عام انتخابات 2013ءکی دھاندلی

الف نظامی

لائبریرین
عام انتخابات 2013ءکے دوران پنجاب بھر میں باقاعدہ منظم انداز میں دھاندلی کی گئی
مسلم لیگ (ن) کی جیت یقینی بنانے کے لئے دو سابق اعلیٰ ججز جسٹس (ر) خلیل الرحمان رمدے اور جسٹس (ر) خواجہ شریف پر مبنی ایک’ کمیٹی‘بنائی گئی تھی جو مسلسل ریٹرننگ افسروں کے ساتھ رابطے میں رہی اور ہدایات جاری کرتی رہی۔
یہ انکشاف ملک کے نامور وکیل اور پاکستان پیپلزپارٹی کے سرکردہ رہنما اعتزاز احسن نے روزنامہ ”پاکستان“ سے خصوصی گفتگو کے دوران کیا۔
اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ دھاندلی کے حوالے سے شکایات سننا ٹربیونلز کی ذمہ داری ہے۔ انہوں نے بھی الیکشن کمیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔ الیکشن کمیشن کی اجازت سے ریٹرننگ افسر کی جانب سے مال خانے میں جمع کرائے جانیوالے نتائج کی جانچ پڑتال کی تو دھاندلی کا پول کھل گیا۔ ان کے مطابق ضابطے کے تحت ووٹوں کے تھیلے ”سیل“ کرکے محفوظ کئے جانے چاہیے لیکن انکشاف ہوا کہ متعدد تھیلوں کی ”سیلیں“ غائب ہیں۔ اسی طرح جن تھیلوں پر سیلیں موجود تھیں ان میں سے بھی بے شمار ووٹوں کے ”کاﺅنٹر فوائلز“ موجود نہیں تھے اور ووٹوں کی گنتی میں بھی ہیرا پھیری سے کام لیا گیا۔ اعتزاز احسن کا موقف ہے کہ یہ کام دو ریٹائرڈ ججوں کی نگرانی میں کرایا گیا اور اگر پنجاب کے دیگر حلقوں کا ریکارڈ چیک کرایا جائےتو وہاں بھی یہی صورتحال نکلے گی۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اس بارے میں عنقریب ”وائٹ پیپر“ شائع کریں گے جس کے ذریعے ساری تفصیلات عوام کے سامنے رکھ دی جائیں گی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
الیکشن کمیشن کے وفاقی سیکرٹری اور چیئرمین انتخابی اصلاحات نے 11 مارچ 2009ء کو انتخابی تجاویز کی الیکشن کمیشن سے منظوری لے کر اس وقت کے وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی کو پیش کر دی تھیں، لیکن حکومت نے انہیں سرد خانے میں رکھ چھوڑا۔
الیکشن کمشن نے اپنے اختیارات کو جزوی طور پر بروئے کار لاتے ہوئے 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے لیے بیلٹ پیپرز پر None of Above کے کالم کا اضافہ کر دیا اور چیف الیکشن کمشنر نے اس کی منظوری کا عندیہ بھی دے دیا تھا لیکن 18 اپریل 2013ء کو جب بیلٹ پیپرز کی چھپائی شروع ہونے لگی تو پُراسرار طریقے سے یہ کالم نکال دیا گیا۔

اس کے علاوہ الیکشن کمشن نے بیلٹ پیپرز کے لیے کاغذ جرمنی سے درآمد کرنے کا اعلان کیا لیکن اندرونی حقیقت یہ ہے کہ آخری لمحے پر حکومت کے پرنٹنگ پریس نے اس تجویز کو فنی بنیادوں پر نامنظور کر دیا اور عذر یہ پیش کیا کہ ان کی مشینری جرمنی سے درآمد کردہ کاغذ پر پرنٹنگ نہیں کر سکتی۔

جس ادارے نے تکنیکی اور سائنسی بنیادوں پر انمٹ سیاہی تیار کی، اس کی کوششوں پر بھی پانی پھیر دیا گیا اور ریٹرننگ افسران کی ملی بھگت سے پولنگ تھیلوں میں جعلی سیاہی کے پیکٹ رکھوا دیے گئے جس کی وجہ سے نادرا جعلی انگوٹھوں کی تصدیق کرنے میں ناکام رہی۔
پولنگ کا عملہ، پولیس اور بیوروکریسی ان معاملات میں ملوث رہی۔
قوم کو ایسے انتخابی نتائج دیے گئے جن پر تمام سیاسی جماعتوں کو تحفظات رہے۔
 
Top