راشد اشرف
محفلین
اطہر پرویز کی تحریر کردہ "علی گڑھ سے علی گڑھ تک" مکتبہ جامعہ نئی دہلی سے پہلی مرتبہ 1977 میں شائع ہوئی تھی۔ یہ اپنی نوعیت کی ایک منفرد خودنوشت ہے، علی گڑھ کے ایک دیوانے اطہر پرویز کے زور قلم کا نتیجہ لیکن خود اپنی بات کم اور "شمشاد" نامی مارکیٹ کے تذکروں سے پرُ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شمشاد کی کیا علی گڑھ میں کیا حیثیت ہے جیسی کاکس بازار کی ڈھاکا میں، ٹولنٹن مارکیٹ کی لاہور میں (بقول اے حمید) یا بولٹن و ایمپریس مارکیٹ کی کراچی میں۔
"علی گڑھ سے علی گڑھ تک" کا نیا ایڈیشن حال ہی میں شائع ہوا ہے، اس کتاب کے مطالعے کے بعد منتخب و دلچسپ حصے پیش خدمت ہیں۔ ان میں حبیب تنویر و ساحر لدھیانوی جیسی نامور شخصیات بھی موجود ہیں اور محمد حفیظ الدین جیسے معمولی مگر خوددار ملازم کا تذکرہ بھی، اس میں علی گڑھ کے طالب علموں کے دلچسپ قصے بھی ملیں گے اور
مجاز، اختر الاایمان، جاوید اختر کی باتیں بھی۔
اس خودنوشت میں ہمیں علی گڑھ کی تہذیبی زندگی کی ایک پائدار جھلک دیکھنے کو ملتی ہے اور اسے دکھانے والا علی گڑھ کا ایک دیوانہ اطہر پرویز نامی ہے جو 10 مارچ 1984 کو وفات پا گیا تھا:
"علی گڑھ سے علی گڑھ تک" کا نیا ایڈیشن حال ہی میں شائع ہوا ہے، اس کتاب کے مطالعے کے بعد منتخب و دلچسپ حصے پیش خدمت ہیں۔ ان میں حبیب تنویر و ساحر لدھیانوی جیسی نامور شخصیات بھی موجود ہیں اور محمد حفیظ الدین جیسے معمولی مگر خوددار ملازم کا تذکرہ بھی، اس میں علی گڑھ کے طالب علموں کے دلچسپ قصے بھی ملیں گے اور
مجاز، اختر الاایمان، جاوید اختر کی باتیں بھی۔
اس خودنوشت میں ہمیں علی گڑھ کی تہذیبی زندگی کی ایک پائدار جھلک دیکھنے کو ملتی ہے اور اسے دکھانے والا علی گڑھ کا ایک دیوانہ اطہر پرویز نامی ہے جو 10 مارچ 1984 کو وفات پا گیا تھا: