الف نظامی
لائبریرین
نگینوں کی تلاش
از صاحبزادہ پیر سید ظفر قادری
کِھلتا ہوا گورا رنگ ، کانوں کی لووں تک آتی ہوئی گھنگھریالی زلفیں ، سلیقے سے ترشی ہوئی سیاہ داڑھی اور چشمے کے پیچھے سے جھانکتی ذہین ، چمکدار اور خوبصورت آنکھیں ، کتابوں میںگھرا ہوا ایک وجود۔ اپنے آگے پان دان دھرے ، پہبند باندھے سادہ فرش پر آلتی پالتی مارے بیٹھا ہوا ایک سبک جسم۔ یہ ہے وہ تصور جو نصیر کا نام سنتے ہی ذہن کے پردے پر اُبھرتا ہے۔
نصیر بھائی سے میری ملاقات ایک عرصے سے ہے۔ مگر پہلی ملاقات کا خوشگوار تاثر جو میرے احساسات میںاتر آیا تھا۔ آج تک اسی طرح قائم ہے۔ جب بھی ان سے ملاقات کا اتفاق ہوتا ہے میں ان سے سادہ پان کھانے کی فرمائش کرتا ہوں۔ مگر یہ صرف میں ہی جانتا ہوں کہ پان کھانے کی فرمائش تو ایک بہانہ ہے مقصود ان کے پان دان کا ڈھکنا کھلوانا ہوتا ہے ، جس کے کھلتے ہی شعر و سخن کے دریچے وا ہو جاتے ہیں اور وہ پھول کھلتے ہیں کہ روح تک معطر ہو جاتی ہے۔
نصیر الدین نصیر کے داد جی حضرت سید غلام محی الدین قدس سرہ المعروف بابو جی جو اعلےٰ حضرت سید پیر مہر علی شاہ قدس سرہ العزیز کے بعد گولڑہ شریف کے روحِ رواں اور تصوف کے افق کا ایک روشن ستارہ تھے۔ راقم الحروف پر انتہائی شفقت فرماتے تھے۔ میرا ان سے تعلقِ خاطر جیسا ان کی پاکیزہ زندگی میں تھا ، آج بھی ہے اور عمر بھر رہے گا۔ ان کی باتیں اور ملاقاتیں ناقابل فراموش ہیں۔ میرے مہربان اور بزرگ دوست شورش کاشمیری مرحوم ، استاد محترم جناب احسان دانش اور میںکئی مرتبہ اکٹھے بابو جی رحمۃ اللہ علیہ کی محفل میں شریک ہوتے تھے۔ جو غذائے روح اور تسکین قلب ان کے پاس بیٹھ کر ملتی تھی ، آج اس سے محرومی جاں گسل ہے۔
وہ ہستیاں الی کس دیس بستیاں ہیںاب جن کو دیکھنے کو آنکھیںترستیاں ہیںجن لوگوں نے بابو جی رحمۃ اللہ علیہ کو دیکھا ہے یا جنہیں ان کا قرب حاصل رہا ہے میرے ساتھ یقینا اتفاق کریں گے کہ نصیر کو دیکھتے ہی بابو جی رحمۃ اللہ علیہ کی یاد تازہ ہوجاتی ہے۔ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے نصیر کی تربیت کی۔ جس کا ثمر آج ہمارے سامنے ہے۔ بیک وقت عربی فارسی اور اردو زباں پر یکساں عبور۔ پھر ان تینوں زبانوں میں شعر کہنے کا فن نصیر کی شخصیت کا نشانِ امتیاز ہے۔ اس نو عمری میں(15 دسمبر 1982) کلام کی پختگی قابلِ تحسین ہے۔ قدیم اساتذہ کا رنگ چھپائے نہیں چھپتا۔ کہیںحافظ شیراز رحمۃ اللہ علیہ محبت کی پر پیچ گلیوں میں مستی کے جام لنڈھاتا نظر آتا ہے تو کہیں جامی رحمۃ اللہ علیہ بارگاہِ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں عقیدت کے گجرے نچھاور کرتا نظر آتا ہے۔
جب کبھی ہم ماضی کے آئینے میں جھانکتے ہیںتو برِ صغیر پاک و ہند میں صوفیا کے مکتب فکر کے تلامذہ کا ایک طویل قافلہ اپنے روشن روشن ناموں سے تاریخ کے صفحات کو منور کرتا نظر آتا ہے۔ حضرت امیر خسرو رحمۃ اللہ علیہ جیسے عظیم موسیقار اور شاعرِ طرحدار ، خواجہ میر درد رحمۃ اللہ علیہ جیسے درد مند قلم کار ، بیدم وراثی رحمۃ اللہ علیہ جیسے نعت گو اور خواجہ حسن نظامی جیسے ادیب ، غرضیکہ ایسے بہت سے نام ہیں جو اپنے سخنِ دلنواز سے خلقِ خدا کے دلوں کو گرماتے رہے۔ یہ سب حضرات صوفیوں ہی کے حلقہ بگوش تھے اور اسی مکتب فکر کا حصہ تھے مگر آج جب زمانہ حال میں نظر ایسے نگینوں کی تلاش میں یہاں وہاں سفر کرتی ہے تو سوائے بے رنگ پتھروں کے کچھ نہیں پاتی۔ اس دور پر آشوب میں اگر کہیں سے تازہ ہوا کا ایک ہی جھونکا نصیب ہوجائے تو غنیمت ہے۔
وہ خانقاہی نظام جس نے اسلامیانِ پاک و ہند کو جادہ حق پر مضبوط قدموںسے چلنا سکھایا ، آج اس کی اپنی چال میں لڑکھڑاہٹ سی محسوس ہوتی ہے۔ ان حالات میں نصیر سا جوانِ رعنا شعر و سخن کی وادیوں میں پھول کھلاتا اور علم تصوف کے بحر عمیق میںغوطے لگاتا نظر آتا ہے تو ٹوٹی آس بندھنے لگتی ہے اور اندر سے آواز آتی ہے
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
یا پھر اقبال دروازہ دل پر دستک دیتے ہوئے کہتا ہے کہ
مرا سبوچہ غنیمت ہے اس زمانے میںکہ خانقاہ میں خالی ہیں صوفیوں کے کُدو
15 دسمبر 1982
ظفر قادری ، لاہور
غزلیاتِ نصیر گولڑوی
ڈاکٹر سید عبد اللہ مرحوم
پیر سید نصیر الدین نصیر غزل کی کلاسیکی روایتوں میں پلے ہوئے شاعر ہیں لہذا ان کی غزل سخن کی روایات کی پابند ہے۔ یہ روایت کیا تھی ، ہماری مغرب زدہ سرسری تنقید تو اسے محض قصہ گل و بلبل اور افسانہ ہجر و وصال کہہ کر ٹال جاتی ہے لیکن سچ یہ ہے کہ یہ روایت ایک حیا دار اور وضع دار تہذیب کی ترجمان تھی۔ جس میںایک نگاہِ دزدیدہ دلوں کے ہزار افسانے رقم کر سکتی تھی اور روایتوں کے شاعر کا کمال یہ تھا کہ ایما اور رمز کے ایک ہی لفظ یا استعارے کے ذریعے معانی کے ہزاروں جلووںکے گلزار سجا دیا کرتا تھا۔ طولِ کلام کا جو عیب طرزِ جدید میںہے ، اس سے یہ شاعری پاک تھی۔ ضبطِ نفس اور ضبط بیان دونوں ہمرکاب چلتے تھے۔ اس میں نہ خندہ دنداں نما تھا نہ گفتارِ بے باک۔
یہ تو کچھ ایسا ماجرا تھا جو میر نقی میر پر گزرا تھا
اک نگہ ، ایک چشمک ، ایک سخنہے مگر اس میں بھی تامل سا
وہ شاعری یا غزل جسے روایت کی غزل کہا جاتا ہے اس میں شاعر کو تلمیذ ربانی کا صحیح استحقاق حاصل کرنے کے لئے اساتذہ کبار کے طرزِ ادا ، اُن کی زبان ، اُن کا بیان ، اُن کا تیور ، اُن کا ایمائے خفی و جلی اور ان کی بلاغت و فصاحت اُن کی صحبت میں یا ان کے دواوین کے ذریعے حاصل کرنا پڑتی تھی تا کہ ان کا لب و لہجہ حاصل ہو سکے اور کلام کے مقامات سے کامل آگاہی ہو سکے۔ اور پھر قدرتی شاعر(تلمیذ ربانی) اساتذہ کے محاورے میںاپنے منفرد احساسات کو بخوبی و خوش اسلوبی ڈھالنے پر قادر ہو سکے۔
الحمد للہ اس دورِ بے زبان و کج مج بیانی میں شاہ نصیر گولڑوی جیسے لوگ بھی جو تلمیذ ربانی ہونے کے باوجود اساتذہ کبار کے کلام کے بحر مواج میں غوطہ زن ہوئے ، ان سے بیان کا لطف اور لب و لہجہ سیکھا اور پھر اس میں فطرت کے گل و گلستان سجائے کئے۔
غزل کی شاعری میں حسن آفرینی اور معنی آفرینی کا ایک وسیلہ ردیف کا انداز ہے۔ اس سے قدرتِ زبان کا بھی اظہار ہوتا ہے۔ شعر میں بات بھی پیدا ہو جاتی ہے اور آواز و آہنگ کی لطافتیں بھی نمودار ہو جاتی ہیں۔ قدیم اساتذہ اس تکنیک میں خاص کمال حاصل کرنے کی کوشش کیا کرتے تھے۔
نصیر گولڑوی کی غزلیات میں بھی ردیفوں کی شان پائی جاتی ہے۔ جن میں زندگی کی حقیقتوں اور قلبِ انسانی کی لطافتوں کو بہ اندازِ خوش پیش کیا گیا ہے۔ زبان کی شیرینی اور بیان کی خوبی اس پر مستزاد ہے۔ عالم شباب میںکسی کی اتنی پختہ شاعری میں نے بہت کم دیکھی اور پڑھی ہے۔
2 اکتوبر 1982
فقط سید عبد اللہ
سید نصیر الدین نصیر ایک ممتاز ترین روحانی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں۔ ان کی قلندری اور درویشی میںکسے شبہ ہو سکتا ہے۔ ان کی فارسی رباعیات کا مطالعہ کریں تو عالم ہی دوسرا نظر آتا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ان کے قلب میںمرزا عبد القادر بیدل عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ کی آواز گونج رہی ہے اور ان کے لہجے میں بیدل رحمۃ اللہ علیہ ہی بول رہے ہیں۔
از سید رئیس امروہوی مرحوم
بسم اللہ الرحمن الرحیمبرکلام حضرت مولانا احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہاز شاعر ہفت زباں علامہ پیر سید نصیر الدین نصیر گولڑویپیش گفتارڈاکٹر توصیف تبسم (بدایونی)اسلام آباد 3 ربیع الاول 1426 ھجریپیر نصیر الدین نصیر گولڑوی کی ان تضمینوں پر جو حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی کے کلام پر کی گئی ہیں، گفتگو کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تضمین کے حدود و مطالب و معانی پر غور کرلیا جائے تاکہ بات چیت زیادہ مربوط اور بامعنی انداز میں آگے بڑھ سکے۔ تضمین کے لغوی معنی ، قبول کرنا اور پناہ میں لینے کے ہیں، تضمین کا لفظ ضم سے مشتق ہے جس کے معنی ملانا یا پیوست کرنا ہیں۔ اصطلاح میں ، تضمین کسی دوسرے شاعر کے کسی شعر یا مصرع کو اپنے کلام میں شامل کرنے کا نام ہے۔ اگر وہ شعر یا مصرع جس کی تضمین کی جائے معروف اور جانا پہچانا نہ ہو تو سرقہ یا توارد کے الزام سے بچنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ اس امر کی طرف اشارہ کردیا جائے کہ یہ شعر یہ مصرع میرا نہیں، کسی اور شاعر کا ہے،
جیسے سودا کہتے ہیں
میں کیا کہوں کہ کون ہوں سودا، بقول دردجو کچھ کہ ہوں سو ہوں ، غرض آفت رسیدہ ہوںتضمین کی ایک صورت تو یہ ہے کہ تضمین لکھنے والا شاعر کسی خاص مصرع یا شعر کو بنیاد بنا کر پوری نظم تخلیق کرتا ہے۔ اقبال کے یہاں اس قسم کی تضمینوں کی واضح مثالیں موجود ہیں۔ انہوں نے بانگ درا میں ابوطالب کلیم ، صائب ، انیسی شاملو کے شعروں کو اسی طرح جزوکلام بنایا ہے۔ دوسری صورت تضمین کی یہ ہے کہ پوری غزل کو شعر بہ شعر تضمین کیا جائے ، یوں اصل غزل کی ہیئت تضمین ہونے کے بعد مخمس کی شکل اختیار کرلیتی ہے۔ تضمین کا بنیادی فریضہ اصل شعر کی شرع و تفسیر ہوتا ہے مگر بعض صورتوں میں تضمین کرنے والا شاعت کسی شعر کو نئے سیاق و سباق میں رکھ کر اس کو ایک نئی جہت عطا کرتا ہے، جیسے مولٰنا غنی کاشمیری کا شعر، جس کی تضمین اقبال نے اپنی نظم "خطاب بہ نوجوانان اسلام" میں کی ہے
غنی ، روزِ سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نورِ دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
اقبال نے غنی کے اس شعر کو ایک نئی معنویت سے ہم کنار کیا ہے۔ یہاں "پیر کنعاں" سے مراد ملتِ اسلامیہ ، حضرت یوسف سے مراد مسلمانوں کا علمی سرمایہ ہے جو اہل یورپ(زلیخا) کی آنکھوں کی روسنی کا وسیلہ بنا ہوا ہے۔ تضمین کی اکثر و بیشتر صورتوں میں اصل شعر کی تشریح و تفسیر ہی ہوتی ہے۔ تضمین کے اس بنیادی مقصد کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے مرزا عزیز بیگ سہارن پوری نے غالب کی اردو غزلیات کی تضمین سعوری طور پر اس انداز سے کی ہے کہ کلام غالب کو ایک عام قاری کے لیے آسان بنایا جاسکے۔ ان کی اس منظوم تشریح کا نام "روحِ کلام غالب" ہے۔ اس تضمینِ کلام غالب کی تعریف کرتے ہوئے نظامی بدایونی لکھتے ہیں:
"اس کی ادنی خصوصیت یہ ہے کہ مشکل ترین اشعار کے معانی اور مطالب اس درجہ واضح ہوجاتے ہیں کہ کسی شرح کےدیکھنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی"
حضرت مولانا احمد رضا خان کے کلام کے حوالے سے جب ہم پیر سید نصیر الدین نصیر کی تضمینوں پر نظر ڈالتے ہیں تو ایک خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ ان کی یہ کاوشیں جن میں آٹھ نعتیں ، ایک منقبت اور ایک سلام شامل ہے ، تضمین کے اصل مقصد کو بطریق احسن پورا کرتی دکھائی دیتی ہیں۔ اصل شعر جس پر شاعر تین اضافی مصرعے بہم پچاتا ہے۔ ان مطالب کو کھول کر بیان کردیتے ہیں جن کی طرف اصل شعر میں مبہم اشارے موجود ہوتے ہیں۔ اس طرح تضمین کا ہر بند ایک ایسی وحدت کی شکل اختیار کرلیتا ہے جو اپنی جگہ مکمل اور حد درجہ مربوط ہوتی ہے۔ تضمین کی اس خصوصیت کی طرف علامہ نیاز فتح پوری اپنی تصنیف انتقادیات (ص 283) میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہیں:
"تضمین کی خوبی یہ ہے کہ وہ اصل شعر کے ساتھ مل کر بالکل ایک چیز ہو جائے"
نصیر الدین نصیر کی تضمین کا ایک بند بطورِ مثال
دل کے آنگن میں یہ اک چاند سا اترا کیا ہےموج زن آنکھوں میں یہ نور کا دریا کیا ہےماجرا کیا ہے یہ آخر ، یہ معما کیا ہےکس کے جلوے کی جھلک ہے یہ اجالا کیا ہےہر طرف دیدہ حیرت زدہ تکتا کیا ہےاصل شعر میں جو تحیر کا عنصر تھا ، اس کو باکمال تضمین نگار نے اس طرھ پورے بند میں پھیلا دیا ہے کہ سارے مصرعے مل کر ایک پُرلطف فضا کی تشکیل کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں ،
ایک اور بند دیکھیے
جب چلے حشر کے میدان میں امت کی سپاہسرور جیش ہو وہ مطلع کونین کا ماہاہل بیت اور صحابہ بھی رواں ہوں ہمراہیہ سماں دیکھ کہ محشر میں اٹھے شور کہ واہچشم بد ور ہو ، کیا شان ہے رتبہ کیا ہےان بندوں میں جزئیات و واقعات کی ترتیب اس طرح رکھی گئی ہے کہ ایک متحرک تصویر چشمِ تصور کے سامنے آجاتی ہے۔ شاعری کا یہ وہ مقام ہے جہاں شعر مصوری کی حدود میں داخل ہوجاتا ہے۔ یہ چند مثالیں بطور نمونہ پیش کی گئیں ورنہ یہ کیفیت ان تضمینوں میں کم و بیش ہر جگہ موجود ہے۔ زور بیاں ہے کہ کہیں کم نہیں ہونے پاتا جس سے پیر نصیر الدین نصیر کی قدرت کلام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ وہ ایک مدت سے اردو اور فارسی میں داد سخن دے رہے ہیں۔ اب تک ان کے متعدد مجموعہ ہائے کلام زیور طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکے ہیں۔ خصوصا انہوں نے اردو اور فارسی میں صنف رباعی کو جس قرینے اور سلیقے سے برتا ہے اس کی نظیر آج کے دور میں مشکل ہی سے ملے گی۔ رباعی اپنی فنی قیود ، خاص بحور اور دوسرے التزامات کے سبب ایک مشکل ترین صنف سمجھی جاتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہر شاعر اس صنف پر ہاتھ ڈالتے ہوئے ڈرتا ہے۔ نصیر الدین نصیر نے جو ریاضت رباعی کے میدان میں کی ، اس نے ان کے تضمین کے فن کو ان کے لیے آسان بنا دیا۔ جیسے رباعی کے چار مصرعوں میں بتدریج ایک ارتقائی کیفیت اس کے حسن کا باعث ہوتی ہے ، یہی صورت حال ان کی تضمین کے پر بند مٰیںموجود ہے۔ نصیر الدین نصیر کی عربی اور فارسی کی بنیاد حد درجہ مستحکم ہے۔ اسی لیے وہ تضمین کرتے ہوئے ، ان مشکل مقامات سے با آسانی گزر جاتے ہیں جہاں دوسرے شاعروں کے پاوں لڑکھڑا جائیں۔
صوم و صلوۃ ہیں کہ سجود و رکوع ہیںہر چند شرع میں یہ اہم الوقوع ہیںحبِ نبی نہ ہو تو یہ سب لا نفوع ہیںثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیںاصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہےتضمین کے لغوی معانی پر اگر غور کرلیا جائے تو اس سے یہ نتیجہ بھی نکلتا ہے کہ جس شاعر کا کلام ، تضمین کے لیے منتخب کیا جاتا ہے ، دراصل ایک طرف تو اس خاص شاعر سے یہ اظہار عقیدت کی صورت ہے تو دوسری طرف تضمین کرنے والے شاعر کی اثر پذیر طبیعت کا ثبوت بھی ہے۔ نصیر میاں نے بھی ، حضرت مولانا احمد رضا خاں رحمۃ اللہ علیہ کی نعت ، منقبت اور سلام کا انتخاب ، تضمین کے لیے کر کے ایک طرح ان کو خراج عقیدت پیش کیا ہے ورنہ وہ یہ کبھی نہ کہتے
اہل نظر میں تیرا ذہن رسا مسلمدنیائے علم و فن میں تیری جا مسلمنزد نصیر تیری طرزِ نوا مسلمملک سخن کی شاہی تجھ کو رضا مسلمجس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دئیے ہیںپیر سید نصیر الدین نصیر کو نعتیہ تضمین کرتے ہوئے ، دوسرے عام شاعروں کے مقابلہ میں ایک یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ وہ اعلی حضرت سید پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوہ قدس سرہ کے خانوادہ سے ہیں ، یوں وہ دوسرے نعت گو شعراء کے مقابلہ میں حمد و ثنا کی اسی مقدس فضا میں سانس لے رہے ہیں ، جو حضرت فاضل بریلوی کو میسر تھی۔
شعر کے معانی و مطالب کے پہلو بہ پہلو ، اس کا دوسرا جزو زبان و بیان سے تعلق رکھتا ہے۔ حضرت احمد رضا خان ، اردو زبان کے ایک ایسے مرکز U-p سے متعلق تھے ، جو شعر میں حسن محاورہ اور لطف روزمرہ کا قائل تھا۔ اسی لیے ان کی نعتوں میں زبان و بیان کی ایک خاص چاشنی ملتی ہے۔ پیر سید نصیر الدین نصیر بھی اپنی ان تضمینوں میں ، اصل نعت کی فضا کو برقرار رکھنے کے لیے ، اسی زبان و بیان سے کام لیتے ہیں ، جو اس کا اولین تقاضا تھی۔ حیرت اس بات پر ہوتی ہے کہ اردو زبان و ادب سے کے مراکز سے دور ، گولڑہ شریف میں رہ کر انہوں نے اس زبان کو کیسے سیکھا ،ان کا ایک اور بند دیکھیے:
سر پر سجا کے حمد و ثنا کی کی گھڑولیاںوہ عاشقوں کی بھیڑ ، وہ لہجے ، وہ بولیاںجالی کے سامنے وہ فقیروں کی ٹولیاںلب وا ہیں ، آنکھیں بند ہیں ، پھیلی ہیں جھولیاںکتنے مزے کی کی بھیک ، ترے پاک در کی ہےامید واثق ہے کہ یہ نعتیہ تضمین ، صاحبان دل کے حلقوں میں ذوق و شوق سے پڑھی جائیں گی اور اپنی روحانیت اور اعلی شعری خصوصیات کے سبب دربارِ بقا میں جگہ پائیں گی۔
ڈاکٹر توصیف تبسم
اسلام آباد
3 ربیع الاول 1426 ھ
تخلیقاتِ نصیر
آغوشِ حیرت(فارسی رباعیات)
پیمانِ شب (اردو غزلیات)
دیں ہمہ اوست (عربی ، فارسی ، اردو ، پنجابی نعتیں )
امام ابوحنیفہ اور ان کا طرزِ استدلال (اردو مقالہ)
نام و نسب (سیادتِ غوثِ پاک کے تحقیقی ثبوت اور شیعہ و خوارج کے عقائد کا تفصیلی جائزہ)
فیضِ نسبت (عربی ، فارسی ، اردو ، پنجابی مناقب)
رنگِ نظام ( قرآن و حدیث کی روشنی میں اردو مجموعہ رباعیات )
عرشِ ناز (فارسی ، اردو ، پوربی ، پنجابی اور سرائیکی میں متفرق کلام)
دستِ نظر (اردو غزلیات)
راہ و رسمِ منزل ہا (تصوف اور عصری مسائل)
تضمینات بر کلام حضرت رضا بریلوی
قرآنِ مجید کے آدابِ تلاوت
لفظ اللہ کی تحقیق
اسلام میں شاعری کی حیثیت
مسلمانوں کے عروج و زوال کے اسباب
پاکستان میں زلزلے کی تباہ کاریاں ، اسباب اور تجاویز
فتوی نویسی کے آداب
موازنہ علم و کرامت
کیا ابلیس عالم تھا؟
دستاویزی ویڈیو حصہ اول : سید نصیر الدین نصیر
دستاویزی ویڈیو حصہ دوم : سید نصیر الدین نصیر