علمی اختلاف

ظفری

لائبریرین
آج کل محفل پر ایک بار پھر ایسے مراسلات کی بھرمار ہے ، جن میں مخصوص خیالات ، نظریات ، رحجانات اور عقائد کا پرچار واضع طور پر نظر آتا ہے ۔ ان مراسلات میں دھونس ، انتشار ، نفرت اور زبردستی کے سوا کوئی علمی نوید نہیں سنائی جاتی ۔ بلکہ سارا بغض‌ ذاتیات اور شخصیات پر اتارا جاتا ہے ۔ اسوہ حسنہ پر زور دینے والے اپنے لہجے میں علمی دلائل اور استدلال کے بجائے درشتی اور تمسخر لے آتے ہیں ۔ اور انداز ِ تخاطب اس قدر بگاڑ لیتے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ یہ سب علمی شخصیتیں ہیں ۔ اور ماضی میں ان کے بہت سے استدلال اور علمی گفتگو سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے ہیں ۔ پھر کچھ اور لوگوں نے اس ماحول سے فائدہ اٹھا کر مذہب کے نام پر بلا تصدیق باتوں پر یقین کرکےاور ہر سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بڑھانا اپنی دینی ذمہ داری سمجھ لیا ہے ۔ جبکہ یہ رویہ دین کی مسلمہ تعلیمات کی رو سے ایک بدترین اخلاقی رویہ ہے ۔میں‌ کوشش کروں گا اس ماحول کے تناظر میں اپنا نکتہ نظر اس طرح پیش کرسکوں تاکہ میری بات کو سمجھنے کے لیئے کسی کو کسی دقت کا سامنا نہ ہو اور اس تحریر میں وہ مثبت پہلو نظر آجائے جو ساری تحریر کا ماخذ ہے ۔

اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے میں دو طرح کی چیزیں رائج ہیں ۔ایک وہ دین جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا تھا۔ اس میں وہ تمام عقائد ، عبادات ، اخلاقیات اور قوانین شامل ہیں جو قرآن و سنت میں پائے جاتے ہیں ۔ معاشرے میں رائج دوسری چیز بعد میں آنے والے اہل علم اورفقہا کے اجتہادات اور ان کا فہمِ دین کا نتیجہ ہے ۔

اس آسان بات کو مشکل سمجھنے سے بچنے لیئے ، ہم ایک مثال سے یوں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عام طور پر ہمارے مروجہ مذہبی نقطۂ نظر کے مطابق اسلامی حدود و تعزیرات میں قتلِ عمد کی سزا موت مقرر کی گئی ہے ۔ اسی حدود کے قانون کی ایک شق یہ ہے کہ قتل کے کسی کیس میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔اس معاملے میں پہلی بات بلاشبہ ایک دینی حکم ہے جو قرآ ن کریم میں بیان ہوا ہے ۔ جبکہ دوسری بات نہ قرآن میں ہے ، نہ سنت میں اور نہ کسی حدیث میں ۔یہ دراصل ہمارے فقہا کی رائے ہے جو ایک دینی مسلمہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے ۔ دین تو بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے ۔اس کے بعد ہر رائے کو ہم توجہ اور غور سے سنیں گے ، وہ ہمیں اگر دین کے تقاضوں کے مطابق اور ایک معقول بات محسوس ہوئی تو اسے سر آنکھوں پر رکھیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو احترام کے ساتھ اسے قبول کرنے سےانکار کر دیں گے ۔ اس لیے کہ ہم پر ذمہ داری صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہے اور یہ کہ ہم ان کے ہر حکم کو حرفِ آخر سمجھیں ۔

یہی وہ چیز ہے جسےہم صدیوں سے مانی ہوئی اور متفقہ چیزوں سے انکار قرار دے رہے ہیں ۔یہ بات بلکل واضح ہے کہ اختلاف صرف اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔ با قی ہر رائے کو دین ، علم اور عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا۔اس لیے ہم کو گفتگو اس پر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم بعض چیزوں سے "اختلاف " کرتے ہیں ، بلکہ ساری گفتگو اس پر ہونی چاہیے کہ کیا اللہ اور اس کے رسول کے سوا دین کا کوئی تیسرا ماخذ بھی ہے ؟ کیا ہمارے دین میں کسی فرد ، ادارے یا گروہ کو نبوت کا سا تقدس حاصل ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف کی ہر رائے ایک آسمانی فیصلہ ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف اور قدیم اہل علم نے یہ دعویٰ کبھی کیا کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان کی ہر بات نبیوں کی طرح سچی ، حق پر مبنی اور کبھی نہ تبدیل ہونے والی ہوتی ہے ؟ کیا صدیاں گزرجانے پر ہر بات مقدس اور آسمانی ہوجاتی ہے ۔؟
یہ اگر آپ کی رائے ہے تو آئیے بیٹھ کر پہلے اس پر بات کرتے ہیں ۔

اس سلسلے میں تین گزارشات عرض ہیں ۔ پہلی یہ کہ کسی شخص کواس بات پر متوحش نہیں ہونا چاہیے کہ اہل علم کسی علمی مسئلے پر آپس میں اختلاف کرتے ہیں ۔ آپ امت کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے ، شاید ہی کوئی مسئلہ ہو جس پر اہل علم کی ایک سے زائد آرا سامنے نہ آجائیں ۔ ہمارے ہاں عام لوگ تو کجا مدارس سے فارغ علما بھی اسلاف کے دینی کام پر براہِ راست نظر نہیں رکھتے ، ا س لیے وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں ۔کچھ اور نہیں تو ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد ہی کا مطالعہ کر لیں جس میں مختلف دینی امور کے بارے میں قدیم اہل علم کی آرا ء جمع کر دی گئی ہیں جہاں یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی ۔

دوسری عرض یہ ہے کہ آخرت میں انسان کی نجات جن چیزوں پر موقوف ہے اور جن عقائد و اعمال پر پورا دین منحصر ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم پر نہیں چھوڑ ے ، بلکہ اپنے رسول کے ذریعے سے خود بیان کر دیئے ہیں اور قیامت تک ان کی حفاظت کا انتظام بھی کر دیا ہے ۔ اس لیے ان فقہی اختلافات سے کسی کی آخرت کو یا دین کے بنیادی ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔

آخری بات یہ ہے کہ ہمارے جدید اہلِ علم نے جن چیزوں میں قدیم اہلِ علم سے اختلاف کیا ہے وہ بنیادی دینی تعلیمات میں نہیں ، بلکہ فروعی معاملات میں کیا ہے ، لیکن جتنے امور پر بھی اختلاف ہے، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن پر اسلاف میں بھی آپس میں اختلاف تھا۔ اب لوگ چونکہ صرف ایک ہی نقطۂ نظر سے یہاں واقف ہوتے ہیں اس لیے انہیں یہ بات بڑ ی عجیب لگتی ہے کہ یہ نئی بات یہاں کیسے بیان ہوگئی ۔ پھر بغیر تحقیق کہ اس پر اسلاف کی آپس میں ایک دوسرے کی آراء پر کیا اختلاف رہا ہے ۔ وہ راشن پانی لیکر یہاں چڑھ دوڑتے ہیں ۔ منکر ، فاسد اور کافر قرار دینے میں ذرا بھی تامل اختیار نہیں کرتے ۔ جس سے نفرت ، تعصب اور انتشار کو پنپنے میں تقویت ملتی ہے اور ایک سادہ سی بات اپنے مخلتف فہم اور نکتہ نظر کا شکار ہوکر تحقیق کی صحیح روح سے دور ہوجاتی ہے ۔ اصل بحث یا موضوع پس ِ پشت چلا جاتا ہے ۔ اور پھر منتظمین کے پاس تالے کم پڑجاتے ہیں کہ کس کس ٹاپکس کو قفل لگایا جائے ۔

یہ رویہ کسی عام آدمی کا ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی ۔ جیسا کہ آج بھی محفل پر آپ کو کچھ لوگوں کی ایسی بےتحاشہ پوسٹیں نظر آئیں گی کہ بہت سے سمجھدار اراکین ان کو نظر انداز کرکے آگے نکل جاتے ہیں ۔ مگر ایک علمی انداز سے گفتگو کرنے والا شخص جب کسی کو اپنے فتوے کی زد میں لیتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ اور اس کے استدلال اور دلائل سارا منبع انہی عقائد پر ہوتا ہے ۔ جو اس مضمون کا ماخذ ہے ۔

میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی پر نبیوں کی طرح اتمامِ حجت قائم کرنے کے بجائے اس کو دلائل ، ثبوت اور استدلال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ جواب میں بھی یہی رویہ ہونا چاہیئے ۔ کوئی کسی کے ساتھ متفق نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں کہ دینی بحث نہیں بلکہ فروعی ابحاث ہیں ۔ لہذا جو کسی کے دلائل اور استدلال سے مطمئن ہوگیا وہ اس کو قبول کرلے گا ۔ ورنہ اس قسم کی ابحاث کو کسی انتہا پر لے جاکر کسی کی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے تو بےشک اس کام کو جاری رکھیئے ۔ میری بس یہی دعا ہوگی کہ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
والسلام
 
براہ مہربانی اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ اہل علم ہونے کا کیا معیار ہے۔
1۔ کیا کوئی شخص خود سے جو چاہے جیسی چاہے کتابیں پڑھ کر اہل علم کے زمرے میں آ جاتا ہے؟
2۔ اسے کسی ٹریننگ انسٹیوٹ سے باقاعدہ سند حاصل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
3۔ ماضی میں لوگ کن لوگوں کو اہل علم گردانتے تھے؟
4۔ کیا کوئی شخص میڈیکل کی کتابیں از خود پڑھ لے حفظ کر لے بغیر میڈیکل کالج میں داخلہ لیے ہوئے، تو کیا اسے ڈاکٹر مانا جائے گا، اس سے کوئی علاج کرانے جائے گا؟
5۔ کیا اہل علم ہونے کے لیے کسی کی شاگردی اختیار کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
6۔ نبی تو وحیء آسمانی کے نزول اور براہ راست تربیت باری تعالیٰ کی وجہ سے اہل علم تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت، تربیت اور شاگردی کی وجہ سے اہل علم تھے۔ تابعین میں سے کوئی اہل علم ایسا نہیں گزرا جو کسی نہ کسی صحابی کا تربیت یافتہ نہ ہو اور اسی طرح علم کی ترویج کا یہ سلسلہ چلتا چلا آ رہا ہے اور ہم اہل علم؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
 

میر انیس

لائبریرین
میں آپ کی بات کی بھر پور تائید کرتا ہوں ۔ اور اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ اگر کوئی بحث ہو بھی رہی ہو تو اسکی ایک حد ہونی چاہیئے اور وہ بحث برائے بحث نہ بنے بلکہ برائے اصلاح بنے اور اگر سامنے والے آپ کی بات کو قبول کرنے کے لیئے تیار نہ ہو تو بحث کو مذید طول نہ دیا جائے کہ کسی کی بھی دلشکنی ہو۔ دراصل روز حشر تو انسان سے پہلے خود اسکے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا عمل بالمعروف و نہی عن المنکر کا سوال بعد میں آئے گا ۔ ہم میں سے اکثر لوگ ( شاید مجھ سمیت) پہلے دوسروں کے عقیدہ کی فکر کرتے ہیں بعد میں یہ سوچتے ہیں کہ ہم کو اپنے عقیدہ کے مطابق زندگی بھی گزارنی چاہیئے۔ یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ بعض لوگ عام زندگی میں بھی نماز کسطرح پڑھنی چاہیئے اس پر گھنٹوں بحث کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں پر جب تحقیق کی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ وہ صرف جمعہ کہ جمعہ ہی نماز پڑھتے ہیں یا پھر عیدین کی نماز۔
 

Fari

محفلین
بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی--:)
مجھے بھی اس بات کا شدت سے احساس ہو رہا تھا کہ یہ علمی مباحث میں ذاتیات پر بات کیوں پہنچ جاتی ہے- افسوس کی بات یہ ہے کہ جس فورم کا بامقصد اور تعمیری استعما ل ہونا چاہیئے وہاں اکثر لوگ محض بحث برائے بحث اور انتہا پسند رویے کی وجہ سے ان مباحث کو ان کے منظقی انجام تک نہیں پینچنے دیتے- جس کا ایک نقصان تو دوسروں کی دل آزاری اور دوسرا درپردہ بیرونی سازشوں کو پروان چڑھنے کا موقع مل جاتا ہے-
کاش کے اتنا پڑھ لکھ جانے کے بعد ہم یہ بھی سمجھ پاتے کہ اختلاف ِ رائے کا مطلب یہ نہیں کہ ہم فوراً کسی پر اسلام سے خارج ہونے کا فتوٰی لگا دیں یا اس کی بات سمجھے بنا اس کی تزلیل شروع کر دیں-اور اس سب کا نتیجہ گروہ بندی ، شدت پسندی اور نفرت انگیزی کے سوا کچھ نہیں -
ہمارا لکھا ہوا ایک جملہ جہاں کسی کی دل آزاری کی باعث بنتا ہے وہیں مخا لف گروہ کے دل میں بد گمانی پیدا کرتا ہے اور نتیجہ یم میں اخوت کے بجائے نفرت کو فروغ ملتا ہے- اور اس تکرار کو پڑھ کر کتنے لوگ اس سے انتہا پسندی کی راہ پر چل نکلتے ہیں اور اسلام دشمنوں کی سازشوں کو تقویت ملتی یے، اگر ہم جان پا ئیں تو شا ید اپنے ہی نقصان کا ازالہ کرنے کا وقت نہیں ملے گا ہمیں- :shameonyou:
اللّھ ہم سب کو ہدایت دے- آمین-:praying:
 

dxbgraphics

محفلین
جس طرح میڈیکل شعبے کی سند کے ایک شخص کو ڈاکٹر نہیں مانا جاسکتا چاہے وہ کتنی ہی میڈیکل کی کتابیں پڑھ لے ۔ اسی طرح ڈھیروں کتابیں پڑھ کر کوئی اہل علم نہیں بن جاتا ہے۔ اور خصوصا اسلامی تعلیمات میں تو بہت سارے ایسے دوست ہیں جو اپنی بات کو پتھر کی لکیر سمجھتے ہیں
 

ظفری

لائبریرین
براہ مہربانی اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ اہل علم ہونے کا کیا معیار ہے۔
1۔ کیا کوئی شخص خود سے جو چاہے جیسی چاہے کتابیں پڑھ کر اہل علم کے زمرے میں آ جاتا ہے؟
2۔ اسے کسی ٹریننگ انسٹیوٹ سے باقاعدہ سند حاصل کرنے کی ضرورت ہے یا نہیں؟
3۔ ماضی میں لوگ کن لوگوں کو اہل علم گردانتے تھے؟
4۔ کیا کوئی شخص میڈیکل کی کتابیں از خود پڑھ لے حفظ کر لے بغیر میڈیکل کالج میں داخلہ لیے ہوئے، تو کیا اسے ڈاکٹر مانا جائے گا، اس سے کوئی علاج کرانے جائے گا؟
5۔ کیا اہل علم ہونے کے لیے کسی کی شاگردی اختیار کرنا ضروری ہے یا نہیں؟
6۔ نبی تو وحیء آسمانی کے نزول اور براہ راست تربیت باری تعالیٰ کی وجہ سے اہل علم تھے۔ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت، تربیت اور شاگردی کی وجہ سے اہل علم تھے۔ تابعین میں سے کوئی اہل علم ایسا نہیں گزرا جو کسی نہ کسی صحابی کا تربیت یافتہ نہ ہو اور اسی طرح علم کی ترویج کا یہ سلسلہ چلتا چلا آ رہا ہے اور ہم اہل علم؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟

آپ ایک کام کریں ۔۔۔۔ میری اس تحریر میں آپ کو جو قابلِ اعتراض حصہ یا نکتہِ نظر لگ رہا ہے اس کو کوٹ کریں اور وہاں اپنا اعتراض بیان کجیئے کہ مجھے یہاں اس جملے یا نکتہ نظر سے اس طرح اختلاف ہے ۔ تو شاید میں آپ کے سارے سوالات کا صحیح پس منظر سمجھنے میں کامیاب ہوسکوں ۔ تاکہ مجھے آپ کا نکتہِ نظر سمجھ کر جواب دینے میں آسانی ہو ۔ ورنہ یہ بحث صرف وقت کا ضیاع ہوگی ۔ اور یہ تحریر جس رویئے کے تناظر میں لکھی گئی ہے ۔ اس کے بھی اثرات نمایاں ہوجائینگے ۔
ایک اور بات کی بھی ساتھ ساتھ تحقیق کجیئے کہ ہمارے آئمہ کرام میں کیا ایسے بھی جید عالم موجود تھے جو مدرسے نہیں گئے اور نہ ہی ان کے پاس کوئی سند تھی ۔ ؟
 

arifkarim

معطل
براہ مہربانی اس بات کی وضاحت ہو جائے کہ اہل علم ہونے کا کیا معیار ہے۔
دنیاوی علوم میں "معروف" تعلیمی اداروں ؛ یونی ورسٹیز وغیرہ کی سند اور مارکیٹ میں لمبا کام کا تجربہ یا ریسرچ کی فیلڈ میں نئی ایجادات و نظریات اس بات کی ضمانت بن سکتا ہے کہ موصوف صاحب "علم" ہیں۔
دینی علوم میں معروف جامعات و مدرسوں سے کم ا زکم عالم فاضل تک کی ڈگری۔ نیز جدید دور کے انسانی مسائل کا اسلامی حل پر تحقیق کےبہترین نتائج پیش کرنے والے اس فیلڈ میں صاحب "علم" کہلا سکتے ہیں۔
روحانی علوم تک چونکہ ہر انسان کی پہنچ نہیں، یوں اس فیلڈ میں بچپن سے رغبت رکھنے والے مراقبہ و تجربہ کی بنیاد پر اہل علم کہلا سکتے ہیں۔ ہشیار رہیں کہ اس فیلڈ میں جھوٹے لٹیروں کی تعداد بھی مندرجہ بالا افراد کے مقابلہ میں‌بہت زیادہ ہے۔ کیونکہ ایسے علوم پر حقیقتاًعبور رکھنے والے اولً تو آسانی سے ملتے نہیں۔ نیز یہاں کسی قسم کی کوئی ڈگری یا سند ایشو نہیں کی جا سکتی ۔ ان علوم کا تعلق انسانی روحانیت سے ہے ، اسلئے دین و دنیا کا حد سے زیادہ علم رکھنے والے بھی یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ وہ روحانی والوں سے سبقت لیجانے والے ہیں!
 
سلام،
اللہ تعالی نے دین کی تعلیم کا حصول بذریعہ قرآن حکیم کی تعلیم سب پر فرض کی ہے۔ اس فرض کے پورا کرنے کے لئے امت مسلمہ ہمیشہ سے قران حکیم کی باقاعدہ و بامعنی تلاوت پر زور دیتی آئی ہے۔
کیا کسی بھی معاملہ میں قرآن کی آیت کا حوالہ کسی طور بھی دل شکستگی کا باعث ہونا چاہئیے۔ اگر کوئی حوالہ درست نہیں تو اس کی علمی دلیل پیش کی جانی چاہئے نہ کہ ناراضگی مول لی جائے۔ اب تک یہ طے ہے کہ قرآن حکیم فرمان الہی جو کہ رسول اکرم کی زبان سے ادا ہوا --- اس کے احکام میں کوئی اختلافات نہیں۔ لیکن قرآن حکیم کے احکام بہت سے فرقوں کے اپنے عقائید کے مخالف ہیں۔ یہ شدید تضاد ( یعنی مکمل 180 درجے کی ضد، اختلاف یا تعارض نہیں) اس وقت شدت اختیار کرجاتا ہے جب ان عقائید پر غور کرنے کی جگہ ایک متشدد پالیسی اپنا لی جائے۔

ظفری آپ نے جو لکھا وہ بہترین نظریات اور بہترین اصولوں پر مبنی نکات ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ عام طور لوگوں کی سمجھ میں اصول اور نظریات نہیں آتے ، ان کو مثال بھی چاہئیے۔ سامنے ایک شخصیت بھی چاہئے۔ حضرت علی (ر) نے کیا خوب فرمایا تھا کہ " یہ مت دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے ، یہ دیکھو کہ کیا کہہ رہا ہے" ۔۔۔ افسوس یہ کہ بیشتر لوگ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ کون کہہ رہا ہے ۔۔۔۔ ان کو اس مقصد کے لئے "بھگوان کا اوتار" اپنی پوجا کے لئے چاہئیے --- (شاید کچھ سخت ہوگئی ؟؟؟ ہاتھ ہولا رکھتا ہوں :) ) یعنی شخصیت پرستی کے حصار سے باہر نکلنا بہت سے لوگوں کے لئے بہت ہی مشکل ہے۔

یہی شخصیت پرستی کی خاصیت ہے کہ لوگ انسانوں کے بت بنا کر ، ان کو سینٹ، سادھو، سنت بنا کر پوجتے ہیں۔ اگر کچھ نہ ملے تو قبروں کی پوجا کرتے ہیں ۔۔۔ اگر شخصیت پرستی کے ساری مانگ مکمل نہ ہو تو ناراض ہوجاتے ہیں کہ ---- یہ تو وہ والا بت نہیں ہے --- نتیجہ اس کا کردار کشی ہوتا ہے۔ جبکہ نتیجہ مناسب دلیل فراہم کرنا یا مناسب دلیل کو قبول کرلینا ہونا چاہئے۔

اللہ تعالی ہم کو شخصیت پرستی کی پستییوں سے بلند ہوکر اللہ تعالی کی عبادت اور اصو ل پرستی کا درجہ عطا فرمائیں۔

والسلام
 

ظفری

لائبریرین
فاروق صاحب !
آپ کے کلمات کے لیئے میں آپ کا شکریہ ا دا کرتا ہوں ۔
دراصل ہم دین کی نہیں اپنے اپنے نظریات اور عقائد کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔اس معاشرے میں ہر چیزگوارا کی جاتی ہے، لیکن علم و تحقیق کا وجودکسی حال میں گوارا نہیں کیا جاتا۔ لوگ بے معنی باتوں پر داددیتے، خرافات پر تحسین و آفرین کے نعرے بلند کرتے، جہالت کے گلے میں ہار ڈالتے اور حماقت کی راہ میں آنکھیں بچھاتے ہیں، مگر کسی علمی دریافت اور تحقیقی کارنامے کے لیے، بالخصوص اگر وہ دین سے متعلق ہو تو اُن کے پاس اینٹ پتھر کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔

یہاں سب سے بڑا مرض عامیانہ تقلید کا مرض ہے۔ ہر وہ چیز جسے لوگوں نے اختیار کیا ہوا ہے؛ جو پہلے سے چلی آ رہی ہے ۔ جس سے لوگوں کے جذبات وابستہ ہیں۔ جو اُن کی شناخت بن گئی ہے ۔ جو اُن کے لیے ایک روایت کی حیثیت رکھتی ہے، وہ اگرچہ کتنی ہی غلط کیوں نہ ہو اور اُس نے حقیقت کا چہرہ کتنا ہی مسخ کیوں نہ کر دیا ہو اور وہ اللہ کے کسی صریح حکم اور اُس کے رسول کی کسی واضح سنت کے خلاف ہی کیوں نہ ہو، لوگ اُس پر کوئی تنقید سننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ اُنھیں اِس بات سے کوئی دل چسپی نہیں ہوتی کہ کہنے والے نے اپنے نقطہ نظر کے حق میں دلیل کیا پیش کی ہے۔ اُن کی ساری تگ و دو کا محور صرف یہ ہوتا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح اپنی اُس روایت کو بچانے میں کامیاب ہو جائیں۔ چنانچہ وہ تنقید کرنے والے کے دلائل سے گریز کر کے، اُس کے کلام میں تحریف کر کے، اُس کے مدعا کو تبدیل کر کے، اُس کی شخصیت کو مجروح کر کے، اُس کا مذاق اڑا کر، غرض یہ کہ ہر طریقے سے حق کو باطل اور باطل کو حق بنا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کے متعدد مثالیں آپ کو اس محفل پر مل جائیں گی ۔ بلکہ حال ہی میں میرے کچھ ٹاپکس پر مجھے اسی صورتحال کا سامنا رہا ۔
اس رویئے کے بارے میں جلد ہی آپ ایک نیا دھاگہ دیکھیں گے ۔ جس میں اس رویئے پر میں کچھ تفصیل سے لکھنے کی کوشش کروں‌گا ۔
 
PHP:
آپ ایک کام کریں ۔۔۔۔ میری اس تحریر میں آپ کو جو قابلِ اعتراض حصہ یا نکتہِ نظر لگ رہا ہے اس کو کوٹ کریں اور وہاں اپنا اعتراض بیان کجیئے کہ مجھے یہاں اس جملے یا نکتہ نظر سے اس طرح اختلاف ہے ۔ تو شاید میں آپ کے سارے سوالات کا صحیح پس منظر سمجھنے میں کامیاب ہوسکوں ۔
میں ایسا کیوں کروں؟ پہلے تو آپ اپنے اہل علم میں ہونے کا ثبوت دیجیے۔
رہی بات ائمہ کی تحقیق کی تو کوئی بھی امام کسی مقتدا عالم کی صحبت کے بغیر اہل علم نہیں کہلایا۔ جس طرح پچھلے زمانے میں باقاعدہ میڈیکل کالج موجود نہیں تھے بلکہ کسی ماہر مستند حکیم جو خود بھی کسی حکیم کی صحبت اٹھا کر حکیم بنا ہوتا تھا کی صحبت اختیار کر کے حکمت کا علم حاصل کرتا تھا اسی طرح دینی علوم بھی علما و حکما کی صحبت سے حاصل کیے جاتے تھے۔ اور جس طرح اس دور میں ڈاکٹر صرف کتابیں پڑھ کر نہیں بنا جا سکتا اسی طرح باقاعدہ کسی دینی ادارے سے تربیت حاصل کیے بغیر بھی کسی کو اہل علم میں شمار نہیں کیا جا سکتا۔ پچھلے زمانے کے معیار اور تھے اور اس زمانے کے اور۔اگلوں کو پچھلوں سے نہیں جانچا جا سکتا۔
 

ظفری

لائبریرین
میں ایسا کیوں کروں؟ پہلے تو آپ اپنے اہل علم میں ہونے کا ثبوت دیجیے۔
۔
میرے بارے میں آپ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ میں خود کو طالب علم گردانتا ہوں ۔ جو کچھ پڑھتا ہوں ، سمجھتا ہوں یہاں محفل پر شئیر کرلیتا ہوں ۔ دوست احباب جہاں سمجھتے ہیں ۔ میری تصحیح و تصوید کردیتے ہیں ۔ اس طرح مجھے مختلف نکتہِ نظر سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔

مگر جس طرح آپ نے اصل موضوع پر علمی بحث کے بجائے سوالات کے ذریعے حجت پیدا کی ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ مثبت گفتگو کے قائل نہیں ۔ کیونکہ یہاں آپ ایک خاص نکتہِ نظر کے اثرات کے تحت اعتراضات کرنے آئے ہیں ناکہ اصل موضوع کے کسی نکتہ ِ نظر کو وجہِ اعتراض بنا کر بحث کرنے ۔

بہرحال میں اس رویئے کے بارے میں بھی جلد لکھوں گا ۔ کہ لوگ کیوں ایسا کرتے ہیں ۔
باقی سوالات حجت برائے حجت ہے ۔ میں اپنا وقت کسی مثبت رحجان میں صرف چاہتا ہوں ۔ اس لیئے مجھے اس بے مقصد بحث سے دور رکھیں ۔ ہاں اگر میری کسی تحریر کے کسی حصے پر کوئی علمی اختلاف ہے تو بسمہ اللہ ۔۔۔۔ ورنہ صبر سے کام لجیئے ۔ والسلام
 

فرخ

محفلین
ظفری بھیاء
آپ جب بھی کسی موضوع سے متعلق بات کریں گے تو ذھنوں میں اس سے متعلق سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔ مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ سوالات کرنے والے منفی گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں۔

آپ یہ مت بھولا کریں کہ یہاں سب ایک نقطہء نظر پر متفق ہونگے۔ اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اور نہ ہی آپ لوگوں‌کو محض اپنے نقطہء نظر پر رکھ سکیں گے۔
اسلئیے اعترافات کے ساتھ اعتراضات بھی ہونگے اور یہ ایک قدرتی امر ہے۔ اور آپ کو اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔اور انکے سوالات کے جوابات اس عنوان کے اردگرد دیں جس پر آپ بات کرنا چاہ رہےہیں۔

میرے بارے میں آپ سخت غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ میں خود کو طالب علم گردانتا ہوں ۔ جو کچھ پڑھتا ہوں ، سمجھتا ہوں یہاں محفل پر شئیر کرلیتا ہوں ۔ دوست احباب جہاں سمجھتے ہیں ۔ میری تصحیح و تصوید کردیتے ہیں ۔ اس طرح مجھے مختلف نکتہِ نظر سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے ۔

مگر جس طرح آپ نے اصل موضوع پر علمی بحث کے بجائے سوالات کے ذریعے حجت پیدا کی ہے ۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ مثبت گفتگو کے قائل نہیں ۔ کیونکہ یہاں آپ ایک خاص نکتہِ نظر کے اثرات کے تحت اعتراضات کرنے آئے ہیں ناکہ اصل موضوع کے کسی نکتہ ِ نظر کو وجہِ اعتراض بنا کر بحث کرنے ۔

بہرحال میں اس رویئے کے بارے میں بھی جلد لکھوں گا ۔ کہ لوگ کیوں ایسا کرتے ہیں ۔
باقی سوالات حجت برائے حجت ہے ۔ میں اپنا وقت کسی مثبت رحجان میں صرف چاہتا ہوں ۔ اس لیئے مجھے اس بے مقصد بحث سے دور رکھیں ۔ ہاں اگر میری کسی تحریر کے کسی حصے پر کوئی علمی اختلاف ہے تو بسمہ اللہ ۔۔۔۔ ورنہ صبر سے کام لجیئے ۔ والسلام


اسی طرح دیگر حضرات بھی جب سوالات کریں تو کوشش کریں کہ دوسرے کے نقطہء نظر کو سمجھیں اور پھر کوئی اعتراض نکالیں۔ ورنہ جیسے ظفری کی بات بھی ٹھیک لگتی ہے کہ اس طرح بات چیت اپنے اصل موضوع سے ہٹ جاتی ہے اور اسکی کئی شاخیں نکل آتی ہیں۔
 

آبی ٹوکول

محفلین
آج کل محفل پر ایک بار پھر ایسے مراسلات کی بھرمار ہے ، جن میں مخصوص خیالات ، نظریات ، رحجانات اور عقائد کا پرچار واضع طور پر نظر آتا ہے ۔ ان مراسلات میں دھونس ، انتشار ، نفرت اور زبردستی کے سوا کوئی علمی نوید نہیں سنائی جاتی ۔ بلکہ سارا بغض‌ ذاتیات اور شخصیات پر اتارا جاتا ہے ۔ اسوہ حسنہ پر زور دینے والے اپنے لہجے میں علمی دلائل اور استدلال کے بجائے درشتی اور تمسخر لے آتے ہیں ۔ اور انداز ِ تخاطب اس قدر بگاڑ لیتے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ یہ سب علمی شخصیتیں ہیں ۔ اور ماضی میں ان کے بہت سے استدلال اور علمی گفتگو سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے ہیں ۔
السلام علیکم ظفری بھائی !
گو کہ بندہ لیے آپ کے مراسلے کہ تمام مندرجات سے متفق ہونا نہایت ہی مشکل ہے مگر آپ کے ما فی الضمیر کو سمجھتے ہوئے اوور آل آپ جو کہنا چاہ رہے ہیں بندہ کو اس سے ضرور اتفاق ہے اور آپکے کلام میں پائے جانے والے کنایات سے آپ کا روئے سخن کا بھی کسی حد تک بندہ کو ادراک ہے لہزا اس ضمن بندہ اپنی حد تک صفائی دے سکتا ہے کہ بندہ کو خود اہل علم کے باہمی اختلافات کا کافی حد تک مطالعہ ہے لہذا یہی وجہ کے اس باب میں بندہ کبھی بھی متشددانہ رویوں کا قائل نہیں رہا اور نہ ہی بندہ کسی بھی روایت رواج یا رسم کی اندھی تقلید کا قائل و حامی کبھی رہا اور نہ ہی شخصیت پرستی جیسی لعنت میں کبھی گرفتار رہا نہ ہوگا نہ ہے ۔۔
علمی اختلاف ہی کی وجہ سے بندہ اس بات کا قائل ہے کہ اسلاف کے ساتھ اختلاف کیجئے کہ یہ آپکا حق ہے مگر پھرپور علمی رویہ کے ساتھ تاکہ وہ اختلاف بجائے " اختلاف " کے حقیقی اعتبار سے بھی " علمی اختلاف " ہی کہلائے لہذا اس کا معیار اس قدر بلند ہونا چاہیے کہ باقاعدہ ایک علمی روایت جنم لے سکے نہ کہ ہم اپنے فہم سے کسی بھی شئے کو " علم " گردانتے ہوئے اسلاف پر فسق و فجور کے فتوے صادر کرتے پھریں یہ کبھی بھی علمی روایت نہیں رہی بلکہ اس کا " علم " سے دور کا بھی واسطہ نہیں لہزا یہی وجہ ہے کہ جب محفل پر ایسے احباب اپنے فتاوٰی جات بے دھڑک نقل کرتے چلے جاتے ہیں تو بشریت کے تقاضا کہ تحت بندہ کے قلم میں بھی تلخی در آتی ہے جس سے آپ جیسے صاحبان علم کو ذہنی کوفت اٹھانا پڑتی ہے جس کے لیے بندہ معذرت کا خواستگار ہے امید واثق ہے کہ آپ بندہ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے درگذر فرمائیں گے والسلام آپکا خیر اندیش
 

ظفری

لائبریرین
ظفری بھیاء
آپ جب بھی کسی موضوع سے متعلق بات کریں گے تو ذھنوں میں اس سے متعلق سوالات بھی اُٹھتے ہیں۔ مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں ہوتا کہ سوالات کرنے والے منفی گفتگو کرنا چاہ رہے ہیں۔
آپ یہ مت بھولا کریں کہ یہاں سب ایک نقطہء نظر پر متفق ہونگے۔ اور نہ ایسا ہو سکتا ہے۔ اور نہ ہی آپ لوگوں‌کو محض اپنے نقطہء نظر پر رکھ سکیں گے۔
اسلئیے اعترافات کے ساتھ اعتراضات بھی ہونگے اور یہ ایک قدرتی امر ہے۔ اور آپ کو اس بات کے لئے بھی تیار رہنا چاہئیے۔اور انکے سوالات کے جوابات اس عنوان کے اردگرد دیں جس پر آپ بات کرنا چاہ رہےہیں۔
بڑی دلچسپ بات کہی آپ نے ۔۔۔۔ یعنی جن باتوں کو ملحوظ رکھ کر میں نے جو پوسٹ لکھی ہے ۔ اسی کا خلاصہ بیان کردیا آپ نے ۔ اور دلچسپ اس لحاظ سے کہ آپ میری ہی باتیں مجھے لوٹا رہے ہیں ۔ آپ میری پوسٹ دوبارہ پڑھیں۔ شاید آپ اپنی پوسٹ کی طرف رجوع کرلیں ۔ :)

اسی طرح دیگر حضرات بھی جب سوالات کریں تو کوشش کریں کہ دوسرے کے نقطہء نظر کو سمجھیں اور پھر کوئی اعتراض نکالیں۔ ورنہ جیسے ظفری کی بات بھی ٹھیک لگتی ہے کہ اس طرح بات چیت اپنے اصل موضوع سے ہٹ جاتی ہے اور اسکی کئی شاخیں نکل آتی ہیں۔
یہاں آپ نے بلکل صحیح نشان دہی کہ یہی بات کہنے کی میں‌ نے جسارت کی ہے کہ اس قسم کی ابحاث میں کس طرح کا رویہ ہونا چاہیے ۔ میں اس مثبت سوچ پر آپ کا شکریہ ادا کرتا ہوں ۔
 

ظفری

لائبریرین
السلام علیکم ظفری بھائی !
علمی اختلاف ہی کی وجہ سے بندہ اس بات کا قائل ہے کہ اسلاف کے ساتھ اختلاف کیجئے کہ یہ آپکا حق ہے مگر پھرپور علمی رویہ کے ساتھ تاکہ وہ اختلاف بجائے " اختلاف " کے حقیقی اعتبار سے بھی " علمی اختلاف " ہی کہلائے لہذا اس کا معیار اس قدر بلند ہونا چاہیے کہ باقاعدہ ایک علمی روایت جنم لے سکے نہ کہ ہم اپنے فہم سے کسی بھی شئے کو " علم " گردانتے ہوئے اسلاف پر فسق و فجور کے فتوے صادر کرتے پھریں یہ کبھی بھی علمی روایت نہیں رہی بلکہ اس کا " علم " سے دور کا بھی واسطہ نہیں لہزا یہی وجہ ہے کہ جب محفل پر ایسے احباب اپنے فتاوٰی جات بے دھڑک نقل کرتے چلے جاتے ہیں تو بشریت کے تقاضا کہ تحت بندہ کے قلم میں بھی تلخی در آتی ہے جس سے آپ جیسے صاحبان علم کو ذہنی کوفت اٹھانا پڑتی ہے جس کے لیے بندہ معذرت کا خواستگار ہے امید واثق ہے کہ آپ بندہ کی مجبوری کو سمجھتے ہوئے درگذر فرمائیں گے والسلام آپکا خیر اندیش
آپ کی اس بات سے میں سو فیصد متفق ہوں ۔ آپ کی مثبت پوسٹ کا عکس اس دھاگے کی مرکزی پوسٹ میں نمایاں ہے ۔ مجھے خوشی ہے کہ ہم میں یہ روش اور روایت پیدا ہو رہی ہے کہ کسی تحریر کو سرسری طور پر پڑھ کر کس غلط رائے کے اظہا رکے بجائے اُس بات یا استدلال کوسمجھ کر ہم صرف اُسی بات تک اپنی بحث کا دائرہ محدود رکھیں ۔ اس سلسلے میں آپ جیسے قابل دوستوں کی مدد اور رہنمائی حوصلہ افزا ہوگی کہ کسی کو اس دائرے سے باہر دیکھیں تو اس کو شائستگی سے سمجھا دیں ۔
میں دوسری بار یہ بات واضع کردوں کہ میں اپنی حیثت صرف طالب علم تک گردانتا ہوں ۔ اس لیئے مختلف مکتبِ فکر کے استدلال اور سوچ کا باریکی سے مطالعہ کرتا ہوں اور جہاں مجھے اپنی اصلاح کا کوئی پہلو نظر آتا ہے ۔ اس کو بلا تررد میں اپنا لیتا ہوں ۔ کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ سب مکتبِ فکر بے شک مختلف فہم ِ نظر رکھتے ہونگے ۔ مگر ان سب کا ایمان دین کے بنیادی اساس پر ہے ۔ لہذا ایمانیات کے معاملے میں ان سے کسی قسم کا اختلاف ممکن نہیں ۔ طرزِ استدلال اور طرزِ فکر مختلف ہوسکتا ہے ۔ جنہیں ہم فروعی معاملات کہتے ہیں ۔ مگر اس سے ایمانیات کو کوئی ضرب نہیں لگتی کہ وہ بلکل واضع اور بلکل محفوظ ہے ۔
 

گلزار خان

محفلین
تحریر پڑھی اچھی لگی بہت خوب لکھا ہے ظفری بھائی میں نے آپ کے اس فارم پر بہت سے دوسرے دھگے پڑھے ہیں بہت خوب لکھتے ہیں اور مکمل وضاحت کے ساتھ سمجھاتے ہیں لیکن آپ کی زیادہ تر تحریر پرانی ہے مطلب کے آپ کی یہاں جو بھی تحریر نظر سے گزری وہ پہلے کی لکھی ہوئی ہیں ابھی بھی لکھا کریں ابھی یہاں آپ کم کم کیوں آتے ہیں لکھتے رہیے اللہ آپ کے علم میں مذید اضافہ فرمائے
 
Top