زہیر عبّاس
محفلین
بِسْمِ اللهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمامجہانوںکا مالک ہے۔ اور درود و سلام ہو رحمت للعالمین جناب حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔
آج کل میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس کا نام ہے "عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی"
" THE LIFE OF SUPER-EARTHS How the Hunt for Alien Worlds and Artificial Cells Will RevolutionizeLife on Our Planet"
اس کتاب کے مصنف دیمیتر سیسی لوف "DIMITAR SASSELOV" ہیں جو ایک بلغارین نژاد امریکی ہیں۔ اصل میں اس مختصر سی کتاب میں انہوں نے حیات کے ماخذ کی تلاش کو نئےجہانوں کی دریافت سےمدد لیتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب دو حصّوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے حصّے میں انہوں نے "فوق ارض سیاروں" یا "مہا چٹانی سیاروں" (Super Earths) پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جبکہ دوسرے حصّے میں وہ حیات کے ماخذ کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب حیات کے ماخذ کے بارے میں بیان کیا جائے گا تو "نظریئے ارتقا" کا بھی ذکر ہوگا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں ایک موحد ہوں اور اللہ اور اس کے رسول پر مکمل ایمان رکھتا ہوں۔
سائنس آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ہماری خلقت "خاک" سے ہی ہوئی ہے چاہے وہ خاک ستاروں ہی کی کیوں نہ ہو۔ میری ناقص رائے میں مذہب میں کہیں بھی ارتقائی عمل کا انکار نہیں کیا گیا ہے۔بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ارتقا کا عمل جاری و ساری ہے۔ بگ بینگ میں پیدا ہونے والی توانائی نے اوّلین ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جوہروں کی تخلیق کی۔ جنہوں نے بعد میں ستاروں کے قلب میں جل کر اور سپرنووا دھماکوں میں مزید عناصر تالیف کئے اور ان عناصر کو خلاء میں بکھیر دیا۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس بکھری ہوئی گرد و غبار سے ہمارے سورج اور زمین نے جنم لیا۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق شاید ہمارا سورج تیسری نسل کا ستارہ ہے۔ بہرحال ارتقا کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں بھی کرتے ہیں۔ نطفے سے بچہ پیدا ہونا بھی تو ایک ارتقائی عمل ہے جس میں غذا ماں کے پیٹھ میں مختلف تغیرات کے بعد نطفے کو توانائی و غذا پہنچاتے ہوئے بچے کی شکل دیتی ہے۔لیکن بہرحال ڈارون کا عموماً جانے والا نظریہ ارتقا جس میں بندر کو انسان کا جد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مجھ سے ہضم نہیں ہوتا۔ظاہر ہے کہ جب ہر چیز اصل میں توانائی کی ہی مختلف ڈھلی ہوئی شکل ہے تو سب کی اصل تو ایک ہی ہوگی یعنی کہ جوہر ۔
بہر کیف میرا مطلب یہاں پر کسی بحث و مباحثے کو جنم دینا نہیں ہے بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ اس کتاب میں کافی چیزیں شایدایسی ہوں جو ایک موحد کے خیالات سے (حیات کے ماخذ کے بارے میں) متصادم ہوں۔
بہر حال مجھے تو یہ کتاب کافی دلچسپ اور معلوماتی لگی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیا ہے۔ جیسے جیسے مکمل ہوگا۔ ویسے ویسے یہاں پوسٹ کرتا رہوں گا۔
تمام تعریفیں اللہ کے لئے جو تمامجہانوںکا مالک ہے۔ اور درود و سلام ہو رحمت للعالمین جناب حضرت محمّد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم پر۔
آج کل میں ایک کتاب پڑھ رہا ہوں جس کا نام ہے "عظیم ارضی سیاروں کی زندگی - کس طرح سے اجنبی دنیاؤں کی تلاش اور مصنوعی خلیہ کی تالیف ہمارے سیارے پر حیات میں انقلاب برپا کردے گی"
" THE LIFE OF SUPER-EARTHS How the Hunt for Alien Worlds and Artificial Cells Will RevolutionizeLife on Our Planet"
اس کتاب کے مصنف دیمیتر سیسی لوف "DIMITAR SASSELOV" ہیں جو ایک بلغارین نژاد امریکی ہیں۔ اصل میں اس مختصر سی کتاب میں انہوں نے حیات کے ماخذ کی تلاش کو نئےجہانوں کی دریافت سےمدد لیتے ہوئے بیان کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہ کتاب دو حصّوں میں بٹی ہوئی ہے۔ پہلے حصّے میں انہوں نے "فوق ارض سیاروں" یا "مہا چٹانی سیاروں" (Super Earths) پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے۔ جبکہ دوسرے حصّے میں وہ حیات کے ماخذ کو بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ظاہر ہے کہ جب حیات کے ماخذ کے بارے میں بیان کیا جائے گا تو "نظریئے ارتقا" کا بھی ذکر ہوگا۔ خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ میں ایک موحد ہوں اور اللہ اور اس کے رسول پر مکمل ایمان رکھتا ہوں۔
سائنس آسمانی صحائف میں لکھی ہوئی اس بات کی تصدیق کر رہی ہے کہ ہماری خلقت "خاک" سے ہی ہوئی ہے چاہے وہ خاک ستاروں ہی کی کیوں نہ ہو۔ میری ناقص رائے میں مذہب میں کہیں بھی ارتقائی عمل کا انکار نہیں کیا گیا ہے۔بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات اس بات کی گواہی دے رہی ہے کہ ارتقا کا عمل جاری و ساری ہے۔ بگ بینگ میں پیدا ہونے والی توانائی نے اوّلین ہائیڈروجن اور ہیلیئم کے جوہروں کی تخلیق کی۔ جنہوں نے بعد میں ستاروں کے قلب میں جل کر اور سپرنووا دھماکوں میں مزید عناصر تالیف کئے اور ان عناصر کو خلاء میں بکھیر دیا۔ اور یہ سلسلہ چلتا رہا یہاں تک کہ اس بکھری ہوئی گرد و غبار سے ہمارے سورج اور زمین نے جنم لیا۔ سائنس دانوں کے اندازے کے مطابق شاید ہمارا سورج تیسری نسل کا ستارہ ہے۔ بہرحال ارتقا کا مشاہدہ ہم روز مرہ کی زندگی میں بھی کرتے ہیں۔ نطفے سے بچہ پیدا ہونا بھی تو ایک ارتقائی عمل ہے جس میں غذا ماں کے پیٹھ میں مختلف تغیرات کے بعد نطفے کو توانائی و غذا پہنچاتے ہوئے بچے کی شکل دیتی ہے۔لیکن بہرحال ڈارون کا عموماً جانے والا نظریہ ارتقا جس میں بندر کو انسان کا جد ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے وہ مجھ سے ہضم نہیں ہوتا۔ظاہر ہے کہ جب ہر چیز اصل میں توانائی کی ہی مختلف ڈھلی ہوئی شکل ہے تو سب کی اصل تو ایک ہی ہوگی یعنی کہ جوہر ۔
بہر کیف میرا مطلب یہاں پر کسی بحث و مباحثے کو جنم دینا نہیں ہے بلکہ صرف اتنا واضح کرنا ہے کہ اس کتاب میں کافی چیزیں شایدایسی ہوں جو ایک موحد کے خیالات سے (حیات کے ماخذ کے بارے میں) متصادم ہوں۔
بہر حال مجھے تو یہ کتاب کافی دلچسپ اور معلوماتی لگی ہے۔ اس کا اردو ترجمہ کرنا شروع کیا ہے۔ جیسے جیسے مکمل ہوگا۔ ویسے ویسے یہاں پوسٹ کرتا رہوں گا۔