر "ویوز میگزین" نکال رہے ہیں۔ اداریہ سے لے کر ادبی کالم تک کے تمام صفحات موصوف کے ذاتی ویوز کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ قارئین کے تعریفی خطوط انہیں اور تنقیدی خطوط ان کی ردی کی ٹوکری کو بہت مرغوب ہیں۔ سیاستدانوں کو پبلک پراپرٹی سمجھتے ہوئے اس کی تکا بوٹی کرنا جائز تصور کرتے ہیں۔ جبکہ اپنے آپ کو تنقید سے بالاتر سمجھتے ہیں۔ شاید ہی کوئی ایسی سطر ان کے پرچہ میں شائع ہوئی ہو جو ان کے خلاف جاتی ہو۔ جو دوست کا دوست ہے وہ ان کا بھی دوست ہے چنانچہ دوست کے دوست کا سات خون بھی معاف کر دیتے ہیں۔ اپنی رائے کو اس تواتر سے لکھتے ہیں کہ ہر پرچہ پر گذشتہ شمارے کا گمان ہوتا ہے اور کبھی کبھی تو (جو اکثر ہوتا ہے) سابقہ تجزیوں اور جائزوں ہی کو نئی کمپوزنگ کے ساتھ شائع کر کے فروخت کے لئے مارکیٹ میں لے آتے ہیں۔ جس شخص یا جماعت کو ملک دشمن سمجھ لیں اس کی ہر اچھی بات (فعل) پر بھی شک کا اظہار کرتے ہیں اور جسے ایک مرتبہ ملک کا خیر خواہ قرار دے دیں، اس کی ہر ملک دشمنی سے صرف نظر کرتے ہیں۔
ہم موصوف کے خیر خواہ ہونے کے ناطے یہ چاہتے ہیں کہ ان کا پرچہ دن دگنی رات چوگنی ترقی کرے۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ وہ اپنے پرچہ کی ترقی کی خاطر اپنے پرچے میں اپنا کالم شائع کرنا بند کر دیں بلکہ ہر وہ کالم بند کر دیں جو ان کے کالموں کے رنگ و روپ سے ملتا جلتا ہو تاکہ ان کا پرچہ کم از کم ان کے قارئین کے بچوں کی ضرورت تو پوری کر سکے جو ہر ہفتے نئی کاپیوں کا تقاضہ کرتے رہتے ہیں۔ او ریہ کوئی انہونی بات نہ ہو گی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو اب تک ایسی کئی کتابیں شائع ہو چکی ہیں جن کے تمام صفحات سادہ ہیں۔ اگر موصوف نے ہمارے اس مشورے پر عمل کیا تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہر جماعت کے نصاب میں موصوف کے ہفتہ وار پرچے کو شامل نصاب کرنے میں محکمہ تعلیم کو کوئی عار نہ ہو گا اور یوں ان کا پرچہ اپنے ہم عصر کثیر الاشاعت پرچوں سے بہت آگے نکل جائے گا۔​
سیاسی تجزیہ نگاری میں اپنے ثانی خود آپ ہیں۔ مستقبل کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی خوش قسمت رپورٹر کسی وقوعہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔۔۔ خفیہ اجلاسوں کا آنکھوں دیکھا حال" اس طرح قلمبند کرتے یا کرواتے ہیں کہ خفیہ اجلاس منعقد کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنا سر اس لئے کہ اس "کار خیر" کے لئے موصوف کے سر تک رسائی نہیں ہو پاتی، درمیان میں "ایجنسیاں" جو حائل ہو جاتی ہیں۔۔۔"​
اور قارئین کرام! آپ نے دیکھ ہی لیا جونہی "ایجنسیاں" درمیان میں سے ہٹیں۔ اور شہر سے نکل کر واپس بیرکوں میں پہنچیں، صلاح الدین صاحب کے ساتھ وہی کچھ ہوا جس کی "پیشن گوئی" ٹھیک ایک برس قبل یعنی دسمبر ۹۳ء میں لکھے گئے اس خاکہ میں کی گئی تھی۔ غالباً یہی وہ احساس تھا جس کے باعث صلاح الدین شہید کے جنازہ کو اشکبار آنکھوں سے کاندھا دیتے ہوئے میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ کاش میں نے یہ خاکہ نہ لکھا ہوتا۔۔۔ مگر میرے یا کسی کے لکھنے یا نہ لکھنے سے کیا ہوتا ہے، ہوتا وہی ہے جو منظور خدا ہے۔​
صلاح الدین صاحب کی شہادت پر خراج عقیدت پیش کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ تاریخ ساز شخصیات کی زندگیوں میں ۵۹ برس کی عمر بھی کوئی عمر ہوتی ہے۔ میدان صحافت میں ربع صدی سے زائد بھرپور سال گزار کر ریٹائرمنٹ کی رسمی عمر سے بھی قبل ریٹائر ہونے والے اس شہید صحافت بلکہ شہید وفا کے لئے میں اس کے سوا اور کیا کہوں کہ وہ ۔۔۔ اللہ کی عطا کردہ زندگی ۔۔۔ اللہ ہی کی راہ میں خرچ کر کے ع حق تو یہ کہ حق ادا کر گیا۔​
 

یوسف-2

محفلین
کاش اصل خاکہ بھی محفوظ ہوتا، وہ خاصے کی چیز تھا۔ بہر کیف اس کی جھلکیاں اس ""تعزیتی مضمون‘‘ میں بھی ہیں، جو ان کی وفات کے فورا" بعد شائع ہوا تھا۔
 

یوسف-2

محفلین
ہفت روزہ تکبیر کراچی میں خاکہ نگاری کے نام پر جب معززین شہر پر خاک اُڑتے دیکھی تو سوچا کیوں نہ صاحبِ تکبیر پر بھی خاک اُڑائی جائے۔ میرے منہ میں خاک، میرا مطلب ہے کہ خاکہ اُڑایا جائے۔ سو اب جگر تھام کے بیٹھو کہ "تمہاری" باری آئی ع ۔ کوئی اٹھارہ سالہ پرانی تحریر
×××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××××​
صحافیوں کے نزدیک نِرے مولوی ہیں تو بعض مولویوں کے نزدیک نَر صحافی۔ نتیجتا" موصوف میں نہ صحافیوں والی مخصوص بُو پائی جاتی ہے نہ مولویوں والی روایتی خُو ۔ ابھی تک یہ بات واضح نہیں ہو سکی ہے کہ موصوف کا اصل پیشہ سیاست ہے یا صحافت ؟ یہی وجہ ہے کہ ہر دو کو اسپانسر کرنے والے ہمارے ممدوح کے سلسلہ میں ابھی تک شش و پنج میں مبتلا ہیں کہ کہیں خسارے کی سرمایہ کاری نہ کر بیٹھیں۔ موصوف کو چاہئیے کہ وہ ان اسپانسرز کی "پریشانی" دور کردیں ۔ ان کی اپنی مالی پریشانیاں خود بخود دور ہوجائیں گی۔ شنید ہے کہ حضرت بہت پہلے معلمی کیا کرتے تھے اور غیر معروف بچے بچیوں کو پڑھایا کرتے تھے۔ اب بذریعہ صحافت معروف، بالخصوص سیاستدان مرد و زن کو پڑھانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کوشش اس لئے کہ "پٹی" جو غیر معروف بچے بچیوں کو بھی آسانی سے پڑھائی جاسکتی ہے، وہ معروف مرد و زن میں سے ہر دو کو پڑھانا خاصا مشکل کام ہے۔ اور جو لوگ، بالخصوص مؤخر الذکر کے ضمن میں کامیاب بھی ہوجاتے ہیں تو اُن کے خلاف عموما" حدود آرڈیننس کے تحت مقدمہ ہی قائم ہوتا ہے۔ الحمد اللہ ہمارے ممدوح ربع صدی سے زائد کی کوششوں کے باوجود آج تک کسی مشہور یعنی سیاسی مرد یا زن کو کچھ پڑھانے میں ناکام ہی رہے ہیں۔ گو کوششیں ہر دو اصناف پر اِ ن کی آج بھی جاری ہیں۔ دیکھیں کیا گزرے ہے، ہر دو کا حشر ہونے تک ع ہمارے ممدوح کی سیاسی وابستگی بھی عورت ذات کی طرح ایک ایسا معمہ ہے، جسے نہ سمجھا جا سکتا ہے اور نہ سمجھایا جاسکتا ہے۔ گو کہ ہر دو کام کل بھی جاری تھا اور غالبا" کل بھی جاری رہے گا۔ عوام الناس اِ نہیں "جماعتی" سمجھتے تھے، سمجھتے ہیں اور سمجھتے رہیں گے۔ جبکہ "جماعتی" اِنہیں جماعتی سمجھتے تو تھے، مگر اَب ایسا ہرگز نہیں سمجھتے اور آئندہ کے لئے تو اُنہوں نے توبہ ہی کر ڈالی ہے۔ یہ خود اپنے آپ کو کبھی "پیدائشی مسلم لیگی" کہتے ہیں تو کبھی "الجماعت" ۔ جس کا وجود ع ہر چند کہ کہیں ہے، نہیں ہے ، کی طرح متنازعہ ہی ہے ۔ کا رکن گردانتے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ "جماعت" سے "متفق" ہونے کا دعویٰ بھی کرتے ہیں۔ شاید اسی لئے کہ جماعت میں "متفقین" ہی کی تعداد سب سے زائد ہے۔ اور اس جمہوری دور میں لوگ عموما" اکثریتی گروہ کے ساتھ ہی رہنا پسند کرتے ہیں۔ یا پھر شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ موصوف کے قارئین کی اکثریت کا تعلق مبینہ طور پر "متفقین جماعت" ہی سے ہے۔ جماعت اسلامی اور مسلم لیگ دونوں سے بیک وقت "تعلق" رکھنے کا دعویٰ موصوف کے ممدوح ضیاء الحق شہید کے فرزند ارجمند اعجاز الحق کو بھی ہے۔ جو خود کو عملی طور پر مسلم لیگی اور ذہنی طور پر جماعتی کہتے ہیں۔ وہ تو عملی طور پر اتنے زیادہ مسلم لیگی ہیں کہ مسلم لیگ کی حکومت میں وزیر بنتے ہیں تو اپنے والد کی شہادت کو قصہ پارینہ مجھ کر بھول جاتے ہیں اور حکومت ختم ہوتے ہی سانحہ بھاولپور کی از سر نوَ فوری تحقیقات کا مطالبہ شروع کردیتے ہیں۔ ہمارے ممدوح حکومت مسل لیگ کی ہو یا غیر مسلم لیگ کی، ہر دَور میں نہ صرف یہ کہ اس سانحہ کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں بلکہ اس "شہادت" کی ہر "برسی" پراپنے پرچہ کا خصوصی ضمیمہ بھی شائع کرتے ہیں۔ اگر اُنہوں نے ہر قومی "سانحہ"کی ہر "برسی" پر اسی طرح خصوصی ضمیمہ نکالنا شروع کردیا تو وہ دن دور نہیں جب تکبیر کا ہر شمارہ خصوصی شمارہ کی صورت میں قارئین کو ہر ہفتہ ایک نئے سانحہ سے "دوچار" کیا کرے گا۔ کیونکہ ہمارے ہاں نہ صرف یہ کہ سانحے تواتر سے رونما ہوتے ہیں بلکہ حالت یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ ع حادثہ سے بڑا سانحہ یہ ہوا لوگ ٹھہرے نہیں حادثہ دیکھ کر صلاح الدین صاحب "دُھن" کے بڑے پکے ہیں۔ جس راگ کو اپنا لیں، اُسے ہر موسم میں الاپتے رہتے ہیں، خواہ حکومت اپنوں کی ہو یا پرایوں کی۔ "اپنوں" کی حکومت میں گھر اور دفتر "جلواکر" سرکاری امداد ببانگِ دہل وصول کرتے ہیں۔ مگر "راس" نہ آنے پر اسی طرح لوٹا دیتے ہیں جیسے بیت المال کی رکنیت۔ یہ اتنے " بُرے " صحافی ہیں کہ اچھے اچھے صحافی پلاٹ پرمٹ حاصل کرکے بھی " اچھے" ہی رہے اور یہ نہ حاصل کرکے بھی " بُرے کے بُرے "۔ گو تکبیر کا آغاز " مجھے ہے حکمِ اذاں" سے کرتے ہیں۔ مگر بد خواہوں بالخصوص "جماعتیوں" کا کہنا ہے کہ یہ بین السطور " اگرچہ بُت ہیں "جماعت" کی آستینوں میں" کہنا چاہتے ہیں۔ غالبا" اسی "عقیدہ" کی بنیاد پر جماعت میں " بُت " ڈھونڈ ڈھونڈ کر اس کی "شِکنی" کرتے رہتے ہیں۔ گویا محمود غزنوی بننے کے خواہاں ہیں۔ مگر لطف کی بات یہ ہے کہ اپنے اوپر یہ "الزام" بھی لگنے نہیں دینا چاہتے۔ احتیاطا" موصوف اپنا دفتر بھی محمود غزنوی روڈ کے قریب سے اُٹھا کر بہت دور لے گئے ہیں۔ ہمارے بعض علمائے کرام "دین" میں "سیاست" کے داخل ہونے میں حائل ہیں تو موصوف سیاست میں دین کو داخل کرنے کے قائل۔ اپنے نام کے پہلے حصہ پر ہمہ وقت عمل پیرا رہتے ہیں، مگر دعویٰ دوسرے حصہ پر عمل پیرا رہنے کا کرتے ہیں۔ چنانچہ ہر اچھے بُرے، ملنے اور نہ ملنے والے کو مسلسل صلاح مشورہ سے نوازتے رہتے ہیں، ما سِوائے نواز شریف کے۔ کیونکہ بقول اِن کے، نواز شریف کو تو خود خدا نواز رہا ہے۔ جس شخص کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں، اسے ملک سے بھگا کر چھوڑتے ہیں، جیسے قائدِ تحریک اور جو بھاگ نہ پائے، سمجھ لیجئیے کہ یہ ان کے پیچھے تو ہیں، مگر ہاتھ دھو کر نہیں، جیسے مرزا اسلم بیگ۔ صوفیائے کرام کی تعلیمات سے متاثر معلوم ہوتے ہیں۔ وہ اپنے نفس کے " تَن" کو "قید" رکھنے کے قائل ہیں تو یہ خود کو "تن قید" پر مائل پاتے ہیں۔ اب تک جتنی تنقید سیاست اور سیاست دانوں پر کر چکے ہیں، اگر اتنی تنقید ادب اور ادیبوں پر کیا ہوتا تو اب تک پی ایچ ڈی اور ڈی لِٹ کی ڈگریوں کی مالا گلے میں لٹکائے ادب کے سادھو بنے بیٹھے ہوتے اور اِرد گِرد ادیبوں اور ادیباؤں کا میلہ لگا ہوتا۔ مگر افسوس صد افسوس، عورتیں تو اپنے "پی" کو کوستی ہیں، یہ پی، پی کو کوستے رہے اور وہ بھی ایسے جیسے پی پی کے کوس رہے ہوں۔ چنانچہ خود بھی "بند" ہوئے اور اپنی ادارت میں شائع ہونے والے جسارت کو بھی بند کرواتے رہے۔ غالب کو تو شکایت تھی کہ ع پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق۔ مگر یہ ایسے "بھولے" ہیں کہ کسی دوسرے کے لکھے اداریوں پر بارہا پکڑے گئے مگر کبھی شکایت نہیں کی۔ نہ لکھنے والے سے اور نہ پکڑنے والے سے۔ چنانچہ بالآخر جسارت سے یہ کہتے ہوئے نکلے یا نکالے گئے کہ ع بہت "با آبرو" ہوکر تِرے کوچہ سے ہم نکلے ۔ جس کی حمایت کرتے ہیں اُسے شہید کا درجہ دلواکر رپتے ہیں مثلا" ضیاء الحق شہید۔ اور جس کی مخافت کرتے ہیں، اُسے پھانسی پر لٹکواکر ہی چھوڑتے ہیں جیسے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم۔ شنید ہے کہ آج کل موصوف نوازشریف کی حمایت اور قاضی حسین احمد کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں۔ اللہ ہر دو کو اپنے حفظ و امان میں رکھے۔ آمین۔ جماعت سے گو "متفق" ہیں مگر جماعتیوں سے غیر متفق۔ مطلب یہ کہ گُڑ تو پسند ہے، مگر گلگلوں سے پرہیز ہے۔ گُل بہار (بانو نہیں) سے خای اُنسیت ہے۔ لیکن جب سے وہاں کے باسی بزور کلاشنکوف، اسے دوبارہ "گولی مار" بنانے پر تُل گئے ہیں، طبیعت یہاں سے کچھ اُچاٹ سی دکھائی دیتی ہے۔ ایک وقت تھا کہ جیل کے "سیل " میں ہوتے تھے تو سیل کے باہر پولس والا کھڑا ہوتا تھا کہ مبادا موصوف سیل سے باہر نہ بھاگ جائیں۔ پھر خدا نے وہ دن دکھایا کہ گُل بہار میں ہوتے تھے توگھر کے باہر پولس کا پہرا ہوتا تھا کہ مبادا اِرد گِرد موجود اَن گنت کلاشنکوف بردار قریب سے گزرنے والے بسوں منی بسوں کے کنڈکٹروں کی صدا ۔ " گولی مار، گولی مار " پر عمل ہی نہ کر بیٹھیں۔ سیاسی تجزیہ نگاری میں اپنے ثانی خود آپ ہیں۔ مستقبل کا جائزہ اس طرح پیش کرتے ہیں جیسے کوئی خوش قسمت رپورٹر کسی حادثہ کا آنکھوں دیکھا حال بیان کر رہا ہو۔ لمحہ بہ لمحہ کی تفصیلی روداد، ہلاک و زخمی شدگان کی مکمل شناکت کے ساتھ۔ خفیہ اجلاسوں کا "آنکھوں دیکھا" حال اس طرح قلم بند کرتے یا کرواتے ہیں کہ خفیہ اجلاس منعقد کرنے والے اپنا سر پیٹ کر رہ جاتے ہیں۔ اپنا سر اس لئے کہ اس "کارِ خیر" کے لئے موصوف کے سر تک رسائی نہیں ہوپاتی، درمیان میں "ایجنسیاں" جو حائل ہوجاتی ہیں۔ موصوف کے بہی خواہ انہیں مولانا ظفر علی خان کے روپ میں اور بدخواہ میر خلیل الرحمٰن کے بہروپ میں دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ راوی کی روایت ہے، چنانچہ دروغ بر گردنِ راوی ہے کہ ایک بڑے اخبار کے مالک مدیر نے محترم طاہر مسعود کو اپنے اخبار میں کالم لکھنے کی دعوت دی گویا کہا، " آ بیل سینگ مار" دوچار کالموں کی اشاعت کے بعد جب اُنہیں اپنی غلطی کا احساس ہوا تو انہوں نے طاہر مسعود کو اپنے دفتر میں بُلواکر کہا کہ اب میرے پاس دو ہی راستے بچے ہیں۔ یا تو اپنا اخبار بند کردوں یا آپ کا کالم۔ طاہر مسعود فورا" بول اُٹھے : آپ ایسا کریں کہ اخبار ہی بند کردیں تاکہ میرے کالم بند ہونے کا کوئی معقول جواز تو پیدا ہوسکے۔ وہ دن ہے اور آج کا دن، اخبار دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کررہا ہے۔ جبکہ طاہر مسعود نے کالم نویسی سے توبہ کرلی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ انہوں نے انتقاما" کالم نویوں کی فوج تیار کرنے کے لئے صحافت کی معلمی کا پیشہ اختیار کرلیا ہے۔ ہمارے ممدوح بھی اس واقعہ سے سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اگر وہ چاہتے ہین کہ اُن کا پرچہ مذکورہ اخبار کی طرح دن دُگنی اور رات چوگنی ترقی کرے تو وہ اپنے پرچہ میں اپنا کالم شائع کرنا بند کردیں۔ بلکہ ہر وہ کالم بند کردیں جو اُن کے کالم کے رنگ و روپ سے ملتا جلتا ہو تاکہ اُن کا پرچہ کم از کم اُن کے قارئین کے بچوں کی ضرورت تو پوری کرسکے جو ہر ہفتہ نئی کاپیوں کا تقاضہ کرتے ہیں۔ اور یہ کوئی اَنہونی بات نہ ہوگی۔ ترقی یافتہ ممالک میں تو آج بھی ایسی کتابیں شائع ہوچکی ہیں، جن کے تمام صفحات سادہ ہیں۔ اگر موصوف نے ہمارے اس مشورہ پر عمل کیا تو ہم انہیں یقین دلاتے ہیں کہ ہر جماعت کے تعلیمی نصاب میں موصوف کے ہفتہ وار پرچہ کو شامل نصاب کرنے پر محکمہ تعلیم کو خوشی محسوس ہوگی۔ اور یوں موصوف کا پرچہ اپنے ہم عصر کثیر الاشاعت پرچوں سے کہیں آگے نکل جائے گا۔
 
Top