آج کل محفل پر ایک بار پھر ایسے مراسلات کی بھرمار ہے ، جن میں مخصوص خیالات ، نظریات ، رحجانات اور عقائد کا پرچار واضع طور پر نظر آتا ہے ۔ ان مراسلات میں دھونس ، انتشار ، نفرت اور زبردستی کے سوا کوئی علمی نوید نہیں سنائی جاتی ۔ بلکہ سارا بغض ذاتیات اور شخصیات پر اتارا جاتا ہے ۔ اسوہ حسنہ پر زور دینے والے اپنے لہجے میں علمی دلائل اور استدلال کے بجائے درشتی اور تمسخر لے آتے ہیں ۔ اور انداز ِ تخاطب اس قدر بگاڑ لیتے ہیں کہ یقین نہیں آتا کہ یہ سب علمی شخصیتیں ہیں ۔ اور ماضی میں ان کے بہت سے استدلال اور علمی گفتگو سے بہت سے لوگ مستفید ہوئے ہیں ۔ پھر کچھ اور لوگوں نے اس ماحول سے فائدہ اٹھا کر مذہب کے نام پر بلا تصدیق باتوں پر یقین کرکےاور ہر سنی سنائی بات کو بلا تحقیق آگے بڑھانا اپنی دینی ذمہ داری سمجھ لیا ہے ۔ جبکہ یہ رویہ دین کی مسلمہ تعلیمات کی رو سے ایک بدترین اخلاقی رویہ ہے ۔میں کوشش کروں گا اس ماحول کے تناظر میں اپنا نکتہ نظر اس طرح پیش کرسکوں تاکہ میری بات کو سمجھنے کے لیئے کسی کو کسی دقت کا سامنا نہ ہو اور اس تحریر میں وہ مثبت پہلو نظر آجائے جو ساری تحریر کا ماخذ ہے ۔
اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے میں دو طرح کی چیزیں رائج ہیں ۔ایک وہ دین جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا تھا۔ اس میں وہ تمام عقائد ، عبادات ، اخلاقیات اور قوانین شامل ہیں جو قرآن و سنت میں پائے جاتے ہیں ۔ معاشرے میں رائج دوسری چیز بعد میں آنے والے اہل علم اورفقہا کے اجتہادات اور ان کا فہمِ دین کا نتیجہ ہے ۔
اس آسان بات کو مشکل سمجھنے سے بچنے لیئے ، ہم ایک مثال سے یوں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عام طور پر ہمارے مروجہ مذہبی نقطۂ نظر کے مطابق اسلامی حدود و تعزیرات میں قتلِ عمد کی سزا موت مقرر کی گئی ہے ۔ اسی حدود کے قانون کی ایک شق یہ ہے کہ قتل کے کسی کیس میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔اس معاملے میں پہلی بات بلاشبہ ایک دینی حکم ہے جو قرآ ن کریم میں بیان ہوا ہے ۔ جبکہ دوسری بات نہ قرآن میں ہے ، نہ سنت میں اور نہ کسی حدیث میں ۔یہ دراصل ہمارے فقہا کی رائے ہے جو ایک دینی مسلمہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے ۔ دین تو بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے ۔اس کے بعد ہر رائے کو ہم توجہ اور غور سے سنیں گے ، وہ ہمیں اگر دین کے تقاضوں کے مطابق اور ایک معقول بات محسوس ہوئی تو اسے سر آنکھوں پر رکھیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو احترام کے ساتھ اسے قبول کرنے سےانکار کر دیں گے ۔ اس لیے کہ ہم پر ذمہ داری صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہے اور یہ کہ ہم ان کے ہر حکم کو حرفِ آخر سمجھیں ۔
یہی وہ چیز ہے جسےہم صدیوں سے مانی ہوئی اور متفقہ چیزوں سے انکار قرار دے رہے ہیں ۔یہ بات بلکل واضح ہے کہ اختلاف صرف اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔ با قی ہر رائے کو دین ، علم اور عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا۔اس لیے ہم کو گفتگو اس پر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم بعض چیزوں سے "اختلاف " کرتے ہیں ، بلکہ ساری گفتگو اس پر ہونی چاہیے کہ کیا اللہ اور اس کے رسول کے سوا دین کا کوئی تیسرا ماخذ بھی ہے ؟ کیا ہمارے دین میں کسی فرد ، ادارے یا گروہ کو نبوت کا سا تقدس حاصل ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف کی ہر رائے ایک آسمانی فیصلہ ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف اور قدیم اہل علم نے یہ دعویٰ کبھی کیا کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان کی ہر بات نبیوں کی طرح سچی ، حق پر مبنی اور کبھی نہ تبدیل ہونے والی ہوتی ہے ؟ کیا صدیاں گزرجانے پر ہر بات مقدس اور آسمانی ہوجاتی ہے ۔؟
یہ اگر آپ کی رائے ہے تو آئیے بیٹھ کر پہلے اس پر بات کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں تین گزارشات عرض ہیں ۔ پہلی یہ کہ کسی شخص کواس بات پر متوحش نہیں ہونا چاہیے کہ اہل علم کسی علمی مسئلے پر آپس میں اختلاف کرتے ہیں ۔ آپ امت کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے ، شاید ہی کوئی مسئلہ ہو جس پر اہل علم کی ایک سے زائد آرا سامنے نہ آجائیں ۔ ہمارے ہاں عام لوگ تو کجا مدارس سے فارغ علما بھی اسلاف کے دینی کام پر براہِ راست نظر نہیں رکھتے ، ا س لیے وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں ۔کچھ اور نہیں تو ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد ہی کا مطالعہ کر لیں جس میں مختلف دینی امور کے بارے میں قدیم اہل علم کی آرا ء جمع کر دی گئی ہیں جہاں یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی ۔
دوسری عرض یہ ہے کہ آخرت میں انسان کی نجات جن چیزوں پر موقوف ہے اور جن عقائد و اعمال پر پورا دین منحصر ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم پر نہیں چھوڑ ے ، بلکہ اپنے رسول کے ذریعے سے خود بیان کر دیئے ہیں اور قیامت تک ان کی حفاظت کا انتظام بھی کر دیا ہے ۔ اس لیے ان فقہی اختلافات سے کسی کی آخرت کو یا دین کے بنیادی ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
آخری بات یہ ہے کہ ہمارے جدید اہلِ علم نے جن چیزوں میں قدیم اہلِ علم سے اختلاف کیا ہے وہ بنیادی دینی تعلیمات میں نہیں ، بلکہ فروعی معاملات میں کیا ہے ، لیکن جتنے امور پر بھی اختلاف ہے، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن پر اسلاف میں بھی آپس میں اختلاف تھا۔ اب لوگ چونکہ صرف ایک ہی نقطۂ نظر سے یہاں واقف ہوتے ہیں اس لیے انہیں یہ بات بڑ ی عجیب لگتی ہے کہ یہ نئی بات یہاں کیسے بیان ہوگئی ۔ پھر بغیر تحقیق کہ اس پر اسلاف کی آپس میں ایک دوسرے کی آراء پر کیا اختلاف رہا ہے ۔ وہ راشن پانی لیکر یہاں چڑھ دوڑتے ہیں ۔ منکر ، فاسد اور کافر قرار دینے میں ذرا بھی تامل اختیار نہیں کرتے ۔ جس سے نفرت ، تعصب اور انتشار کو پنپنے میں تقویت ملتی ہے اور ایک سادہ سی بات اپنے مخلتف فہم اور نکتہ نظر کا شکار ہوکر تحقیق کی صحیح روح سے دور ہوجاتی ہے ۔ اصل بحث یا موضوع پس ِ پشت چلا جاتا ہے ۔ اور پھر منتظمین کے پاس تالے کم پڑجاتے ہیں کہ کس کس ٹاپکس کو قفل لگایا جائے ۔
یہ رویہ کسی عام آدمی کا ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی ۔ جیسا کہ آج بھی محفل پر آپ کو کچھ لوگوں کی ایسی بےتحاشہ پوسٹیں نظر آئیں گی کہ بہت سے سمجھدار اراکین ان کو نظر انداز کرکے آگے نکل جاتے ہیں ۔ مگر ایک علمی انداز سے گفتگو کرنے والا شخص جب کسی کو اپنے فتوے کی زد میں لیتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ اور اس کے استدلال اور دلائل سارا منبع انہی عقائد پر ہوتا ہے ۔ جو اس مضمون کا ماخذ ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی پر نبیوں کی طرح اتمامِ حجت قائم کرنے کے بجائے اس کو دلائل ، ثبوت اور استدلال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ جواب میں بھی یہی رویہ ہونا چاہیئے ۔ کوئی کسی کے ساتھ متفق نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں کہ دینی بحث نہیں بلکہ فروعی ابحاث ہیں ۔ لہذا جو کسی کے دلائل اور استدلال سے مطمئن ہوگیا وہ اس کو قبول کرلے گا ۔ ورنہ اس قسم کی ابحاث کو کسی انتہا پر لے جاکر کسی کی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے تو بےشک اس کام کو جاری رکھیئے ۔ میری بس یہی دعا ہوگی کہ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
والسلام
اسلام کے نام پر ہمارے معاشرے میں دو طرح کی چیزیں رائج ہیں ۔ایک وہ دین جو اللہ کے آخری رسول حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا کو دیا تھا۔ اس میں وہ تمام عقائد ، عبادات ، اخلاقیات اور قوانین شامل ہیں جو قرآن و سنت میں پائے جاتے ہیں ۔ معاشرے میں رائج دوسری چیز بعد میں آنے والے اہل علم اورفقہا کے اجتہادات اور ان کا فہمِ دین کا نتیجہ ہے ۔
اس آسان بات کو مشکل سمجھنے سے بچنے لیئے ، ہم ایک مثال سے یوں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ عام طور پر ہمارے مروجہ مذہبی نقطۂ نظر کے مطابق اسلامی حدود و تعزیرات میں قتلِ عمد کی سزا موت مقرر کی گئی ہے ۔ اسی حدود کے قانون کی ایک شق یہ ہے کہ قتل کے کسی کیس میں عورت کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔اس معاملے میں پہلی بات بلاشبہ ایک دینی حکم ہے جو قرآ ن کریم میں بیان ہوا ہے ۔ جبکہ دوسری بات نہ قرآن میں ہے ، نہ سنت میں اور نہ کسی حدیث میں ۔یہ دراصل ہمارے فقہا کی رائے ہے جو ایک دینی مسلمہ کے طور پر بیان کی جاتی ہے ۔ دین تو بس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی دی ہوئی ہدایت کا نام ہے ۔اس کے بعد ہر رائے کو ہم توجہ اور غور سے سنیں گے ، وہ ہمیں اگر دین کے تقاضوں کے مطابق اور ایک معقول بات محسوس ہوئی تو اسے سر آنکھوں پر رکھیں گے اور اگر ایسا نہ ہوا تو احترام کے ساتھ اسے قبول کرنے سےانکار کر دیں گے ۔ اس لیے کہ ہم پر ذمہ داری صرف اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہے اور یہ کہ ہم ان کے ہر حکم کو حرفِ آخر سمجھیں ۔
یہی وہ چیز ہے جسےہم صدیوں سے مانی ہوئی اور متفقہ چیزوں سے انکار قرار دے رہے ہیں ۔یہ بات بلکل واضح ہے کہ اختلاف صرف اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ نہیں ہو سکتا ۔ با قی ہر رائے کو دین ، علم اور عقل کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا۔اس لیے ہم کو گفتگو اس پر نہیں کرنی چاہیے کہ ہم بعض چیزوں سے "اختلاف " کرتے ہیں ، بلکہ ساری گفتگو اس پر ہونی چاہیے کہ کیا اللہ اور اس کے رسول کے سوا دین کا کوئی تیسرا ماخذ بھی ہے ؟ کیا ہمارے دین میں کسی فرد ، ادارے یا گروہ کو نبوت کا سا تقدس حاصل ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف کی ہر رائے ایک آسمانی فیصلہ ہے ؟ کیا ہمارے اسلاف اور قدیم اہل علم نے یہ دعویٰ کبھی کیا کہ وہ معصوم عن الخطا ہیں اور ان کی ہر بات نبیوں کی طرح سچی ، حق پر مبنی اور کبھی نہ تبدیل ہونے والی ہوتی ہے ؟ کیا صدیاں گزرجانے پر ہر بات مقدس اور آسمانی ہوجاتی ہے ۔؟
یہ اگر آپ کی رائے ہے تو آئیے بیٹھ کر پہلے اس پر بات کرتے ہیں ۔
اس سلسلے میں تین گزارشات عرض ہیں ۔ پہلی یہ کہ کسی شخص کواس بات پر متوحش نہیں ہونا چاہیے کہ اہل علم کسی علمی مسئلے پر آپس میں اختلاف کرتے ہیں ۔ آپ امت کی تاریخ پر نگاہ ڈالیے ، شاید ہی کوئی مسئلہ ہو جس پر اہل علم کی ایک سے زائد آرا سامنے نہ آجائیں ۔ ہمارے ہاں عام لوگ تو کجا مدارس سے فارغ علما بھی اسلاف کے دینی کام پر براہِ راست نظر نہیں رکھتے ، ا س لیے وہ اس بات سے واقف نہیں ہیں ۔کچھ اور نہیں تو ابن رشد کی کتاب بدایۃ المجتہد ونہایۃ المقتصد ہی کا مطالعہ کر لیں جس میں مختلف دینی امور کے بارے میں قدیم اہل علم کی آرا ء جمع کر دی گئی ہیں جہاں یہ حقیقت بالکل واضح ہوجائے گی ۔
دوسری عرض یہ ہے کہ آخرت میں انسان کی نجات جن چیزوں پر موقوف ہے اور جن عقائد و اعمال پر پورا دین منحصر ہے وہ اللہ تعالیٰ نے اہل علم پر نہیں چھوڑ ے ، بلکہ اپنے رسول کے ذریعے سے خود بیان کر دیئے ہیں اور قیامت تک ان کی حفاظت کا انتظام بھی کر دیا ہے ۔ اس لیے ان فقہی اختلافات سے کسی کی آخرت کو یا دین کے بنیادی ڈھانچے کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا۔
آخری بات یہ ہے کہ ہمارے جدید اہلِ علم نے جن چیزوں میں قدیم اہلِ علم سے اختلاف کیا ہے وہ بنیادی دینی تعلیمات میں نہیں ، بلکہ فروعی معاملات میں کیا ہے ، لیکن جتنے امور پر بھی اختلاف ہے، ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ ان میں سے بیشتر ایسے ہیں جن پر اسلاف میں بھی آپس میں اختلاف تھا۔ اب لوگ چونکہ صرف ایک ہی نقطۂ نظر سے یہاں واقف ہوتے ہیں اس لیے انہیں یہ بات بڑ ی عجیب لگتی ہے کہ یہ نئی بات یہاں کیسے بیان ہوگئی ۔ پھر بغیر تحقیق کہ اس پر اسلاف کی آپس میں ایک دوسرے کی آراء پر کیا اختلاف رہا ہے ۔ وہ راشن پانی لیکر یہاں چڑھ دوڑتے ہیں ۔ منکر ، فاسد اور کافر قرار دینے میں ذرا بھی تامل اختیار نہیں کرتے ۔ جس سے نفرت ، تعصب اور انتشار کو پنپنے میں تقویت ملتی ہے اور ایک سادہ سی بات اپنے مخلتف فہم اور نکتہ نظر کا شکار ہوکر تحقیق کی صحیح روح سے دور ہوجاتی ہے ۔ اصل بحث یا موضوع پس ِ پشت چلا جاتا ہے ۔ اور پھر منتظمین کے پاس تالے کم پڑجاتے ہیں کہ کس کس ٹاپکس کو قفل لگایا جائے ۔
یہ رویہ کسی عام آدمی کا ہوتا تو کوئی بات نہیں تھی ۔ جیسا کہ آج بھی محفل پر آپ کو کچھ لوگوں کی ایسی بےتحاشہ پوسٹیں نظر آئیں گی کہ بہت سے سمجھدار اراکین ان کو نظر انداز کرکے آگے نکل جاتے ہیں ۔ مگر ایک علمی انداز سے گفتگو کرنے والا شخص جب کسی کو اپنے فتوے کی زد میں لیتا ہے تو بہت افسوس ہوتا ہے ۔ اور اس کے استدلال اور دلائل سارا منبع انہی عقائد پر ہوتا ہے ۔ جو اس مضمون کا ماخذ ہے ۔
میرا خیال ہے کہ ہمیں کسی پر نبیوں کی طرح اتمامِ حجت قائم کرنے کے بجائے اس کو دلائل ، ثبوت اور استدلال سے اپنی بات سمجھانے کی کوشش کرنی چاہیئے ۔ جواب میں بھی یہی رویہ ہونا چاہیئے ۔ کوئی کسی کے ساتھ متفق نہیں ہوتا تو کوئی بات نہیں کہ دینی بحث نہیں بلکہ فروعی ابحاث ہیں ۔ لہذا جو کسی کے دلائل اور استدلال سے مطمئن ہوگیا وہ اس کو قبول کرلے گا ۔ ورنہ اس قسم کی ابحاث کو کسی انتہا پر لے جاکر کسی کی اصلاح ممکن ہوسکتی ہے تو بےشک اس کام کو جاری رکھیئے ۔ میری بس یہی دعا ہوگی کہ اللہ آپ کا حامی و ناصر ہو ۔
والسلام