علیگڑھی کے متعلق (سر سید کے عقائد)

رضا

معطل
بسم اللہ الرحمن الرحیم ط
بعض لوگوں بلکہ اکثر کو سر سید کے عقائد کا علم نہیں۔معلومات میں اضافے کیلئے مطالعہ فرما لیں۔
اللہ تعالی ہمیں گمراہ و بے دین لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے۔۔
P56.gif

P57.gif

P58.gif
 

دوست

محفلین
صرف چند لائنیں پڑھی ہیں جن میں ایک اعتراض کالج کے لیے چندہ دینے کا ہے مسجد کے لیے انکار کرنے کا۔
میرے خیال میں مسجد کو تو کئی لوگ مل جائیں گے لیکن کالج کو نہیں۔ کالج کی آج میرے وطن اور قوم کو جتنی ضرورت ہے کبھی بھی نہ تھی۔ اس لیے میں سرسید کا ہمخیال ہوں۔
محترم یہ کاپی پیسٹ نہ کیا کریں۔ ان ساری دلیلوں کے پرخچے بڑی آسانی سے اڑائے جاسکتے ہیں۔
اگر نہیں بھی تو میں کم از کم اس سے متفق نہیں ہوں۔
 

سیفی

محفلین
دوست نے کہا:
صرف چند لائنیں پڑھی ہیں جن میں ایک اعتراض کالج کے لیے چندہ دینے کا ہے مسجد کے لیے انکار کرنے کا۔
میرے خیال میں مسجد کو تو کئی لوگ مل جائیں گے لیکن کالج کو نہیں۔ کالج کی آج میرے وطن اور قوم کو جتنی ضرورت ہے کبھی بھی نہ تھی۔ اس لیے میں سرسید کا ہمخیال ہوں۔
محترم یہ کاپی پیسٹ نہ کیا کریں۔ ان ساری دلیلوں کے پرخچے بڑی آسانی سے اڑائے جاسکتے ہیں۔
اگر نہیں بھی تو میں کم از کم اس سے متفق نہیں ہوں۔

جی درست کہا آپ نے دوست بھائی۔۔۔۔۔یہ مسجدیں تو فالتو ہو گئی ہیں۔۔۔اسی لئے ترکی کے نقشِ قدم پر ہماری حکومت بھی مساجد کی جگہ کالج بنانے کی سر توڑ کوششیں کر رہی ہے۔

آپ کسی دن پرخچے اڑائیں نا ان دلیلوں کے۔۔۔۔۔مگر دلیل کے ساتھ۔۔۔۔۔۔۔خالی کہہ دینے سے کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔
 

دوست

محفلین
مسجدوں کی جگہ کالج بنانے کے لیے نہیں وہ کسی اور کام کے لیے مسجدیں گرا رہے ہیں۔ آپ کو مجھے سب کو پتا ہے۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ذرا یہ بھی ملاحظہ ہو:
سرسید اپنے کاغذات "لائل محمڈنز آف انڈیا" میں یہاں تک کہہ جاتا ہے کہ اللہ تعالی کا شکر ہے کہ اب مسلمانوں میں ٹیپو سلطان اور سراج الدولہ جیسے غدار وطن اور قوم دشمن افراد پیدا ہونے بند ہوگئے اور میر جعفر اور صادق جیسے محب وطن اور اقوام کے بہی خواہ پیدا ہو رہے ہیں جو سرکار برطانیہ کے وفادار ہیں ، بلکہ اس کے راج کو مستحکم کرنے والے ہیں
( بحوالہ :-شمیم احمد مصنف زاویہ نظر صفحہ 33)

دوست: کیا آپ نے سرسید کی تحاریر کو پڑھا ہے، کیا ان کی تفسیر پڑھی ہے یا ویسے ان سے عقیدت ہے؟
سرسید تو مسلمانوں کو سائنسی تعلیم دینے کے بھی خلاف تھے۔
اس کا حوالہ چاہیے تو مہیا کردیا جائے گا۔
 

Dilkash

محفلین
محترمین،
ھم میں سے کوئی بھی نیچری نھیں ھے اور نہ اللہ ھمیں بریلوی بنائے۔

ھم اتنا جانتے ھیں کہ سر سید احمد خان مرحوم نے مسلمانوں کے لئے علی گڑھ یونیورسٹی جیسا عظیم ادارہ بنایا۔ جو کہ ایک عظیم تر خدمت ھے۔
 

دوست

محفلین
پاء جی سرسید نے جو بھی کیا۔ لیکن اس نے اپنی سمجھ کے مطابق مسلمانوں کو تعلیم سے روشناس کرانے کی کوشش کی۔ باقی اس کے عقائد جائیں بھاڑ میں۔ ہمیں اس سے کیا غرض۔ سوسال ہوئے اسے اس دنیا سے گئے۔ وہ جانے اور اس کا رب جانے ہمیں کوئی ضرورت نہیں اس کے عقائد کے بارے میں جاننے کی اور نہ ان پر بحث کرنے کی۔ جو لوگ ویلے ہیں اور اس طرح کی "ریسرچ" میں دلچسپی رکھتے ہیں اور مسلمانوں کو مزید مسلمان کرنا چاہتے ہیں بے شک ایسا کرتے رہیں۔ اپنی رائے کے اظہار کا حق ہر کسی کو ہے۔
لوگ تو قائد اعظم کو اسمٰعیلی کہہ جاتے ہیں دور کہاں جانا ۔۔۔۔۔
 

رضوان

محفلین
جناب رضا صاحب شکریہ آپکا اور ان تمام علماء کا کہ اپنا قیمتی وقت صرف کر کے یہ گراں قدر معلومات ہم تک پہنچائیں ورنہ ہم لوگ تو سرسید کی قبر کو منبع نور و ہدایت جان کر وہاں منتیں مانتے تھے اور چادریں چڑھا رہے تھے۔
آپ کا مزید شکریہ کہ آپ نے سر سید کو مرتد اور گمراہ ثابت کیا۔
اسمیں شبہ نہیں کہ بلا شبہ علماء بریلی شریف، علماء دیوبند اور علماء الازہر یونیورسٹی دین کی خدمت کر رہے ہیں۔
لیکن سرسید رحمت اللہ علیہ ( یا God bless him) کی عظمت کی وجہ خدمت اسلام نہیں بلکہ خدمتِ مسلمان ہے۔
کیا اس حقیقت سے کسی کو انکار ہے کہ سرسید رحمت اللہ علیہ ( یا God bless him) کے لگائے ہوئے بیج نے چھتناور درخت بن کر بریصغیر کے مسلمانوں کو چھتر سایہ دیا؟ اگر علیگڑھ نا ہوتی تو کیا چودہ اگست 1947 کو پاکستان وجود میں آجاتا؟ پاکستان کی تحریک کا ہر اول دستہ علیگڑھ تھا یا دارالعلوم دیوبند اور بریلی؟ کیا یہ سر سید ہی نہیں تھے جو 1857 کے پر آشوب دور کے بعد مسلمانوں کے لیے لڑے یا مولانا قاسم ناتونوی صاحب اور اعلیٰ حضرت عدالتوں میں جاکر معتوب مسلمانوں کی پیروی کرتے تھے؟
" سرسید نے مسلمانوں کی اصلاح و ترقی کا بیڑا اسوقت اٹھایا جب زمین مسمانوں پر تنگ تھی اور انگریز اُن کے خون کا پیاسا ہو رہا تھا۔ وہ توپوں سے اڑائے جاتے تھے، سولی پر لٹکائے جاتے تھے، کالے پانی بھیجے جاتے تھے۔ اُن کے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دی گئی تھی۔ اُنکی جائدادیں ضبط کر لیں گئیں تھیں۔ نوکریوں کے دروازے اُن پر بند تھے اور معاش کی تمام راہیں مسدود تھیں۔"
" وہ دیکھ رہے تھے کہ اصلاح احوال کی اگر جلد کوشش نہیں کی گئی تو مسلمان " سائیس خانساماں، خدمتگار اور گھاس کھودنے والوں کے سوا کچھ اور نہ رہیں گے"۔
سر سید نے محسوس کر لیا تھا کہ اونچے اور درمیانہ طبقوں کے تباہ حال مسلمان جب تک باپ دادا کے کارناموں پر شیخی بگھارتے رہیں گے۔۔۔۔ اور انگریزی زبان انگریزی زبان اور مغربی علوم سے نفرت کرتے رہیں گے اُس وقت تک وہ بدستور ذلیل و خوار ہوتے رہیں گے۔ اُنکو کامل یقین تھا کہ مسلمانوں کی ان ذہنی اور سماجی بیماریوں کا واحد علاج انگریزی زبان اور مغربی علوم کی تعلیم ہے۔ اس مقصد کو حاصل کرنے کی خاطر وہ تمام عمر جدوجہد کرتے رہے۔"
یہ تھے میرے مرشد سبط حسن کی کتاب نویدِ فکر سےچند اقتباسات۔
دوسری بات یہ کہ جس چھاپے خانے سے ہماری آپکی دینی کتب چھپ کر آتی ہیں، جن بلبوں اور فانوسوں کی روشنی میں ہم مطالعہ کرتے ہیں جن جہازوں پر بیٹھ کر ہم عمرہ و حج کرنے جاتے ہیں اور طرہ یہ کہ جن کمپیوٹروں کے ذریعے اس وقت ہم لکھ اور پڑھ رہے ہیں کیا وہ کسی دیندار کی ایجاد ہیں؟ اور کیا ہم ان ایجادات اور افکارِ جدید سے فیض اٹھانا بند کردیں کہ یہ لوگ تو مسلمان نہیں یا صلواۃ و سلام نہیں پڑھتے اور لبیں نہیں کترتے؟

الف نظامی صاحب نے سائنس والی بھی خوب کہی سرسید نے تو سائنسی علوم کی مخالفت کی تھی اس وقت ان کی عقل اور معروضی حالات کے پیش نظر شاید درست ہو لیکن کیا درس نظامی میں سائنس کی تدریس جاری کر دی گئی تھی؟

اور شاکر نے کہا کہ لوگ قائد اعظم کو اسماعیلی ہونے تک کا الزام دیتے ہیں تو بھائی قائداعظم تو کوئی بھی عقیدہ رکھتے ہوئے مسلمانوں کو پاکستان کا تحفہ دے گئے اِن لوگوں نے فتوؤں اور انتشار کے علاوہ کیا دیا ہےِ ؟
 

Dilkash

محفلین
رضوان صاحب بہت خوب۔

کچھ لکھنا چاھتا تھا مگر لال مسجد کے جلے ھوئے بچوں نے بے ضبط کردیا ھے۔

اتنا کہوں گا کہ خدا راہ فتنہ مت پھیلائے کیونکہ اسلام دشمنوں کو ھمارے بچوں پر کبھی رحم نھیں ائے گا۔
اور ایسی طرح نھتے معصوموں کو فاسفورس کے بموں سے جلایا جائیگا۔
کبھی کوئی انسان یہ واقعہ بھول سکتا ھے۔جھاں پر 1400 بچوں اور بچیوں کو زندہ جلایا گیا ھے؟
 
سرسید کے خلاف جو کچھ ان حضرات نے لکھا اس میں‌کوئی بھی ٹھوس بات نہیں ہے اور نہ یہ سب کچھ اس قابل ہے کی اس کا جواب دیا جائے۔ یہ یہاں لکھنے والے کی اپنی جاہلیت کی داستان ہے اور خود یہ سب کچھ فراہم کرنے والے کے منہہ پر طمانچہ ہے۔ لگتا ہے مولویوں کی تعلیمات کا اثر ہے۔

سرسید احمد خان کا یہ اعزاز ہے کہ انہوں نے جدید تعلیم کی بنیاد مسلمانوں میں رکھی۔ اور 1000 سالہ دور تاریکی سے مسلمانوں کو نکالا۔ مولوی 1000 سال بادشاہوں کو صلاح دیتے رہے اور ایک بھی یونیورسٹی اس دور کا نشان نہیں ہے۔ 1000 سال کا تاریک دور مولویت جو یورپ کے دور تاریکی سے بھی بدتر تھا۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کو غلامی کے دور میں رہنا پڑا۔ اب قوم اس دور تاریکی سے علم کی بدولت باہر آچکی ہے،

تعلیم کے خلاف سارے مولوی جب بھی تھے اور اب بھی ہیں۔ مولوی آج بھی اپنی نشاط ثانیہ کے خواب دیکھ رہے ہیں اور اسکی لیے کسی بے ہنگم حرکت سے گریز نہیں کرتے۔ ان بیانات سے ان کی علم دشمنی عیاں‌ہے۔

والسلام۔
 

الف عین

لائبریرین
شاید محفل کے واحد علیگیرین ہونے کے ناطے مجھے یہاں پہلے ہی رائے کا اظہار کرنا تھا۔ یا ہے کیا کوئی اور بھی۔۔۔؟؟؟
سر سید کو آپ جو چاہے کہہ سکتے ہیں، انگریزوں کا پٹھو، مرتد یہاں تک کہ کافر۔۔۔ لیکن اس سے ان کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ جیسا کہ یہاں ہی کسی نے تھوک کی بات کی ہے۔۔۔ سید علیہ الرحمہ کی اہمیت دین کی خدمت کی وجہ سے نہیں ہے نہ انھوں نے اپنے عالمِ دین ہونے کا دعویٰ کیا، محض خدمتِ قوم۔ اور اس زمرے میں ان کو سو میں سے سو نمبر ضرور ملیں گے۔
ممکن ہے کہ کسی مولوی سے ان کی ذاتی پر خاش ہو، یا ان کے جو مخالفین تھے، انھوں نے سازشیں کر کے کچھ علماء کو ہموار کر کے ان کے خلاف فتقاویٰ نکلوا دئے ہوں۔ بطور مسلمان ممکن ہے کہ وہ اچھے مسلمان نہ بھی ہوں لیکن کیا ان کی اہمیت کم کی جا سکتی ہے۔
رہا سوال یہاں اس پوسٹ کا۔ تو میرے خیال میں کسی مخصوص عالم نے ان کی مخالفت کی ہوگی تو ان کے ماننے والے محض اس کو مشن بنائے ہوئے ہیں کہ گڑے مردے پھر سے اکھاڑے جائیں۔ لیکن چلئے، ،مان لیں کہ اب بھی عوام و خواص کو یقین دلا دیا جائے کہ سر سید ’رذیل‘ تھے (مجبورآ یہ لفظ لکھ رہا ہوں( تو اس سے کیا فرق پڑے گا۔ مسلم یونیورسٹی تو کب کی بن چکی اور اس یونیورسٹی کے طلباء ساری دنیا میں کار ہائے نمایاں پیش کر بھی چکے اور کرتے جا رہے ہیں۔ جو محض اس کا ثبوت ہے کہ سر سید کا جو مشن تھا وہ پورا ہو چکا۔ ان کے مخالفین کا جو مشن ہے، اس پر اب بھی رسی پیٹی جا رہی ہے کہ وہ اتنا طویل عرصہ گزرنے پر بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔۔
 

قسیم حیدر

محفلین
سر سید کے خدمت قوم سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن ان کی تفسیر کے بارے میں سید مودودی نے کہا تھا کہ بعض لوگوں نے تفسیریں لکھ کر امت پر احسان کیا اور بعض ایسے ہیں کہ تفسیر نہ لکھتے تو امت پر ان کا احسان ہوتا۔
 

قیصرانی

لائبریرین
سر سید کے خدمت قوم سے کون انکار کر سکتا ہے لیکن ان کی تفسیر کے بارے میں سید مودودی نے کہا تھا کہ بعض لوگوں نے تفسیریں لکھ کر امت پر احسان کیا اور بعض ایسے ہیں کہ تفسیر نہ لکھتے تو امت پر ان کا احسان ہوتا۔
کیا سید مودودی نے اس بات کی وضاحت بھی پیش کی تھی کہ وہ سرسید کو پہلے درجہ میں رکھتے ہیں یا دوسرے؟
 

Dilkash

محفلین
دوسرے میں رکھتا تھا لیکن جناب رضا خاں بریلوی کی طرح اس پر شائد فتوٰی نہیں دیا۔

فتوٰی دینا مفتی کا کام ھے اور مفتی اسلامی شرعی مملکت میں حکومت کی طرف سے مقرر ھوتا ھے۔

اب چونکہ اسلامی مملکتیں تو نہیں ھیں لھذا نہ کوئی مفتی اور نہ کوئی فتوٰی۔

اللہ معاف کریں
 

ابوشامل

محفلین
سر سید احمد خان بلاشبہ تاریخ بر صغیر کی ایک عظیم ہستی ہیں، وہ مسلمانوں کے لیے درد دل رکھنے والی شخصیت تھے۔ ان کے خلوص پر کوئی شبہ نہیں لیکن جو روشن خیال آج ان کی حمایت اور تقلید میں تھکے نہیں جاتے وہ کئی معاملات میں خود سر سید احمد خان کی پیروی نہیں کرتے۔ سر سید آج کے معمولی "روشن خیال" سے کہیں زیادہ "قدامت پسند" تھے، اس واقعے سے اندازہ لگا لیں کہ ایک مرتبہ یو پی کے گورنر سر ولیم میور نے سرسیدکے ہاں اپنی اہلیہ کو لانے کی خواہش کا اظہار کیا لیکن سرسید نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ ہمارا دین ہماری عورتوں کو غیر عورتوں سے بھی پردے کا حکم دیتا ہے۔ بدقسمتی سے سرسید کے بہت سے پرستار پردے اور داڑھی جیسے ظاہری معاملے تک میں سرسید کی تقلید نہیں کرتے، عقائد تو پھر آگے کی بات ہے۔ یہ تو بالکل ایسی ہی مثال ہے کہ چند افراد سید مودودی کے باقی 99 فیصد کام کو ایک طرف رکھ کر اُس ایک فیصد کام کو بطور دلیل ہر جگہ پیش کرتے ہیں جو اُن کے مسلک کے فائدے میں ہے۔

ویسے ان کی تفسیر کے بارے میں پڑھا ہے کہ وہ روایتی تفاسیر سے بہت ہٹ کر ہے حتٰی کہ وہ کئی معجزات کے قائل بھی نہیں دکھائی دیتے۔ اس بارے میں اگر کوئی میری رہنمائی کر سکے یا انٹرنیٹ پر ان کی تفسیر القرآن کا کوئی ربط دے دے۔
 
فتوٰی دینا مفتی کا کام ھے اور مفتی اسلامی شرعی مملکت میں حکومت کی طرف سے مقرر ھوتا ھے۔

اب چونکہ اسلامی مملکتیں تو نہیں ھیں لھذا نہ کوئی مفتی اور نہ کوئی فتوٰی۔

آپ کی اس پوسٹ ک بہت ہی شکریہ۔ کہ ایک اہم غلط العام کی طرف اس سے نشاندہی ہوئی۔درستگی کی اجازت چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان Common Protocol قرآن ہے۔

فرد واحد کی حکومت اور فردِ واحد کی قانون سازی قران کی تعلیم سے انحراف ہے اور غیر اسلامی حکومت کی نمائندہ ہے۔ قران حکیم فرماتا ہے کہ مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی حکومت میں قانون سازی مجلس شورٰی کا حق و فرض‌ہے۔ فتاوٰی بنیادی طور پر قوانین ہیں۔

جس دور میں علم کی روشنی محدود رہے، دورِ تاریکی سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے 1000 سالہ دور تاریکی کی وجہ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں 1000 سال میں سرسید کی قائم کی ہوئی یونیورسٹی کے علاوہ کسی یونیورسٹی کا نام نہیں ملتا۔ سرسید کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ آج ہم آپ سند یافتہ کہلا تے ہیں، بناء کسی مدرسے گئے ہوئے۔ ورنہ تو تعلیم صرف ایک مخصوص طبقہٌ فکر اور مخصوص حلقہ تک محدودد تھی اور آج بھی ہوتی۔ اور ہم آپ علم کے حصول کے بنیادی حق سے محروم رہتے۔ ہمیں مزید ضرورت ہے قرآن و حدیث کی تعلیم کی کہ یہی ہمارا Common Protocol اور اساس باہمی ہے۔

مزید یہ کہ ہمیں سرسید کو برا کہنے سے پہلے اپنی تمام اسناد واپس کرنی ہونگی جو سرسید کے قائم کئے ہوئے نظام کی وجہ سے ملیں۔

اس پر ایک مفصل آرٹیکل یہاں موجود ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7947
براہ کرم دیکھئے، اجتماعی معاشرہ میں قانون ساز اداروں کا قیام
آپ کے لئے اس آرٹیکل پر تبصرہ اور تنقید کے دروازے کھلے ہیں۔

والسلام
 
آپ کی اس پوسٹ ک بہت ہی شکریہ۔ کہ ایک اہم غلط العام کی طرف اس سے نشاندہی ہوئی۔درستگی کی اجازت چاہتا ہوں کہ ہمارے درمیان Common Protocol قرآن ہے۔

فرد واحد کی حکومت اور فردِ واحد کی قانون سازی قران کی تعلیم سے انحراف ہے اور غیر اسلامی حکومت کی نمائندہ ہے۔ قران حکیم فرماتا ہے کہ مومنوں کے فیصلے باہمی مشورے سے ہوتے ہیں۔ ایک اسلامی حکومت میں قانون سازی مجلس شورٰی کا حق و فرض‌ہے۔ فتاوٰی بنیادی طور پر قوانین ہیں۔

جس دور میں علم کی روشنی محدود رہے، دورِ تاریکی سمجھا جاتا ہے۔ مسلمانوں کے 1000 سالہ دور تاریکی کی وجہ فرد واحد کی حکومت اور فرد واحد کی قانون سازی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں 1000 سال میں سرسید کی قائم کی ہوئی یونیورسٹی کے علاوہ کسی یونیورسٹی کا نام نہیں ملتا۔ سرسید کا یہ کارنامہ کیا کم ہے کہ آج ہم آپ سند یافتہ کہلا تے ہیں، بناء کسی مدرسے گئے ہوئے۔ ورنہ تو تعلیم صرف ایک مخصوص طبقہٌ فکر اور مخصوص حلقہ تک محدودد تھی اور آج بھی ہوتی۔ اور ہم آپ علم کے حصول کے بنیادی حق سے محروم رہتے۔ ہمیں مزید ضرورت ہے قرآن و حدیث کی تعلیم کی کہ یہی ہمارا Common Protocol اور اساس باہمی ہے۔

مزید یہ کہ ہمیں سرسید کو برا کہنے سے پہلے اپنی تمام اسناد واپس کرنی ہونگی جو سرسید کے قائم کئے ہوئے نظام کی وجہ سے ملیں۔

اس پر ایک مفصل آرٹیکل یہاں موجود ہے۔
http://www.urduweb.org/mehfil/showthread.php?t=7947
براہ کرم دیکھئے، اجتماعی معاشرہ میں قانون ساز اداروں کا قیام
آپ کے لئے اس آرٹیکل پر تبصرہ اور تنقید کے دروازے کھلے ہیں۔

والسلام

معذرت کے ساتھ فاروق صاحب ، آپ نے مسلمانوں کے روشن دور کو بھی تاریک دور میں شامل کر لیا ۔ ڈارک ایج جس کا تذکرہ مغرب میں ان کی تاریکی کے حوالے سے کیا جاتا ہے مسلمانوں کا روشن دور تھا اور علم اور تہذیب میں مسلمان اس وقت اقوام عالم میں سرفہرست تھے اور اس وجہ سے معتبر اور معزز بھی۔

سرسید کی علمی خدمات سے انکار ممکن نہیں اور وہ اپنے مقصد سے انتہائی پرخلوص تھے اور اپنے مشن میں کامیاب بھی رہے۔ وہ سیاست سے بھی منع کرتے تھے مگر اس وقت کے خاص تناظر میں جبکہ انہی کی یونیورسٹی سے پڑھ کر مسلم لیگ کی صف اول کی قیادت تیار ہوئی اور انہوں نے سیاست میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا کیونکہ حالات بدل چکے تھے۔ مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کسی اور معاملے میں ان سے غلطی نہ ہوئی ہو یا ہر معاملے میں ان کی رائے بالکل درست ہو۔ مذہب سے ہٹ کر جو کام انہوں نے کیا وہ شاندار تھا اور اپنی مثال آپ مگر ان کی رائے کئی معاملات میں غلط بھی تھی اور اس سے اختلاف ان کے رفقہ نے بھی کیا جن میں مولانا الطاف حسین حالی ، شبلی نعمانی اور اکبر الہ آبادی شامل رہے ہیں۔ انگریزوں سے وفاداری کا یقین پیدا کرنا اور دلانا شاید اس وقت کی اجتماعی سوچ تھی اور اکثریت جانتی تھی کہ اگر وہ یہ کام نہ کریں گے تو شاید وہ اپنے کام کو آگے نہ بڑھا سکیں مگر آج اس سوچ کی پذیرائی کیا معنی رکھتی ہے جب کہ ہم نے اسی انگریز قوم سے لڑ کر آزادی حاصل کی۔

جائز تنقید کا مطلب کسی کو برا کہنا نہیں ہوتا اور تنقید اور تعریف دونوں میں توازن ہونا چاہیے ، یہ نہیں کہ جو پسند ہے اسے فرشتہ ہی بنا دیا اور جو ناپسند ہے وہ شیطان سے کم نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ انسانوں کے لیے کوئی جگہ ہم لوگ کم ہی چھوڑتے ہیں جو خطائیں بھی کرتے ہیں اور اچھائیاں بھی۔
 
Top