سید زبیر
محفلین
غالب کی شخصیت '' دستنبو '' کے حوالے سے
سید زبیر اشرف
مرزا غالب نہ صرف اپنی شاعری بلکہ اپنے خطوط کی وجہ سے بھی برصغیر میں ہمیشہ نہایت مقبول ہے۔اگرچہ غالب کے ہم عصروں میں ذوق جو کہ بہادر شاہ ظفر کے استاد بھی تھے کے علاوہ مومن اور میر مہدی مجروح جیسے شعراء بھی تھے مگر جو مقبولیت غالب کو ملی وہ ان دونوںحضرات کو نہ مل سکی مرزا کی شاعری اکتسابی نہیں تھی بلکہ شعری ہئیت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ملکہ ان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا ۔جدت مضامین کے علاوہ نئی نئی تشبیہات بھی غالب کے کلام کا طرہ امتیاز تھا بقول حالی ، استعارے و کناےے جو کہ ادب کی جان اور شاعری کا ایمان ہے غالب کے کلام میں ان کا نہائت خوبصورت استعمال پایا جاتا ہے اس کے علاوہ ریختہ ہو یا فارسی ، نظم ہو یا نثر باوجود سنجیدگی و متانت شوخی و ظرافت کا عنصر نما یاں ہے اگر چہ سودا اور انشاء کے کلام میں بھی شوخی و ظرافت پائی جاتی ہے مگر دونوں کی تمام شوخی و خوش طبعی ہجو گوئی میں صرف ہوئی ۔ایک سب سے اہم خصوصیت جو غالب کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے کلام کے بادی النظر میں جو معنی نکلتے ہیں غور کرنے پر اس کے نہائت لطیف معنی سامنے آتے ہیں مثلاً ؎ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
اسی طرح ؛ ؎ کیونکر اس بات سے رکھوں جان عزیز کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
حضرت علامہ اقبال بھی غالب کی شاعری کے انتہائی معترف تھے غالب کے لئے لکھے گئے چند اشعار ملاحظہ ہوں
؎ مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں زندگی
گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں تاب
؎ مضمون تصدق ہے ترے انداز پر شاہد
زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر خندہ ؎ لطف گویائی میں تری ہمسر ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
مرزا کے ابتدائی کلام کو بعض ناقدین مہمل اور بے معنی قرار دیتے تھے مرزا نے بھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر اردو اور فارسی دیوان میں جا بجا اشارہ کیا اردو میں ایک جگہ لکھتے ہیں
؎ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں مرے اشعار میں مطلب نہ سہی
ایک مطلع ہے ؎ گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں مری بات سمجھنی محال ہے
الطاف حسین حالی یادگار غالب میں رقمطراز ہیں
'' مرزا کے ابتدائی کلام کو مہمل و بے معنی کہو یا اس کو اردو زبان سے خارج سمجھو مگر ا س میں شک نہیں کہ اس سے ان کی حقیقت پسندی اور غیر معمولی ذہنی رسائی کا سراغ ملتا ہے مرزا کی طبیعت ایسی تھی کہ وہ عام روش کی بجائے جدت تراشتے تھے '' ۔
وہ کبھی دوستوں کی فرمائش پر اور کبھی بادشاہ یا ولی عہد کے حکم کی تعمیل کے لئے ایک آدھ غزل لکھ لیتے تھے یہی وجہ ہے کہ ا ن کے اردو دیوان میں غزل کے سوا کوئی صنف بقدر معتدبہ نہیں پائی جاتی منشی نبی بخش مرحوم کو ایک خط میں لکھتے ہیں
'' بھائی صاحب تم غزل کی تعریف کرتے ہو اور میں شرماتا ہوں یہ غزلیں کاہے کو ہیں پیٹ پالنے کی باتیں
ہیں ۔میرے فارسی کے وہ قصیدے جن پر مجھ کو ناز ہے کوئی ان کا لطف نہیں اٹھاتا اب قدر دانی اس بات
پر منحصر ہے کہ گاہ گاہ حضرت ظل سبحانی فرما بیٹھتے ہیں کہ بھئی تم بہت دن سے کوئی سوغات نہیں لائے یعنی نیا
ریختہ ۔نا چار کبھی کبھی یہ اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی غزل کہہ کر لے جاتا ہوں ''
غالب کے ہم عصرو ںنے اول سے آخر تک اپنے پیشرووں کی پیروی کی مگر غالب نے اس کے متوازی نیا رخ اختیار کیا یہی وجہ کہ میر و سودا کے دیوان کے بعد غالب کے دیوان کو پڑھنے سے قاری کو ایک تنوع ملتا ہے غالب کا یہی اچھوتا پن انہیں اپنے ہم عصروں سے جداگانہ حیثیت دیتا ہے ۔
بعض محققین کی رائے میں اگر غالب شاعر نہ بھی ہوتے تو اپنے خطوط کی بناء پر ان کا اردو ادب میں یہی مقام ہونا تھا۔غالب نے جیسے شاعری میں جدت، استعارے مرصع و مرقع الفاظ کا استعمال خوبصورتی سے کیا اسی طرح خطوط میں بھی ،محاورے اور خوبصورت جامع الفاظ استعمال کر کے خطوط نویسی کو جدت عطا کی۔غالب کے دور میں خطوط نویسی نہایت فصیح بلیغ القابات سے مرقع ہوا کرتی تھی مگر غالب نے اسے سادگی، بے ساختہ پن اور بے تکلفی سے آشنا کرایا۔انداز تکلم ایسا گویا مکتوب الیہ سامنے بیٹھا ہو۔یہی ان کی جدت تھی ۔ان کو زبان پر الفاظ کے استعمال کا بھرپورکمال حاصل تھا اوروہ فطرتاً ایک خوشامدی انسان بھی تھے۔ان کے بیشتر خطوط مطلب آوری کے لیے ہوتے تھے۔وہ الفاظ اس خوبصورتی سے استعمال کرتے تھے کہ مکتوب الیہ خوش ہوجاتا اور یہی حصول مدعا کے لیے ضروری تھا،غالب کی حس مزاح قاری کے لطف کو دو آتشہ کردیتی تھی۔ غالب کے اپنے الفاظ میں''میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات لکھوں جو پڑھے تو خوش ہوجائے'' خوشامد کا یہی عنصر ان کی شاعری میں بھی نمایاں ہے انہوں نے متعدد قصیدے کہے اور صلہ میں انعامات،القابات،خلعتیں وصول کیں۔
دبیر الملک،نجم الدولہ میرزا اسد اللہ بیگ خان غالب٢٧دسمبر١٧٩٧ء کو آگرہ کے کالا محل میں پیدا ہوئے۔اس عمارت کو بعد میں اندرا بھان گرلز انٹر کالج میں تبدیل کردیا گیا مگر اسکول میں غالب کی پیدائش والے کمرے کو اسی طرح محفوظ رکھا گیا۔بچپن یتیمی میں گزرا۔چچا مرزا انورا للہ بیگ نے پرورش کی تو وہ بھی جب غالب کی عمر آٹھ سال تھی داغ مفارقت دے گئے۔نواب احمد بخش خان آف لوہارو جو ان کے سسر کے بڑے بھائی تھے نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرایا ہوا تھا۔١٨١٠ء کے لگ بھگ نواب الہٰی بخش خاں لوہارو کی صاحبزادی مراؤ بیگم سے شادی ہوئی ۔ جو ا یک نہایت دین دار اور زیرک خاتون تھیں۔ غالب کی بیگم دیانت دار اور خوف خدا رکھنے والی ایک مال دار خاتون تھیں۔شادی کے بعد انہوں نے آبائی وطن کو چھوڑا اور دارلخلافہ دہلی میں اٹھ آئے۔اخراجات بڑھ گئے۔مقروض ہوگئے۔اور قرضہ بڑھتا گیا۔ کوئی ذریعہ روزگار نہ تھا اس دوران وہ مسلسل دربار مغلیہ تک رسائی کی کوشش کرتے رہے۔اور١٨٥٠ء میں حکیم احسن خان کی سفارش پر تاریخ تیموری لکھنے پر مامور ہوئے اور معقول مشاہرہ لیتے رہے۔
غالب شراب اوروہ بھی ولایتی،جوئے کے عادی اور محنت و مشقت کی خو سے عاری انسان تھے۔لکھتے ہیں
'' فی الحقیقت سچی بات کو چھپانا اچھے لوگوں کا طریقہ نہیں میں نیم مسلمان، مذہبی پابندیوں سے آزاد ہوں اور بدنامی ورسوائی کے رنج سے بے نیاز ہمیشہ سے رات میں صرف ولائتی شراب پینے کی عادت تھی ولائتی شراب نہیں ملتی تھی تو نیند نہیں آتی تھی۔ آج کل جب کہ انگریزی شراب شہر میں بہت مہنگی ہے اورمیں بہت مفلس ہوں۔اگر خدا دوست،خدا شناس،فیاض ،دریا دل مہیش داس دیسی شراب قند جو رنگ میں ولائتی شراب کے برابر اور بو میںاس سے بڑھ کر ہے بھیج کر آتش دل کو سردنہ کرے تو میں زندہ نہیں رہتا۔ اسی عالم جگر تشنگی میں مرجاتا۔''
ہمیشہ نوابین،بہادر شاہ ظفر اور انگریزوں کے وظیفے پر گزارہ کیا۔اپنی عادات کی وجہ سے اکثر تہی دوست رہے اگرچہ ان کے ہم عصروقتاًفوقتاً ان کی خطیر رقم سے اعانت بھی کرتے رہے۔ غالب نے تمام عمر کوئی کام نہ کیا۔خوشامد ان کی فطرت کا ایک اہم عنصر تھا ۔جس کی تعمیر میں ان کی عادات و اطوار کے علاوہ حوادث زمانہ بھی شامل تھے۔ان حوادث زمانہ سے نبردآزما ہونے کے لیے سہل پسند شاعر نے قصیدہ گوئی کو اپنا وطیرہ بنایا۔غالب کا دور ایک پُرآشوب دور تھا۔فرنگی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے قریب تھا۔ ہند پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہورہا تھا۔ ہند میں بغاوت پھیل گئی ۔١٨٥٧ء کے ہنگاموں کو انگریز غدر اور بغاوت کہتے جبکہ ہند میں حریت پسند اسے جنگ آزادی کہتے۔اس واقعات کے بارے میں بہت کچھ تاریخ میں ڈائریوں،آپ بیتیوں، یاداشتوں کی صورت میں محفوظ ہے۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ انگریز کا نکتہ نظر سراسر نوآبادیاتی تھا۔ جبکہ اقوام ہند بلا تمیز مذہب آزادی کے لیے جدوجہد کررہی تھیں۔ سر سید احمد خان اور غالب کی عمر میں تقریباً بیس سال کا فرق تھا۔ سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف''آئین اکبری'' تصحیح کے بعد دوبارہ شائع کرنے لگے تو غالب نے منظوم تعارف لکھا جس میں غالب نے سرسید کو مشورہ دیا کہ مردہ پرستی اچھا کام نہیںبلکہ انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے۔سرسید نے یہ تعارفی اشعار تو کتاب میں شامل نہ کیے۔مگر اس دانائی کو پالیا۔اور یہی علی گڑھ کی تحریک کا باعث بنی حالانکہ سرسید کو آئین اکبری کے لکھنے سے منع کرنے والے خود کچھ عرصے قبل مہرنیم روز کے عنوان سلطنت مغلیہ کی تاریخ جو نصیر الدین ہمایوں تک تھی ،لکھ چکے تھے او رجب ١٨٥٧ ء کے بعد ان سے اسے چھپوانے کی بات کی جاتی تو غالب انہیں کہتے اسے چھپوانے کی نہیں بلکہ چھپانے کی ضرورت ہے ۔
اس دور میں سر سید احمد خان نے غدر خدمات کے صلے میں انگریزوں کی مراعات قبول کرنے سے انکار کردیا۔اور مسلمانوں کی صفائی پیش کرتے ہوئے رسالہ اسباب بغاوت لکھا۔سرسید نے ایک مصلح کے طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔غالباً یہی وہ راہ تھی جس کے لیے حضرت اقبالؒ نے بھی کہا ؎ آئین نو سے ڈرنا، طرزکہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
سرسید نے علمی اور تاریخی کتب کے تراجم کا آغاز کیا اور مسلمانوں کو تعلیم خصوصاً دور جدید کے تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا ۔ علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی۔اور یہ سب کچھ غالب کے اس نکتہ کا کہ مردہ پروری چھوڑ کر نئے انداز اپنائیں کا مثبت ردعمل تھا۔ الطاف حسین حالی نے بھی یہی پر آشوب دور دیکھا تھا۔غالب کے فن شعر گوئی کے معترف بھی تھے۔ یادگار غالب''جیسی کتاب بھی لکھی مگر ١٨٥٧ء کے المناک واقعات پر ان کا رد عمل بھی مثبت تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میںمسلمانوں کو ترقی کے لیے نئی راہیں دکھائیں۔خواجہ حسن نظامی ایک درویش منش صاحب طرز ناول نگار تھے پچاس سے زائد مطبوعات ہیں انہوں نے بھی غدر ، دہلی کے افسانے ، بیگمات کے آنسوجےسے مجموعوں میں اپنے اور اپنے زمانے کے احساسات کی عکاسی کی ہے ۔ ا۔
غالب کا رد عمل بالکل مختلف تھا،ا ن حالات میں غالب کا رویہ سراسر خوشامدانہ اور چاپلوس نظر آتا ہے۔ انہوں نے موقع کی نزاکت کو سمجھا۔ اور پندرہ ماہ میں ایک کتاب دستنبو جو ان کے بقول پندرہ ماہ کا روزنامچہ ہے دراصل خوشامد اور چاپلوسی کا ایک نادر و نایاب نسخہ ہے جو اس دور کے حالات اور غالب کے رجحانات کی عکاس ہے۔وہ غالب جو مغلیہ دربار تک رسائی کے لیے سرگرداں تھے۔اور جب رسائی ہوگئی تو بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق کو بھی اپنے حس مزاح کا نشانہ بناتے رہے گو عہدے اور مرتبے کے باعث دائرہ احترام میں رہے مگر جذبات و احساسات کا بھی اظہار ہوتا ہے۔جس دربار تک رسائی اور وظیفہ حاصل کرنے کی خواہش تھی اس کے بارے میں اپنی دستنبو میں لکھتے ہیں۔'' مجبوراً ہفتے میں ایک دو دفعہ قلعے جاتا اور اگر بادشاہ باہر آتا تو کیا ہوا کام دکھادیتا ورنہ واپس آجاتا۔'' حالانکہ ہنگاموں کے دوران بھی غالب قلعہ معلی جاتے رہے اور قصیدے سناتے رہے۔ اگر عبدالطیف کاروزنامچہ دیکھیں تو ظاہرہوتا ہے کہ ١٢مئی١٨٥٧ء کو بھی دربار میں گئے۔قصیدہ سنایا اور خلعت زیب تن کیا۔ ہنگاموں کے دوران ہی انگریزوں کو مخبر نے فارسی کے کچھ کلام میں غالب کو ملوث کردیا۔غالب کی پریشانی لازمی تھی اور انگریزوں سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے١٨٣٧ء اور١٨٣٨ء کے زمانے کے اخبار تلاش کیے مگر کمشنر صاحب نے نہیں سنا اور سزا کے طور پر پنشن بند کردی۔
'' اب یہ جولائی کا پندرھواں مہینہ ہے۔ قدیم پنشن جوسرکار انگریزی سے (ملتی تھی)اسکے ملنے کا کوئی ذریعہ نہ نکلا۔بستر اور کپڑے بیچ بیچ کر زندگی گزاررہا ہوںگویا دوسرے لوگ روٹی کھاتے ہیں۔میں کپڑے کھاتا ہوں ڈرتا ہوں کہ جب کپڑے سب کھالوں گا عالم برہنگی میں بھوک سے مرجاؤں گا۔''
غالب کی دستنبو پہلی بار١٨٥٨ء میں شائع ہوئی یہ فارسی قدیم میں تھی اور غالباً اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں بہت کم لوگ پڑھیں۔یہ خاص طور پر انگریز بہادر کو پیش کرنے کے لیے لکھی گئی۔دستنبو کی مقصدیت کے متعلق لکھتے ہیں
'' مئی سال گزشتہ سے لے کر جولائی١٩٥٨ء تک کی روداد میں نے لکھ دی یکم اگست سے قلم ہاتھ سے رکھ دیا ہے کاش میری ان تینوں خواہشوں یعنی خطاب،خلعت اور پنشن کے اجراء کا حکم شہنشاہ فیروز بخت(انگریز ملکہ)کے حضور سے آجائے جن کے متعلق میں نے اس تحریر میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔میری آنکھیں اور میرا دل انہیں کی طرف لگا ہوا ہے۔وہ شہنشاہ کہ چاند جس کے سرکا تاج ہے۔ آسمان جس کا تخت ہے۔''
اپنی دستنبو میں رقمطراز ہیں
'' اس سال جس کا مادہ تاریخی بہ رعایت تخرجہ '' رستخیز بے جا '' ہے اور اگر صاف صاف پوچھو تو ١٦ رمضان المبارک ١٢٧٣ ھ بروز پیر بمطابق ١١ مئی ١٨٥٧ ء اچانک دہلی کے قلعے اور فصیل کی دیواریں لرز اٹھیں جس کا اثر چاروں طرف پھیل گیا میں زلزلے کی بات نہں کر رہا اس دن جو بہت منحوس تھا میرٹھ کی فوج کے کچھ بدنصیب اور شوریدہ سرسپاہی شہر میں آئے نہایت ظالم و مفسد اور نمک حرامی کے سبب سے انگریزوں کے خون کے پیاسے ، شہر کے مختلف دروازوں کے محافظ جوان فسادیوں کے ہم پیشہ اور بھائی بند تھے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ پہلے ہی سے ان محافظوں اور فسادیوں میں سازش ہوگئی ہو۔شہر کی حفاظت اور ذمہ داری اور حق نمک، ہر چیز کو بھول گئے۔ان بن بلائے یا مدعو کردہ مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ان مدہوش سواروں اور اکھڑپیادوں نے جب دیکھا کہ شہر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور محافظ مہمان نواز ہیں دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دوڑ پڑے جدھر کسی افسر کوپایا اور جہاں ان قابل احترام(انگریزوں)کے مکانات دیکھے۔جب تک ان افسروں کو مار نہیں ڈالا اور ان مکانات کو بالکل تباہ نہیں کردیا،ادھر سے رخ نہیں پھیرا۔''
'' افسوس وہ پیکر عالم و حکمت، انصاف سکھانے والے خوش اخلاق و نیک نام حاکم!اور صد افسوس وہ پری چہرہ نازک بدن خواتین جن کے چہرے چاند کی طرح چمکتے تھے اور جن کے بدن کچی چاندی کی طرح چمکتے تھے۔ حیف وہ بچے جنہوں نے ابھی دنیا کو دیکھا بھی نہیں تھا۔جن کے ہنس مکھ چہرے گلاب و لالہ کے پھولوں کو شرماتے تھے اور جن کی خوش رفتاری کے سامنے ہرن اور کبک کی رفتار بدنما معلوم ہوتی تھی۔ یہ سب ایک دم قتل و خوں کے بھنورمیں پھنس کر(بحر فنا میں)ڈوب گئے۔''
بقول ڈاکٹر نتالیا ہری گارنیا یہ ایک حقیقت ہے کہ غالب کی دستنبو یعنی گل دستہ یا عطردان کہ حکمرانوں کے ہاتھ میں پہنچ کر بغاوت کے زمانے میں شاعر کی وفادای کا ثبوت فراہم کرتی لیکن ان کے اس گلدستہ رنگ و بو سے خون اور جلا کر راکھ کردی جانے والی بستیوں کی بو آتی ہے۔۔۔۔یہ گلدستہ دستنبو کو جلد از جلد فرنگی فرمانبراواؤں تک خصوصی انداز میں پہنچانے کے لیے غالب کتنے بے چین اور مضطرب تھے گوہرپال تفتہ کو لکھتے ہیں۔
''کاغذ کے بارے میں عرض یہ ہے کہ جو چھ جلدیں حکام کوپیش کرنی ہیں ان کے لیے فرانسیسی کاغذ درست رہے گا۔دو جلدیں ولایت جانی والی ہیں۔ان کی چھپائی ایسی سیاہ اور چمکدار ہوجن کی رنگت نہ بدلے۔''
اور جب منشی شیونارائن آرام نے دستنبو کا کچھ حصہ انگریز بہادر کو سنانے اور پسند آنے کا ذکر کیا تو جواب قابل غور ہے ۔ جوان کے ذہن اور خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔
''یہ جو تم نے لکھا کہ صاحب نے سن کر اس کو پسند کیا، میں حیران ہوں کہ کون سا مقام تم نے پڑھا ہوگا۔ کیوں کر کہوں کہ صاحب اس عبارت کو سمجھے ہوں گے۔ اس کی جو حقیقت ہو مفصل لکھو''
شاعر ، ادیب ،افسانہ نگار معاشرہ کا انتہائی حساس طبقہ ہوتا جن کے احساسات و جذبات کا ان کے فن پاروں میں عکس نظر آتا ہے ۔ حالی ، اقبال ، فیض ، حبیب جالب جیسی بے شمار مثالیںاردو ادب کا سرمایہ ہے ہر فنکار کسی مقصد کے تحت فن کی تخلیق کرتا ہے یہی اس کی شناخت ہوتی ہے غالب کی دستنبو نے غالب کی ملی اور قومی حمیت ظاہر کردی دستنبو سے غالب ایک ایسا شاعر نظر آتا ہے جس کا فن صرف حصول زر کے لئے تھا گردو پیش کے ہم وطنوں کی زبوںحالی سے غالب مطلقاً بے اعتنا تھے غالب کا فن ،شعری اصناف کا ایک خوبصورت نمونہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے مگرمقصدیت سے عاری ہے نہ ان میں انسانی
رویوں اور اقدار کا عکس نظر آتا ہے اور نہ ہی معاشرے کے واقعات و تاریخ کی جھلک ۔ علامہ اقبال نے غالباً ایسی شاعری کے لئے فرمایا تھا ؎ سینہ روشن ہو توہے سوز و سخن عین حیات
ہو نہ روشن تو سخن ، مرگ دوام اے ساقی
سید زبیر اشرف
مرزا غالب نہ صرف اپنی شاعری بلکہ اپنے خطوط کی وجہ سے بھی برصغیر میں ہمیشہ نہایت مقبول ہے۔اگرچہ غالب کے ہم عصروں میں ذوق جو کہ بہادر شاہ ظفر کے استاد بھی تھے کے علاوہ مومن اور میر مہدی مجروح جیسے شعراء بھی تھے مگر جو مقبولیت غالب کو ملی وہ ان دونوںحضرات کو نہ مل سکی مرزا کی شاعری اکتسابی نہیں تھی بلکہ شعری ہئیت ظاہر کرتی ہے کہ یہ ملکہ ان کی فطرت میں ودیعت کیا گیا تھا ۔جدت مضامین کے علاوہ نئی نئی تشبیہات بھی غالب کے کلام کا طرہ امتیاز تھا بقول حالی ، استعارے و کناےے جو کہ ادب کی جان اور شاعری کا ایمان ہے غالب کے کلام میں ان کا نہائت خوبصورت استعمال پایا جاتا ہے اس کے علاوہ ریختہ ہو یا فارسی ، نظم ہو یا نثر باوجود سنجیدگی و متانت شوخی و ظرافت کا عنصر نما یاں ہے اگر چہ سودا اور انشاء کے کلام میں بھی شوخی و ظرافت پائی جاتی ہے مگر دونوں کی تمام شوخی و خوش طبعی ہجو گوئی میں صرف ہوئی ۔ایک سب سے اہم خصوصیت جو غالب کو اپنے ہم عصروں سے نمایاں کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ان کے کلام کے بادی النظر میں جو معنی نکلتے ہیں غور کرنے پر اس کے نہائت لطیف معنی سامنے آتے ہیں مثلاً ؎ کوئی ویرانی سی ویرانی ہے دشت کو دیکھ کے گھر یاد آیا
اسی طرح ؛ ؎ کیونکر اس بات سے رکھوں جان عزیز کیا نہیں ہے مجھے ایمان عزیز
حضرت علامہ اقبال بھی غالب کی شاعری کے انتہائی معترف تھے غالب کے لئے لکھے گئے چند اشعار ملاحظہ ہوں
؎ مضمر ہے تیری شوخی تحریر میں زندگی
گویائی سے جنبش ہے لب تصویر میں تاب
؎ مضمون تصدق ہے ترے انداز پر شاہد
زن ہے غنچہ دلی گل شیراز پر خندہ ؎ لطف گویائی میں تری ہمسر ممکن نہیں
ہو تخیل کا نہ جب تک فکر کامل ہم نشیں
مرزا کے ابتدائی کلام کو بعض ناقدین مہمل اور بے معنی قرار دیتے تھے مرزا نے بھی اپنے اوپر لگائے گئے الزامات پر اردو اور فارسی دیوان میں جا بجا اشارہ کیا اردو میں ایک جگہ لکھتے ہیں
؎ نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا
گر نہیں مرے اشعار میں مطلب نہ سہی
ایک مطلع ہے ؎ گر خامشی سے فائدہ اخفائے حال ہے
خوش ہوں مری بات سمجھنی محال ہے
الطاف حسین حالی یادگار غالب میں رقمطراز ہیں
'' مرزا کے ابتدائی کلام کو مہمل و بے معنی کہو یا اس کو اردو زبان سے خارج سمجھو مگر ا س میں شک نہیں کہ اس سے ان کی حقیقت پسندی اور غیر معمولی ذہنی رسائی کا سراغ ملتا ہے مرزا کی طبیعت ایسی تھی کہ وہ عام روش کی بجائے جدت تراشتے تھے '' ۔
وہ کبھی دوستوں کی فرمائش پر اور کبھی بادشاہ یا ولی عہد کے حکم کی تعمیل کے لئے ایک آدھ غزل لکھ لیتے تھے یہی وجہ ہے کہ ا ن کے اردو دیوان میں غزل کے سوا کوئی صنف بقدر معتدبہ نہیں پائی جاتی منشی نبی بخش مرحوم کو ایک خط میں لکھتے ہیں
'' بھائی صاحب تم غزل کی تعریف کرتے ہو اور میں شرماتا ہوں یہ غزلیں کاہے کو ہیں پیٹ پالنے کی باتیں
ہیں ۔میرے فارسی کے وہ قصیدے جن پر مجھ کو ناز ہے کوئی ان کا لطف نہیں اٹھاتا اب قدر دانی اس بات
پر منحصر ہے کہ گاہ گاہ حضرت ظل سبحانی فرما بیٹھتے ہیں کہ بھئی تم بہت دن سے کوئی سوغات نہیں لائے یعنی نیا
ریختہ ۔نا چار کبھی کبھی یہ اتفاق ہوتا ہے کہ کوئی غزل کہہ کر لے جاتا ہوں ''
غالب کے ہم عصرو ںنے اول سے آخر تک اپنے پیشرووں کی پیروی کی مگر غالب نے اس کے متوازی نیا رخ اختیار کیا یہی وجہ کہ میر و سودا کے دیوان کے بعد غالب کے دیوان کو پڑھنے سے قاری کو ایک تنوع ملتا ہے غالب کا یہی اچھوتا پن انہیں اپنے ہم عصروں سے جداگانہ حیثیت دیتا ہے ۔
بعض محققین کی رائے میں اگر غالب شاعر نہ بھی ہوتے تو اپنے خطوط کی بناء پر ان کا اردو ادب میں یہی مقام ہونا تھا۔غالب نے جیسے شاعری میں جدت، استعارے مرصع و مرقع الفاظ کا استعمال خوبصورتی سے کیا اسی طرح خطوط میں بھی ،محاورے اور خوبصورت جامع الفاظ استعمال کر کے خطوط نویسی کو جدت عطا کی۔غالب کے دور میں خطوط نویسی نہایت فصیح بلیغ القابات سے مرقع ہوا کرتی تھی مگر غالب نے اسے سادگی، بے ساختہ پن اور بے تکلفی سے آشنا کرایا۔انداز تکلم ایسا گویا مکتوب الیہ سامنے بیٹھا ہو۔یہی ان کی جدت تھی ۔ان کو زبان پر الفاظ کے استعمال کا بھرپورکمال حاصل تھا اوروہ فطرتاً ایک خوشامدی انسان بھی تھے۔ان کے بیشتر خطوط مطلب آوری کے لیے ہوتے تھے۔وہ الفاظ اس خوبصورتی سے استعمال کرتے تھے کہ مکتوب الیہ خوش ہوجاتا اور یہی حصول مدعا کے لیے ضروری تھا،غالب کی حس مزاح قاری کے لطف کو دو آتشہ کردیتی تھی۔ غالب کے اپنے الفاظ میں''میں کوشش کرتا ہوں کہ کوئی ایسی بات لکھوں جو پڑھے تو خوش ہوجائے'' خوشامد کا یہی عنصر ان کی شاعری میں بھی نمایاں ہے انہوں نے متعدد قصیدے کہے اور صلہ میں انعامات،القابات،خلعتیں وصول کیں۔
دبیر الملک،نجم الدولہ میرزا اسد اللہ بیگ خان غالب٢٧دسمبر١٧٩٧ء کو آگرہ کے کالا محل میں پیدا ہوئے۔اس عمارت کو بعد میں اندرا بھان گرلز انٹر کالج میں تبدیل کردیا گیا مگر اسکول میں غالب کی پیدائش والے کمرے کو اسی طرح محفوظ رکھا گیا۔بچپن یتیمی میں گزرا۔چچا مرزا انورا للہ بیگ نے پرورش کی تو وہ بھی جب غالب کی عمر آٹھ سال تھی داغ مفارقت دے گئے۔نواب احمد بخش خان آف لوہارو جو ان کے سسر کے بڑے بھائی تھے نے مرزا کے خاندان کا انگریزوں سے وظیفہ مقرر کرایا ہوا تھا۔١٨١٠ء کے لگ بھگ نواب الہٰی بخش خاں لوہارو کی صاحبزادی مراؤ بیگم سے شادی ہوئی ۔ جو ا یک نہایت دین دار اور زیرک خاتون تھیں۔ غالب کی بیگم دیانت دار اور خوف خدا رکھنے والی ایک مال دار خاتون تھیں۔شادی کے بعد انہوں نے آبائی وطن کو چھوڑا اور دارلخلافہ دہلی میں اٹھ آئے۔اخراجات بڑھ گئے۔مقروض ہوگئے۔اور قرضہ بڑھتا گیا۔ کوئی ذریعہ روزگار نہ تھا اس دوران وہ مسلسل دربار مغلیہ تک رسائی کی کوشش کرتے رہے۔اور١٨٥٠ء میں حکیم احسن خان کی سفارش پر تاریخ تیموری لکھنے پر مامور ہوئے اور معقول مشاہرہ لیتے رہے۔
غالب شراب اوروہ بھی ولایتی،جوئے کے عادی اور محنت و مشقت کی خو سے عاری انسان تھے۔لکھتے ہیں
'' فی الحقیقت سچی بات کو چھپانا اچھے لوگوں کا طریقہ نہیں میں نیم مسلمان، مذہبی پابندیوں سے آزاد ہوں اور بدنامی ورسوائی کے رنج سے بے نیاز ہمیشہ سے رات میں صرف ولائتی شراب پینے کی عادت تھی ولائتی شراب نہیں ملتی تھی تو نیند نہیں آتی تھی۔ آج کل جب کہ انگریزی شراب شہر میں بہت مہنگی ہے اورمیں بہت مفلس ہوں۔اگر خدا دوست،خدا شناس،فیاض ،دریا دل مہیش داس دیسی شراب قند جو رنگ میں ولائتی شراب کے برابر اور بو میںاس سے بڑھ کر ہے بھیج کر آتش دل کو سردنہ کرے تو میں زندہ نہیں رہتا۔ اسی عالم جگر تشنگی میں مرجاتا۔''
ہمیشہ نوابین،بہادر شاہ ظفر اور انگریزوں کے وظیفے پر گزارہ کیا۔اپنی عادات کی وجہ سے اکثر تہی دوست رہے اگرچہ ان کے ہم عصروقتاًفوقتاً ان کی خطیر رقم سے اعانت بھی کرتے رہے۔ غالب نے تمام عمر کوئی کام نہ کیا۔خوشامد ان کی فطرت کا ایک اہم عنصر تھا ۔جس کی تعمیر میں ان کی عادات و اطوار کے علاوہ حوادث زمانہ بھی شامل تھے۔ان حوادث زمانہ سے نبردآزما ہونے کے لیے سہل پسند شاعر نے قصیدہ گوئی کو اپنا وطیرہ بنایا۔غالب کا دور ایک پُرآشوب دور تھا۔فرنگی اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے قریب تھا۔ ہند پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہورہا تھا۔ ہند میں بغاوت پھیل گئی ۔١٨٥٧ء کے ہنگاموں کو انگریز غدر اور بغاوت کہتے جبکہ ہند میں حریت پسند اسے جنگ آزادی کہتے۔اس واقعات کے بارے میں بہت کچھ تاریخ میں ڈائریوں،آپ بیتیوں، یاداشتوں کی صورت میں محفوظ ہے۔بہرحال یہ حقیقت ہے کہ انگریز کا نکتہ نظر سراسر نوآبادیاتی تھا۔ جبکہ اقوام ہند بلا تمیز مذہب آزادی کے لیے جدوجہد کررہی تھیں۔ سر سید احمد خان اور غالب کی عمر میں تقریباً بیس سال کا فرق تھا۔ سرسید نے اکبر اعظم کے زمانے کی مشہور تصنیف''آئین اکبری'' تصحیح کے بعد دوبارہ شائع کرنے لگے تو غالب نے منظوم تعارف لکھا جس میں غالب نے سرسید کو مشورہ دیا کہ مردہ پرستی اچھا کام نہیںبلکہ انگریزوں سے یہ سبق سیکھنا چاہیے کہ وہ کس طرح فطرت کی طاقتوں کو مسخر کر کے اپنے اجداد سے کہیں آگے نکل گئے۔سرسید نے یہ تعارفی اشعار تو کتاب میں شامل نہ کیے۔مگر اس دانائی کو پالیا۔اور یہی علی گڑھ کی تحریک کا باعث بنی حالانکہ سرسید کو آئین اکبری کے لکھنے سے منع کرنے والے خود کچھ عرصے قبل مہرنیم روز کے عنوان سلطنت مغلیہ کی تاریخ جو نصیر الدین ہمایوں تک تھی ،لکھ چکے تھے او رجب ١٨٥٧ ء کے بعد ان سے اسے چھپوانے کی بات کی جاتی تو غالب انہیں کہتے اسے چھپوانے کی نہیں بلکہ چھپانے کی ضرورت ہے ۔
اس دور میں سر سید احمد خان نے غدر خدمات کے صلے میں انگریزوں کی مراعات قبول کرنے سے انکار کردیا۔اور مسلمانوں کی صفائی پیش کرتے ہوئے رسالہ اسباب بغاوت لکھا۔سرسید نے ایک مصلح کے طور پر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔غالباً یہی وہ راہ تھی جس کے لیے حضرت اقبالؒ نے بھی کہا ؎ آئین نو سے ڈرنا، طرزکہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
سرسید نے علمی اور تاریخی کتب کے تراجم کا آغاز کیا اور مسلمانوں کو تعلیم خصوصاً دور جدید کے تعلیم کے حصول کی طرف راغب کیا ۔ علی گڑھ یونیورسٹی قائم کی۔اور یہ سب کچھ غالب کے اس نکتہ کا کہ مردہ پروری چھوڑ کر نئے انداز اپنائیں کا مثبت ردعمل تھا۔ الطاف حسین حالی نے بھی یہی پر آشوب دور دیکھا تھا۔غالب کے فن شعر گوئی کے معترف بھی تھے۔ یادگار غالب''جیسی کتاب بھی لکھی مگر ١٨٥٧ء کے المناک واقعات پر ان کا رد عمل بھی مثبت تھا۔ انہوں نے اپنی شاعری میںمسلمانوں کو ترقی کے لیے نئی راہیں دکھائیں۔خواجہ حسن نظامی ایک درویش منش صاحب طرز ناول نگار تھے پچاس سے زائد مطبوعات ہیں انہوں نے بھی غدر ، دہلی کے افسانے ، بیگمات کے آنسوجےسے مجموعوں میں اپنے اور اپنے زمانے کے احساسات کی عکاسی کی ہے ۔ ا۔
غالب کا رد عمل بالکل مختلف تھا،ا ن حالات میں غالب کا رویہ سراسر خوشامدانہ اور چاپلوس نظر آتا ہے۔ انہوں نے موقع کی نزاکت کو سمجھا۔ اور پندرہ ماہ میں ایک کتاب دستنبو جو ان کے بقول پندرہ ماہ کا روزنامچہ ہے دراصل خوشامد اور چاپلوسی کا ایک نادر و نایاب نسخہ ہے جو اس دور کے حالات اور غالب کے رجحانات کی عکاس ہے۔وہ غالب جو مغلیہ دربار تک رسائی کے لیے سرگرداں تھے۔اور جب رسائی ہوگئی تو بہادر شاہ ظفر کے استاد ذوق کو بھی اپنے حس مزاح کا نشانہ بناتے رہے گو عہدے اور مرتبے کے باعث دائرہ احترام میں رہے مگر جذبات و احساسات کا بھی اظہار ہوتا ہے۔جس دربار تک رسائی اور وظیفہ حاصل کرنے کی خواہش تھی اس کے بارے میں اپنی دستنبو میں لکھتے ہیں۔'' مجبوراً ہفتے میں ایک دو دفعہ قلعے جاتا اور اگر بادشاہ باہر آتا تو کیا ہوا کام دکھادیتا ورنہ واپس آجاتا۔'' حالانکہ ہنگاموں کے دوران بھی غالب قلعہ معلی جاتے رہے اور قصیدے سناتے رہے۔ اگر عبدالطیف کاروزنامچہ دیکھیں تو ظاہرہوتا ہے کہ ١٢مئی١٨٥٧ء کو بھی دربار میں گئے۔قصیدہ سنایا اور خلعت زیب تن کیا۔ ہنگاموں کے دوران ہی انگریزوں کو مخبر نے فارسی کے کچھ کلام میں غالب کو ملوث کردیا۔غالب کی پریشانی لازمی تھی اور انگریزوں سے وفاداری ثابت کرنے کے لیے١٨٣٧ء اور١٨٣٨ء کے زمانے کے اخبار تلاش کیے مگر کمشنر صاحب نے نہیں سنا اور سزا کے طور پر پنشن بند کردی۔
'' اب یہ جولائی کا پندرھواں مہینہ ہے۔ قدیم پنشن جوسرکار انگریزی سے (ملتی تھی)اسکے ملنے کا کوئی ذریعہ نہ نکلا۔بستر اور کپڑے بیچ بیچ کر زندگی گزاررہا ہوںگویا دوسرے لوگ روٹی کھاتے ہیں۔میں کپڑے کھاتا ہوں ڈرتا ہوں کہ جب کپڑے سب کھالوں گا عالم برہنگی میں بھوک سے مرجاؤں گا۔''
غالب کی دستنبو پہلی بار١٨٥٨ء میں شائع ہوئی یہ فارسی قدیم میں تھی اور غالباً اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ ہندوستان میں بہت کم لوگ پڑھیں۔یہ خاص طور پر انگریز بہادر کو پیش کرنے کے لیے لکھی گئی۔دستنبو کی مقصدیت کے متعلق لکھتے ہیں
'' مئی سال گزشتہ سے لے کر جولائی١٩٥٨ء تک کی روداد میں نے لکھ دی یکم اگست سے قلم ہاتھ سے رکھ دیا ہے کاش میری ان تینوں خواہشوں یعنی خطاب،خلعت اور پنشن کے اجراء کا حکم شہنشاہ فیروز بخت(انگریز ملکہ)کے حضور سے آجائے جن کے متعلق میں نے اس تحریر میں بھی بہت کچھ لکھا ہے۔میری آنکھیں اور میرا دل انہیں کی طرف لگا ہوا ہے۔وہ شہنشاہ کہ چاند جس کے سرکا تاج ہے۔ آسمان جس کا تخت ہے۔''
اپنی دستنبو میں رقمطراز ہیں
'' اس سال جس کا مادہ تاریخی بہ رعایت تخرجہ '' رستخیز بے جا '' ہے اور اگر صاف صاف پوچھو تو ١٦ رمضان المبارک ١٢٧٣ ھ بروز پیر بمطابق ١١ مئی ١٨٥٧ ء اچانک دہلی کے قلعے اور فصیل کی دیواریں لرز اٹھیں جس کا اثر چاروں طرف پھیل گیا میں زلزلے کی بات نہں کر رہا اس دن جو بہت منحوس تھا میرٹھ کی فوج کے کچھ بدنصیب اور شوریدہ سرسپاہی شہر میں آئے نہایت ظالم و مفسد اور نمک حرامی کے سبب سے انگریزوں کے خون کے پیاسے ، شہر کے مختلف دروازوں کے محافظ جوان فسادیوں کے ہم پیشہ اور بھائی بند تھے بلکہ کچھ تعجب نہیں کہ پہلے ہی سے ان محافظوں اور فسادیوں میں سازش ہوگئی ہو۔شہر کی حفاظت اور ذمہ داری اور حق نمک، ہر چیز کو بھول گئے۔ان بن بلائے یا مدعو کردہ مہمانوں کو خوش آمدید کہا۔ ان مدہوش سواروں اور اکھڑپیادوں نے جب دیکھا کہ شہر کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور محافظ مہمان نواز ہیں دیوانوں کی طرح ادھر ادھر دوڑ پڑے جدھر کسی افسر کوپایا اور جہاں ان قابل احترام(انگریزوں)کے مکانات دیکھے۔جب تک ان افسروں کو مار نہیں ڈالا اور ان مکانات کو بالکل تباہ نہیں کردیا،ادھر سے رخ نہیں پھیرا۔''
'' افسوس وہ پیکر عالم و حکمت، انصاف سکھانے والے خوش اخلاق و نیک نام حاکم!اور صد افسوس وہ پری چہرہ نازک بدن خواتین جن کے چہرے چاند کی طرح چمکتے تھے اور جن کے بدن کچی چاندی کی طرح چمکتے تھے۔ حیف وہ بچے جنہوں نے ابھی دنیا کو دیکھا بھی نہیں تھا۔جن کے ہنس مکھ چہرے گلاب و لالہ کے پھولوں کو شرماتے تھے اور جن کی خوش رفتاری کے سامنے ہرن اور کبک کی رفتار بدنما معلوم ہوتی تھی۔ یہ سب ایک دم قتل و خوں کے بھنورمیں پھنس کر(بحر فنا میں)ڈوب گئے۔''
بقول ڈاکٹر نتالیا ہری گارنیا یہ ایک حقیقت ہے کہ غالب کی دستنبو یعنی گل دستہ یا عطردان کہ حکمرانوں کے ہاتھ میں پہنچ کر بغاوت کے زمانے میں شاعر کی وفادای کا ثبوت فراہم کرتی لیکن ان کے اس گلدستہ رنگ و بو سے خون اور جلا کر راکھ کردی جانے والی بستیوں کی بو آتی ہے۔۔۔۔یہ گلدستہ دستنبو کو جلد از جلد فرنگی فرمانبراواؤں تک خصوصی انداز میں پہنچانے کے لیے غالب کتنے بے چین اور مضطرب تھے گوہرپال تفتہ کو لکھتے ہیں۔
''کاغذ کے بارے میں عرض یہ ہے کہ جو چھ جلدیں حکام کوپیش کرنی ہیں ان کے لیے فرانسیسی کاغذ درست رہے گا۔دو جلدیں ولایت جانی والی ہیں۔ان کی چھپائی ایسی سیاہ اور چمکدار ہوجن کی رنگت نہ بدلے۔''
اور جب منشی شیونارائن آرام نے دستنبو کا کچھ حصہ انگریز بہادر کو سنانے اور پسند آنے کا ذکر کیا تو جواب قابل غور ہے ۔ جوان کے ذہن اور خواہشات کی عکاسی کرتا ہے۔
''یہ جو تم نے لکھا کہ صاحب نے سن کر اس کو پسند کیا، میں حیران ہوں کہ کون سا مقام تم نے پڑھا ہوگا۔ کیوں کر کہوں کہ صاحب اس عبارت کو سمجھے ہوں گے۔ اس کی جو حقیقت ہو مفصل لکھو''
شاعر ، ادیب ،افسانہ نگار معاشرہ کا انتہائی حساس طبقہ ہوتا جن کے احساسات و جذبات کا ان کے فن پاروں میں عکس نظر آتا ہے ۔ حالی ، اقبال ، فیض ، حبیب جالب جیسی بے شمار مثالیںاردو ادب کا سرمایہ ہے ہر فنکار کسی مقصد کے تحت فن کی تخلیق کرتا ہے یہی اس کی شناخت ہوتی ہے غالب کی دستنبو نے غالب کی ملی اور قومی حمیت ظاہر کردی دستنبو سے غالب ایک ایسا شاعر نظر آتا ہے جس کا فن صرف حصول زر کے لئے تھا گردو پیش کے ہم وطنوں کی زبوںحالی سے غالب مطلقاً بے اعتنا تھے غالب کا فن ،شعری اصناف کا ایک خوبصورت نمونہ ضرور قرار دیا جا سکتا ہے مگرمقصدیت سے عاری ہے نہ ان میں انسانی
رویوں اور اقدار کا عکس نظر آتا ہے اور نہ ہی معاشرے کے واقعات و تاریخ کی جھلک ۔ علامہ اقبال نے غالباً ایسی شاعری کے لئے فرمایا تھا ؎ سینہ روشن ہو توہے سوز و سخن عین حیات
ہو نہ روشن تو سخن ، مرگ دوام اے ساقی