سید شہزاد ناصر
محفلین
ظفر اقبال
غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
شعراء حضرات جو کچھ انٹرویوز وغیرہ میں کہتے ہیں، اس پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر کسی شعر یا نظم میں بھی کوئی مثلاً نظریاتی بات آ جائے تو اسے بھی اس کی حتمی رائے قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ صرف شاعر کے خیالات اور نظریات تبدیل ہوتے رہتے ہیں بلکہ اس کے کلام میں بیک وقت متناقض معاملات بھی در آتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی شاعر کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے اس کے کلام کی مطلق ٹوٹلائزیشن کے عمل سے گزرنا از بس ضروری ہے جسے ایک مجموعی تاثر بھی کہا جا سکتا ہے۔ یوں بھی شاعر کے وجدان و فکر میں ایسی متخالف رویں بھی چلتی ہیں جو ایک دوسری کا کاٹتی پھانٹتی، بلکہ ایک دوسری سے باہم در آویزاں اور ایک دوسری کو چیر کر گزر جانے کا بھی ایک قرینہ رکھتی ہیں جو بجائے خود ایک دلچسپ مطالعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
شاعر چونکہ معاشرے ہی کا ایک فرد ہوتا ہے اور اس سے الگ ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے اس کے خیالات و نظریات کا خمیر معاشرے ہی سے اٹھتا ہے، جس کی اپنی روایات اور قرینے اس پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور اس کے معاملات کو دیکھنا بھی اسی تناظر میں چاہیے۔ غالب جس معاشرے میں بود و باش رکھتا تھا، وہ نہ صرف آج سے قطعا مختلف تھا بلکہ اس کے بیشتر پیش رو اساتذہ سے بھی کئی لحاظ سے مختلف تھا۔ اور بعض باتیں اور طور اطوار جو ہمیں عجیب لگتے ہیں یا ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکے، غالب کے معاشرے میں وہ معمولات میں شامل تھے۔ اختلافِ رائے چونکہ ایک مکالمے کی بنیاد رکھنے کا بھی سبب بنتا ہے اور اپنی زندگی میں غالب خود بھی اختلافِ رائے کا اظہار پورے ذوق و شوق اور اتھارٹی کے ساتھ کیا کرتے تھے، اس لیے غالب کے ساتھ نہ صرف اُس وقت بلکہ اب بھی بعض حوالوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ماہنامہ "ادبی دنیا" کراچی میں غالب کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ جس شاعر کا کلام فقیر گلیوں میں گاتے ہوں اور بالا خانوں پر گایا جاتا ہو، وہ شاعر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر اس نظریے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی تو یہ کہ فقیر اب گلیوں میں شعراء کا کلام گاتے نہیں پھرتے۔ البتہ اس زمانے میں یہ بات کسی حد تک صحیح ہو سکتی تھی اور وہ بھی اس حد تک کہ اس شاعر کا کلام گدا گروں میں مقبول اور زندہ رہتا ہو گا یا طوائفوں اور تماش بینوں میں، حالانکہ اس سے پہلے میر کے عہد میں زندہ شاعری کا معیار یہ نہین تھا۔ کیونکہ بقول میر :
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
صفحہ ۱۲۴
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جبکہ شعری معیار کا جدید نظریہ بھی یہ ہے اور اگر نہیں تو ہونا چاہیے کہ عمدہ اور زندہ رہنے والا شاعر یا شاعری عام اور خاص، دونوں سطحوں پر پسند کی جاتی ہے۔ نیز اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تقریباً ہر شاعر کی طرح غالب اپنے جس طبقہ قارئین کو پیشِ نظر رکھ کر شعر کہتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا، وہ اپنے اسی نظریے کے مطابق گداگروں اور طوائفوں ہی کے لیے شعر کہتا تھا۔
یہ بات یاد رہے کہ غالب کا اپنا کوئی رنگ نہیں تھا، اس لیے اس کی تتبع نہیں کیا گیا جب کہ وہ بیدلؔ سے بری طرح متاثر تھا، حتیٰ کہ اس کی ابتدائی شاعری بیدلؔ کا باقاعدہ چربہ لگتی ہے، جبکہ وہ خود بھی ایک احساسِ ناکامی سے دو چار ہو کر کہتا ہے :
طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
غالبؔ کے بڑا شاعر ہونے میں ہر گز کوئی شک نہیں لیکن خرابی یہ ہوئی کہ اسے عقیدے کا حصہ بنا لیا گیا، جبکہ شعر و ادب میں یہ عقیدے بازی نہیں چلتی۔ چنانچہ عقیدے کا گرد و غبار جھٹک کر دیکھا جائے تو غالب کی شاعری کا ۸۰ فیصد سے زائد ٹریش پر مشتمل ہے حالانکہ اس کے نصف سے زائد حصے کو اُس نے ٹریش جانتے ہوئے پہلے ہی نکال دیا تھا۔ حتٰی کہ اس کے بیشتر مضامین مضحکہ خیز لگتے ہیں، مثلاً :
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
بس نہیں چلتا کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اُڑ جائے
جلاد سے لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دونیم
دل میں چھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
سر اُڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
اس اس طرح کے کئی دوسرے اشعار۔ چنانچہ غالب کے محولہ بالا نظریہ شعر کے ساتھ ساتھ محبوب کے ہاتھوں شاعر کے قتل، ہلاک بلکہ ذبح ہونے کی زبردست خواہش ایک ایسی نازک خیالی ہے جس کی فی زمانہ تحسین نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلو اور مبالغہ شعر گوئی کے زیور کی حیثیت رکھتے ہیں اور محولہ بالا اشعار کی استعاراتی وضاحت اور جواز بھی ممکن ہے لیکن ان بیانات سے جو تصویر بنتی ہے، انتہائی غیر شاعرانہ ہونے کے علاوہ کراہت آمیز بھی ہے۔
نیز جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ غالب کا کوئی اپنا طرزِ بیاں تھا ہی نہیں ورنہ کہیں نہ کہیں اس کی پیروی
صفحہ ۱۳۵
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ضرور کی جاتی جبکہ میرؔ کا ایک اپنا رنگ اور طرزِ بیاں تھا جس کی پیروی کرنے والوں میں فراق گورکھپوری سے لے کر ناصر کاظمی اور احمد مشتاق تک کے نام لیے جا سکتے ہیں اور غالب نے جو یہ کہا ہے کہ :
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
تو یہ بھی ایک طرح کی خود ستائی اور تعلَی ہی کی ذیل میں آتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ غالب ایک بڑا بلکہ بہت بڑا شاعر نہیں تھا نہ ہی کسی مخصوص طرزِ اظہار کا نہ ہونا اُسے چھوٹا یا معمولی شاعر ثابت کرتا ہے۔ علاوہ ازیں میرؔ کسی دربارِ شاہی سے وابستہ نہیں تھا جبکہ غالبؔ باقاعدہ درباری شاعر تھا بلکہ شاہ کے قصیدے لکھنے کے علاوہ فرزندانِ شاہ کے سہرے لکھنے کو بھی قابلِ فخر جانتا تھا، حتٰی کہ اس کی غزلیات میں بھی شاہ کی توصیف میں کہے گئے اشعار خاصی تعداد میں دستیاب ہیں۔ حالانکہ میرؔ کے علاوہ بھی کئی ایسے اساتذہ کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جو درباری اور چاپلوس نہیں تھے۔ حتیٰ کہ یہ علّت پچھلی صدی میں علامہ اقبال تک بھی موجود رہی جو والئی بھوپال وغیرہ کے وظیفہ خوار رہے جس کی چند اور دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنا مجموعہ کلام "پیامِ مشرق" والئی افغانستان غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا، اور، جب نادر شاہ غازی، نے امان اللہ کے تخت پر قبضہ کر لیا تو علامہ نے اپنی اگلی کتاب نادر شاہ کے حضور پیش کی، جبکہ "ضرب کلیم" نواب آف بھوپال سے منسوب ہوئی۔ حالانکہ وہ بے روزگار نہیں تھے اور پیشہ وکالت کو باقاعدہ اختیار کر رکھا تھا۔
بہرحال، بات چونکہ غالبؔ سے شروع ہوئی تھی، اسی لیے ختم بھی اسی پر ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خوش عقیدگی کے علاوہ غالبؔ کے ساتھ کئی دوسرے اساتذہ کی طرح المیہ یہ ہوا کہ اس کے جن اشعار نے اسے شہرت کے بامِ عروج تک پہنچایا، وہی رفتہ رفتہ ضرب الامثال کی حیثیت حاصل کر گئے جس سے ایک تو یہ ہوا کہ وہ محض حوالے کے اشعار ہو کر رہ گئے بلکہ کثرتِ استعمال سے ان کا آب و رنگ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔ اگرچہ یہ گِھسے پِٹے سکّے بازار میں اب بھی چلتے ہیں لیکن ایک وقت آئے گا جب بازارِ سخن میں ان کے عوض کچھ بھی خریدا نہ جا سکے گا۔ اور یہ محض محاورے کے طور پر باقی رہ جائیں گے۔ اگرچہ بنیادی طور پر ان کے بڑے اشعار ہونے میں ہرگز کوئی شک نہیں ہے لیکن میں ان پر وارد ایک نفسیاتی پہلو سے بات کر رہا ہوں۔ مثلاً :
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
صفحہ ۱۳۶
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ساقی نہ کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے شانوں پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالبؔ کو بڑا بلکہ بہت بڑا شاعر ثابت کرنے میں ان اور اسی قبیل کے بہت سے دوسرے اشعار کا خصوصی کردار ہے۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو غالبؔ کی شاعری کا طرہ امتیاز ہیں کہ ان میں کچھ ایسی آفاقی سچائیاں بھی نظم کی گئی ہیں جن کی ایک اپنی اور دائمی قدر و منزلت ہے لیکن ایک تو گڑبڑ یہ ہوئی کہ ایسے اشعار میں وہ اگلی سی تازگی باقی نہیں رہی اور جیسے نثری تحریر یا بول چال میں برمحل لطیفے کا ایک کردار ہوتا ہے اسی طرح ان اشعار کے زیادہ تر برمحل ہونے ہی کی گنجائش باقی رہ گئی ہے، جو کہ بیان کو سجانے کے لیے درکار ہوتی ہے جس سے ان اشعار کی اوریجنیلٹی کو نقصان پہنچا ہے۔ اور یہ محض چالو اور چلنت قسم کے اشعار ہو کر رہ گئے ہیں۔ حتٰی کہ ان میں اب کوئی پیچیدگی اور تہہ داری بھی نظر نہیں آتی جو غالبؔ نے بیدلؔ سے اکتساب کی تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی غالب کے وہ اشعار بھی دیکھیے جو شاعر کی خوش قسمتی سے نہ صرف یہ کہ ضرب المثل نہیں بنے بلکہ مشہور ہونے سے بھی محفوظ رہ گئے۔ میرا مطلب ہے زیادہ مشہور ہونے سے بچ گئے اور اسی لیے ایک الگ آب و تاب اور تازگی کے آج بھی حامل ہیں :
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
عجز سے اپنی یہ جانا کہ بدخو ہو گا
نبضِ خس سے تپشِ شعلہ سوزاں سمجھا
صفحہ ۱۳۷
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، محوِ تماشا ہو
کہ چشم تنگ شاید کثرتِ نظارہ سے وا ہو
ہے مجھ تجھ سے تذکرہء غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجیے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیونکر ہو
اُس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا وا ہونا آغوش کشائی ہے
یہ اشعار وہ ہیں جن کا طلسم ابھی باقی ہے اور انہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ ان سے ہر بار نئی معانی کی برآمد بھی ممکن ہے۔ جبکہ ان سے پہلے نقل کیے گئے اشعار نہ صرف اپنی تازگی کھو چکے ہیں بلکہ دو جمع دو چار جیسے بھی لگتے ہیں، جن کے معانی نہ صرف طے شدہ ہیں بلکہ محدود اور کسی حد تک منجمند بھی ہو چکے ہیں۔ اور انہیں دوبارہ پڑھنا محض ایک روٹین کی بات لگتی ہے کہ ضرورت سے زیادہ استعمال ویسے بھی کسی چیز میں کوئی کشش باقی نہیں رہنے دیتا۔
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں غالبؔ کا اپنا کوئی لہجہ و لحن نہیں تھا لیکن جس شہ نشیں سے وہ خطاب کرتا ہے، ایسی بلندی تک پہنچنا ہماشما کے بس کو روگ بھی نہیں ہے جبکہ مضمون آفرینی جیسے ناممکن کام کو اس نے ایک معمول ہی بنا کر دکھا دیا اور اس میں بھی ایک تازگی کا اہتمام کہ اس کی کوئی مثال ہی پیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ صحیح معنوں میں ایک فیوچرسٹ تھا کہ آج بھی وہ سب سے جدید اور منفرد نظر آتا ہے جبکہ یہی پیش پا افتادگی اُسے ایک ایسی شانِ امتیاز عطا کرتی ہے کہ جس کی حسرت ہی کی جا سکتی ہے اور یہ شاعری امتدادِ زمانہ کی مار کھا کر بھی روزِ اول کی طرح تر و تازہ دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ تازگی واحد چیز ہے جو دائمی نہیں ہوتی لیکن غالبؔ نے یہ تصور بھی تبدیل کر کے رکھ دیا جبکہ یہ ایک غیر معمولی انقلاب تھا جس کی رفتار جتنی آہستہ تھی، اتنی ہی تیز بھی تھی۔
یہ نہیں کہ غالب کے ہاں معمولی، روایتی اور بھرتی کے اشعار نہیں ملتے اور وہ اپنے انتخاب کو مزید کڑا بھی کر سکتا تھا لیکن جیسا اس نے خود کہہ رکھا ہے کہ :
لطافت بے کثات جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
صفحہ ۱۳۸
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہی معمولی اشعار اس کے غیر معمولی اشعار کو مزید غیر معمولی بھی بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بہ اصرار یہ عرض کروں گا اس کے دیوان میں درج ایسے دس سے پندرہ فیصد اشعار ہی اسے زندہ، بلکہ زندہء جاوید بنانے کے لیے کافی ہیں جبکہ ہر بڑے شاعر کے ہاں اعلیٰ و ادنیٰ اشعار کا تناسب کم و بیش یہی ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کی ٹوٹلائزیشن کا تخمینہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اچھا شاعر وہی ہوتا ہے جو خراب شعر کہنے سے ڈرتا جھجکتا نہ ہو۔ چنانچہ اس لحاظ سے بھی غالبؔ اتنا ہی نڈر اور دلیر واقع ہوا ہے جتنا اُسے ہونا چاہیے تھا۔ میری ناقص معلومات کے مطابق غالبؔ کی مادری زبان فارسی تھی اور جس کے حوالے سے اس کا یہ دعویٰ بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے کہ :
فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر از مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است
اور غالبؔ کی اردو، اتنی ہی اکتسابی تھی جتنی کہ ہم غیر اہلِ زبان کی ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے سہوِ زبان کا غالب کے ہاں اتنا ہی امکان ہو سکتا ہے جتنا کہ دوسرے اکتسابی خواتین و حضرات کا۔ ویسے غلطی تو کوئی بھی کر سکتا ہے یعنی اہلِ زبان سمیت، کیونکہ غلطی کرنا تقاضائے بشریت بھی ہے۔ اگرچہ کچھ کوتاہیاں شعری ضرورت کے کھاتے میں بھی ڈالی جا سکتی ہیں لیکن سب کی سب شاید نہیں۔ مثلاً میرؔ کا یہ شعر دیکھیے :
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اس شعر میں مرکزی کردار اگرچہ عطار کا لونڈا ہی ہے اور میرؔ صاحب بھی یہی بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن مصرعِ ثانی کی بُنت ایسی ہے کہ مرکزی کردار عطّار کے لونڈے کے بجائے خود عطّار کو تفویض ہو گیا ہے۔ انہیں کہنا تو عطّار کے اسی لونڈے سے چاہیے تھا لیکن بحر کی مجبوری اور مصرعے کو پوری طرح سے قابو میں نہ لا سکنے کے باعث اسی عطّار کے لونڈے سے، کہہ کر رہ گئے کیونکہ زور اسی پر ہے جو کہ یہاں عطّار کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔لیکن، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، میرؔ صاحب خدائے سخن ہونے کے باوجود بہر حال بندہ بشر ہی تھے۔
اب غالب کے کچھ اشعار دیکھتے ہیں جو حصہء قطعات میں "بیانِ مصنف" کے عنوان سے دیوانِ غالب (اردو) میں درج ہیں اور اس سہرے کے حوالے سے ہیں جس میں غالبؔ نے کہا تھا کہ :
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا
اور جس کے بارے میں یہ گمان کیا گیا تھا کہ اس شعر میں استادِ شاہ (ذوقؔ) کو چیلنج کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان اشعار میں غالب نے اپنی صفائی پیش کرنے اور مذکورہ بالا تاثر کو دُور کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس قطے کے بعض اشعار میں ردیف سے پورا انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ پہلا شعر دیکھیے :
منظور ہے گذارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیان حسنِ طبیعت نہیں مجھے
مصرع ثانی میں آخری لفظ "مجھے" لوری پوری طرح فٹ نہیں بیٹھتا کیونکہ اس کے بجائے میرے لیے زیادہ صحیح ہوتا، دوسرے شعر میں بھی گڑبڑ ہے :
سو پشت سے ہے پیشہء آبا سپاہ گری
کچھ شاعری ذریعہء عزت نہیں مجھے
صفحہ ۱۳۹
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کیونکہ یہاں بھی "مجھے" کے بجائے میرے لیے ہی درست رہتا، ایک چھوڑ کر اگلا شعر ہے :
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
یہ مصرع تو باقاعدہ بے معنی ہو گیا ہے۔ وہ کہنا تو یہ چاہتے تھے کہ مجھے جاہ و منصب و ثروت حاصل نہیں لیکن صرف "مجھے" ہی سے کام چلانے کی کوشش کی جو کہ ہرگز نہیں چلا۔ اس سے اگلا شعر ملاحظہ ہو :
اُستادِ شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
یہاں بھی مجھے کا استعمال محلِ نظر ہے کیونکہ کہا یہی جاتا ہے کہ میری یہ مجال نہیں، مجھ میں تاب نہیں اور مجھ میں یہ طاقت نہیں۔ اب یہ شعر :
سہرا لکھا گیا زرہِ امتشالِ امر
دیکھا کہ چارہ غیرِ اطاعت نہیں مجھے
یہاں بھی مجھے کے بجائے یرے لیے ہی درست ہوتا۔ چنانچہ غالبؔ کے زمانے تک صرف و نحو کے اصول جس حد تک مدون ہو کر رواج پا چکے تھے، ان کے مطابق ان اشعار میں ‘مجھے‘ کا یہ استعمال محلِ نظر ہے اور غلطی چاہے کوئی استاد ہی کیوں نہ کرے، بہرحال غلطی ہے اور اسے سند کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ نیز اسطرح کی صورتِ حال خطرناک بھی ہے کیونکہ ان اغلاط کو آگے بھی سفر کرنا ہوتا ہے۔ نہ ہی غالب زبان کا کوئی ایسا تجربہ کر رہے تھے اور نہ اس کے کلام میں ایسی کوئی اور مثالیں بھی دستیاب ہوئیں۔ اِکّا دُکّا غلطی کی بات اور ہے جیسا کہ یہ اس کا مشہور شعر :
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اب ساری فارسی زبان میں غلطی کا لفظ موجود ہی نہیں بلکہ غالبؔ نے اضافت لگا کر اسے باقاعدہ مفرّس کر دیا ہے کیونکہ فارسی میں غلطی کے لیے بھی ہمیشہ غلط ہی کا لفظ آیا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
گاہ باشد کہ پیر دانش مند
بر نیاید درست تدبیرے
گاہ باشد کہ کودکِ ناداں
از غلط بر ہدف زند تِیرے
اسی طرح ہمارے بعض اکثر اور سینیئر شعراء گلاب کو پھول کے معنوں میں اضافت کے ساتھ باندھتے پائے گئے ہیں کیونکہ اضافت کے ساتھ باندھنے سے لفظ اصولی طور پر فارسی کا ہو جاتا ہے، اردو کا نہیں رہتا، اور، اُس کے معنی بھی وہی ہوں گے جو اُس لفظ کے فارسی میں ہیں، جبکہ فارسی میں گلاب کے معنی گلاب کے پھول نہیں، بلکہ عرقِ گل کے ہیں جسے عرفِ عام میں عرقِ گلاب کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ لفظ آبِ گل کی ترکیب پر مشتمل تھا، پھر فارسی زبان ہی کے کلیے کے مطابق اسے ترتیب لاٹ کر گلِ آب بنا کر اس کی اضافت دُور کی گئی اور پھر اسے یک لفظی کر کے گلاب بنا دیا گیا۔ زبان کو آپ توڑ پھوڑ سکتے ہیں لیکن زبان سے ناواقفیت کو زبان شکنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم جو کچھ میں نے اوپر عرض کرنے کی جسارت کی ہے، میں اس سلسلے میں رہنمائی کا طلب گار رہوں گا کیونکہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں جیسا کہ میں اکثر و بیشتر ہوتا بھی ہوں۔
----**---صفحہ
۱۴۰
غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
شعراء حضرات جو کچھ انٹرویوز وغیرہ میں کہتے ہیں، اس پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔ حتیٰ کہ اگر کسی شعر یا نظم میں بھی کوئی مثلاً نظریاتی بات آ جائے تو اسے بھی اس کی حتمی رائے قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ نہ صرف شاعر کے خیالات اور نظریات تبدیل ہوتے رہتے ہیں بلکہ اس کے کلام میں بیک وقت متناقض معاملات بھی در آتے ہیں۔ اسی لیے کہا جاتا ہے کہ کسی شاعر کے بارے میں رائے قائم کرنے کے لیے اس کے کلام کی مطلق ٹوٹلائزیشن کے عمل سے گزرنا از بس ضروری ہے جسے ایک مجموعی تاثر بھی کہا جا سکتا ہے۔ یوں بھی شاعر کے وجدان و فکر میں ایسی متخالف رویں بھی چلتی ہیں جو ایک دوسری کا کاٹتی پھانٹتی، بلکہ ایک دوسری سے باہم در آویزاں اور ایک دوسری کو چیر کر گزر جانے کا بھی ایک قرینہ رکھتی ہیں جو بجائے خود ایک دلچسپ مطالعے کی حیثیت رکھتا ہے۔
شاعر چونکہ معاشرے ہی کا ایک فرد ہوتا ہے اور اس سے الگ ہو ہی نہیں سکتا، اس لیے اس کے خیالات و نظریات کا خمیر معاشرے ہی سے اٹھتا ہے، جس کی اپنی روایات اور قرینے اس پر اثر انداز ہوتے رہتے ہیں اور اس کے معاملات کو دیکھنا بھی اسی تناظر میں چاہیے۔ غالب جس معاشرے میں بود و باش رکھتا تھا، وہ نہ صرف آج سے قطعا مختلف تھا بلکہ اس کے بیشتر پیش رو اساتذہ سے بھی کئی لحاظ سے مختلف تھا۔ اور بعض باتیں اور طور اطوار جو ہمیں عجیب لگتے ہیں یا ہمارے لیے قابلِ قبول نہیں ہو سکے، غالب کے معاشرے میں وہ معمولات میں شامل تھے۔ اختلافِ رائے چونکہ ایک مکالمے کی بنیاد رکھنے کا بھی سبب بنتا ہے اور اپنی زندگی میں غالب خود بھی اختلافِ رائے کا اظہار پورے ذوق و شوق اور اتھارٹی کے ساتھ کیا کرتے تھے، اس لیے غالب کے ساتھ نہ صرف اُس وقت بلکہ اب بھی بعض حوالوں سے یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔
ماہنامہ "ادبی دنیا" کراچی میں غالب کا ایک قول نقل کیا گیا ہے کہ جس شاعر کا کلام فقیر گلیوں میں گاتے ہوں اور بالا خانوں پر گایا جاتا ہو، وہ شاعر ہمیشہ زندہ رہتا ہے۔ اب ظاہر ہے کہ مختلف وجوہ کی بنا پر اس نظریے کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ پہلی تو یہ کہ فقیر اب گلیوں میں شعراء کا کلام گاتے نہیں پھرتے۔ البتہ اس زمانے میں یہ بات کسی حد تک صحیح ہو سکتی تھی اور وہ بھی اس حد تک کہ اس شاعر کا کلام گدا گروں میں مقبول اور زندہ رہتا ہو گا یا طوائفوں اور تماش بینوں میں، حالانکہ اس سے پہلے میر کے عہد میں زندہ شاعری کا معیار یہ نہین تھا۔ کیونکہ بقول میر :
شعر میرے ہیں گو خواص پسند
پر مجھے گفتگو عوام سے ہے
صفحہ ۱۲۴
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
جبکہ شعری معیار کا جدید نظریہ بھی یہ ہے اور اگر نہیں تو ہونا چاہیے کہ عمدہ اور زندہ رہنے والا شاعر یا شاعری عام اور خاص، دونوں سطحوں پر پسند کی جاتی ہے۔ نیز اس کا مطلب یہ بھی ہے کہ تقریباً ہر شاعر کی طرح غالب اپنے جس طبقہ قارئین کو پیشِ نظر رکھ کر شعر کہتا تھا اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کرتا تھا، وہ اپنے اسی نظریے کے مطابق گداگروں اور طوائفوں ہی کے لیے شعر کہتا تھا۔
یہ بات یاد رہے کہ غالب کا اپنا کوئی رنگ نہیں تھا، اس لیے اس کی تتبع نہیں کیا گیا جب کہ وہ بیدلؔ سے بری طرح متاثر تھا، حتیٰ کہ اس کی ابتدائی شاعری بیدلؔ کا باقاعدہ چربہ لگتی ہے، جبکہ وہ خود بھی ایک احساسِ ناکامی سے دو چار ہو کر کہتا ہے :
طرزِ بیدلؔ میں ریختہ کہنا
اسد اللہ خاں قیامت ہے
غالبؔ کے بڑا شاعر ہونے میں ہر گز کوئی شک نہیں لیکن خرابی یہ ہوئی کہ اسے عقیدے کا حصہ بنا لیا گیا، جبکہ شعر و ادب میں یہ عقیدے بازی نہیں چلتی۔ چنانچہ عقیدے کا گرد و غبار جھٹک کر دیکھا جائے تو غالب کی شاعری کا ۸۰ فیصد سے زائد ٹریش پر مشتمل ہے حالانکہ اس کے نصف سے زائد حصے کو اُس نے ٹریش جانتے ہوئے پہلے ہی نکال دیا تھا۔ حتٰی کہ اس کے بیشتر مضامین مضحکہ خیز لگتے ہیں، مثلاً :
مرتے مرتے دیکھنے کی آرزو رہ جائے گی
بس نہیں چلتا کہ اس کافر کا خنجر تیز ہے
مرتا ہوں اس آواز پہ ہر چند سر اُڑ جائے
جلاد سے لیکن وہ کہے جائیں کہ ہاں اور
خنجر سے چیر سینہ اگر دل نہ ہو دونیم
دل میں چھری چبھو مژہ گر خونچکاں نہیں
سر اُڑانے کے جو وعدے کو مکرر چاہا
ہنس کے بولے کہ ترے سر کی قسم ہے ہم کو
عجب نشاط سے جلاد کے چلے ہیں ہم آگے
کہ اپنے سائے سے سر پاؤں سے ہے دو قدم آگے
اس اس طرح کے کئی دوسرے اشعار۔ چنانچہ غالب کے محولہ بالا نظریہ شعر کے ساتھ ساتھ محبوب کے ہاتھوں شاعر کے قتل، ہلاک بلکہ ذبح ہونے کی زبردست خواہش ایک ایسی نازک خیالی ہے جس کی فی زمانہ تحسین نہیں کی جا سکتی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ غلو اور مبالغہ شعر گوئی کے زیور کی حیثیت رکھتے ہیں اور محولہ بالا اشعار کی استعاراتی وضاحت اور جواز بھی ممکن ہے لیکن ان بیانات سے جو تصویر بنتی ہے، انتہائی غیر شاعرانہ ہونے کے علاوہ کراہت آمیز بھی ہے۔
نیز جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے کہ غالب کا کوئی اپنا طرزِ بیاں تھا ہی نہیں ورنہ کہیں نہ کہیں اس کی پیروی
صفحہ ۱۳۵
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ضرور کی جاتی جبکہ میرؔ کا ایک اپنا رنگ اور طرزِ بیاں تھا جس کی پیروی کرنے والوں میں فراق گورکھپوری سے لے کر ناصر کاظمی اور احمد مشتاق تک کے نام لیے جا سکتے ہیں اور غالب نے جو یہ کہا ہے کہ :
ہیں اور بھی دنیا میں سخن ور بہت اچھے
کہتے ہیں کہ غالب کا ہے اندازِ بیاں اور
تو یہ بھی ایک طرح کی خود ستائی اور تعلَی ہی کی ذیل میں آتا ہے۔ تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں کہ غالب ایک بڑا بلکہ بہت بڑا شاعر نہیں تھا نہ ہی کسی مخصوص طرزِ اظہار کا نہ ہونا اُسے چھوٹا یا معمولی شاعر ثابت کرتا ہے۔ علاوہ ازیں میرؔ کسی دربارِ شاہی سے وابستہ نہیں تھا جبکہ غالبؔ باقاعدہ درباری شاعر تھا بلکہ شاہ کے قصیدے لکھنے کے علاوہ فرزندانِ شاہ کے سہرے لکھنے کو بھی قابلِ فخر جانتا تھا، حتٰی کہ اس کی غزلیات میں بھی شاہ کی توصیف میں کہے گئے اشعار خاصی تعداد میں دستیاب ہیں۔ حالانکہ میرؔ کے علاوہ بھی کئی ایسے اساتذہ کے نام گنوائے جا سکتے ہیں جو درباری اور چاپلوس نہیں تھے۔ حتیٰ کہ یہ علّت پچھلی صدی میں علامہ اقبال تک بھی موجود رہی جو والئی بھوپال وغیرہ کے وظیفہ خوار رہے جس کی چند اور دلچسپ مثالیں بھی موجود ہیں۔ مثلاً انہوں نے اپنا مجموعہ کلام "پیامِ مشرق" والئی افغانستان غازی امان اللہ خان کے نام معنون کیا، اور، جب نادر شاہ غازی، نے امان اللہ کے تخت پر قبضہ کر لیا تو علامہ نے اپنی اگلی کتاب نادر شاہ کے حضور پیش کی، جبکہ "ضرب کلیم" نواب آف بھوپال سے منسوب ہوئی۔ حالانکہ وہ بے روزگار نہیں تھے اور پیشہ وکالت کو باقاعدہ اختیار کر رکھا تھا۔
بہرحال، بات چونکہ غالبؔ سے شروع ہوئی تھی، اسی لیے ختم بھی اسی پر ہونی چاہیے۔ میں سمجھتا ہوں کہ خوش عقیدگی کے علاوہ غالبؔ کے ساتھ کئی دوسرے اساتذہ کی طرح المیہ یہ ہوا کہ اس کے جن اشعار نے اسے شہرت کے بامِ عروج تک پہنچایا، وہی رفتہ رفتہ ضرب الامثال کی حیثیت حاصل کر گئے جس سے ایک تو یہ ہوا کہ وہ محض حوالے کے اشعار ہو کر رہ گئے بلکہ کثرتِ استعمال سے ان کا آب و رنگ بھی پہلے جیسا نہ رہا۔ اگرچہ یہ گِھسے پِٹے سکّے بازار میں اب بھی چلتے ہیں لیکن ایک وقت آئے گا جب بازارِ سخن میں ان کے عوض کچھ بھی خریدا نہ جا سکے گا۔ اور یہ محض محاورے کے طور پر باقی رہ جائیں گے۔ اگرچہ بنیادی طور پر ان کے بڑے اشعار ہونے میں ہرگز کوئی شک نہیں ہے لیکن میں ان پر وارد ایک نفسیاتی پہلو سے بات کر رہا ہوں۔ مثلاً :
آہ کو چاہیے اک عمر اثر ہونے تک
کون جیتا ہے تری زلف کے سر ہونے تک
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
مجھ تک کب ان کی بزم میں آتا تھا دورِ جام
صفحہ ۱۳۶
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
ساقی نہ کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں
وہ آئیں گھر میں ہمارے خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
نیند اس کی ہے دماغ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں
جس کے شانوں پر تری زلفیں پریشاں ہو گئیں
رنج سے خوگر ہوا انساں تو مٹ جاتا ہے رنج
مشکلیں اتنی پڑیں مجھ پر کہ آساں ہو گئیں
اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں
زندگی اپنی جب اس شکل سے گزری غالبؔ
ہم بھی کیا یاد کریں گے کہ خدا رکھتے تھے
اُن کے دیکھے سے جو آ جاتی ہے منہ پر رونق
وہ سمجھتے ہیں کہ بیمار کا حال اچھا ہے
غالبؔ کو بڑا بلکہ بہت بڑا شاعر ثابت کرنے میں ان اور اسی قبیل کے بہت سے دوسرے اشعار کا خصوصی کردار ہے۔ ان میں وہ تمام خوبیاں موجود ہیں جو غالبؔ کی شاعری کا طرہ امتیاز ہیں کہ ان میں کچھ ایسی آفاقی سچائیاں بھی نظم کی گئی ہیں جن کی ایک اپنی اور دائمی قدر و منزلت ہے لیکن ایک تو گڑبڑ یہ ہوئی کہ ایسے اشعار میں وہ اگلی سی تازگی باقی نہیں رہی اور جیسے نثری تحریر یا بول چال میں برمحل لطیفے کا ایک کردار ہوتا ہے اسی طرح ان اشعار کے زیادہ تر برمحل ہونے ہی کی گنجائش باقی رہ گئی ہے، جو کہ بیان کو سجانے کے لیے درکار ہوتی ہے جس سے ان اشعار کی اوریجنیلٹی کو نقصان پہنچا ہے۔ اور یہ محض چالو اور چلنت قسم کے اشعار ہو کر رہ گئے ہیں۔ حتٰی کہ ان میں اب کوئی پیچیدگی اور تہہ داری بھی نظر نہیں آتی جو غالبؔ نے بیدلؔ سے اکتساب کی تھی۔
لیکن اس کے ساتھ ہی غالب کے وہ اشعار بھی دیکھیے جو شاعر کی خوش قسمتی سے نہ صرف یہ کہ ضرب المثل نہیں بنے بلکہ مشہور ہونے سے بھی محفوظ رہ گئے۔ میرا مطلب ہے زیادہ مشہور ہونے سے بچ گئے اور اسی لیے ایک الگ آب و تاب اور تازگی کے آج بھی حامل ہیں :
گلہ ہے شوق کو دل میں بھی تنگی جا کا
گہر میں محو ہوا اضطراب دریا کا
عجز سے اپنی یہ جانا کہ بدخو ہو گا
نبضِ خس سے تپشِ شعلہ سوزاں سمجھا
صفحہ ۱۳۷
----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
حسد سے دل اگر افسردہ ہے، محوِ تماشا ہو
کہ چشم تنگ شاید کثرتِ نظارہ سے وا ہو
ہے مجھ تجھ سے تذکرہء غیر کا گلہ
ہر چند بر سبیلِ شکایت ہی کیوں نہ ہو
ادب ہے اور یہی کشمکش تو کیا کیجیے
حیا ہے اور یہی گومگو تو کیونکر ہو
اُس بزم میں مجھے نہیں بنتی حیا کیے
بیٹھا رہا اگرچہ اشارے ہوا کیے
ہم سے عبث ہے گمانِ رنجشِ خاطر
خاک میں عشاق کی غبار نہیں ہے
گھر ہمارا جو نہ روتے بھی تو ویراں ہوتا
بحر اگر بحر نہ ہوتا تو بیاباں ہوتا
گلشن کو تری صحبت از بس کہ خوش آئی ہے
ہر غنچے کا وا ہونا آغوش کشائی ہے
یہ اشعار وہ ہیں جن کا طلسم ابھی باقی ہے اور انہیں بار بار پڑھنے کو جی چاہتا ہے کہ ان سے ہر بار نئی معانی کی برآمد بھی ممکن ہے۔ جبکہ ان سے پہلے نقل کیے گئے اشعار نہ صرف اپنی تازگی کھو چکے ہیں بلکہ دو جمع دو چار جیسے بھی لگتے ہیں، جن کے معانی نہ صرف طے شدہ ہیں بلکہ محدود اور کسی حد تک منجمند بھی ہو چکے ہیں۔ اور انہیں دوبارہ پڑھنا محض ایک روٹین کی بات لگتی ہے کہ ضرورت سے زیادہ استعمال ویسے بھی کسی چیز میں کوئی کشش باقی نہیں رہنے دیتا۔
جیسا کہ پہلے عرض کر چکا ہوں غالبؔ کا اپنا کوئی لہجہ و لحن نہیں تھا لیکن جس شہ نشیں سے وہ خطاب کرتا ہے، ایسی بلندی تک پہنچنا ہماشما کے بس کو روگ بھی نہیں ہے جبکہ مضمون آفرینی جیسے ناممکن کام کو اس نے ایک معمول ہی بنا کر دکھا دیا اور اس میں بھی ایک تازگی کا اہتمام کہ اس کی کوئی مثال ہی پیش نہیں کی جا سکتی۔ وہ صحیح معنوں میں ایک فیوچرسٹ تھا کہ آج بھی وہ سب سے جدید اور منفرد نظر آتا ہے جبکہ یہی پیش پا افتادگی اُسے ایک ایسی شانِ امتیاز عطا کرتی ہے کہ جس کی حسرت ہی کی جا سکتی ہے اور یہ شاعری امتدادِ زمانہ کی مار کھا کر بھی روزِ اول کی طرح تر و تازہ دکھائی دیتی ہے۔ حالانکہ تازگی واحد چیز ہے جو دائمی نہیں ہوتی لیکن غالبؔ نے یہ تصور بھی تبدیل کر کے رکھ دیا جبکہ یہ ایک غیر معمولی انقلاب تھا جس کی رفتار جتنی آہستہ تھی، اتنی ہی تیز بھی تھی۔
یہ نہیں کہ غالب کے ہاں معمولی، روایتی اور بھرتی کے اشعار نہیں ملتے اور وہ اپنے انتخاب کو مزید کڑا بھی کر سکتا تھا لیکن جیسا اس نے خود کہہ رکھا ہے کہ :
لطافت بے کثات جلوہ پیدا کر نہیں سکتی
صفحہ ۱۳۸
------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
یہی معمولی اشعار اس کے غیر معمولی اشعار کو مزید غیر معمولی بھی بناتے دکھائی دیتے ہیں۔ چنانچہ میں بہ اصرار یہ عرض کروں گا اس کے دیوان میں درج ایسے دس سے پندرہ فیصد اشعار ہی اسے زندہ، بلکہ زندہء جاوید بنانے کے لیے کافی ہیں جبکہ ہر بڑے شاعر کے ہاں اعلیٰ و ادنیٰ اشعار کا تناسب کم و بیش یہی ہوتا ہے اور اسی کی بنیاد پر اس کی ٹوٹلائزیشن کا تخمینہ بھی لگایا جاتا ہے کہ اچھا شاعر وہی ہوتا ہے جو خراب شعر کہنے سے ڈرتا جھجکتا نہ ہو۔ چنانچہ اس لحاظ سے بھی غالبؔ اتنا ہی نڈر اور دلیر واقع ہوا ہے جتنا اُسے ہونا چاہیے تھا۔ میری ناقص معلومات کے مطابق غالبؔ کی مادری زبان فارسی تھی اور جس کے حوالے سے اس کا یہ دعویٰ بھی ضرب المثل کی حیثیت رکھتا ہے کہ :
فارسی بیں تابہ بینی نقش ہائے رنگ رنگ
بگزر از مجموعہء اردو کے بے رنگِ من است
اور غالبؔ کی اردو، اتنی ہی اکتسابی تھی جتنی کہ ہم غیر اہلِ زبان کی ہو سکتی ہے۔ اس لحاظ سے سہوِ زبان کا غالب کے ہاں اتنا ہی امکان ہو سکتا ہے جتنا کہ دوسرے اکتسابی خواتین و حضرات کا۔ ویسے غلطی تو کوئی بھی کر سکتا ہے یعنی اہلِ زبان سمیت، کیونکہ غلطی کرنا تقاضائے بشریت بھی ہے۔ اگرچہ کچھ کوتاہیاں شعری ضرورت کے کھاتے میں بھی ڈالی جا سکتی ہیں لیکن سب کی سب شاید نہیں۔ مثلاً میرؔ کا یہ شعر دیکھیے :
میرؔ کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب
اُسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
اس شعر میں مرکزی کردار اگرچہ عطار کا لونڈا ہی ہے اور میرؔ صاحب بھی یہی بیان کرنا چاہتے ہیں لیکن مصرعِ ثانی کی بُنت ایسی ہے کہ مرکزی کردار عطّار کے لونڈے کے بجائے خود عطّار کو تفویض ہو گیا ہے۔ انہیں کہنا تو عطّار کے اسی لونڈے سے چاہیے تھا لیکن بحر کی مجبوری اور مصرعے کو پوری طرح سے قابو میں نہ لا سکنے کے باعث اسی عطّار کے لونڈے سے، کہہ کر رہ گئے کیونکہ زور اسی پر ہے جو کہ یہاں عطّار کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔لیکن، جیسا کہ پہلے عرض کیا جا چکا ہے، میرؔ صاحب خدائے سخن ہونے کے باوجود بہر حال بندہ بشر ہی تھے۔
اب غالب کے کچھ اشعار دیکھتے ہیں جو حصہء قطعات میں "بیانِ مصنف" کے عنوان سے دیوانِ غالب (اردو) میں درج ہیں اور اس سہرے کے حوالے سے ہیں جس میں غالبؔ نے کہا تھا کہ :
ہم سخن فہم ہیں غالبؔ کے طرفدار نہیں
دیکھیں اس سہرے سے کہہ دے کوئی بہتر سہرا
اور جس کے بارے میں یہ گمان کیا گیا تھا کہ اس شعر میں استادِ شاہ (ذوقؔ) کو چیلنج کیا گیا ہے۔ چنانچہ ان اشعار میں غالب نے اپنی صفائی پیش کرنے اور مذکورہ بالا تاثر کو دُور کرنے کی کوشش کی ہے۔ میری ناقص رائے میں اس قطے کے بعض اشعار میں ردیف سے پورا انصاف نہیں کیا جا سکتا۔ پہلا شعر دیکھیے :
منظور ہے گذارشِ احوالِ واقعی
اپنا بیان حسنِ طبیعت نہیں مجھے
مصرع ثانی میں آخری لفظ "مجھے" لوری پوری طرح فٹ نہیں بیٹھتا کیونکہ اس کے بجائے میرے لیے زیادہ صحیح ہوتا، دوسرے شعر میں بھی گڑبڑ ہے :
سو پشت سے ہے پیشہء آبا سپاہ گری
کچھ شاعری ذریعہء عزت نہیں مجھے
صفحہ ۱۳۹
--------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
کیونکہ یہاں بھی "مجھے" کے بجائے میرے لیے ہی درست رہتا، ایک چھوڑ کر اگلا شعر ہے :
کیا کم ہے یہ شرف کہ ظفر کا غلام ہوں
مانا کہ جاہ و منصب و ثروت نہیں مجھے
یہ مصرع تو باقاعدہ بے معنی ہو گیا ہے۔ وہ کہنا تو یہ چاہتے تھے کہ مجھے جاہ و منصب و ثروت حاصل نہیں لیکن صرف "مجھے" ہی سے کام چلانے کی کوشش کی جو کہ ہرگز نہیں چلا۔ اس سے اگلا شعر ملاحظہ ہو :
اُستادِ شہ سے ہو مجھے پرخاش کا خیال
یہ تاب یہ مجال یہ طاقت نہیں مجھے
یہاں بھی مجھے کا استعمال محلِ نظر ہے کیونکہ کہا یہی جاتا ہے کہ میری یہ مجال نہیں، مجھ میں تاب نہیں اور مجھ میں یہ طاقت نہیں۔ اب یہ شعر :
سہرا لکھا گیا زرہِ امتشالِ امر
دیکھا کہ چارہ غیرِ اطاعت نہیں مجھے
یہاں بھی مجھے کے بجائے یرے لیے ہی درست ہوتا۔ چنانچہ غالبؔ کے زمانے تک صرف و نحو کے اصول جس حد تک مدون ہو کر رواج پا چکے تھے، ان کے مطابق ان اشعار میں ‘مجھے‘ کا یہ استعمال محلِ نظر ہے اور غلطی چاہے کوئی استاد ہی کیوں نہ کرے، بہرحال غلطی ہے اور اسے سند کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ نیز اسطرح کی صورتِ حال خطرناک بھی ہے کیونکہ ان اغلاط کو آگے بھی سفر کرنا ہوتا ہے۔ نہ ہی غالب زبان کا کوئی ایسا تجربہ کر رہے تھے اور نہ اس کے کلام میں ایسی کوئی اور مثالیں بھی دستیاب ہوئیں۔ اِکّا دُکّا غلطی کی بات اور ہے جیسا کہ یہ اس کا مشہور شعر :
غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ
لوگ نالے کو رسا باندھتے ہیں
اب ساری فارسی زبان میں غلطی کا لفظ موجود ہی نہیں بلکہ غالبؔ نے اضافت لگا کر اسے باقاعدہ مفرّس کر دیا ہے کیونکہ فارسی میں غلطی کے لیے بھی ہمیشہ غلط ہی کا لفظ آیا ہے۔ مثلاً یہ اشعار دیکھیے :
گاہ باشد کہ پیر دانش مند
بر نیاید درست تدبیرے
گاہ باشد کہ کودکِ ناداں
از غلط بر ہدف زند تِیرے
اسی طرح ہمارے بعض اکثر اور سینیئر شعراء گلاب کو پھول کے معنوں میں اضافت کے ساتھ باندھتے پائے گئے ہیں کیونکہ اضافت کے ساتھ باندھنے سے لفظ اصولی طور پر فارسی کا ہو جاتا ہے، اردو کا نہیں رہتا، اور، اُس کے معنی بھی وہی ہوں گے جو اُس لفظ کے فارسی میں ہیں، جبکہ فارسی میں گلاب کے معنی گلاب کے پھول نہیں، بلکہ عرقِ گل کے ہیں جسے عرفِ عام میں عرقِ گلاب کہا جاتا ہے۔ پہلے یہ لفظ آبِ گل کی ترکیب پر مشتمل تھا، پھر فارسی زبان ہی کے کلیے کے مطابق اسے ترتیب لاٹ کر گلِ آب بنا کر اس کی اضافت دُور کی گئی اور پھر اسے یک لفظی کر کے گلاب بنا دیا گیا۔ زبان کو آپ توڑ پھوڑ سکتے ہیں لیکن زبان سے ناواقفیت کو زبان شکنی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ تاہم جو کچھ میں نے اوپر عرض کرنے کی جسارت کی ہے، میں اس سلسلے میں رہنمائی کا طلب گار رہوں گا کیونکہ میں غلط بھی ہو سکتا ہوں جیسا کہ میں اکثر و بیشتر ہوتا بھی ہوں۔
----**---صفحہ
۱۴۰