بےباک
محفلین
ہارون رشید کی بیوی زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ بہت ہی دیندار صاحب علم و فضل خا تون تھی ان کے محل میں ایک ہزار با ندھیا ں چو بیس گھنٹے قرآن پاک کی تلا وت میں مشغول رہتی تھیں۔ ایک دفعہ مکہ مکر مہ میں پانی کی شدید قلت ہو گئی اور پانی کا ایک مشکیزہ دس درہم سے لیکر ایک دینار تک بک گیا۔ حجا ج اکرام کو بہت تکلیف اٹھا نا پڑی ۔ زیبدہ رحمتہ اللہ علیہ کو جب اس کی خبر ہوئی تو ان کو بہت دکھ ہوا۔انہو ں نے اپنے انجیئنیروں کو جمع کر کے حکم دیا کہ کسی طرح مکہ مکرمہ کے لیے پانی کا بندوبست کر و اور پانی کے چشمے تلا ش کرو چنا نچہ انہوں نے کا فی تگ و دو سے ایک چشمہ طائف کے راستے میں اور دوسرا چشمہ نعمان وادی میں دریافت کیا۔ لیکن ان کا پانی مکہ مکر مہ تک پہنچانا بڑا جا ن جوکھوں کا کام تھا راستے میں پہاڑیا ں تھیں جن کو کھود نا انتہا ئی دشوار تھا لیکن اس نیک خا تو ن نے حکم دیا کہ جتنا بھی خرچ ہو مکہ مکرمہ کے لیے پانی کا بند و بست کیا جائے اور اگر کو ئی مزدور پتھر پر ایک کدال مارنے کی ایک اشرفی بھی طلب کرے تو دے دو۔
چنا نچہ تین سال کی شب و روز محنت کے بعد33 ہزار میٹر (33 کلو میڑ لمبی )نہر تیا ر ہو گئی جس کو ریت سے بچا نے کے لیے اوپر سے ڈھانپا گیا راستے میں کئی جگہ مسافروں کے پانی پینے کے لیے انتظام کیا گیا اور بارش کے زمانے میں بارش کے پانی کو بھی نہر میں ڈالنے کا بندوبست کیا گیا اس میں ایسا مصالحہ استعمال کیا گیا کہ اس کا پانی رِس کر ریتلی زمین میں جذب نہ ہو، نہر کی تیاری پر 70 لاکھ دینا ر خرچ ہو ئے۔ جب حساب کا پرچہ ملکہ کو پیش کیا گیا تو اس وقت وہ دریا ئے دجلہ کے کنا رے اپنے محل میں بیٹھی تھی اس نے وہ پر چہ لیکر اس کو دیکھے بغیر یہ کہہ کر پانی میں بہا دیا کہ ”حساب کو حساب کے دن کے لیے چھوڑا“ اور کہا جس نے مجھ سے اس حساب میںکچھ لینا ہو لے لے ، نہر کے مکمل ہو نے پر بہت خو شی منا ئی گئی اور تعمیر کرنے والوں کو بہت سے انعام و اکرام سے نوازا گیا ۔ اور نہر کا نا م ”عین المشاش“ رکھا گیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل ایسا پیارا لگا کہ یہ نہر ” نہر زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ “ کے نام سے ہی مشہور ہو گئی ۔ اصل نام تو نا معلوم کتنو ں کو معلو م ہو گا۔ یہ نیک دل خا تون جب فوت ہوئیں تو مرنے کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا تو زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ میرے اللہ نے میری بخشش فرما دی اور اس عورت نے پو چھا کہ کس عمل پر زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ نے کہاکہ میں ایک دفعہ ضرورت کے لیے بیت الخلا ءگئی میں اپنی حاجت کے لیے بیٹھنے ہی والی تھی کہ اذان شروع ہو گئی میں فوراً کپڑے سنبھا ل کر باہر نکل آئی اذان کا جواب دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اور آذان کی دعا پڑھی اور اس سے فا رغ ہو کر میں نے اپنی حا جت پور ی کی میرے اللہ نے میرے اس عمل کو پسند فرما کر میری بخشش فرمائی۔ اللہ کی رضا کے لیے کیا ہوا کوئی بھی عمل ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بظاہر ہماری نظر میں اسکی کو ئی وقعت نہ ہو اس کے لیے امیر یا غریب کی کوئی قید نہیں ۔
آپ سب کا چھوٹا بھائی: بےباک
چنا نچہ تین سال کی شب و روز محنت کے بعد33 ہزار میٹر (33 کلو میڑ لمبی )نہر تیا ر ہو گئی جس کو ریت سے بچا نے کے لیے اوپر سے ڈھانپا گیا راستے میں کئی جگہ مسافروں کے پانی پینے کے لیے انتظام کیا گیا اور بارش کے زمانے میں بارش کے پانی کو بھی نہر میں ڈالنے کا بندوبست کیا گیا اس میں ایسا مصالحہ استعمال کیا گیا کہ اس کا پانی رِس کر ریتلی زمین میں جذب نہ ہو، نہر کی تیاری پر 70 لاکھ دینا ر خرچ ہو ئے۔ جب حساب کا پرچہ ملکہ کو پیش کیا گیا تو اس وقت وہ دریا ئے دجلہ کے کنا رے اپنے محل میں بیٹھی تھی اس نے وہ پر چہ لیکر اس کو دیکھے بغیر یہ کہہ کر پانی میں بہا دیا کہ ”حساب کو حساب کے دن کے لیے چھوڑا“ اور کہا جس نے مجھ سے اس حساب میںکچھ لینا ہو لے لے ، نہر کے مکمل ہو نے پر بہت خو شی منا ئی گئی اور تعمیر کرنے والوں کو بہت سے انعام و اکرام سے نوازا گیا ۔ اور نہر کا نا م ”عین المشاش“ رکھا گیا ۔ مگر اللہ تعالیٰ کو اس کا یہ عمل ایسا پیارا لگا کہ یہ نہر ” نہر زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ “ کے نام سے ہی مشہور ہو گئی ۔ اصل نام تو نا معلوم کتنو ں کو معلو م ہو گا۔ یہ نیک دل خا تون جب فوت ہوئیں تو مرنے کے بعد کسی نے ان کو خواب میں دیکھا اور پوچھاکہ اللہ نے آپ کے ساتھ کیا معاملہ کیا تو زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ میرے اللہ نے میری بخشش فرما دی اور اس عورت نے پو چھا کہ کس عمل پر زبیدہ رحمتہ اللہ علیہ نے کہاکہ میں ایک دفعہ ضرورت کے لیے بیت الخلا ءگئی میں اپنی حاجت کے لیے بیٹھنے ہی والی تھی کہ اذان شروع ہو گئی میں فوراً کپڑے سنبھا ل کر باہر نکل آئی اذان کا جواب دیا ۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر درود بھیجا اور آذان کی دعا پڑھی اور اس سے فا رغ ہو کر میں نے اپنی حا جت پور ی کی میرے اللہ نے میرے اس عمل کو پسند فرما کر میری بخشش فرمائی۔ اللہ کی رضا کے لیے کیا ہوا کوئی بھی عمل ہماری بخشش کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ بظاہر ہماری نظر میں اسکی کو ئی وقعت نہ ہو اس کے لیے امیر یا غریب کی کوئی قید نہیں ۔
آپ سب کا چھوٹا بھائی: بےباک