شہید صحافت
یہ دسمبر۹۴ء کے پہلے اتوار کی شام تھی۔ میں حسب معمول اپنے اخبار کے لئے لندن سے موصول ہونے والی خبروں کی تدوین و ترجمہ میں مصروف تھا کہ ٹیلی فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف ایک روزنامہ کے مدیر تھے جو ممتاز صحافی محمد صلاح الدین سے متعلق ایک خبر کی تصدیق چاہ رہے تھے۔ متعلقہ رپورٹر سے فوری رابطہ کے بعد اس خبر کی تصدیق ہو گئی کہ کچھ ہی دیر قبل صلاح الدین صاحب کو ان کے دفتر سے نکلتے ہی نامعلوم دہشت گردوں نے شہید کر دیا ہے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
جب ذرا اوسان بحال ہوئے تو صلاح الدین صاحب کے ایک دیرینہ رفیق کو فون کیا تو پتہ چلا کہ وہ جمعیت الفلاح گئے ہوئے ہیں اور جب میں وہاں پہنچا تو اجلاس کا اختتامی سیشن چل رہا تھا۔ اور صدر مجلس بتلا رہے تھے کہ ابھی کچھ دیر قبل ہی تو صلاح الدین صاحب نے فون پر اجلاس میں شرکت نہ کرنے کی اطلاع دی تھی۔ اے کاش کہ وہ اس اجلاس میں شرکت کے لئے دفتر سے جلد اٹھ جاتے تو یہ سب کچھ تو نہ ہوتا جو ہو گیا ہے۔۔۔ مگر اس طرح تو وہ شہادت کی سعادت سے محروم نہ ہو جاتے؟۔۔۔ پھر کیا ہوتا، کم از کم ہم تو ان سے محروم نہ ہوتے۔۔۔ ہم بھی کتنے خود غرض ہیں کہ ہر دم اپنی غرض۔۔۔ اپنی محرومی ہی کا خیال رہتا ہے۔ ایک وہ تھے جو اپنے شہر، اپنے ملک بلکہ پورے عالم اسلام کی محرومیاں دور کرنے کی سعی مسلسل کرتے ہوئے اپنی جان تک کی بازی لگا بیٹھے۔
گو صلاح الدین صاحب سے جمعیت الفلاح کے اجلاسوں اور شہر میں ہونے والی دیگر تقاریب کے علاوہ کبھی براہ راست فیض حاصل کرنے کا موقع نہیں ملا اور نہ ہی کبھی ان کے ساتھ کسی اخبار یا رسالہ میں کام کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ مگر اس کے باوجود مجھے ان کی تحریروں اور ان کی ادارت میں شائع ہونے والے جریدوں کےمطالعہ سے براہ راست بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا ہے۔ میں نے صلاح الدین صاحب پر ایک بھرپور خاکہ لکھا جو غالباً ان کی زندگی میں ان پر لکھی گئی اپنی نوعیت کی پہلی تحریر ہے۔ یہ خاکہ تکبیر ہی میں شائع ہونے والے معروف سیاسی شخصیات پر لکھے گئے خاکوں کے مقبول عام سلسلہ "تاب سخن" کی طرز پر لکھا گیا تھا۔ یہ خاکہ اس اعتبار سے منفرد نوعیت کا حامل ہے کہ صلاح الدین صاحب کے پرستاروں نے اسے ان کے خلاف اور ان کے مخالفین نے حمایت میں لکھا ہوا خاکہ قرار دیا۔
مجلس ادب کی ایک تنقیدی نشست میں ممتاز شاعر جمیل علوی نے کہا کہ یہ کالم لکھ کر موصوف "گڈول" بنانے کے چکر میں ہیں۔ شمس الدین خالد نے کہا کہ یوسف ثانی نے خاکہ اڑانے والے کا خاکہ خوب اڑایا ہے۔ کمانڈر عبد الجلیل صاحب نے کہا کہ خاکہ نویس اپنا بھرپور روایتی انداز پیش کرنے سے قاصر رہا ہے، غالباً ان پر زیر بحث شخصیت کا خوف طاری رہا ہے۔ جبکہ اس خاکسار نے یہ خاکہ صلاح الدین صاحب کو ارسال کرتے ہوئے ان کے نام اپنے پہلے اور آخری مکتوب میں صاف صاف واضح کر دیا تھا کہ : "کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ خود مضمون نگار اپنے تحریر کردہ مضمون کے نفس سے متفق نہیں ہوتا۔ بالخصوص جب لکھنے والا کالم نویس یا فکاہیہ نگار ہو۔ وہ اکثر و بیشتر خلق خدا کی آراء کو زبان عطا کرتا ہے اور لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو کچھ کالم نویس نے لکھا ہے وہ دراصل خود اس کے ذاتی نظریات و خیالات ہیں۔"