عدیم ہاشمی عدیم ہاشمی کی غزلیں اور نظمیں

بس کوئی ایسی کمی سارے سفر میں رہ گئی
جیسے کوئی چیز چلتے وقت گھر میں رہ گئی

کون یہ چلتا ہے میرے ساتھ بے جسم و صدا
چاپ یہ کس کی میری ہر رہگزر میں رہ گئی

گونجتے رہتے ہیں تنہائی میں بھی دیوار و در
کیا صدا اس نے مجھے دی تھی کہ گھر میں رہ گئی

آ رہی ہے اب بھی دروازے سے ان ہاتھوں کی باس
جذب ہو کر جن کی ہر دستک ہی در میں رہ گئی

اور تو موسم گزر کر جا چکا وادی کے پار
بس ذرا سی برف ہر سوکھے شجر میں رہ گئی

رات در یا میں پھر اک شعلہ سا چکراتا رہا
پھر کوئی جلتی ہوئی کشتی بھنور میں رہ گئی

رات بھر ہوتا رہا ہے کن خزانوں کا نزول
موتیوں کی سی جھلک ہر برگِ تر میں رہ گئی

لوٹ کر آئے نہ کیوں جاتے ہوئے لمحے عدؔیم
کیا کمی میری صدائے بے اثر میں رہ گئی

دل کھنچا رہتا ہے کیوں اس شہر کی جانب عدیم
جانے کیا شے اس کی گلیوں کے سفر میں رہ گئی
عدیم ہاشمی
 
جو دیا تو نے ہمیں و ہ صورتِ زر رکھ لیا
تو نے پتھر دے دیا تو ہم نے پتھر ر کھ لیا

سسکیوں نے چار سو دیکھا کوئی ڈھارس نہ تھی
ایک تنہائی تھی اس کی گود میں سر رکھ لیا

گھٹ گیا تہذیب کے گنبد میں ہر خواہش کا دم
جنگلوں کا مور ہم نے گھر کے اندر رکھ لیا

میرے بالوں پہ سجا دی گرم صحراؤں کی دھول
اپنی آنکھوں کے لیے اس نے سمندر رکھ لیا

درز تک سے اب نہ پھوٹے گی تمنا کی پھوار
چشمۂ خواہش پہ ہم نے دل کا پتھر رکھ لیا

وہ جو اڑ کر جا چکا ہے دور میرے ہاتھ سے
اس کی اک بچھڑی نشانی، طاق میں پر رکھ لیا

دید کی جھولی کہیں خالی نہ رہ جائے عدؔیم
ہم نے آنکھوں میں تیرے جانے کا منظر رکھ لیا

پھینک دیں گلیاں برونِ صحن سب اس نے عدیم

گھر کہ جو مانگا تھا میں نے، وہ پسِ در رکھ لیا
عدیم ہاشمی​
 
کیوں میرے لب پہ وفاؤں کا سوال آ جائے
عین ممکن ہے اسے خود ہی خیال آ جائے

ہجر کی شام بھی سینے سے لگا لیتا ہوں
کیا خبر یونہی کبھی شامِ وصال آ جائے

گھر اسی واسطے جنگل میں بدل ڈالا ہے
شاید ایسے ہی ادھر میرا غزال آ جائے

دھنک ابھرے سرِ افلاک کڑی دھوپ میں بھی
دشتِ وحشت میں اگر تیرا خیال آ جائے

کوئی تو اڑ کے دہکتا ہوا سورج ڈھانپے
گرد ہی سر پہ گھٹاؤں کی مثال آ جائے

چھوڑ دے وہ مجھے تکلیف میں ممکن تو نہیں
اور اگر ایسی کبھی صورتِ حال آ جائے

اس گھڑی پوچھوں گا تجھ سے یہ جہاں کیسا ہے
جب تیرے حسن پہ تھوڑا سا زوال آ جائے

کچھ نہیں ہے تو بھلانا ہی اسے سیکھ عدیم
زندگی میں تجھے کوئی تو کمال آ جائے
عدیم ہاشمی
 
اک کھلونا ٹوٹ جائے گا نیا مل جائے گا
میں نہیں تو کوئی تجھ کو دوسرا مل جائے گا

بھاگتا ہوں ہر طرف ایسے ہوا کے ساتھ ساتھ
جس طرح سچ مچ مجھے اس کا پتا مل جائے گا

کس طرح روکو گے اشکوں کو پسِ دیوار چشم
یہ تو پانی ہے ، اسے تو راستہ مل جائے گا

ایک دن تو ختم ہو گی لفظ و معنی کی تلاش
ایک دن تو مجھ کو میرا مدعا مل جائے گا

ایک د ن تو اپنے جھوٹے خول کو توڑے گا وہ
ایک دن تو اس کا دروازہ کھلا مل جائے گا

جا رہا ہوں اس یقیں سے اس کے چھوڑے گھر کی سمت
جیسے وہ باہر گلی میں جھانکتا مل جائے گا

چھوڑ خالی گھر کو ، آ باہر چلیں گھر سے عدیم
کچھ نہیں تو کوئی چہرہ چاند سا مل جائے گا

تیز ہوتی جا رہی ہیں دھڑکنیں ایسے عدیم
جیسے اگلے موڑ پر وہ بے وفا مل جائے گا
عدیم ہاشمی
 
مل گئی آپ کو فرصت کیسے
یاد آئی میری صورت کیسے

پوچھ ان سے جو بچھڑ جاتے ہیں
ٹوٹ پڑتی ہے قیامت کیسے

تیری خاطر تو یہ آنکھیں پائیں
میں بھلا دوں تیری صورت کیسے

اب تو سب کچھ ہی میسر ہے اسے
اب اسے میری ضرورت کیسے

تجھ سے اب کوئی تعلق ہی نہیں
تجھ سے اب کوئی شکایت کیسے

کاش ہم کو بھی بتا دے کوئی
لوگ کرتے ہیں محبت کیسے

تیرے دل میں میری یادیں تڑپیں
اتنی اچھی میری قسمت کیسے

وہ تو خود اپنی تمنا ہے عدیم
اس کے دل میں کوئی چاہت کیسے

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
بڑا ویران موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ
ہر اک جانب تیرا غم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہمارا د ل کسی گہری جدائی کے بھنور میں ہے
ہماری آنکھ بھی نم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

میرے ہمراہ گرچہ دور تک لوگوں کی رونق ہے
مگر جیسے کوئی کم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہیں تو علم ہے میرے دلِ وحشی کے زخموں کو
تمہارا وصل مرہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

اندھیری رات کی گہری خموشی اور تنہا دل
دیئے کی لَو بھی مدھم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

تمہارے روٹھ کے جانے سے ہم کو ایسا لگتا ہے
مقدر ہم سے برہم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

ہواؤں او ر پھولوں کی نئی خوشبو بتاتی ہے
تیرے آنے کا موسم ہے کبھی ملنے چلے آؤ

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
کچھ ہجر کے موسم نے ستایا نہیں اتنا
کچھ ہم نے تیرا سوگ منایا نہیں اتنا

کچھ تیری جدائی کی اذیت بھی کڑی تھی
کچھ د ل نے بھی غم تیرا منایا نہیں اتنا

کیوں سب کی طرح بھیگ گئی ہیں تیری پلکیں
ہم نے تجھے حال سنایا نہیں اتنا

کچھ روز سے دل نے تیری راہیں نہیں دیکھیں
کیا بات ہے تو یاد بھی آیا نہیں اتنا

کیا جانیئے اس بے سر و سامانئی دل نے
پہلے تو کبھی ہم کو رلایا نہیں اتنا

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
جانے یہ کیسی تیرے ہجر میں ٹھانی دل نے
پھر کسی اور کی کچھ بات نہ مانی دل نے

ایک وحشت سے کسی دوسری وحشت کی طرف
اب کے پھر کی ہے کوئی نقل مکانی دل نے

اب بھی نوحے ہیں جدائی کے وہی ماتم ہے
ترک کب کی ہے کوئی رسم پرانی دل نے

بات بے بات جو بھر آتی ہیں آنکھیں اپنی
یاد رکھی ہے کسی دکھ کی کہانی دل نے

ڈوبتی شام کے ویران سمے کی صورت
تھام رکھی ہے تیری ایک نشانی دل نے

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
اداس شام دلِ سوگوار تنہائی
ہر ایک سمت ہوئی بے کنار تنہائی

بچھڑ گئے ہیں سبھی برگ و بار پیڑوں سے
سسک رہی ہے لبِ شاخسار تنہائی

تمہارے نقشِ قدم پر جبین رکھ رکھ کر
رہی ہے دیر تلک اشکبار تنہائی

پکارتا ہے یہ کس لَے میں ڈوبتا ہوا دل
جو لوٹ آتی ہے پھر بار بار تنہائی

میر ے وجود سے مانوس اسقدر ہے کہ اب
تمھارے بغیر رہے بے قرار تنہائی

بچی ہے جتنی اداسی بھی تیرے دامن میں
اسے بھی میرے لہو میں اتار تنہائی

ہمارا ربط کہاں بستیوں کی رونق سے
ہمارا تم پہ بھی کب اختیار تنہائی

تمہارا مان بجا اپنی وحشتوں پہ مگر
ہمارے ساتھ بھی کچھ دن گزار تنہائی

دل تباہ ، تیری یاد ، شب کا ویرانہ
دھوئیں میں لپٹا ہوا ہے مزار تنہائی

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
آیا ہوں سنگ و خشت کے انبار دیکھ کر
خوف آ رہا ہے سایئہ دیوار دیکھ کر

آنکھیں کھلی رہی ہیں مری انتظار میں
آئے نہ خواب دیدۂ بیدار دیکھ کر

غم کی دکان کھول کے بیٹھا ہوا تھا میں
آنسو نکل پڑے ہیں خریدار دیکھ کر

کیا علم تھا پھسلنے لگیں گے میرے قدم
میں تو چلا تھا راہ کو ہموار دیکھ کر

ہر کوئی پارسائی کی عمدہ مثال تھا
دل خوش ہوا ہے ایک گنہگار دیکھ کر

بے حسی بھی وقت مدد دیکھ لی عدؔیم
کترا گیا ہے یار کو بھی یار دیکھ کر

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
ایسے تری لکھی ہوئی تحریر کھو گئی
جیسے جبیں کی لوح سے تقدیر کھو گئی

پلکوں پہ آنسوؤں کے دئیے ڈھونڈتے رہے
آنکھوں سے پھر بھی خواب کی تعبیر کھو گئی

کیا تھا شکوۂ قصر پتہ ہی نہ چل سکا
ملبے کے ڈھیر میں کہیں تعمیر کھو گئی

دن رات کی تہوں میں خد و خال دب گئے
اوراق وقت میں تیری تصویر کھو گئی

زندان تعلقات کا قائم نہ رہ سکا
قیدی ملا تو پاؤں کی زنجیر کھو گئی

یہ غم نہیں جبین شکن در شکن ہے کیوں
شکنوں کے بیچ میں میری تقدیر کھو گئی

حالانکہ یہ دعا تھی مگر مانگتے ہوئے
ایسے لگا کے ہاتھ کی توقیر کھو گئی

بندھن بندھے ہوئے تھے سبھی کھل گئے عدیمؔ
مجھ سے تعلقات کی زنجیر کھو گئی

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
آ کے دیکھو تو کبھی تم میری ویرانی میں
کتنے سامان ہیں اس بے سر و سامانی میں

آج بھی دیکھ لیا اس نے کہ میں زندہ ہوں
چھوڑ آیا ہوں اسے آج بھی حیرانی میں

رات پھر تا بہ سحر شاخ افق خالی تھی
چاند پھر ڈوب گیا تیری پیشانی میں

ساتھ دینا ہے تو دے چھوڑ کے جانا ہے تو جا
تو اضافہ تو نہ کر میری پریشانی میں

آسمانوں کی طرف جیسے الٹ جائیں مکان
عکس ایسے ہی نظر آئے مجھے پانی میں

یوں تو بچھنے کو بچھی چادر سیلاب مگر
لہر کچھ اور بھی عریاں ہوئی طغیانی میں

خلعت گرد اتاری تو مقابل میں تھا
آئینہ ڈوب گیا پردۂ حیرانی میں

دھوپ نکلے گی تو کہسار ہی پگھلیں گے عدؔیم
برف جتنی تھی و ہ سب بہ گئی طغیانی میں

جی میں جاد و ہی جگاتی چلی جاتی ہے عدؔیم
جانے کیا شے ہے نہاں صورتِ انسانی میں

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
نظریں ملیں تو پیار کا اظہار کر گیا
بولا تو بات بات سے ا نکار کر گیا

آنکھوں نے خشت خشت چنی رات کی فصیل
خورشید صبح پھر ا سے مسمار کر گیا

جتنا اڑا ہوں اتنا فلک بھی ہوا بلند
کون اس قفس میں مجھ کو گرفتار کر گیا

بن بن کے پانیوں کے بھنور ٹوٹتے گئے
میں ڈوبتا ہوا بھی ندی پار کر گیا

ورنہ یہ بوجھ کون اٹھاتا تمام عمر
اچھا ہوا کہ پہلے وہی وار کر گیا

میں لفظ ڈھونڈ ڈھونڈ کے تھک بھی گیا عدؔیم
وہ پھول دے کے بات کا اظہار کر گیا

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
فاصلے ایسے بھی ہوں گے یہ کبھی سوچا نہ تھا
سامنے بیٹھا تھا میرے او ر وہ میرا نہ تھا

وہ کہ خوشبو کی طرح پھیلا تھا میرے چار سو
میں اسے محسوس کر سکتا تھا چھو سکتا نہ تھا

رات بھر پچھلی ہی آہٹ کان میں آتی رہی
جھانک کر دیکھا گلی میں کوئی بھی آیا نہ تھا

میں تیری صورت لئے سارے زمانے میں پھرا
ساری دنیا میں مگر کوئی تیرے جیسا نہ تھا

یہ بھی سب ویرانیاں اس کے جدا ہونے سے تھیں
آنکھ دھندلائی ہوئی تھی شہر دھندلایا نہ تھا

سینکڑوں طوفان لفظوں میں دبے تھے زیر لب
ایک پتھر تھا خموشی کا کہ جو ہٹتا نہ تھا

محفلِ اہلِ و فا میں ہر طرح کے لوگ تھے
یا تیرے جیسا نہیں تھا یا میرے جیسا نہ تھا

آج اس نے در د بھی اپنے علیحدہ کر لیے
آج میں رویا تو میرے ساتھ و ہ رویا نہ تھا

یاد کر کے او ر بھی تکلیف ہوتی تھی عدؔیم
بھول جانے کے سوا اب کوئی چارہ نہ تھا

مصلحت نے اجنبی ہم کو بنایا تھا عدؔیم
ورنہ کب اک دوسرے کو ہم نے پہچانا نہ تھا

عدیم ہاشمی​
 
آخری تدوین:
اتنی بہت سی غزلیں آپ نے ایک ہی دھاگے میں لکھ دی ہیں، اور ان میں سے بہت سی غزلوں پر شاعر کا نام نہیں ہے۔ کیا یہ تمام غزلیں عدیم ہاشمی کی ہیں؟ کیا یہ تمام غزلیں ایک ہی مجموعے سے ہیں ۔

پسندیدہ کلام میں غزلیں ارسال کرنے سے پہلے اس کی ہدایات پڑھ لیتے تو بہتر ہوتا۔
 
جی یہ سب عدیم ہاشمی کی ہیں الگ الگ ہی لڑیاں بنانی تھی پھر یاد آیا ایک شاعر کے سارے کلام کو ایک ہی لڑی میں جمع کیا جاتا ہے یہاں سو اس لیے ایک ہی لڑی میں سارے کلام دیے
عدیم ہاشمی کی بہت سی غزلیں پہلے ہی محفل میں پسندیدہ کلام میں موجود ہیں۔ بار بار انہی غزلوں کو علیحدہ لڑی کی شکل دینا مناسب نہیں۔
 
عدیم ہاشمی کی بہت سی غزلیں پہلے ہی محفل میں پسندیدہ کلام میں موجود ہیں۔ بار بار انہی غزلوں کو علیحدہ لڑی کی شکل دینا مناسب نہیں۔
پہلے چیک کیا تھا زیادہ کلام موجود نہیں تھے کچھ نظمیں بھی ہیں وہ بھی کیا اس لڑی میں ہی پوسٹ کر دیں عدیم ہاشمی صاحب کی ؟؟
 
Top