نہ تو میں نے مسلمانوں کو برصغیر تک محدود کیا ہے نہ مسلمانوں کا عروج و زوال میرا موضوع ہے۔
بحث صرف ہندوستان میں مغل ادوار کے بارے میں ہے۔ سینکڑوں برس پرانے مغلوں کے مقبرے اور قلعے اب تک قائم ہیں۔ سوال صرف اتنا تھا کہ مغلوں کے دور میں مقبروں ، قلعوں اور محلات کے علاوہ عصری علوم میں تعلیم دینے والا کوئی ادارہ قائم ہوا یا نہیں۔ جبکہ انہی کے ہم عصر دنیا کی دوسری تہذیبوں میں نہ صرف ایسے جدید تعلیم کے ادارے قائم ہو چکے تھے بلکہ ان سے پھیلتا تحقیقی کام ان کی تہذیبوں کو جدت سے ہمکنار کر رہا تھا۔
مغلوں کے دور میں عصری علوم پر ہندوستان کا کوئی معروف تعلیمی ادارا؟ ۔۔ کوئی نام ؟ کوئی آثار ؟ تاریخ میں کہیں کوئی ذکر ؟ میرے علم میں اضافہ فرمائیے۔
جب ہم یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ یونیورسٹیاں سینکڑوں سالوں سے نا صرف قائم ہیں بلکہ ان سے برآمد ہونے والے علم اور تحقیق نے ان کی تہذیبوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے اثرات سے محض کوئی مخصوص اشرافیہ نہیں بلکہ کل بنی نوع انسان ثمر مند ہے۔ مثلاً کیمبرج یونیورسٹی کی مثال لیں۔ آٹھ سو سالہ اس کی کامیاب تاریخ میں اس کے ایک معلم آئزک نیوٹن ہی کا کام اس قدر عظیم ہے کہ مجھ، آپ سمیت دنیا کا ہرشخص اور مستقبل میں آنے والا ہر شخص اس سے مستفید ہے۔یہ کالم عثمان آپ کے لئیے لکھا گیاہے۔ اس میں آپ کے تمام سوالوں کے جوابات موجود ہیں۔ آپکے اس مراسلہ کے بھی اور اگلے پچھلے تمام اعتراضات کی وضاحت مل جائے گی، انشاءاللہ
اب یہ آپ کی مرضی ہے مانیں یا نہ مانیں۔
آپ برطانیہ سے نکل کر امریکہ اور یورپ کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ آور آپ نے کالم بھی نہیں پڑھا، صد افسوسجب ہم یورپ اور امریکہ کی یونیورسٹیوں کی بات کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہ یونیورسٹیاں سینکڑوں سالوں سے نا صرف قائم ہیں بلکہ ان سے برآمد ہونے والے علم اور تحقیق نے ان کی تہذیبوں میں انقلاب برپا کر دیا۔ اس کے اثرات سے محض کوئی مخصوص اشرافیہ نہیں بلکہ کل بنی نوع انسان ثمر مند ہے۔ مثلاً کیمبرج یونیورسٹی کی مثال لیں۔ آٹھ سو سالہ اس کی کامیاب تاریخ میں اس کے ایک معلم آئزک نیوٹن ہی کا کام اس قدر عظیم ہے کہ مجھ، آپ سمیت دنیا کا ہرشخص اور مستقبل میں آنے والا ہر شخص اس سے مستفید ہے۔
انسان کے اجتماعی علم کو جو کچھ محض کیمبرج یونیورسٹی سے برآمد ہونے والے علم اور تحقیق نے دے ڈالا ہے اس کو جاننے اور اعتراف کرنے کے لیے ہمیں لندن کے گھنٹہ گھر یا فرانس کے شاتو کی بنیادیں کھودنے کی ضرورت نہیں۔
سائنس سے اقتصادیات ، فلسفہ سے سماجیات تک۔۔۔ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں، علم کے کسی بھی پہلو میں کوئی بھی سرا پکڑ لیجیے۔ آپ کو اس میں مغربی تہذیب کی لائی وہ تبدیلیاں نظر آئیں گی جس کے ثمرات آپ کی روزمرہ زندگی تک ہیں۔
اب ذرا مغلوں کی طرف آئیے۔ باوجود کوشش کے آپ محلات ، قلعوں اور مساجد(اور کچھ فنون لطیفہ) سے پرے کچھ بھی ایسا نہیں ڈھونڈ سکے۔ جس نے برصغیر میں علم اور تہذیب میں کچھ ایسے نمایاں اثرات پیدا کیے ہوں جیسے مغربی درسگاہوں نے مغربی تہذیبوں اور پھر پوری دنیا میں پیدا کیے۔ پھر مغلوں کی کل جدت اشرافیہ کے لیے محلات ، قلعوں اور مساجد کے لیے وقف تھی جس میں عام فرد کا کیا فائدہ تھا ؟ اگر آپ کو یہ غلط فہمی ہے کہ تاج محل بنانے کے لیے ریاضی اور طبعیات کا کوئی ایسا جدید ترین علم درکار ہے تو اس بارے میں بھی اپنی غلط فہمی دور کر لیجیے۔ چین کی دیوار چین اور مصر کے عظیم عالیشان اہرام مصر بھی اس دور میں بن گئے تھے جب ریاضی اور سائنس کا علم ابھی انتہائی بنیادی سطح پر تھا۔
برصغیر میں مغلوں کے دور کا (بقول آپ کے) عظیم علم ہمیں محلات ، مقبروں اور مساجد سے ہٹ کر کیوں دیکھائی نہیں دے رہا ؟ نہ صرف تاریخ میں بلکہ زندگی کے مختلف شعبوں میں ہمیں اس کے سرے دیکھائی کیوں نہیں دیتے ؟
کیا مغلوں کے دشمن وہ سب علوم اور ترقی اکھاڑ کر لے گئے ؟
اور صرف مغلوں کے قلعے اور مقبرے چھوڑ گئے ؟؟
اگر آپ کے خیال میں بادشاہوں کے تیار کردہ مہنگے ترین قلعے اور مقبرے کسی قوم کی خوشحالی کی علامت ہوتے ہیں تو یہ دلیل فراعنہ مصر اور حکمران پاکستان کے لیے بھی مفید ہوگی۔ بعید نہیں کہ کل کو کوئی یہ منطق پیش کرتا نظر آئے کہ لاہور میٹرو بس پاکستان کی اعلیٰ اقتصادی حالت کا ثبوت ہے۔
سنتے ہیں کہ عمرو بن ہشام کافی تعلیم یافتہ آدمی تھا۔ لیکن اپنی تمام تر تعلیم اور شعور کے باوجود معمولی مذہبی اور قبائلی عصبیت سے اوپر نہ اٹھ پایا اور ابو جہل کہلایا۔
اس کالم نگار کی فکر میں بھی ہمیں ایک ابو جہل ہی چھپا دیکھائی دیتا ہے۔
اجی کالم تو غور سے پڑھ لیجیے۔ ہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے قبل نہیں بلکہ دہائیوں بعد 1911ء میں (بقول کالم نگار) ہندوستان میں شرح خواندگی 80 فیصد تھی۔ اول تو یہ دعویٰ ازخود انتہائی مشکوک ہے لیکن بالفرض اسے ایک لمحہ کے لیے حقیقت مان بھی لیں تو بھی یہ انگریز کے ظلم کے خلاف نہیں بلکہ کے اس دور میں علم دوستی کے حق میں دلیل بنتی ہے۔ تعجب ہے انگریز کے مکمل قبضہ کے کوئی نصف صدی بعد شرح خواندگی اسی فیصد تھی۔اور پھر آخری ربعہ صدی میں وہ ساری شرح ہوا میں تحلیل ہوگئی۔ حالانکہ یہ وہ دور تھا جب مسلمان پسماندگی سے نکل کر اقتصادی طور پر مضبوط اور سیاسی طور پر متحرک ہو رہے تھے۔اک ترے آنے سے پہلے، اک ترے جانے کے بعدہندوستان میں انگریزوں کی آمد سے قبل ہر ضلع کی شرح خواندگی 80 فیصد اور انگریزوں کے جانے کے بعد یہی شرح خواندگی صرف دس فیصد؟
ثنا خوان ”تقدیس انگریز“ کہاں ہیں
تاریخی حقائق کا جواب حوالہ جات کے ساتھ تاریخ سے دیجئے، نہ کہ جذباتی جملوں سے
علم تو کل انسانی ورثہ ہے۔ لیکن جب آپ زبردستی اسے اقوام میں تقسیم کرنے پر آئیں گے تو کم از کم درست موازنہ تو سامنے رکھیے۔آپ برطانیہ سے نکل کر امریکہ اور یورپ کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ آور آپ نے کالم بھی نہیں پڑھا، صد افسوس
جی ہاں ! انگریز کا تمام علم مسلمانوں کا مرہون منت ہے، وہ سبھی کچھ اکھاڑ کر لے گئے۔
http://www.1001inventions.com/
اگر آپ میں مسلمانوں کی علمی قابلیت برداشت کی سکت ہے تو 1001 inventions کی ویب سائٹ جایئے گا، ورنہ ہضم نہ گا اور ۔۔۔
آپ کے ان سنہری الفاظ کے بعد کہنے کو اب کیا باقی ہے۔جی ہاں ! انگریز کا تمام علم مسلمانوں کا مرہون منت ہے، وہ سبھی کچھ اکھاڑ کر لے گئے۔
لَكُمْ دِينُ كُمْ وَلِيَ دِينِعلم تو کل انسانی ورثہ ہے۔ لیکن جب آپ زبردستی اسے اقوام میں تقسیم کرنے پر آئیں گے تو کم از کم درست موازنہ تو سامنے رکھیے۔
کیا آپ اب تک گوگل پر "مسلم ایجادات" ہی تلاش کرتے رہے ہیں ؟ ایک کام کریں کہ "مسلم" کی بجائے کسی اور قوم کا نام بھی ٹائپ کر کے دیکھیے۔ گوگل آپ کو مایوس نہیں کرے گا۔
آپ کے ان سنہری الفاظ کے بعد کہنے کو اب کیا باقی ہے۔
اجازت دیجیے۔
یہ میری مرضی نہیں ہے یہ حقیقت ہے آپ لوگ دلائل سے بحث کرنا سیکھیے حقائق کو مد نظر رکھ کر ،مفروضوں سے خود کو آسمان پر دیکھنا بلند نظری نہیں کم نظری ہےصائمہ شاہ یہ آپ کی مرضی ہے مانیں یا نہ مانیں۔
نقشہ دیکھ لیجئے کہ برطانیہ یورپ میں ہی ہے، ابھی تکآپ برطانیہ سے نکل کر امریکہ اور یورپ کیوں پہنچ جاتے ہیں۔ آور آپ نے کالم بھی نہیں پڑھا، صد افسوس
جی ہاں ! انگریز کا تمام علم مسلمانوں کا مرہون منت ہے، وہ سبھی کچھ اکھاڑ کر لے گئے۔
http://www.1001inventions.com/
اگر آپ میں مسلمانوں کی علمی قابلیت برداشت کی سکت ہے تو 1001 inventions کی ویب سائٹ جایئے گا، ورنہ ہضم نہ گا اور ۔۔۔
یورپ ، برطانیہ میں نہیں ہے۔نقشہ دیکھ لیجئے کہ برطانیہ یورپ میں ہی ہے، ابھی تک
کیا آپ حسن نثار کی پوجاری ہیں؟یہ میری مرضی نہیں ہے یہ حقیقت ہے آپ لوگ دلائل سے بحث کرنا سیکھیے حقائق کو مد نظر رکھ کر ،مفروضوں سے خود کو آسمان پر دیکھنا بلند نظری نہیں کم نظری ہے
اوریا مقبول جان طالبان کا ترجمان اور اس کی نہ کوئی علمی قابلیت ہے نہ کوئی وقار آپ لوگ شخصیت پرستی میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ اپنی پسند کے کالم نگار ، سیاست دان اور مذہبی رہنما کے لیے حقائق کو نظر انداز کردیں گے مگر سچ نہیں مانیں گے
اتنے ہی عالم فاضل تھے تو اتنی دہائیاں گذرنے کے بعد بھی اپنے لئے ریلوے اور سڑکیں تک نہیں سنوار سکے۰ خود اوریا مقبول نے طالبان کے پے رول پر پلنے کے علاوہ کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے ملک و قوم کے لیے ؟
علم تو مومن کی میراث ہے بقول اسلام۔ اسے کیسے اکھاڑا جاتا ہے ذرا ہمیں بھی سمجھائیںجی ہاں ! انگریز کا تمام علم مسلمانوں کا مرہون منت ہے، وہ سبھی کچھ اکھاڑ کر لے گئے۔
ہاہاہا۔ یہ نمائش یہاں ناروے میں بھی لگی تھی اور میں پچھلے سال وہاں عید پر گیا بھی تھا۔ غالباً کسی اماراتی شہزادے نے اسلامی پراپیگنڈہ پھیلانے کے چکر میں اسے ملک ملک لگایا تھا۔ اب تو یہ بھی یاد نہیں کہ اس میں ایسا کیا تھا جسے الف لیلیٰ کی طرح 1001 ایجادات کہا جا رہا ہےاگر آپ میں مسلمانوں کی علمی قابلیت برداشت کی سکت ہے تو 1001 inventions کی ویب سائٹ جایئے گا، ورنہ ہضم نہ گا اور ۔۔۔
اس پر مراسلے پر یہ فقرہ؟ معاف کیجئے گا، تعمیری بحث کی بجائے آپ ذاتیات پر اتر آتے ہیں جو بذاتِ خود کم علمی اور تنگ نظری کی دلیل ہےیہ میری مرضی نہیں ہے یہ حقیقت ہے آپ لوگ دلائل سے بحث کرنا سیکھیے حقائق کو مد نظر رکھ کر ،مفروضوں سے خود کو آسمان پر دیکھنا بلند نظری نہیں کم نظری ہے
اوریا مقبول جان طالبان کا ترجمان اور اس کی نہ کوئی علمی قابلیت ہے نہ کوئی وقار آپ لوگ شخصیت پرستی میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ اپنی پسند کے کالم نگار ، سیاست دان اور مذہبی رہنما کے لیے حقائق کو نظر انداز کردیں گے مگر سچ نہیں مانیں گے
اتنے ہی عالم فاضل تھے تو اتنی دہائیاں گذرنے کے بعد بھی اپنے لئے ریلوے اور سڑکیں تک نہیں سنوار سکے۰ خود اوریا مقبول نے طالبان کے پے رول پر پلنے کے علاوہ کونسا کارنامہ سرانجام دیا ہے ملک و قوم کے لیے ؟
کیا آپ حسن نثار کی پوجاری ہیں؟
ہو تیرے بیاباں کی ہوا تجھ کو گوارا
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ و دو میںاس دشت سے بہتر ہے نہ دلّی، نہ بخارا
افراد کے ہاتھوں میں ہے اقوام کی تقدیرپہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا
دنیا کو ہے پھر معرکہ روح و بدن پیشہر فرد ہے ملت کے مقدر کا ستارا
اللہ کو پامردی مومن پہ بھروساتہذیب نے پھر اپنے درندوںکو اُبھارا
تقدیرِ اُمم کیا ہے ؟ کوئی کہہ نہیں سکتاابلیس کو یورپ کی مشینوں کا سہارا
اخلاصِ عمل مانگ نیا کانِ کہن سےمومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ
’شاہاں چہ عجب گر بِنوازند گدا را!‘